Tag: سیاست دان

  • کیا یہ محب وطن ہیں- اوریا مقبول جان

    کیا یہ محب وطن ہیں- اوریا مقبول جان

    جس ملک کے فیصلہ ساز سیاست دان اور ان کی ٹیم میں موجود، عالمی سُودی مالیاتی نظام کے پروردہ معاشی ماہرین، ایک ایسا عوام دُشمن فیصلہ کریں جس کا کوئی جواز موجود نہ ہو، وہاں ترقی، خوشحالی اور عوامی فلاح کے خواب دیکھنا دیوانگی کے سوا کچھ نہیں۔

    15 اگست 2022ء کو دُنیا بھر میں خام تیل کی قیمتیں تقریباً چار ڈالر کم ہو گئیں۔ امریکی مغربی ٹیکساس انٹرمیڈیٹ خام تیل کی قیمت پانچ فیصد گر کر 87.86 ڈالر فی بیرل ہوئی، جبکہ برطانوی برینٹ (Brent) کی قیمت بھی اتنے فیصد ہی گر کر 93.80 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ اب یہ قیمتیں 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے وقت والی سطح سے بھی نیچی آ چکی ہیں۔

    مملکت خدادادِ پاکستان کے عوام کے لئے خوفناک دھچکا یہ نہیں کہ اس کی کابینہ نے قیمتیں کم کرنے کی بجائے بڑھائی ہیں، بلکہ یہ جھوٹ بھی بولا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے مطالبات پورا کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے یہ سب کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی تاریخ کا یہ بدترین عوام دُشمن فیصلہ صرف پاکستان میں موجود عالمی منافع خور تیل کی کمپنیوں کو نقصان سے بچانے کے لئے کیا گیا ہے۔ عوام کا خون چوسنے اور سیاست دانوں کے انتخابی اخراجات برداشت کرنے والی ان کمپنیوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم نے تیل چونکہ دو ماہ قبل اس وقت خریدا تھا، جب مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240 روپے تھی اور ابھی تک تیل سٹاک میں موجود ہے۔

    ڈالر چونکہ گر کر 214 روپے ہو چکا ہے، حکومت اگر تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائے گی تو پھر ہمیں شدید خسارے کا سامنا ہو گا۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ’’کارپوریٹ وزیر خزانہ‘‘ اور پی ڈی ایم کی پوری کابینہ نے بائیس کروڑ عوام کے مقابلے میں صرف چند آئل کمپنیوں کے مفادات کو اہمیت دی اور عوام کی جیب سے سرمایہ لوٹ کر ان کی تجوریاں بھرنے کے لئے قیمت بڑھا دی۔ وجہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور معیشت دان دہری غلامی کے اسیر ہیں، عالمی مالیاتی طاقتوں کے غلام ہیں اور ملکی سرمایہ داروں کے اسیر۔ جہاں سیاست دان اور معیشت دان محب وطن اور آزاد ہیں، ایسے ملکوں میں اس طرح نہیں ہوتا۔ گذشتہ چھ ماہ سے جو معاشی صورتِ حال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے.

    اس سے نمٹنے کے لئے دُنیا کے ہر ملک نے اپنے حالات، وسائل اور تعلقات کے حوالے سے آزادانہ اقدامات اُٹھائے ہیں اور اپنی معیشتوں کو مستحکم کر کے عوام کو معاشی مصیبت و پریشانی سے نکالا ہے۔ جنگ کا سب سے زیادہ اثر روس کی معیشت پر ہونا چاہئے تھا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دُنیا بھر کی کرنسیوں کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم ہوئی ہے، مگر روس کا روبل جو جنگ کے آغاز میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 85 کا تھا اور جسے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ اب یہ ایک کاٹھ کباڑ (Rubble) ہے، آج روبل 35 فیصد کی بلند شرح پر ہے اور ایک ڈالر کے مقابلے میں 53 روبل آتے ہیں۔ ایسا کس طرح ممکن ہوا… ایسا صرف ملک سے محبت کرنے والے اور عالمی مالیاتی نظام سے آزاد معیشت دانوں اور سیاسی رہنمائوں کے فیصلے کی وجہ سے ہوا۔ روس کے سنٹرل بینک نے ایک پالیسی مرتب کی کہ سرمائے کو کیسے ملک سے باہر جانے سے روکا جائے۔

    پہلا اقدام یہ اُٹھایا گیا کہ ایسی تمام کمپنیاں جو روس میں کاروبار کرتی تھیں اور ساتھ ہی ان کا بیرون ملک بھی کاروبار موجود تھا، ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی آمدن کا 80 فیصد فوراً روسی روبل میں منتقل کر دیں، یعنی اگر ایک کمپنی کا کل سرمایہ ایک ارب ڈالر ہے تو وہ 80 کروڑ ڈالر روبل میں منتقل کرے گی۔ اس فیصلے سے ایک دَم روبل کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہو گیا اور دوسری بات یہ ہوئی کہ سرمایہ روس سے باہر منتقل ہونا بند ہو گیا۔ یورپ کے ممالک روس سے گیس خریدتے تو اس کی ادائیگی یورو میں کرتے تھے، روس نے کہا کہ اگر گیس خریدنا ہے تو پھر قیمت روبل میں ادا ہو گی۔ گیس ان کی مجبوری تھی، یوں اس فیصلے سے بھی روبل کی طلب میں اضافہ ہوا، جبکہ تیسرا اور آخری قدم یہ اُٹھایا گیا کہ بیرون ملک سے اشیاء منگوانے پر شدید پابندیاں لگا دیں اور آج جس روبل کو جوبائیڈن نے ’’کاٹھ کباڑ‘‘ کہا تھا وہ دُنیا کی سب سے مضبوط کرنسی ہے۔

    میرے ملک کا مرعوب معیشت دان کہے گا کہ وہ تو روس ہے، ایک بہت بڑی معاشی قوت ہے، وہ تو کر سکتا تھا۔ ہماری کیا حیثیت، ہم تو آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی نظام کے شکنجے میں ہیں، ہم کیسے کریں گے۔ لیکن بھارت تو ہم سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس وقت بھارت پر عالمی قرضہ 621 ارب ڈالر ہے اور معیشت بھی تیل، گیس، اسلحہ، گندم، سویابین کی ضروریات کے تحت عالمی شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ بھارتی روپے کا دُنیا کی عالمی معیشت میں کبھی کوئی ایسا کردار نہیں رہا کہ ڈالر یا یورو کی جگہ اس میں کاروبار کیا جا سکے۔ لیکن جہاں سیاست دان عوام سے مخلص اور معیشت دان عالمی غلامی سے آزاد ہوں وہاں بڑے فیصلے کرنا مشکل نہیں ہوتے۔

    جولائی کے آخری ہفتے میں بھارت کے ریزو بینک نے ایک اہم ترین پالیسی کا اعلان کیا کہ وہ آئندہ سے عالمی تجارت بھارتی روپے میں کرے گا۔ اس کا طریقہ یہ بنایا گیا کہ ایسے تمام ممالک جو بھارت سے تجارت کرنا چاہتے ہیں، وہ اب بھارتی روپے میں کیا کریں گے۔ ایسے دونوں ممالک لوکل کرنسی میں اکائونٹ کھولیں گے۔ مثلاً روس بھارت میں روپے میں اکائونٹ کھولے گا اور بھارت روس میں روبل میں اکائونٹ کھولے گا۔ دونوں ممالک اپنی آمدن لوکل کرنسی میں رکھا کریں گے۔ یعنی اگر بھارت سے روس نے اشیاء منگوائیں تو وہ اس کی قیمت اپنی کرنسی روبل میں ادا کرے گا اور وہ سرمایہ ایکسپورٹر کو نہیں دیا جائے گا بلکہ ایک مشترکہ ملکی اکائونٹ میں رکھا جائے گا۔ اب بینک اس روبل کو شرح تبادلہ (Exchange Rate) کے حساب سے بھارتی روپے میں منتقل کرے گا اور پھر ایکسپورٹر کو اس کا حصہ ادا کرے گا۔

