ہوم << غیرت کے نام پر قتل، ترامیم اور اعتراضات ایک قانونی جائزہ - عبداللہ فیضی

غیرت کے نام پر قتل، ترامیم اور اعتراضات ایک قانونی جائزہ - عبداللہ فیضی

عبداللہ فیضی معاشرے میں پھیلے فرسودہ رسم و رواج اور جہالت کی وجہ سے ایک محتاط اندازے کےمطابق پاکستان میں سالانہ اوسطا ایک ہزار افراد غیرت کے نام پر قتل کر دیـے جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی نےضابطہ فوجداری اور تعزیرات پاکستان میں ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کیا۔ حالیہ ترمیم کے تحت، غیرت کے نام پر قتل کی سزا 10 سال سے بڑھا کر 25 سال جبکہ مجرم کو ورثا کی جانب سے قصاص معاف کرنے کی صورت میں بھی ناقابل تصفیہ اور موجب تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ جہاں اس بل کو اکثریتی جماعتوں کی تائید حاصل ہے وہیں بعض حلقوں کی طرف سے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
اب تک سامنے آنے والے اعتراضات میں ترمیمی بل کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے جبکہ دیگر اعتراضات میں اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت نہ کرنا اور ترمیم کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے دباؤ کا نتیجہ قرار دینا شامل ہے۔
جہاں تک ترمیمی بل کے غیر اسلامی ہونے کا تعلق ہے تو یہ بحث زیر نظر مضمون کے آخر تک واضح ہو جائے گی، جبکہ یہ سمجھنا کہ ترمیمی بل کوئی نیا قانون ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ اس حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ تعزیرات پاکستان میں غیرت کے نام پرقتل کی دفعات کے حوالے سے ترامیم سنہ 2004 میں مشرف دور حکومت میں جب دینی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلس عمل بھی حکومت کا حصہ تھی، تب پہلی دفعہ شامل کی گئی تھیں اور اس سے اگلے سال جب اس وقت کی اپوزیشن نے غیرت کے نام پر قتل کو غیراسلامی قرار دینے کا بل اسمبلی میں پیش کیا تو اسے ق لیگ کی حکومت نے مسترد کردیا تھا۔ حالیہ ترمیم دراصل پہلے سے موجود قانون کو مؤثر اور سخت بنانے کی ایک کوشش ہے۔
جہاں تک اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کا سوال ہے تو یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کے قانون کی رو سے نظریاتی کونسل کی حیثیت ایک مشاورتی ادارے کی ہے جو صرف اس وقت مشاورت فراہم کرتا ہے جب حکومت وقت اس سے مشاورت طلب کرے اور مشاورت طلب کرنا یا نہ کرنا یہ کلی طور پر حکومت وقت کا صوابدیدی اختیار ہے۔
خبر کے مطابق مذکورہ ترمیمی بل گزشتہ ڈھائی سال سے التوا میں تھا جبکہ مولانا فضل الرحمان صاحب جو خود ایک مذہبی جماعت کے سربراہ اور حکومت کے اتحادی بھِی ہیں اور اس ترمیمی بل کی کمیٹی کا بھی حصہ تھے، اس دوران خاموش رہے اور نہ ہی کسی اور رکن قومی اسمبلی نے مذکورہ تمام عرصے میں اس مسئلے کو اٹھایا۔
جہاں تک اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے دباؤ کا سوال ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان نے 1996ء میں خواتین کے حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کی ہوئی ہے جس کی رو سے ہم تمام امتیازی قوانین کے خاتمے کے پابند ہیں اور بین الاقوامی ادارے اس حوالے سے ہر رکن ملک پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔
اب اگر بل کے مندرجات کا سنہ 2004ء کی پرانی ترمیم کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ حالیہ ترمیم میں ماسوائے بعض قانونی سقم دور کرنے اور سزا کو مزید سخت کرنے کے کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ترمیمی بل میں کل 6 ترامیم تعزیرات پاکستان میں اور اس حوالے سے 2 ترامیم ضابطہ فوجداری میں متعارف کروائی گئی ہیں۔
