Tag: عمران خان

  • داستانِ اقتدار، سزا اور سیاست – سلمان احمد قریشی

    داستانِ اقتدار، سزا اور سیاست – سلمان احمد قریشی

    اپریل 2016 پاکستانی سیاست کے لیے ایک غیر معمولی موڑ لایا، جب عالمی سطح پر پانامہ پیپرز لیکس منظر عام پر آئیں۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات نے پاکستانی سیاست میں ایک زلزلہ برپا کر دیا۔ یہ انکشاف محض ایک مالیاتی اسکینڈل نہ تھا، بلکہ اس نے عالمی قیادت کو شفافیت اور احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

    پاکستان میں اس کا سب سے بڑا سیاسی اثر اُس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان پر پڑا، جن کے بچوں کے نام بیرونِ ملک آف شور کمپنیوں اور لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں فلیٹس کی ملکیت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف،جن کا نام براہِ راست ان لیکس میں شامل نہ تھا، ان کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کی ملکیت میں غیر ملکی اثاثوں کا انکشاف اس وقت کی اپوزیشن، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک مؤثر سیاسی ہتھیار بن گیا۔ عمران خان نے اسے ”کرپشن بم” قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کی۔

    حکومتی صفائی اور عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات نے معاملات کو مزید مشکوک بنا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) تشکیل دی۔ اس JIT رپورٹ کی بنیاد پر 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اثاثے چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیا۔ فیصلہ کی بنیاد یہ تھی کہ نواز شریف نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں دبئی کی کمپنی Capital FZE سے ”قابلِ وصول تنخواہ” کو ظاہر نہیں کیا، جو کہ ایک “چھپا ہوا اثاثہ” شمار کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا بلکہ ان کے خلاف نیب نے تین الگ الگ ریفرنسز بھی دائر کیے:

    1. ایون فیلڈ ریفرنس (لندن فلیٹس سے متعلق)
    2. العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس
    3. فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس

    6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید، مریم نواز کو 7 سال، اور کیپٹن صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی۔ 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں مزید 7 سال قید کا فیصلہ آیا، جب کہ فلیگ شپ کیس میں انہیں بری کر دیا گیا۔ پانامہ انکشافات کے بعد عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور دیگر سیاسی رہنما میدان میں سرگرم ہو گئے۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی سڑکوں کو احتجاج کا مرکز بنایا اور ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ، ریلیاں، دھرنے اور میڈیا مہم سب مل کر ایسی فضا بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں عوامی رائے مسلم لیگ (ن) کے خلاف اور پی ٹی آئی کے حق میں ہوتی چلی گئی۔

    پانامہ کیس، پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے کا محور بن گیا۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم بلند کیا، اور اس جدوجہد کے نتیجے میں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہوئی، اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پانامہ اسکینڈل نے عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا۔ یہ محض ایک عدالتی مقدمہ نہ تھا، بلکہ پاکستان کے سیاسی، عدالتی اور احتسابی نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بھی تھا۔ کچھ حلقوں نے اسے “سلیکٹو احتساب” قرار دیا تو کچھ کے نزدیک یہ طاقتوروں کے خلاف کارروائی کا تاریخی آغاز تھا۔

    نواز شریف نے اس پورے عمل کو ’’سیاسی انتقام‘‘ سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق جے آئی ٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیراثر بنی، اور عدلیہ، خفیہ اداروں اور مخصوص عناصر نے گٹھ جوڑ سے انہیں اقتدار سے ہٹایا۔ ان کا یہی بیانیہ آگے چل کر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ گرفتار ہوئے، جیل گئے، پھر علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے، اور لندن میں قیام پذیر رہے۔ 2022-23 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزائیں معطل کیں، اور بالآخر 2024 میں تمام ریفرنسز کالعدم قرار دے دیے گئے۔ یوں نواز شریف ایک بار پھر سیاسی میدان میں واپس آ گئے۔

    دوسری طرف عمران خان آج وہی حالات بھگت رہے ہیں جن سے کبھی نواز شریف گزرے۔ توشہ خانہ، سائفر، غیر قانونی نکاح، اور دیگر مقدمات میں وہ سزائیں بھگت رہے ہیں، اڈیالہ جیل میں قید ہیں، اور ان کی جماعت سخت ریاستی دباؤ، گرفتاریوں اور تقسیم کا شکار ہے۔ صورتحال نے ایک دائرہ مکمل کیا ہے۔کل کا مدعی آج کا مدعا علیہ ہے، اور کل کا مجرم آج کے سیاسی افق پر واپس آ چکا ہے۔یہی پاکستانی سیاست کی اصل پہچان ہے۔اقتدار کبھی مستقل نہیں ہوتا، صرف کردار بدلتے ہیں، اسٹیج وہی رہتا ہے۔ ایسے میں آصف علی زرداری کی مثال بھی قابلِ غور ہے، جن پر ماضی میں کرپشن کے سنگین مقدمات بنے، جیل گئے، عدالتوں کا سامنا کیا، مگر ایوانِ صدارت تک پہنچے۔

    بعد ازاں وہی کیسز دوبارہ کھلے، مگر قانونی عمل سے گزر کر ایک بار پھر وہ سیاسی افق پر نمایاں ہو گئے۔ حال ہی میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جنہیں عدالتی فیصلے کے ذریعے برطرف کیا گیا تھا، کرپشن کے کیسز میں باعزت بری ہو چکے ہیں۔ یہ تمام مثالیں اس سوال کو پھر سے جنم دیتی ہیں۔ کیا پاکستان میں احتساب کا عمل ایک اصولی، غیرجانبدار اور شفاف نظام ہے یا پھر یہ محض سیاسی انتقام اور اقتدار کی بساط پر مہروں کی ترتیب ہے؟

    اس سوال کا جواب عدالتیں بھی دیں گی، عوام بھی، اور مورخ بھی اور شاید یہ جواب آنے والے انتخابات اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ مزید واضح ہوتا چلا جائے۔ فی الحال اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے پاکستان میں سیاست ایک مسلسل چلنے والا کھیل ہے کردار بدلتے ہیں، بیانیے نئے بنتے ہیں، مگر کھیل کا اسٹیج وہی رہتا ہے۔

  • شخصیت پرستی، اندھی تقلید اور فکری فتنہ! ارشدزمان

    شخصیت پرستی، اندھی تقلید اور فکری فتنہ! ارشدزمان

    ڈاکٹر عارف علوی کا حالیہ بیان کہ “عمران خان پیغمبروں سے بھی زیادہ مقبول ہو گئے ہیں” چاہے محض ایک لغزش ہو، مگر یہ بیان ایک ایسی فکری گمراہی کو عیاں کرتا ہے جو موجودہ پاکستانی سیاست میں شدت کے ساتھ پنپ رہی ہے یعنی شخصیت پرستی اور اندھی عقیدت کا فتور۔

    سیاست، اگر دینی ہو، تب بھی اندھی تقلید جائز نہیں۔ دین میں اطاعت شعور سے مشروط ہے، نہ کہ جذبات سے۔ اگر سیاست دین کے دائرے میں ہو تو ایمان و احتساب کا امتزاج ضروری ہے یعنی اطاعت کے ساتھ پرکھنا، ساتھ کے ساتھ سوال اٹھانا، اور اصلاح کا در کھلا رکھنا۔ اور اگر سیاست سیکولر یا لبرل بنیادوں پر استوار ہو، تو اس کا تجزیہ محض دنیاوی پیمانوں پر کیا جانا چاہئے کارکردگی، نظریاتی مطابقت، اور اخلاقی معیار کی بنیاد پر۔

    مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست، بالخصوص عمران خان کے گرد، اب ایک نئی “مذہبیت” اختیار کر چکی ہے۔ ان کے پیروکاروں کے ہاں وہ محض سیاسی رہنما نہیں، بلکہ ایک نجات دہندہ، مہاتما، اور بعض اوقات (نعوذباللہ) روحانی مقام کے حامل شخص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اختلاف کرنے والا فوراً “ایمان” کے دائرے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ان کے صبح کے فیصلے شام تک یوٹرن ہو جائیں، تو بھی ان کی ہر بات “حکمت” اور “بصیرت” بن جاتی ہے۔

    خود عمران خان کے بیانات بھی اس ذہنی کیفیت کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ “جس طرح رسول اللہ ﷺ کو تیار کیا گیا، مجھے بھی ویسے ہی تیار کیا گیا”، نرگسیت کا مظہر ہے۔ ایسا رویہ کسی بھی سیاسی رہنما کو عقل و احتساب سے بالاتر بنا دیتا ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔

    یہ رجحان صرف سیاسی نہیں، بلکہ سماجی پولرائزیشن اور فکری جمود کو بھی جنم دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود شدت پسندانہ بیانات، جن میں خان صاحب کو انبیاء سے بلند مقام دیا جا رہا ہے، ایک خطرناک فکری زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرزِ سیاست میں اختلاف کو بغاوت، سوال کو گستاخی اور احتساب کو دشمنی سمجھا جاتا ہے۔
    سیاست کا مقصد اگر قوم کی رہنمائی ہے تو یہ شعور، برداشت، اور مکالمے کے اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے۔ اگر کسی جماعت یا لیڈر کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے، تو وہ قیادت نہیں بلکہ عبادت بن جاتی ہے۔ اور جب عبادت کا مرکز خدا کے بجائے انسان بن جائے، تو وہ شرکِ فکری کی طرف لے جاتی ہے۔

    حرفِ آخر!
    عمران خان کے حامیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جتنا بھی بڑا لیڈر ہو، بالآخر ایک انسان ہے جو خطاؤں کا پتلا ہے، جس سے غلطیاں اور گناہ ممکن ہیں۔ ان کی شخصیت، کردار اور سیاسی پالیسیوں میں تضادات موجود ہیں، اور وہ عالمی سطح پر بھی ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں اسی انسانی دائرے میں رکھنا ضروری ہے۔ ان کے فیصلوں کو پرکھنا، سوال اٹھانا، اور تنقید کے کلچر کو فروغ دینا نہ صرف دینی شعور کا تقاضا ہے، بلکہ خود جماعت کی بہتری اور ان کی کارکردگی کو نکھارنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

    جو قومیں اپنے رہنماؤں کو فرشتے بناتی ہیں، وہ کبھی ان سے حساب نہیں لے سکتیں۔ اور جو قومیں سوال سے ڈرتی ہیں، وہ صرف پیروکار پیدا کرتی ہیں، شہری نہیں۔

  • 9 مئی تاریخ کا سیاہ باب اور قیادت کی آزمائش – سلمان احمد قریشی

    9 مئی تاریخ کا سیاہ باب اور قیادت کی آزمائش – سلمان احمد قریشی

    تاریخ قوموں کی زندگی میں آئینہ ہوتی ہے، جو ماضی کی جھلک دکھا کر حال میں رہنمائی اور مستقبل کی سمت طے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو صرف حادثات نہیں بلکہ آزمائش ہوتے ہیں۔ قوم، ریاست اور قیادت، سب کے لیے۔ 9 مئی 2023 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک افسوسناک اور غیر معمولی سانحہ بن کر سامنے آیا، جس کی نوعیت اور شدت نے نہ صرف ریاستی اداروں کو جھنجھوڑا بلکہ قومی وحدت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔

    پنجاب حکومت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، سانحہ 9 مئی کے دوران پنجاب بھر کے 38 اضلاع میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پیش آئے، جن سے مجموعی طور پر 19 کروڑ 70 لاکھ روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ لاہور میں سب سے زیادہ 11 کروڑ روپے، راولپنڈی میں 2 کروڑ 60 لاکھ، اور میانوالی میں 5 کروڑ روپے کے نقصان کی تفصیل رپورٹ میں شامل ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں 319 مقدمات درج ہوئے اور 35 ہزار سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا، جن میں سے 24 ہزار سے زائد تاحال مفرور ہیں۔

    یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سیاست میں گرفتاریاں، جلاوطنی، پھانسیاں اور نااہلیاں کوئی نئی بات نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، قوم نے غم و غصہ ضرور محسوس کیا، لیکن اس کا اظہار کبھی ریاستی اداروں پر حملوں کی صورت میں نہیں ہوا۔ خاص طور پر آصف علی زرداری کا ”پاکستان کھپے” کا نعرہ ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے جذبات کے طوفان کے آگے بند باندھ دیا۔ یہی قیادت کا اصل کردار ہوتا ہے۔جذبات کو سمت دینا، انتقام کو تدبر میں بدلنا، اور احتجاج کو پُرامن رکھنا۔

    9 مئی کے واقعات اس اعتبار سے منفرد اور افسوسناک ہیں کہ یہ صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ منظم حملوں کی شکل اختیار کر گئے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو کوئی عام ریلی یا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک ادارے پر حملہ تھا۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس جماعت کے کارکنان کی جانب سے کیا گیا جس کے بانی چیئرمین کو آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا۔ نہ کوئی مارشل لا لگا، نہ ہی آئین معطل ہوا، لیکن ردِ عمل نے ثابت کیا کہ شعور کے دعوے داروں نے بے شعوری کا عملی مظاہرہ کیا۔

    اس موقع پر بطور قوم ہمیں اس المیے کی غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔ سیاست اپنی جگہ، اختلافات کا حق سب کو حاصل ہے، لیکن ریاستی اداروں پر حملے، قومی اثاثوں کی تباہی اور قانون کی دھجیاں کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالتیں کریں گی، لیکن قیادت کے اشتعال انگیز بیانات نے حالات کو جو رخ دیا، اسے نظر انداز کرنا بھی انصاف نہیں۔پی ٹی آئی قیادت نے گرفتاری کے ردِ عمل کو مشتعل بیانات اور ہجوم کو اداروں پر چڑھائی کی دعوت میں بدل دیا۔ پی ٹی آئی کی یہ روش صرف خطرناک نہیں بلکہ تاریخی حوالوں سے افسوسناک مماثلت بھی رکھتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں چھ نکات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان چھ نکات میں درحقیقت علیحدگی کی بنیادیں رکھی گئی تھیں، جن میں خودمختاری، کرنسی، ٹیکس اور فوج کے معاملات شامل تھے۔ اگرچہ ان نکات کو مغربی پاکستان میں شدت سے رد کیا گیا، لیکن عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔ عدم سنجیدگی، بداعتمادی، اور سیاسی ضد نے بالآخر سقوطِ ڈھاکہ کو جنم دیا۔

    افسوسناک امر یہ ہے کہ چند ہی ماہ قبل پی ٹی آئی کی قیادت شیخ مجیب الرحمٰن کو ”آئینی جدوجہد“ کا ہیرو اور ”اصولوں پر ڈٹ جانے والا لیڈر“ قرار دیتی رہی، جب کہ آج خود بنگلہ دیش کے عوام نے شیخ مجیب کی جماعت کو مسترد کر دیا۔ حالیہ انتخابات میں عوامی لیگ کو زبردست عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی رائے بدل چکی ہے، اور بنگلہ دیش کی نئی نسل اب مجیب الرحمٰن کے بیانیے کو فرسودہ سمجھتی ہے، تو پی ٹی آئی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیا اب بھی اسے مثالی جدوجہد کا استعارہ سمجھا جائے گا؟

    9 مئی 2023 کا دن پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں ایک ایسا ہی نکتہ آغاز تھا، جس نے ہمیں ماضی کے زخموں کی یاد دلا دی، اور موجودہ قیادت کے رویے کو بے نقاب کر دیا۔اسی طرح، امریکی مداخلت کا بیانیہ بھی آخرکار کھوکھلا ثابت ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی، عسکری قیادت، اور پارلیمانی تحقیق سب نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا، مگر پی ٹی آئی نے اس نکتہ پر بھی معافی مانگنے یا اصلاح کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ سنجیدگی کا فقدان سیاسی بیانیے کو وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر تاریخ کے کٹہرے میں ہمیشہ خسارے کا سودا ہوتا ہے۔

    اب وقت ہے کہ ہم جذبات سے بالاتر ہو کر عقل اور تدبر کو اپنائیں۔ قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور کارکنان کو یہ سکھانا ہوگا کہ ریاست ماں ہوتی ہے۔ اس پر ہاتھ اٹھانے والے اپنی جڑیں کاٹتے ہیں۔ تاریخ ہمیں یاد رکھے گی، سوال یہ ہے کہ ہم کیسے یاد رکھے جانا چاہتے ہیں؟اب جبکہ ملک ایک بار پھر معاشی استحکام کی طرف بڑھنے لگا ہے تو آئندہ انتخابات کے وقت بطور قوم اپنے ووٹ کو صرف نعروں، الزامات یا ماضی کے انتقام کی بنیاد پر نہ ڈالیں بلکہ سوچ، کردار اور ریاستی وفاداری کو مدنظر رکھیں۔ ہمیں ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی وحدت، آئین اور جمہوری اقدار کے علمبردار ہوں۔ اداروں کو بھی غیرجانبداری سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ انتخابات نہ صرف شفاف ہوں بلکہ ان پر عوام کا اعتماد بھی قائم ہو۔

    جو قیادت اداروں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتی ہو، اسے محض سیاسی مقبولیت کی بنیاد پر رعایت دینا مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ یہ وقت تاریخ سے سبق لینے کا ہے۔ خاکم بدہن، ڈھاکہ کے سانحے کو بھول جانا صرف سقوطِ اسلام آباد کا دروازہ کھولے گا۔9 مئی اگرچہ سیاسی جماعت کی پالیسی نہیں تھی، لیکن اشتعال انگیز بیانات اور سوشل میڈیا پر منفی مہم نے بہت سے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت پُرتشدد احتجاج کے الزامات کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان نے الذوالفقار نامی تنظیم سے تعلق کی بنیاد پر بہت کچھ برداشت کیا۔ اس وقت پی پی پی کی قیادت نے خود کو واضح طور پر اس تنظیم سے الگ رکھا اور جمہوری انداز میں سیاسی سفر جاری رکھا۔ الذوالفقار حقیقت تھی یا افسانہ،یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی نے جمہوریت اور جمہوری جدوجہد سے ہی اقتدار حاصل کیا۔ مینڈیٹ پر ڈاکہ، ظلم و ستم، ناانصافی سب کچھ دیکھا، لیکن پُرتشدد کارروائیوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔

    9 مئی میں کون ملوث تھا؟ کیا یہ سوچی سمجھی سازش تھی یا انفرادی فعل؟ اس کی مذمت اور اس الزام سے چھٹکارا بہت ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے سے لے کر بانی کی گرفتاری تک ملکی سیاست میں کچھ نیا نہیں ہوا۔ 9 مئی کے پُرتشدد واقعات اور اس کے بعد بیانیے کی تشکیل ایک نئی سوچ اور غیرسیاسی عمل تھا، جس پر ریاست خاموش نہیں رہ سکتی۔اس لیے 9 مئی کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دینا، اور جمہوری عمل کو آئینی دائرے میں رکھنا ہی ہمارے قومی مستقبل کی ضمانت ہے۔

  • اسلاموفوبیا کے خلاف عمران خان کی جدوجہد –  انجینئر افتخار چودھری

    اسلاموفوبیا کے خلاف عمران خان کی جدوجہد – انجینئر افتخار چودھری

    دنیا میں جب بھی کسی قوم یا مذہب کو دبانے کی کوشش کی گئی، تو وہ مزید مضبوط ہو کر ابھرا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کی، تو وہ آواز ایک گونج بن کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہی معاملہ اسلاموفوبیا کا ہے، جس کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں، لیکن نائن الیون کے بعد اسے باقاعدہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    مسلمانوں کے خلاف نفرت، پروپیگنڈا، اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا اور سیاستدانوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا، کبھی دہشت گردی کو اسلامی تعلیمات سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، اور کبھی آزادی اظہارِ رائے کے نام پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی۔ اس سارے کھیل میں ایک خاص طبقہ پوری طاقت کے ساتھ سرگرم رہا، جس کا مقصد دنیا میں اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنا تھا۔

    یہ کھیل برسوں سے جاری تھا، لیکن مسلم دنیا کی قیادت اس پر مؤثر ردعمل دینے میں ناکام رہی۔ کچھ حکمران مغرب کے سامنے بھیگی بلی بنے رہے، تو کچھ صرف رسمی بیانات دینے پر اکتفا کرتے رہے۔ ایسے میں ایک شخص اُٹھا جس نے اسلامی دنیا کے جذبات کو حقیقت میں دنیا کے سامنے رکھا۔ وہ شخص تھا عمران خان۔

    اسلاموفوبیا کوئی نئی چیز نہیں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صلیبی جنگوں کے دوران بھی یہی رویہ نظر آتا ہے، جب یورپ نے اسلام کے خلاف منظم پروپیگنڈا شروع کیا۔ مغربی دنیا نے ہمیشہ اسلام کو ایک “بیرونی خطرہ” کے طور پر پیش کیا۔ قرونِ وسطیٰ میں جب یورپ میں اسلامی علوم اور تہذیب کا اثر بڑھنے لگا، تو وہاں خوف پیدا ہوا کہ اسلام کہیں یورپ میں نہ پھیل جائے۔ یہی وجہ تھی کہ اسلامی دنیا کو ہمیشہ دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ نوآبادیاتی دور میں برطانیہ، فرانس، اور دیگر استعماری طاقتوں نے مسلم دنیا کو کمزور کرنے کے لیے اسلام کو “پسماندگی” کی علامت بنا کر پیش کیا۔ نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا ایک باقاعدہ سیاسی اور سفارتی حکمت عملی بن گیا۔ مغربی دنیا نے دہشت گردی کا تعلق براہ راست اسلام سے جوڑ دیا، حالانکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

    اسلاموفوبیا کی سب سے گھناؤنی شکل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہے۔ مغرب میں آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر گستاخانہ خاکے، بیہودہ فلمیں اور توہین آمیز کتابیں شائع کی گئیں۔ 2005 میں ڈنمارک کے اخبار “یولاندس پوسٹن” نے گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ 2012 میں فرانس میں “چارلی ہیبڈو” نے بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ 2020 میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے آزادی اظہارِ رائے کے نام پر گستاخانہ خاکوں کی حمایت کی۔ یہ سب واقعات مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کیے گئے، لیکن مغرب میں کوئی بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں تھا۔

    ایسے میں عمران خان وہ واحد لیڈر تھے جنہوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے خطابات میں اس مسئلے کو اجاگر کیا بلکہ عملی اقدامات بھی کیے۔ 27 ستمبر 2019 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان نے اسلاموفوبیا کے خلاف ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔ یہ تقریر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، کیونکہ اس میں پہلی بار کسی عالمی رہنما نے مغرب کے سامنے مدلل اور جرات مندانہ موقف پیش کیا۔ عمران خان نے مغربی دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “ہم مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جب کوئی ان کی توہین کرتا ہے، تو ہمیں وہی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی ماں کو اس کے بچے کی توہین پر ہوتی ہے۔” یہ جملہ مغربی دنیا کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔

    عمران خان نے صرف تقریر نہیں کی، بلکہ عملی طور پر بھی اقدامات کیے۔ اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسلاموفوبیا کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو متحرک کیا کہ وہ مغربی ممالک پر دباؤ ڈالیں۔ یورپی یونین، امریکہ، اور دیگر عالمی رہنماؤں کو خطوط لکھے جن میں اسلاموفوبیا کے نقصانات اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔ 15 مارچ کو “یوم انسدادِ اسلاموفوبیا” قرار دلوانا سب سے بڑا سنگ میل تھا، جب اقوام متحدہ نے پاکستان کی تجویز پر 15 مارچ کو “عالمی یومِ انسدادِ اسلاموفوبیا” قرار دیا۔

    15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک سفید فام دہشت گرد نے دو مساجد پر حملہ کر کے 51 مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ مغربی میڈیا نے اسے دہشت گردی کا واقعہ کہنے سے گریز کیا اور حملہ آور کو “ذہنی مریض” قرار دینے کی کوشش کی۔ عمران خان نے اسی واقعے کو بنیاد بنا کر اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی مہم چلائی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو “عالمی یومِ انسدادِ اسلاموفوبیا” کے طور پر منانے کی منظوری دی۔

    دنیا کے بڑے بڑے حکمران عزت کے لیے ہزار جتن کرتے ہیں، مگر جو عزت اللہ دیتا ہے، وہی اصل عزت ہوتی ہے۔ آج مغرب اور مسلم دنیا میں عمران خان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ انہیں کافر اور لبرل کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر اللہ نے ان کی کوششوں کو ایسا شرف بخشا کہ آج وہ امتِ مسلمہ کے سب سے مقبول رہنما بن گئے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اللہ اسے عزتوں سے نواز دیتا ہے۔

    عمران خان کی جدوجہد نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں اسلاموفوبیا کے خلاف ایک عالمی آواز بلند ہوئی اور 15 مارچ کو انسدادِ اسلاموفوبیا کا دن منایا جانے لگا۔ یہ ایک عظیم کارنامہ ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ جب نیت خالص ہو، اور مقصد صرف دین کی سربلندی ہو، تو اللہ کامیابی ضرور دیتا ہے۔ عمران خان کی یہ کوششیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی، اور رہتی دنیا تک ان کے نام کے ساتھ جڑی رہیں گی۔

  • کوئلہ لوگ۔  انجینئر افتخار چودھری

    کوئلہ لوگ۔ انجینئر افتخار چودھری

    رمضان المبارک، وہ مقدس مہینہ جس میں آسمان سے برکتیں نازل ہوتی ہیں، زمین رحمتوں سے بھر جاتی ہے، اور گناہوں میں ڈوبے دل بھی روشنی کی کرن محسوس کرتے ہیں۔

    یہ مہینہ صبر، تقویٰ، عبادت، اور دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے۔ مگر کچھ دل ایسے ہوتے ہیں جن پر نہ عبادات اثر کرتی ہیں، نہ قرآن کی تلاوت انہیں نرم کر پاتی ہے، اور نہ ہی اللہ کا خوف انہیں راہِ راست پر لاتا ہے. کہتے ہیں، کوئلہ اگر ہزار بار بھی دھویا جائے، تو پھر بھی کالا ہی رہتا ہے۔ کچھ لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں، جن کی فطرت، ان کا ضمیر اور ان کے اعمال اس قدر سیاہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ چاہے ان کے ساتھ کتنا ہی حسن سلوک کر لیا جائے، وہ اپنی خباثت سے باز نہیں آتے۔ وہ ہمیشہ ظلم، فریب، اور دھوکے کے راستے پر چلتے ہیں۔ انہیں دوسروں کے ساتھ ناانصافی کرکے خوشی محسوس ہوتی ہے، انہیں سچ دبانے اور حق کو پامال کرنے میں سکون ملتا ہے۔

    پاکستان کی سیاست میں بھی ہم نے ایسے چالاک اور مکار لوگوں کو دیکھا ہے، جو خود کو دودھ سے دھلا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت میں سب سے بڑے سازشی ہوتے ہیں۔ ان کا کمال دیکھیں کہ انہوں نے فارم 47 پر جیت حاصل کی، دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا، اور ساتھ ہی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی۔وہی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ دو کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ ایک طرف یہ فوج کو برا بھلا کہتے رہے، دوسری طرف فوج کو ہی اپنی طاقت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی چالاکی دیکھیں کہ خود پیچھے رہے اور فوج کو بُرا ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ مگر عمران خان نے ہمیشہ کہا کہ “یہ فوج ہماری ہے، ہم اس کے ہیں۔

    یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں گجرانوالہ میں کھڑے ہو کر فوج کے خلاف زہر اگلا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے کارکنوں نے “یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے” جیسے نعرے لگائے، مگر پاکستان تحریک انصاف نے آج تک ان نعروں کو اون نہیں کیا۔ کیونکہ تحریک انصاف کا نظریہ واضح ہے: پاکستان کی فوج پاکستان کی محافظ ہے، اور اسے کمزور کرنے کی ہر سازش ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ یہ فوج ہماری ہے، کسی کانگریس یا ملا کی نہیں، اور نہ ہی ان لوگوں کی جو ماضی میں فوج کے خلاف زہر اگلتے رہے۔

    عمران خان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے عوام کو غلامی سے نکلنے کا سبق دیا۔ اس نے قوم کو خواب دیکھنے اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دیا۔ اس نے اسٹیبلشمنٹ اور روایتی سیاستدانوں کے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کی کوشش کی جو دہائیوں سے ملک کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔جب عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں، تو کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری۔ جب عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی طاقتوں کی کٹھ پتلی بننے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے، تو سازشوں کے جال بُن دیے گئے۔ جب عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم بلند کیا، تو وہی کرپٹ مافیا اس کے خلاف متحد ہو گیا۔

    آج وہی شخص جسے قوم نے اپنے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بنایا تھا، جیل میں قید ہے۔ اور وہ سیاستدان جو ملک کو لوٹ کر کھا گئے، جو قرضے معاف کراتے رہے، جو بیرونی طاقتوں کے اشارے پر حکومت کرتے رہے، وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی عدل کا نظام ہے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کا نظام کبھی زیادہ دیر نہیں چلتا۔ فرعون نے خود کو خدا سمجھا، مگر آخرکار دریائے نیل میں غرق ہو گیا۔ نمرود نے تکبر کیا، مگر ایک حقیر مچھر نے اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔ شداد نے جنت بنانے کی کوشش کی، مگر اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکا۔ یزید نے ظلم کی انتہا کر دی، مگر آج اس کا نام ذلت اور لعنت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

    پاکستان کی تاریخ بھی ایسے کئی ظالموں کو دیکھ چکی ہے۔ ایوب خان نے مارشل لا لگایا، مگر عوام نے اس کے خلاف تحریک چلائی اور اسے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ یحییٰ خان نے ظلم و جبر سے اقتدار قائم رکھنے کی کوشش کی، مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا داغ اس کے نام پر لگ گیا۔ ضیاءالحق نے جبر کی سیاست کی، مگر تاریخ نے اسے آمریت کی علامت بنا دیا۔ مشرف نے جمہوریت کو کچلا، مگر آخرکار اسے بھی اقتدار چھوڑ کر ملک سے بھاگنا پڑا۔ آج بھی پاکستان میں وہی کھیل جاری ہے۔ وہی ظلم، وہی جبر، وہی ناانصافی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، مگر جب وہ حرکت میں آتی ہے تو بڑے بڑے ظالم مٹی میں مل جاتے ہیں۔