    اس سے ہو گا کہ بھارتی امپورٹر اور بھارتی ایکسپورٹر دونوں بھارتی روپے میں ہی ادائیگی کیا کریں گے۔ خدا حافظ ڈالر،یورو۔ اس طریق کار کا پہلا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قیمت مستحکم ہو گی۔ یہ ایک عام اصول ہے جب تاجروں کو بھارتی روپے کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ اسے ہی حاصل کیا کریں گے۔ بھارت اب صرف ضروری اشیاء مثلاً اسلحہ، دوائیاں وغیرہ خریدنے کے لئے اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر استعمال کرے گا۔ سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روس اور ایران جیسے ممالک جن پر عالمی پابندیاں ہوں گی، ان سے تجارت آسان ہو جائے گی۔ کیونکہ عالمی مالیاتی بینکاری نظام نے ان ممالک کو سوئفٹ (Swift) سسٹم سے نکال دیا ہوتا ہے، اور اب سوائے لوکل کرنسی میں تجارت کرنے کے ان کے لئے اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔

    بھارت اب جہاں ضرورت ہو گی وہاں ڈالر یا یورو میں تجارت کرے گا ورنہ دیگر ممالک سے بھارتی روپے کو ہی دوسرے ممالک کی کرنسیوں کے ساتھ شرح تبادلہ کے حساب سے تجارت کرکرے گا۔ اس پالیسی کے بعد نہ صرف یہ کہ روس اور ایران کے ساتھ بھارتی تجارت اس راستے پر چل نکلی ہے بلکہ اب تو متحدہ عرب امارات جہاں لاتعداد بھارتی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور وہاں سے بھارت کو 45 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد ہوتی ہیں اور بھارت سے 28 ارب ڈالر کی ہے، ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی لوکل کرنسی میں شروع کی جا رہی ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ عالمی معاشی شکنجے سے آزادی کی طرف سفر کا آغاز۔ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ جس ملک کی کابینہ تیل کی کمپنیوں کو نقصان سے بچانے کے لئے عوام کی جیبیں کاٹے، ایسے حکمرانوں کی موجودگی میں ایسا سوچنا بھی ایک خواب ہے۔

  • سیاست دانوں سے التجا، ہمیں مزید تقسیم نہ کریں- محمد اکرم چوہدری

    سیاست دانوں سے التجا، ہمیں مزید تقسیم نہ کریں- محمد اکرم چوہدری

    یوم آزادی مبارک، یقیناً یہ ملک ترقی کرے گا، حالات بہتر ہوں گے، ہم آگے بڑھیں گے، مسائل سے نکلیں گے، مشکلات ختم ہوں گی، قوم متحد ہو گی۔ نوجوان تخلیقی کام کریں گے۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوں گے۔

    سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں کام کرنے کا انداز تبدیل ہو گا۔ آج ہم جو کچھ بھی ہیں پاکستان کی وجہ سے ہیں، کسی بھی مذہبی، سیاسی جماعت کے رکن بعد میں اور پاکستانی پہلے ہیں۔ یہ ضرور دیکھیں کہ مسائل ہیں لیکن یہ بھی سامنے رکھیں کہ ہم کن حالات سے گذر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ پاکستان کو برا بھلا کہنا، خامیاں نکالنا بہت آسان ہے۔ نکالتے رہیں لیکن آزادی جیسی عظیم نعمت کی قدر کریں، ملک اپنا ہے، ملک ان گنت قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ کبھی پورے شہر میں چند گاڑیاں ہوا کرتی تھیں آج ہزاروں لاکھوں گاڑیاں ایک ہی وقت میں پاکستان کی سڑکوں پر نظر آتی ہیں، ہم بے سروسامانی کے عالم میں تھے لیکن آج ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہمارے پاس گھر نہیں تھے لیکن آج لاکھوں، کروڑوں لوگ جدید ترین گھروں میں رہتے ہیں.

    بہترین نہ ہوں لیکن صحت کی سہولیات تو ہیں، اپنے ادارے ہیں، تعلیم عالمی معیار کی نہ بھی ہو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہے، اس ملک نے ہمیں پہچان دی ہے، مقام دیا ہے، یقین مانیے تمام خرابیاں اور برائیاں ہمارے اندر ہیں، ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ملک آگے نہیں بڑھ رہا، ہمارے فیصلے ایسے ہیں کہ ہم رکے ہوئے ہیں، باہمی اختلافات اور ذاتی مفادات کی وجہ سے ہم پیچھے ہیں۔ ملک کو برا بھلا کہنے کے بجائے اگر ہم اپنے کاموں پر توجہ دیں تو مسائل ختم ہو سکتے ہیں اور ملک ترقی بھی کرے گا۔ یہ وطن ہمارے آباو¿ اجداد کی بے پناہ محنت اور قربانیوں سے حاصل ہوا ہے چونکہ ہم پیدائشی آزاد ہیں اس لیے ہمیں آزادی کی قدر بھی نہیں ہے۔

    جن لوگوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا ہے قیام پاکستان سے آج تک مختلف ادوار دیکھے ہیں ان سے پوچھیں کہ آزادی کی قدر و قیمت کیا ہے، اس ملک کی اہمیت کیا ہے۔ مجھے ڈاکٹر مشتاق احمد نے تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات لکھ بھیجے ہیں۔ اس میں یقیناً ہم سب کے لیے سبق ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملک سے محبت کی چلتی پھرتی داستان ہیں۔ وطن کی خدمت کرتے رہے، مشکلات کا سامنا کیا ترقی یافتہ ممالک کی کئی پیشکشوں کو رد کرتے ہوئے اپنے وطن میں رہنے کو ترجیح دی۔

    ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں اکرم چودھری صاحب میں قیام پاکستان کے وقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا ہمارے گاو¿ں کا نام شینکر گڑھ تھا۔ ہمارا خاندان ہوشیار پور سے ہجرت کر کے پاکستان آیا۔جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو بچوں کے جلوسوں میں نعرے لگتے تھے “بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان” “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” ہندو مسلمان بچوں کو مار کر بھگا دیتے تھے۔ تقسیم کے بعد ہمارا خاندان سترہ یا اٹھارہ اگست کو فیروز پور کے کسی ریلوے سٹیشن سے ٹرین پر سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچا تھا۔ خالی ہاتھ گھر سے نکلے، دہشتگرد سکھوں اور جنونی ہندوو¿ں کے قہر سے بچنے کے لیے مردوں نے ہندوو¿ں جیسی دھوتی اور خواتین نے ساڑھیاں پہنیں اور حلیہ بھی انہی جیسا بنا لیا تھا، ہمارے پاس ایک بڑا گلاس بھی تھا جس پر مندر بنے ہوئے تھے۔ لاشوں سے بھری ٹرینیں، خون سے رنگی بوگیاں لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچتی رہیں وہ لمحات یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

    ہماری ٹرین چوبیس گھنٹے میں لاہور ریلوے سٹیشن پہنچی یہ جاننا مشکل نہیں کہ چند گھنٹوں کا یہ سفر اتنا طویل کیوں ہوا، ٹرین سست رفتار میں چلانے کا جنونی سکھوں اور ہندوو¿ں کو مسلمانوں کے قتل عام کا موقع دینا تھا۔ سکھ گھوڑوں پر سوار ٹریک کے ساتھ نعرے لگاتے، فائرنگ کرتے تھے۔ ریل گاڑی کی چھت پر بیٹھے افراد میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو جبکہ بوگیوں میں مہاجرین نے ایک دوسرے کے اوپر لیٹ کر جان بچائی۔ ایسی بدحواسی، بے بسی، خوف اور دہشت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ سکھ حملہ کرتے اور خواتین کو اٹھا کر بھاگ جاتے تھے۔ بچوں کو ہوا میں اچھالتے اور برچھی پر لٹکا دیتے۔ چوبیس گھنٹوں کا یہ سفر چوبیس برسوں پر حاوی معلوم ہوتا ہے۔ ان حالات میں ہم لاہور پہنچے۔ اسے ہماری خوش قسمتی کہیں کہ والد علی محمد مرحوم محکمہ انہار میں افسر تھے۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر چیف انجینئر سے ملاقات ہوئی ہم ایک رات ان کے گھر ٹھہرے پھر لاہور سے فیصل آباد روانہ کر دیا گیا۔ فیصل آباد میں ہمیں ایک سرکاری گھر ملا، ہمارے سامنے ایک اہلکار نے گھر کا تالا توڑا۔ مکان میں موجود سامان نیلام کر کے وہ گھر ہمارے حوالے کر دیا۔

