ہوم << عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

تحریک انصاف کے سابق اور زبردستی ہروائے گئے موجودہ ایم این اے عالمگیر خان نے اپنی رہائش گاہ پہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قیادت اور صحافیوں کی ایک مشترکہ نشست میں ہمیں بھی دوستوں کے ساتھ شرکت کی دعوت دی. روایتی کھانوں کے ساتھ اصل لطف محمود خان اچکزئی، لطیف کھوسہ، اسد قیصر اور سلمان اکرم راجہ سمیت دیگر رہنماؤں کےساتھ براہ راست مکالمے میں آیا.

مشر محمود خان اچکزئی سے میرا سوال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کیخلاف اے پی ڈی ایم تحریک چلارہی تھی، انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا، مگر انتخابات سے قبل میاں محمد نواز شریف نے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا. آپ، قاضی حسین احمد اور عمران خان تنہا رہ گئے اور بائیکاٹ کیا. کچھ سال قبل پی ڈی ایم بنی، عوامی بالادستی کا نعرہ بلند ہوا، انتخابات ہوئے، آپ کے اتحادی میاں صاحب اور آصف زرداری حکومت میں ہیں، جبکہ آپ اور مولانافضل الرحمن پھر سے سڑکوں پہ ہیں. کیا ضمانت ہےکہ کل کو عمران خان ڈیل نہیں کریں گے. اور انھوں نے ڈیل کر لی تو کیا پھر آپ دوبارہ سڑکوں پہ ہوں گے؟

محمود خان اچکزئی کائیاں سیاستدان ہیں. اس سوال کا دو ٹوک جواب دینے کے بجائے ماضی سے بات کرنا شروع کی، اور کہا کہ لندن میں بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت وہ معاہدہ یا اتحاد تھا جو استخباراتی اداروں کی مداخلت کے بغیر قائم ہوا تھا. وہ کامیاب ہوتا تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی. محمود خان اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان پختونوں کی دو ہزار سال کے واحد ایسے رہنما ہیں جنھیں پختونوں نے بھرپور حمایت دی. اسی کی ذیل میں ان کی سوات میں کی گئی تقریر سے یہ حوالہ دینا بھی دلچسپی کا باعث بنے گا، جب انھوں نے کہا کہ سوات کے پختونوں عمران کے ساتھ یونہی کھڑے رہنا، وفاداری نبھانا، جان دینے سے بھی گریز نہ کرنا کہ یہی پشتون روایت ہے.

لطیف کھوسہ نے محفل کے اختتام پہ مجھے کہا کہ آپ کا سوال بالکل درست تھا، اور اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کل کو خان مفاہمت کرلے گا، اور طاقتور کی مداخلت برقرار رہے گی تو ہم عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ مخالف سمت میں کھڑے ہوں گے. کل کیا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا ، یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کیخلاف جدوجہد کی، بلکہ پیپلز پارٹی کی قربانیاں کسی سے بھی زیادہ رہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی طاقت کے سڑکوں پہ نہ نکلنے اور سیاسی حکمت عملی کی ناکامی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے طاقتور قوتوں سے مفاہمت کی اور اپنا بیانیہ چھوڑ دیا. پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے کرپشن بھی خوب کی مگر ثابت کچھ نہ ہوا، البتہ یہ بیانیہ ان کے خلاف بھرپور استعمال ہوا ، اور آج کرپشن کا بیانیہ پاکستانی سیاست سے باہر اور عوامی بالادستی کا مقبول بیانیہ ہے. مگر اب اس کا علم عمران خان کے ہاتھ میں ہے .

سیاستدان کے پاس بندوق نہیں ہوتی. وہ جمہور کی طاقت سے اپنے لیے رستہ نکالتا ہے. پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اس سے پہلے بلوچ و پشتون قوم پرست قیادت عوامی بالادستی اور آئین کی حاکمیت کا بیانیہ لیکر چلے تھے. یہ طویل اور صبر آزما سفر ہے. سیاستدان باہمی جنگیں پھر بھی کرسکتے ہیں مگر عوامی بالادستی کے معاملے پہ بہرحال انھیں ایک ہونا پڑے گا، ورنہ معتوب محبوب اور محبوب معتوب ہوتے رہیں گے، اور دائروں کا یہ سفر کبھی اختتام پذیر نہیں ہوگا .

خدا کرکے کہ عمران خان ڈٹا رہے، لیکن وہ بھی مفاہمت کر گیا تو پھر طویل شب ہے. محمود خان اچکزئی کے الفاظ میں جب تک ہم سیاستدان اپنی خامیوں کا جائزہ لیکر کندھے فراہم کرنا ترک نہیں کریں گے ، بات بنے گی نہیں. جب تک عمران خان مفاہمت نہیں کرتا ، اس کی حمایت اور تائید ہر انصاف پسند انسان کو جاری رکھنی چاہیے.

Comments

Avatar photo

فیض اللہ خان

فیض اللہ خان اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی، مذہبی اور دہشت گردی سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں جبکہ مختلف ڈیجٹل پلیٹ فارمز پہ عالمی اور علاقائی موضوعات پہ گفتگو کرتے ہیں۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، ٹی آر ٹی سمیت مختلف بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور ہندوستانی و بنگلہ دیشی چینلز پر بھی تجزیہ دیتے ہیں۔ پاکستانی انگریزی اخبارات ڈان اور دی نیوز کی مختلف رپورٹس میں بھی ان کے تجزیہ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ افغانستان میں اپنی اسیری کے تجربات پر مشتمل کتاب ڈیورنڈ لائن کا قیدی کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment