طویل عرصے سے سُنتے آئے ہیں کہ "ریاست ہو گی ماں کے جیسی" . ریاست کو ماں کہا جاتا ہے کیونکہ ماں کا دل نرم گداز ، سمندر جیسا گہرا،ا ور آسمان کی طرح وسیع ہوتا ہے۔ ماں اولاد سے حد درجہ پیار کرتی ہے ، نفرت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ غلطی در غلطی پر معاف بھی کرتی ہے اور سینے سے بھی لگاتی ہے۔ کبھی کبھار اولاد کا لہجہ تلخ بھی ہو جاتا ہے تو معاف کرنے کا حوصلہ ماں کا ہی ہوتا ہے۔
ریاست ہو گی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
دیکھا جائے تو پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس ریاست کو ایک سیاسی جمہوری فیصلے کی صورت حاصل کیا گیا ۔ مگر افسوس کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس جمہوریت کو آمریت کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ریاست کا بنیادی مقصد اپنے ہر شہری کو تحفظ اور امن و امان فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی بلا خوف وخطر گزار سکے ۔پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 16 ریاست کے ہر شہری کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے، جبکہ احتجاج کو آمریت کی بنا پر ریاست مخالف بیانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ریاست جب حقوق غصب کر لیتی ہے تواحتجاج کرنا جرم بن جاتا ہے اور یوں ریاست حقِ آواز بلند کرنے والے کو کچلنے کے درپے رہتی ہے۔
26 نومبر 2024 کا دن بھی کلینڈر پر ایک سیاہ دھبے کی طرح ثبت ہو گیا ہے۔نہتے پرامن سیاسی کارکنوں کے احتجاج کو بزورِ طاقت ختم کیا گیا۔رات کے وقت مکمل بلیک آؤٹ کرتے ہوئے ریاست نےدشمن کا منہ توڑنے کے بجائے اپنے ہی بیٹوں کے جگر چھلنی کر دیے۔ وہ ریاست جو ماں کے جیسی تھی، اسے اجنبی بنتے دیر نہیں لگی۔ فائرنگ اور شیلنگ سے ایک نئی داستان رقم ہوئی.سانحہ 1971 ہو، اکبر بگٹی کا قتل ہو، لال مسجدکا واقعہ، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ، بلوچ و دیگر نوجوانوں کا اغوا، ریاست ہر موقع پر ناکام ہی دکھائی دی ہے ۔ اس سے بھی بڑا المیہ تو 26 نومبر کو یہ ہوا کہ حکومت نےلاشوں اور زخمیوں کا ریکارڈ چھپا کر جمہوریت کو زندہ لاش بنا دیا۔
حکومت نے نیشنل میڈیا کو تو کنٹرول کر لیا لیکن انٹرنیشنل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور آزاد صحافیوں کو کنٹرول نہیں کر سکے، باضمیر صحافی اور وی لاگرز نے حقیقت کھول کر بیان کر دی۔ جہاں پورا معاشرہ گراوٹ کا شکار ہے وہاں عدلیہ بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئی، حالانکہ عدل کا منصب اللہ نے ان منصفوں کو دیا ہے. وائے افسوس کہ قتلِ عام پرآنکھیں موندے ہوئے ہیں۔
جبر کا ماحول ہے ، ظلم کا بازار خوب گرم ہے، جن کے پیارے زندگی کی بازی ہار گئے وہ غم و الم کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اہلِ سیاست کے سینے میں دل تو ہوتا نہیں، مخالف سیاسی رہنما لاشوں اور زخمیوں کی تعداد پر ٹھٹھا اورتمسخر اُڑا رہے ہیں حکومت اور وزراء سرے سے انکار کر رہے ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ حرف کی حرمت کے داعی بھی سچ سے گریزاں ہیں۔ ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال معاشرتی توازن کو بگاڑ دیتا ہے ، نفرت کو بڑھاتا ہے۔ ایسا عمل ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ ریاست ماؤں کو کیسے دلاسہ دے گی اور زخموں پر مرہم کیسے رکھے گی۔
اب بھی وقت ہے کہ ریاست ماں کا کردار نبھاتے ہوئے حق داروں کو حق ادا کرے، جن سے مینڈیٹ چھینا ہے انہیں لوٹائے۔ ناحق گرفتاروں کو رہا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے۔ جب جسم لہو لہو، دامن زخم زخم اور آنکھ اشک اشک ہو تو ایسے میں نفرتوں کے دھارے پھوٹتے ہیں، اور پھر یہی نفرتوں کے دھارے سیلاب بن کر ریاست کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے میں کاش ! کوئی تو ہو جو غمزدوں کی ڈھارس بنے ،انھیں تسلی اور اطمینان کی دولت سے نوازے اور رواداری کو فروغ دے۔
تبصرہ لکھیے