پہلی ترمیم بل کے نام پر مشتمل ہے جبکہ دوسری ترمیم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 299 سے متعلق ہے جس میں قانونی تعریفات میں ایک مزید اضافہ ”فساد فی الارض“ کی تعریف کے زمرے میں کیا گیا ہے اور اس کے اندر غیرت کے نام پر قتل کو بھی شامل کیا گیا ہے، یاد رہے کہ سنہ 2004ء کی ترمیم میں بھی غیرت کے نام پر قتل کو اسی زمرے میں شامل کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے تیسری ترمیم دفعہ 302 کی ذیلی دفعات کے بعد ایک مزید شرط کے اضافے کی صورت میں شامل کی گئی ہے جہاں پر فساد فی الارض کی صورت میں اس کی ذیلی دفعہ (اے) اور (بی) جو کہ جرم کی صورت میں بالترتیب قصاص لینے اور تعزیری سزا دینے سے متعلق ہیں، کو مؤثر تسلیم کیا گیا ہے۔
چوتھی ترمیم دفعہ 309 میں کی گئی ہے جہاں پر اس کی ذیلی دفعہ نمبر 1 میں ایک اضافی شرط کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق فساد فی الارض کی صورت میں قصاص کے خاتمے کے حوالے سے دفعہ 311 کی طرف مراجعت کا کہا گیا ہے۔
پانچویں ترمیم دفعہ 310 ایک اضافی شرط کی صورت میں شامل کی گئی ہے جہاں فساد فی الارض کی صورت میں قصاص کی معافی کے ضمن میں دفعہ ۳۱۱ کی طرف مراجعت کا کہا گیا ہے۔
ترمیمی بل کی چھٹی ترمیم دفعہ 311 میں کی گئی ہے جہاں پہلے غیرت کے نام پر قتل کی سزا جو کہ 10 سال تھی کو نئی ترمیم میں بڑھا کر 25 سال کر دیا گیا ہے۔
جبکہ آخری دو ترامیم ضابطہ فوجداری کی دفعات 338 اور 345 میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 310 اور 311 کی مناسبت سے ترامیم شامل ہیں اور اس بابت جرم کو ناقابل معافی تسلیم کیا گیا ہے۔
ترامیم کے اجمالی جائزے کے بعد اگرغیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ انسانی جان کی حرمت اور قدر و قیمت کی تعلیمات قرآن و حدیث میں جا بجا ہیں جن سے اغراض ممکن نہیں۔
ولی یا وارث کے قاتل ہونے کی صورت میں فقہاء کی اکثریت کے نزدیک انہیں قصاصا قتل کرنے کے حوالے سے مختلف آراء موجود ہیں۔ مالکی علماء کے ہاں اس کا جواز ملتا ہے جبکہ احناف اور اکثریت فقہا عدم جواز کے قائِل ہیں لہذا اس حوالے سے کوئی متعین رائے مستند علماء ہی بیان کر سکتے ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت کے مطابق حظرت عمر رضی اللہ عنہ نے بنو مدلج کے ایک شخص سے اس کے بیٹے کو قتل کرنے پر 100 اونٹ دیت وصول کی تھی۔ دوسری طرف فساد فی الارض کے باب میں حاکم وقت یا عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ حدود اللہ کے علاوہ وہ جرائم جن کا ذکر قرآن و سنت میں نہیں ہے، کے حوالے سے تعزیرا سزا دے سکتی ہے جس میں تادیبی سزا سے لے کر سزائے موت تک شامل ہے۔
یہاں یہ بات ذکر کرنا دلچسپی خالی نہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے دور میں غیرت کے نام پر قتل (معروف معنی میں جیسا کہ مرضی کی شادی کی صورت میں اشتعال میں آکر قتل کرنا‏) کا کوئی بھی مستند واقعہ نہیں ملتا۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بھی ایسا کوئی مشہور واقعہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بات کافی حد تک واضح ہوتی ہے کہ یہ ناسور مسلمانوں میں دوسری اقوام کے ساتھ تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوا اور اس حوالے سے خاصے تحقیقی مقالے بھی موجود ہیں۔
پاکستان اور حالیہ قانونی ترمیم کے تناظر میں پاکستان علماء کونسل اور سنی اتحاد کونسل نے اپنے فتاوی میں غیرت کے نام پر قتل کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ دیگر اسلامی ممالک میں اگر دیکھا جائے تو ایران، مصر اور اردن میں فساد فی الارض اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سزائیں موجود ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے کم از کم انسانی المیوں کے حوالے سے سیاست سے بالاتر ہو کر مؤثر قانون سازی کی جائے، اس حوالے سے مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ریفرنسز:
http://pakistancode.gov.pk/english/UY2FqaJw1-apaUY2Fqa-apk%3D-sg-jjjjjjjjjjjjj
http://www.na.gov.pk/uploads/documents/1475762285_283.pdf
(عبداللہ فیضی، پی ایچ ڈی فیلو بین الاقوامی قانون، یونی ورسٹی آف ملایا، کوالالمپور ملائیشیا)