    فیصل آباد کی جناح کالونی میں ایک مہاجر کیمپ لگا ہوا تھا میرے والد علی محمد مرحوم کئی روز تک اس مہاجر کیمپ میں جاتے، جان پہچان کے لوگوں کو گھر لے آتے پھر جیسے تیسے کہیں ان کا بندوبست کرتے اور روانہ کر دیتے۔ فیصل آباد سے ہم نے کئی سکھوں اور ہندوو¿ں کو پیدل بھارت جاتے دیکھا لیکن کسی نے ان پر حملہ کیا نہ ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ انیس سو اڑتالیس میں تیسری جماعت میں دوبارہ داخل ہوا، اسی سال میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا سکول سے واپس آتا تو چلتے چلتے سوچتا رہتا کہ ہمارا کیا بنے گا جس نے ملک بنایا وہی انتقال کر گئے۔ قیام پاکستان کے بعد کافی دیر تک بالخصوص خواتین کی یہی سوچ تھی کہ انگریز نکل جائے گا اور ہم واپس چلے جائیں گے۔

    بس ایسے ہی وقت گذرتا رہا، میں سکول سے کالج اور پڑھتے پڑھتے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری میں ٹاپ کیا، پھر پی ایچ ڈی کرنے انگلینڈ چلا گیا وہاں سے واپسی پر حج کرتے ہوئے پاکستان واپس آیا۔ اس کے بعد روزگار کی تلاش میں شہر قائد پہنچا۔ یہاں پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن میں اہم عہدے پر پچیس برس خدمات انجام دیں۔ انیس سو سینتالیس میں ہجرت کرتے ہوئے سکھوں اور ہندوو¿ں کے مظالم دیکھے اس ادارے میں قومی اثاثوں کا تحفظ کرتے ہوئے بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت سے صرف ایک مرتبہ ہجرت کرتے ہوئے تکلیف برداشت کی لیکن ملازمت کے دوران کئی مرتبہ دھمکیوں اور ممکنہ حملوں سے بچنے کے لیے اہلخانہ کے ساتھ راتیں کراچی کی سڑکوں پر گذاری ہیں۔

    قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی بدانتظامی، ناانصافی، میرٹ کے قتل عام اور اپنوں کو نوازنے کے واقعات اتنی تیزی سے ہوئے کہ لوگ انگریزوں کو یاد کرتے کہ کم از کم گوروں کے دور میں میرٹ اور ناانصافی نہیں ہوتی تھی۔ پھر ان آنکھوں نے سقوط ڈھاکہ بھی دیکھا ہے۔ پاکستان ٹوٹنے کے سانحے نے سب کو رلایا ہے۔ سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو کراچی کی ایک مسجد میں قاری تنزیل الرحمن نے رو رو کر اللہ سے معافی مانگی۔ دعا میں ایسا درد، ایسی تکلیف کبھی نہیں سنی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کی تکلیف میں دیکھا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکہ تک حکومت میں رہنے والے یا اس کے بعد حکومت بنانے والے سب اس سانحے میں برابر کے شریک ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں، حقائق کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں سمجھ آئے گی کہ اداروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سازش کے تحت تباہ و برباد کیا گیا ہے۔