    یہ صرف عمران خان کی آزمائش نہیں ہے، بلکہ یہ پوری قوم کا امتحان ہے۔ کیا ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ کیا ہم بھی ظالموں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے؟ یا ہم اپنے ضمیر کو جگائیں گے اور حق کا ساتھ دیں گے؟ اگر ہم نے آج ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اگر ہم نے ناانصافی کو قبول کر لیا، تو کل کو یہ ناانصافی ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اگر آج ہم نے عمران خان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموشی اختیار کی، تو کل کوئی اور اس جبر کا شکار ہوگا۔ یہی رمضان کا اصل پیغام ہے—حق کے لیے کھڑا ہونا، انصاف کی حمایت کرنا، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا۔ اگر آج ہم نے اپنی آواز بلند نہ کی، اگر آج ہم نے اس ناانصافی کے خلاف احتجاج نہ کیا، تو تاریخ ہمیں بھی ظالموں کے ساتھ کھڑا دکھائے گی۔

    ہم نے تاریخ میں دیکھا کہ کئی طاقتور حکمران آئے اور چلے گئے۔ یزید نے ظلم کیا، مگر وہ زیادہ دیر نہ ٹھہرا۔ فرعون نے خود کو خدا سمجھا، مگر انجام دریائے نیل میں غرق ہونے کی صورت میں ہوا۔ نمرود نے تکبر کیا، مگر ایک مچھر اس کی موت کا سبب بن گیا۔ آج کے ظالم بھی زیادہ دیر نہیں بچیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں حق اور باطل میں تمیز کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ہمیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت دے۔ ہمیں ان اندھیروں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائے۔ رمضان میں مانگی گئی دعائیں قبول ہوتی ہیں، تو آئیے دعا کریں کہ اللہ عمران خان سمیت تمام بے گناہ قیدیوں کو رہائی عطا کرے، پاکستان کو عدل و انصاف کی راہ پر لے آئے، اور ہمارے ملک سے ظلم و ناانصافی کے اندھیروں کو مٹا دے۔

    اللہ ہمیں وہ قیادت عطا کرے جو پاکستان کو واقعی ترقی، خوشحالی اور عزت کی راہ پر لے جائے۔ اللہ ہمیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرے اور ہمیں سچ کا ساتھ دینے کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین!

  • عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

    عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

    تحریک انصاف کے سابق اور زبردستی ہروائے گئے موجودہ ایم این اے عالمگیر خان نے اپنی رہائش گاہ پہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قیادت اور صحافیوں کی ایک مشترکہ نشست میں ہمیں بھی دوستوں کے ساتھ شرکت کی دعوت دی. روایتی کھانوں کے ساتھ اصل لطف محمود خان اچکزئی، لطیف کھوسہ، اسد قیصر اور سلمان اکرم راجہ سمیت دیگر رہنماؤں کےساتھ براہ راست مکالمے میں آیا.

    مشر محمود خان اچکزئی سے میرا سوال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کیخلاف اے پی ڈی ایم تحریک چلارہی تھی، انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا، مگر انتخابات سے قبل میاں محمد نواز شریف نے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا. آپ، قاضی حسین احمد اور عمران خان تنہا رہ گئے اور بائیکاٹ کیا. کچھ سال قبل پی ڈی ایم بنی، عوامی بالادستی کا نعرہ بلند ہوا، انتخابات ہوئے، آپ کے اتحادی میاں صاحب اور آصف زرداری حکومت میں ہیں، جبکہ آپ اور مولانافضل الرحمن پھر سے سڑکوں پہ ہیں. کیا ضمانت ہےکہ کل کو عمران خان ڈیل نہیں کریں گے. اور انھوں نے ڈیل کر لی تو کیا پھر آپ دوبارہ سڑکوں پہ ہوں گے؟

    محمود خان اچکزئی کائیاں سیاستدان ہیں. اس سوال کا دو ٹوک جواب دینے کے بجائے ماضی سے بات کرنا شروع کی، اور کہا کہ لندن میں بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت وہ معاہدہ یا اتحاد تھا جو استخباراتی اداروں کی مداخلت کے بغیر قائم ہوا تھا. وہ کامیاب ہوتا تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی. محمود خان اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان پختونوں کی دو ہزار سال کے واحد ایسے رہنما ہیں جنھیں پختونوں نے بھرپور حمایت دی. اسی کی ذیل میں ان کی سوات میں کی گئی تقریر سے یہ حوالہ دینا بھی دلچسپی کا باعث بنے گا، جب انھوں نے کہا کہ سوات کے پختونوں عمران کے ساتھ یونہی کھڑے رہنا، وفاداری نبھانا، جان دینے سے بھی گریز نہ کرنا کہ یہی پشتون روایت ہے.

    لطیف کھوسہ نے محفل کے اختتام پہ مجھے کہا کہ آپ کا سوال بالکل درست تھا، اور اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کل کو خان مفاہمت کرلے گا، اور طاقتور کی مداخلت برقرار رہے گی تو ہم عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ مخالف سمت میں کھڑے ہوں گے. کل کیا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا ، یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کیخلاف جدوجہد کی، بلکہ پیپلز پارٹی کی قربانیاں کسی سے بھی زیادہ رہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی طاقت کے سڑکوں پہ نہ نکلنے اور سیاسی حکمت عملی کی ناکامی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے طاقتور قوتوں سے مفاہمت کی اور اپنا بیانیہ چھوڑ دیا. پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے کرپشن بھی خوب کی مگر ثابت کچھ نہ ہوا، البتہ یہ بیانیہ ان کے خلاف بھرپور استعمال ہوا ، اور آج کرپشن کا بیانیہ پاکستانی سیاست سے باہر اور عوامی بالادستی کا مقبول بیانیہ ہے. مگر اب اس کا علم عمران خان کے ہاتھ میں ہے .

    سیاستدان کے پاس بندوق نہیں ہوتی. وہ جمہور کی طاقت سے اپنے لیے رستہ نکالتا ہے. پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اس سے پہلے بلوچ و پشتون قوم پرست قیادت عوامی بالادستی اور آئین کی حاکمیت کا بیانیہ لیکر چلے تھے. یہ طویل اور صبر آزما سفر ہے. سیاستدان باہمی جنگیں پھر بھی کرسکتے ہیں مگر عوامی بالادستی کے معاملے پہ بہرحال انھیں ایک ہونا پڑے گا، ورنہ معتوب محبوب اور محبوب معتوب ہوتے رہیں گے، اور دائروں کا یہ سفر کبھی اختتام پذیر نہیں ہوگا .

    خدا کرکے کہ عمران خان ڈٹا رہے، لیکن وہ بھی مفاہمت کر گیا تو پھر طویل شب ہے. محمود خان اچکزئی کے الفاظ میں جب تک ہم سیاستدان اپنی خامیوں کا جائزہ لیکر کندھے فراہم کرنا ترک نہیں کریں گے ، بات بنے گی نہیں. جب تک عمران خان مفاہمت نہیں کرتا ، اس کی حمایت اور تائید ہر انصاف پسند انسان کو جاری رکھنی چاہیے.