    جس نسل نے پاکستان بنتے دیکھا ہے بد قسمتی سے اس نسل نے ملک کو بگڑتے، ٹوٹتے اور لٹتے دیکھا ہے۔ وہ نسل خوش قسمت ہے کہ آزاد و خودمختار ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ نسل بدقسمت بھی ہے کہ آج بھی اقبال اور قائد کے پاکستان کو ڈھونڈ رہی ہے۔ آج ہم جلسوں میں الجھے ہوئے ہیں کاش کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان ماضی سے سبق سیکھیں، ملک کی خدمت کو مقصد بنائیں، ہم بہت تقسیم ہو چکے ہیں مزید تقسیم نہ کریں۔ قوم کو متحد کریں، تیرا میرا، نیا پرانا، چور ڈاکو، بددیانت، غدار کے طعنوں سے نکل کر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہوں پچھتر برس بہت ہوتے ہیں مزید وقت ضائع نہ کریں۔ ہم ان پچھتر برسوں میں بہت جنگیں لڑ چکے ہیں۔ کئی دہائیاں جنگیں لڑتے اور ان جنگوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹتے ہوئے گذار چکے ہیں۔ اب برسوں بعد امن آیا ہے۔ اس وقت کو سیاسی لڑائیوں میں ضائع نہ کریں۔

    انیس سو اڑتالیس سے لے کر آج تک تاریخ پر نظر دوڑائیں کہ کتنی مرتبہ اور کتنے عرصے کے لیے حالت جنگ میں رہے ہیں۔ اب قوم کو کسی اور سیاسی جنگ میں دھکیلنے کے بجائے زخموں پر مرہم رکھیں۔ گذرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لا سکتے لیکن آنے والے وقت کو تو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اللہ میرے وطن کا حامی و ناصر ہو۔ شکریہ

    ڈاکٹر صاحب نے زندگی بھر کا تجربہ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ کاش ہم ایک قوم بن جائیں، کاش ہمارے سیاستدان اپنی سوچ بدلیں، نوجوان نسل کی رہنمائی کریں۔ آئندہ پچیس سال کی منصوبہ بندی کریں اور خوابوں کو حقیقت میں بدلیں۔ پاکستان زندہ باد

  • سیاست دان کس کے خلاف ہیں- محمد اکرم چوہدری

    سیاست دان کس کے خلاف ہیں- محمد اکرم چوہدری

    بڑے دنوں سے کچھ “سیاسی بونوں” کے بیانات سن رہا ہوں ایسے سیاسی بونے جن کے سر پر “دست شفقت” نہ ہو تو شاید کونسلر کا الیکشن بھی نہ جیت سکیں۔ ایسے ایسے لوگوں کو زبان لگی ہوئی ہے کہ اگر انہیں کسی سیاسی جماعت کا سربراہ اپنی خدمت کے عہدے سے فارغ کر دے تو کوئی انہیں ٹی وی پر بھی نہ بلائے۔

    یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے لوگوں کو “رہنما” لکھا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہے جو ہر وقت رہنمائی کے لیے کہیں اور دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ سارے مل جل کر افواجِ پاکستان کے پیچھے پڑے ہیں۔ پہلے فواد چودھری بولے وہ چند دنوں سے مسلسل کسی کو مشورے دے رہے ہیں، تبدیلی کا اعلان کر رہے ہیں، میڈیا کے انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں انہیں کسی کی مداخلت پر اعتراض ہے۔ فواد چودھری کو اسٹیبلشمنٹ کے کردار یا حدود پر بات کرنے سے پہلے کچھ دیر کے لیے ذرا سوچ لینا چاہیے۔ وہ یہاں تک کیسے پہنچے ہیں، کب کہاں سے مدد ملتی رہی ہے۔ کیسے کیسے لوگوں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی اگر آج کسی کو مشورے دے رہے ہیں تو اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اگر انہیں یا ان کے کسی سیاسی ساتھی کو آج انقلاب کی خواہش ہے تو یہ انقلاب دو ہزار اٹھارہ یا اس سے کچھ پہلے کہاں سویا ہوا تھا۔ آج اگر انہیں یہ لگتا ہے کہ فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں تو صرف آج کے فیصلوں پر اعتراض کیوں ہے۔

    قوم کو پورا سچ کیوں نہیں بتاتے، آدھا سچ پورے جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ اگر فواد چودھری چاہتے ہیں کہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں تو پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ شروع کہاں سے کرنا ہے۔ کون سی پارلیمنٹ، اگر پارلیمنٹ سپریم ہے تو پھر وہ کیوں قومی اسمبلی سے باہر ہیں، کیوں ان کی جماعت جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنتی۔ جو کچھ لگ بھگ پونے چار سال تک اقتدار کے ایوانوں میں ہوتا رہا ہے کیا وہ سابق وفاقی وزیر سے ڈھکا چھپا ہے۔ اگر وہ دوسروں پر الزام دھر رہے ہیں تو قوم کو یہ بھی بتائیں کہ کیا

    خیبر پختونخوا کے مسائل کا ذمہ دار بھی کوئی ادارہ ہے، کیا کے پی کے میں لگ بھگ نو سال سے پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے۔ اس دوران خیبر پختونخوا کے لوگوں کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ کیا نو سال کا عرصہ کم ہے، کیا اس دوران صوبے میں بڑی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی تھی۔ اگر وہاں پی ٹی آئی ناکام ہے تو اس کا ذمہ دار کوئی ادارہ ہے۔ کیا فواد یہ چاہتے ہیں کہ ادارے صرف وہ فیصلے کریں جن سے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ پہنچے۔ زیادہ لکھنا یا کہنا نہیں چاہتا لیکن کسی کو بھی بات کرنے سے پہلے حالات و واقعات اور ماضی پر نظر ضرور دوڑانی چاہیے۔

    ایک شہباز گل ہیں۔ کیا انہوں نے کوئی حلقہ جیتا ہوا ہے۔ کیا انہوں نے پاکستان کی بہت خدمت کی ہے، کیا انہوں نے صحت، تعلیم یا سیاسی میدان میں قوم کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اگر اپسا کیا نہیں ہے تو پھر یہ اتنی بڑھ بڑھ کر باتیں کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔ اگر آج یہ استعفوں کا تقاضا کر رہے ہیں یہ تو یہ تقاضا اس وقت کیوں نہیں کیا گیا جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت بن رہی تھی یا پھر اس وقت کیوں نہیں کہا جب ہر روز یہ کہا جاتا تھا کہ ہم ایک پیج پر ہیں ، مثالی تعلقات ہیں، ایسے تعلقات تو کبھی کسی کے نہیں تھے۔ اب اچانک حکومت سے نکلنے کے بعد ہر کسی کو انقلابی بننے کا شوق ہو چلا ہے۔ اس کی کیا ضمانت ہے کہ کبھی یوٹرن نہیں لیں گے۔ باتیں کرنا آسان ہیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں، بات کرنے سے پہلے اپنے ماضی کو دیکھیں پھر آگے بڑھیں۔

    ایسے لوگوں کو مداخلت پر عارضی اعتراض ہوتا ہے۔ بہرحال انہیں قوم کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ اعتراض کی اصل وجہ کیا ہے۔ کیا ان کی حکومت میں ڈالر کا اوپر جانا بھی اداروں کی ناکامی تھی، کیا ان کے دورِ حکومت میں پنجاب میں کوئی کام نہ ہونے کی ذمہ داری بھی کسی ادارے پر عائد کرنی ہے۔ کچھ خدا کا خود کریں، لوگوں کی زندگی مشکل بناتے رہے ہیں، لوگ چیختے چلاتے رہے اور آپ کہتے تھے خطے میں سب سے سستا پیٹرول پاکستان میں ہے۔ صحافت سے انہیں چڑ ہے، زبان سے اچھا لفظ ادا نہیں ہوتا۔ کچھ خیال کریں۔ آزادی مانگتے ہیں اور حکومت ملنے پر جو کچھ کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسی ایسی ریکارڈنگ ہے کہ ملکی سلامتی کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایسے باتیں لکھتے ہوئے دل دہل جاتا ہے لیکن ان سیاست دانوں کو ذرا پرواہ نہیں۔