  • آرمی چیف کے نام عمران خان کے خطوط – ارشدزمان

    آرمی چیف کے نام عمران خان کے خطوط – ارشدزمان

    عمران خان، پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم، نے حالیہ ہفتوں میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام متعدد خطوط ارسال کیے ہیں۔ ان خطوط میں انھوں نے ملک کی سیاسی، معاشی، اور سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

    عمران خان کے حالیہ خطوط اور ان کے ردعمل پر جو سیاسی ماحول بن رہا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت یا کم از کم اپنے مؤقف کی شنوائی کے خواہاں ہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملنے والے جوابات میں کسی مفاہمت یا نرمی کے بجائے طنز اور سختی جھلکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں عمران خان کی یہ حکمتِ عملی ایک بڑی سیاسی غلطی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ان کی جماعت کے حامیوں کی توقع تھی کہ وہ سخت مؤقف پر قائم رہیں گے اور مزاحمتی سیاست کو مزید تیز کریں گے، مگر اس طرح کے خطوط نے ایک مختلف تاثر پیدا کیا ہے۔ اس سے ایک طرف ان کے حامیوں میں مایوسی اور اضطراب بڑھ رہا ہے، تو دوسری طرف مخالفین اسے ایک کمزور قدم قرار دے رہے ہیں۔

    یہ بھی سچ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ پارٹی قیادت احتجاجی تحریک منظم کرنے میں ناکام رہی، اور عوامی ردعمل بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ یہ حقیقت کہ عمران خان بار بار کال دینے کے باوجود وہ عوامی دباؤ پیدا نہیں کر پا رہے جو 2022 میں نظر آیا تھا، اس بات کی علامت ہے کہ یا تو لوگ تھک چکے ہیں، یا ان میں خوف اور غیر یقینی صورتحال نے جگہ بنا لی ہے۔ اس وقت عمران خان کو ایک واضح حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر وہ اسی طرح غیر مؤثر خط و کتابت اور بے سمت کالز پر انحصار کرتے رہے، تو یہ ان کی سیاسی ساکھ کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    پہلا خط (3 فروری 2025):
    اس خط میں عمران خان نے چھ نکات اٹھائے، جن میں 8 فروری 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی، 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ پر کنٹرول کی کوشش، پیکا قانون کے تحت اظہارِ رائے پر پابندیاں، اور تحریک انصاف کے کارکنوں پر جبر و تشدد شامل ہیں۔ انہوں نے عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پالیسیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔

    دوسرا خط (8 فروری 2025):
    اس خط میں عمران خان نے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گن پوائنٹ پر 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی قید کی سختیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں 20 دن تک مکمل لاک اپ میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔

    تیسرا خط (13 فروری 2025):
    اس خط میں عمران خان نے 2024 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا معاملہ دوبارہ اٹھایا اور کہا کہ منی لانڈرز کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے رول آف لا کی عدم موجودگی کو اس کا سبب قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ 18 لاکھ لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں اور 20 ارب ڈالر کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہو چکا ہے۔

    سیاسی نقصان اور عمومی تاثر:
    تجزیہ کاروں کے مطابق، عمران خان کے ان خطوط سے ان کی مایوسی اور پریشانی ظاہر ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ان خطوط کو فوج کے بارے میں عمران خان کی پرانی سوچ کی عکاسی قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے خطوط لکھنا، جب فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، افسوسناک ہے اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

    مزید برآں، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان خطوط کے ذریعے عمران خان اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ تاہم، اس طرح کے اقدامات سے ان کی اعصابی اور نفسیاتی کمزوری کا تاثر ملتا ہے اور یہ سیاسی و جمہوری اصولوں کے خلاف سمجھے جا رہے ہیں۔ قیادت کا تقاضا ہے کہ وہ ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرے، نہ کہ مفاہمت اور پسپائی کا۔ عمران خان کے یہ خطوط ان کی سیاسی حکمت عملی پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور ان کی قیادت کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

    یہ نکتہ واقعی بہت اہم ہے کہ عمران خان ہمیشہ نیلسن منڈیلا کی استقامت اور عزیمت کی مثالیں دیا کرتے تھے، لیکن حالیہ خطوط میں وہ ایک مختلف رویہ اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں منڈیلا کی جدوجہد سے متاثر ہوتے، تو وہ مشکلات کے باوجود اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہتے اور کسی قسم کی “رحم کی اپیل” یا فوجی مداخلت کی امید نہ رکھتے۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید کاٹی، لیکن انہوں نے کبھی اپنے جابروں سے رحم کی درخواست نہیں کی، بلکہ ہر مشکل کو اپنی جدوجہد کا حصہ سمجھا اور بالآخر عزت و وقار کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ عمران خان اگر واقعی اسی اصول پر کاربند رہنا چاہتے ہیں، تو انہیں بھی استقامت، صبر اور غیر متزلزل مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، بجائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک پر شکوہ کریں اور مداخلت کی امید باندھیں۔

    یہ خطوط اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ وہ دباؤ میں آچکے ہیں اور اب ایک راہِ فرار یا کسی نرم گوشے کی تلاش میں ہیں۔ جو لوگ انہیں ایک “بہادر اور ناقابلِ تسخیر لیڈر” کے طور پر دیکھتے تھے، ان کے لیے یہ رویہ مایوس کن ہو سکتا ہے۔ سیاست میں نظریاتی جنگیں استقامت اور مضبوط اعصاب سے لڑی جاتی ہیں، نہ کہ رحم کی درخواستوں یا مفاہمتی پیغامات سے۔

  • ریاست ہو گی ماں کے جیسی – احمد شہزاد

    ریاست ہو گی ماں کے جیسی – احمد شہزاد

    طویل عرصے سے سُنتے آئے ہیں کہ “ریاست ہو گی ماں کے جیسی” . ریاست کو ماں کہا جاتا ہے کیونکہ ماں کا دل نرم گداز ، سمندر جیسا گہرا،ا ور آسمان کی طرح وسیع ہوتا ہے۔ ماں اولاد سے حد درجہ پیار کرتی ہے ، نفرت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ غلطی در غلطی پر معاف بھی کرتی ہے اور سینے سے بھی لگاتی ہے۔ کبھی کبھار اولاد کا لہجہ تلخ بھی ہو جاتا ہے تو معاف کرنے کا حوصلہ ماں کا ہی ہوتا ہے۔
    [poetry]ریاست ہو گی ماں کے جیسی
    ہر شہری سے پیار کرے گی [/poetry]

    دیکھا جائے تو پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس ریاست کو ایک سیاسی جمہوری فیصلے کی صورت حاصل کیا گیا ۔ مگر افسوس کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس جمہوریت کو آمریت کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ریاست کا بنیادی مقصد اپنے ہر شہری کو تحفظ اور امن و امان فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی بلا خوف وخطر گزار سکے ۔پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 16 ریاست کے ہر شہری کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے، جبکہ احتجاج کو آمریت کی بنا پر ریاست مخالف بیانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ریاست جب حقوق غصب کر لیتی ہے تواحتجاج کرنا جرم بن جاتا ہے اور یوں ریاست حقِ آواز بلند کرنے والے کو کچلنے کے درپے رہتی ہے۔

    26 نومبر 2024 کا دن بھی کلینڈر پر ایک سیاہ دھبے کی طرح ثبت ہو گیا ہے۔نہتے پرامن سیاسی کارکنوں کے احتجاج کو بزورِ طاقت ختم کیا گیا۔رات کے وقت مکمل بلیک آؤٹ کرتے ہوئے ریاست نےدشمن کا منہ توڑنے کے بجائے اپنے ہی بیٹوں کے جگر چھلنی کر دیے۔ وہ ریاست جو ماں کے جیسی تھی، اسے اجنبی بنتے دیر نہیں لگی۔ فائرنگ اور شیلنگ سے ایک نئی داستان رقم ہوئی.سانحہ 1971 ہو، اکبر بگٹی کا قتل ہو، لال مسجدکا واقعہ، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ، بلوچ و دیگر نوجوانوں کا اغوا، ریاست ہر موقع پر ناکام ہی دکھائی دی ہے ۔ اس سے بھی بڑا المیہ تو 26 نومبر کو یہ ہوا کہ حکومت نےلاشوں اور زخمیوں کا ریکارڈ چھپا کر جمہوریت کو زندہ لاش بنا دیا۔

    حکومت نے نیشنل میڈیا کو تو کنٹرول کر لیا لیکن انٹرنیشنل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور آزاد صحافیوں کو کنٹرول نہیں کر سکے، باضمیر صحافی اور وی لاگرز نے حقیقت کھول کر بیان کر دی۔ جہاں پورا معاشرہ گراوٹ کا شکار ہے وہاں عدلیہ بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئی، حالانکہ عدل کا منصب اللہ نے ان منصفوں کو دیا ہے. وائے افسوس کہ قتلِ عام پرآنکھیں موندے ہوئے ہیں۔

    جبر کا ماحول ہے ، ظلم کا بازار خوب گرم ہے، جن کے پیارے زندگی کی بازی ہار گئے وہ غم و الم کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اہلِ سیاست کے سینے میں دل تو ہوتا نہیں، مخالف سیاسی رہنما لاشوں اور زخمیوں کی تعداد پر ٹھٹھا اورتمسخر اُڑا رہے ہیں حکومت اور وزراء سرے سے انکار کر رہے ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ حرف کی حرمت کے داعی بھی سچ سے گریزاں ہیں۔ ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال معاشرتی توازن کو بگاڑ دیتا ہے ، نفرت کو بڑھاتا ہے۔ ایسا عمل ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ ریاست ماؤں کو کیسے دلاسہ دے گی اور زخموں پر مرہم کیسے رکھے گی۔

    اب بھی وقت ہے کہ ریاست ماں کا کردار نبھاتے ہوئے حق داروں کو حق ادا کرے، جن سے مینڈیٹ چھینا ہے انہیں لوٹائے۔ ناحق گرفتاروں کو رہا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے۔ جب جسم لہو لہو، دامن زخم زخم اور آنکھ اشک اشک ہو تو ایسے میں نفرتوں کے دھارے پھوٹتے ہیں، اور پھر یہی نفرتوں کے دھارے سیلاب بن کر ریاست کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے میں کاش ! کوئی تو ہو جو غمزدوں کی ڈھارس بنے ،انھیں تسلی اور اطمینان کی دولت سے نوازے اور رواداری کو فروغ دے۔

  • عمران خان مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں – ارشد زمان

    عمران خان مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں – ارشد زمان

    مراد سعید کا یہ بیان کہ ”عمران خان مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں“، تاریخی اور فکری لحاظ سے بہت کمزور ،سطحی، بچگانہ اور بے بنیاد دکھائی دیتا ہے۔ اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو اخوان المسلمون اور تحریک انصاف کا کوئی موازنہ نہیں بنتا، اور عمران خان کو محمد مرسی شہید سے ملانا بھی ایک سطحی اور غیر حقیقی بات ہوگی۔

    اخوان المسلمون اور تحریک انصاف دو مختلف جہتیں ہیں
    1. نظریاتی اساس:
    • اخوان المسلمون ایک نظریاتی اسلامی تحریک ہے، جس کی بنیاد امام حسن البنا نے رکھی تھی۔ اس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق سماج کی اصلاح، اسلامی ریاست کا قیام، اور مغربی استعمار کے اثرات کا خاتمہ تھا۔
    • تحریک انصاف ایک قومی سیاسی جماعت ہے، جس کی بنیاد کسی نظریاتی فریم ورک پر نہیں بلکہ کرپشن کے خاتمے، انصاف کے قیام اور روایتی سیاست کے خلاف جدوجہد جیسے عمومی نکات پر رکھی گئی۔ اس میں اسلام پسندی، قوم پرستی، لبرل ازم، اور موقع پرستی سب کچھ ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    2. عزیمت اور استقامت:
    • اخوان المسلمون کی تاریخ قربانیوں، صبر، اور استقامت سے بھری ہوئی ہے۔ مصری، شامی، اور دیگر مسلم دنیا میں اخوان کے کارکنان نے ظلم برداشت کیا، شہادتیں دیں، سالہا سال قید کاٹی، مگر اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
    • تحریک انصاف کی سیاست میں نظریاتی استقامت کم اور مفاداتی وابستگیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ یوٹرن لینا ایک معمول بن چکا ہے، اور پارٹی بارہا اپنے ہی بیانیے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

    3. قیادت کا کردار:
    • محمد مرسی شہید ایک فکری اور نظریاتی لیڈر تھے، جنھیں اخوان کی فکری تربیت اور تنظیمی نظم و ضبط حاصل تھا۔ انھوں نے اقتدار میں آکر اسلامی اقدار کے مطابق ریاستی امور چلانے کی کوشش کی، اور آخر تک اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ انھیں ظالم فوجی حکومت نے قید میں ڈال کر شہید کر دیا، مگر وہ اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔
    • عمران خان کا سیاسی سفر زیادہ تر موقع پرستی، اقتدار کے حصول اور پھر اس کے چھن جانے کے بعد مزاحمت پر مبنی رہا ہے۔ وہ نظریاتی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی مقبولیت اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر اقتدار میں آئے اور جب حالات بدلے تو بیانیہ بھی بدل گیا۔

    4. عوامی تحریک اور سیاسی تنظیم:
    • اخوان المسلمون ایک مضبوط، منظم، اور نظریاتی بنیادوں پر قائم جماعت ہے، جس کا ایک تربیتی اور فکری ڈھانچہ موجود ہے۔ کارکنان کا پارٹی سے تعلق وقتی یا جذباتی نہیں، بلکہ فکری وابستگی پر مبنی ہوتا ہے۔
    • تحریک انصاف ایک عوامی جذباتی تحریک ہے، جس کے کارکن زیادہ تر سوشل میڈیا اور مظاہروں کی حد تک متحرک ہوتے ہیں۔ پارٹی میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے اور جب آزمائش آتی ہے تو لوگ بکھر جاتے ہیں۔

    اخوان المسلمون کی تاریخ عزیمت، استقامت، اور قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس نے مسلسل ظلم، جبر اور ریاستی جبر کے باوجود اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا۔ حسن البنا سے لے کر سید قطب، عمر تلمسانی، محمد بدیع اور محمد مرسی تک، اخوان کی قیادت اور کارکنان نے ہمیشہ اسلامی اصولوں پر مبنی سیاست اور سماجی اصلاح کے لیے قربانیاں دیں۔

    میدانِ رابعہ:
    اخوان کی عزیمت کی سب سے بڑی مثال میدان رابعہ میں دی گئی قربانی ہے. مراد سعید صاحب ویسے بھی آج کل ”عافیت“ کی زندگی گزار رہے ہیں. اگر صرف یہی ایک داستان پڑھنے کی زحمت کر لیں تو چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ 2013 میں مصری فوج نے جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اخوان المسلمون پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اس کے بعد لاکھوں افراد نے قاہرہ کے میدانِ رابعہ العدویہ میں دھرنا دیا، جسے تاریخ کا سب سے بڑا پرامن احتجاج قرار دیا جا سکتا ہے۔

    14 اگست 2013 کو مصری فوج نے نہتے مظاہرین پر ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں اور بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔
    • ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، کم از کم 1,000 سے 4,000 افراد شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
    • ہزاروں افراد زخمی اور گرفتار کر لیے گئے، جبکہ اخوان کے سینئر قائدین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
    • محمد مرسی کو بھی قید کر دیا گیا، جہاں وہ کئی سالوں بعد عدالت میں ہی شہید کر دیے گئے۔
    یہ اخوان المسلمون کی استقامت کی مثال ہے.

    • اس ظلم و جبر کے باوجود اخوان نے ہتھیار نہیں اٹھائے، بلکہ سیاسی اور دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو نہ جبر سے دبتی ہے، نہ اقتدار کے لالچ میں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرتی ہے۔ میدانِ رابعہ کا قتلِ عام اور محمد مرسی کی شہادت اس تحریک کی استقامت کی روشن مثالیں ہیں، اب ذرا اس تناظر میں تحریک انصاف کو پرکھا جائے کہ یہ بیچاری کہاں کھڑی ہے. اس پس منظر میں دیکھیں تو واقعی عمران خان صدر محمد مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں.

  • عمران خان کی سیاست ، کھیل اصل میں ہے کیا؟ – اعجازالحق عثمانی

    عمران خان کی سیاست ، کھیل اصل میں ہے کیا؟ – اعجازالحق عثمانی

    پاکستانی سیاست میں جو نظر آتا ہے، وہ حقیقت نہیں ہوتی، اور جو حقیقت ہوتی ہے، وہ نظر نہیں آتی۔ آج کل ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بازی عشق کی بازی ہے، جو ہارے گا، وہ جیتے گا، اور جو جیتے گا، وہ ہارے گا۔

    عمران خان جیل میں ہیں، ان کی جماعت کٹی پھٹی حالت میں ہے، عدالتوں میں مقدمے، پارٹی میں بغاوتیں، اور مخالفین کا دباؤ۔۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی وہ ملکی سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ سیاسی میدان میں سب سے زیادہ اسکور اس وقت بھی ان کے بیانیے کا ہی ہے۔چاہے عدالتوں کے فیصلے ان کے خلاف آئیں، چاہے پارٹی پر پابندیاں لگیں، عوام کے دلوں میں ان کی جگہ اب بھی قائم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی اس مقبولیت کو بچا پائیں گے؟ یا پھر اس کہانی کا انجام وہی ہوگا، جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے؟

    دوسری طرف، وہی پرانا کھیل جاری ہے۔ مذاکرات کی خبریں گرم ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بات چیت ہو رہی ہے، کوئی درمیانی راستہ نکالا جا رہا ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ حکومت محض ایک مہرہ ہے۔ اصل فیصلہ کہیں اور ہوگا۔ جنہیں مذاکرات کرنا ہیں، وہ ٹیبل پر نہیں بیٹھے، اور جو بیٹھے ہیں، وہ اصل فیصلے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ سب کچھ طے شدہ ہے، بس اسکرپٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ اور سنا ہے رائیٹر اب سکرپٹ بدلنے لگا ہے۔

    عمران خان جانتے ہیں کہ اگر وہ جیل سے باہر آتے ہیں تو عوام یہ سمجھے گی، کہ یہ کسی معاہدے کا نتیجہ ہے، تو ان کا سارا بیانیہ برباد ہو جائے گا۔ وہ اب تک ایک مزاحمت کار، ایک نظریاتی لیڈر، اور “حقیقی آزادی” کی علامت بن چکے ہیں۔ لیکن اگر یہی شخص ایک دن خاموشی سے باہر آتا ہے، کیسز ختم ہو جاتے ہیں، اور سیاست میں نرمی آ جاتی ہے، تو کیا یہ سب اتفاق ہوگا؟ نہیں! یہ وہی سیاست ہوگی، جو سالہا سال سے چل رہی ہے۔

    لیکن کھیل صرف عمران خان کے گرد نہیں گھوم رہا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک امتحان میں ہے۔ اگر عمران خان کو مکمل دیوار سے لگا دیا جاتا ہے، تو ملک میں بے چینی بڑھے گی۔ اگر انہیں کھلی آزادی دی جاتی ہے، تو وہ پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھریں گے۔ اس صورتحال میں درمیانی راستہ نکالنا سب سے ضروری مگر ایک مشکل کام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان باہر بھی آ جائیں، لیکن یہ تاثر بھی نہ جائے کہ وہ جیت گئے ہیں۔ دوسری طرف، عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ وہ باہر آئیں، لیکن ایسا نہ لگے کہ وہ کسی ڈیل کے تحت آئے ہیں۔

    یہ وہ مقام ہے جہاں سیاست اور طاقت کا اصل کھیل شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کچھ فیصلے پس پردہ کیے جاتے ہیں، اور عوام کو ایک اور کہانی سنا دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بار یہ کہانی کس کے حق میں لکھی جائے گی؟ کیا عمران خان ایک نئے انداز میں سیاست میں واپسی کریں گے؟ یا یہ ایک اور سبق ہوگا، جو پاکستانی سیاست کی کتاب میں شامل کر دیا جائے گا؟

    یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر واقعی ایک “سیاسی مفاہمت” ہونے جا رہی ہے، تو اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟ کیا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے؟ یا پھر پس پردہ کوئی ایسا دباؤ ہے جو ان دونوں کو دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں اکٹھا کر رہا ہے؟ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ عمران خان کو دیوار سے لگانے کی حکمتِ عملی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عوام کا ردعمل، عدالتی فیصلے، اور بین الاقوامی دباؤ، سب نے مل کر ایک ایسی فضا بنا دی ہے جہاں عمران خان کو سیاست سے مکمل طور پر بے دخل کرنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ یہ بھی نہیں چاہتی کہ عمران خان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئیں۔

    عمران خان کی سیاست میں ایک چیز واضح ہے کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں، لیکن ان کی مقبولیت ان کی حکمتِ عملی کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ اگر وہ اپنے حامیوں کو یہ یقین دلا پاتے ہیں کہ وہ بغیر کسی ڈیل کے باہر آئے ہیں، تو ان کی سیاست مزید مضبوط ہو گی۔ لیکن اگر عوام کو ذرا سا بھی یہ تاثر گیا کہ عمران خان نے کسی ڈیل کے نتیجے میں اپنی مشکلات کم کی ہیں، تو ان کے لیے اپنی موجودہ مقبولیت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وہ توازن ہے جسے عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی یہ ایک نازک موڑ ہے۔ اگر عمران خان بغیر کسی واضح سمجھوتے کے باہر آتے ہیں، تو ان کا بیانیہ مزید مضبوط ہو گا۔ لیکن اگر انہیں کسی شرط کے ساتھ ریلیف دیا جاتا ہے، تو عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ یہ بھی وہی پرانی سیاسی بساط ہے، جہاں سب آخر میں ایک ہی میز پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پس پردہ بہت کچھ چل رہا ہے، اور عوام کو صرف اتنا دکھایا جا رہا ہے جتنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

    یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے: اگر عمران خان واقعی باہر آ جاتے ہیں، تو کیا وہ دوبارہ اُسی انداز میں سیاست کر سکیں گے؟ یا پھر ان کے لیے ایسے حالات بنا دیے جائیں گے جہاں وہ محدود ہو کر رہ جائیں؟ کیا ان کی جماعت کو مکمل طور پر بحال ہونے دیا جائے گا؟ کیا انہیں الیکشن میں آزادانہ حصہ لینے دیا جائے گا؟ یا پھر وہ ایک کنٹرولڈ سیاست کا حصہ بننے پر مجبور ہو جائیں گے؟ یہ تمام سوالات اس وقت پاکستانی سیاست کے گرد گھوم رہے ہیں، لیکن ان کے جوابات آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔

    کھیل جاری ہے، اسکرپٹ پر کام ہو رہا ہے، کردار اپنے اپنے ڈائیلاگ یاد کر رہے ہیں۔ بس پردہ اٹھنے کی دیر ہے، دیکھتے ہیں کہ اس بار پردے پر کون ہیرو بن کر آتا ہے۔