    نون لیگ کو بھی ضمنی انتخابات میں ناکامی کے بعد ماضی یاد آ رہا ہے۔ وہ بھی کسی کے ساتھ گلے شکوے کر رہے ہیں۔ کبھی شاہد خاقان عباسی بولتے ہیں تو کبھی جاوید لطیف برستے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق بھی نیب کیس کچھ یاد دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا دہائیوں تک حکومت کرنے کے باوجود بھی انہیں کسی سے گلہ کرنا چاہیے اور کچھ نہیں تو مسلسل دس سال میاں شہباز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے۔ اس سے پہلے ان کے بھائی بھی وزیر اعلیٰ رہے پھر وہ خود بھی رہے کیا انہیں بھی کسی ادارے نے کام کرنے اور پنجاب کو بہتر بنانے سے روکا تھا۔ اگر آج بھی لوگوں کو لاہور میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو اس کا

    ذمہ دار بھی کوئی ادارہ ہے۔ ضرور بات کریں لیکن قوم کو یہ بھی بتائیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر سب سے پہلے حملے کس نے شروع کیے تھے۔ اس فوج مخالف بیانیے اور فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی مہم کس نے شروع کی، جلسوں میں افواجِ پاکستان کے سربراہ پر الزامات عائد کرتے رہے۔ یہ چند کردار ہیں۔ ایسے کئی لوگ ہیں جو یہ باتیں کرتے ہیں۔ کیا انہیں کبھی کوئی سہولت نہیں ملی۔ کیا انہیں بغیر کسی کوشش اور خدمت کے اقتدار ملا ہے۔

    یہ سب مل کر اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑے ہیں یہ صرف اور صرف اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ پتہ لگنا چاہیے کہ یہ کس کے دشمن ہیں، کیا مخالف جماعت کے اراکین اسمبلی کے دشمن ہیں ، کیا یہ قومی سلامتی کے دشمن ہیں، کیا یہ ملک کی ترقی کے دشمن ہیں، کیا یہ دفاع کے دشمن ہیں۔ کسی نہ کسی کے دشمن تو ضرور ہیں۔

  • فیس بک کے غازی – حامد تابانی

    فیس بک کے غازی – حامد تابانی

    ہمارے بعض ساتھی رجب طیب اردگان بننے کی کوشش کر تے ہیں۔اپنی باتوں ،تقریروں ،بحث مباحثوں اور چا ل ڈھال سے ایسا تاثر پیش کر تے ہیں گویا طیب اردگان ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔
    تبدیلی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے اور پھر پھسل کر ارد گرد کی چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم عمل کو ارادوں کے حد تک محدود ر کھتے ہیں۔اور جب عملی مظاہرے کا وقت ہوتا ہے یہ ارادے غائب ہو تے ہیں۔وقت گزر جاتا ہے اور ارادے ارادے ہی رہ جاتے ہیں۔
    ترقیاتی کاموں کو چھوڑیئے صاحب!ہم تو کسی سے میٹھے دو بول نہیں بول سکتے۔کسی کے سلام کا جواب نہیں دے سکتے۔قریبی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں جا سکتے۔کسی کے چپل درست نہیں کر سکتے ۔کسی کی بات نہیں سن سکتے ،کسی کو پانی پلانا اپنا توہیں سمجھتے ہیں اور باتیں طیب اردگان کی کرتے ہیں۔
    کہتے ہیں کہ کوا ہنس کی چال پہ چل پڑا کہ اپنی چال بھول گیا۔ہم لوگ بھی کوئے کیطرح چال بدل رہے ہیں اور انجام اپنی چال بھول جاتے ہیں۔مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ان لوگوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھتا ہوں۔
    اللہ تعالیٰ ہر کسی کو کچھ کرنے،کچھ دکھانے ،اور سنبھلنے کے موقع فراہم کرتاہے ۔یہی وقت ہے کہ سنبھل جاوء،کچھ کرو،آگے بڑھو۔دانا لوگ ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہیںاور امر ہوجاتے ہیں۔جبکہ ناداںاور بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ ابھی بہت سا وقت ہے،اور جب اسے احساس ہوتا ہے وقت گزر گیا ہوتا ہے۔ایسے لوگ فنا ہو جاتے ہیں۔
    موقعے بار بار نہیں ملتے اور نہ فراہم ہوتے ہیں۔اگر ایک مرتبہ موقع گنوا دیا تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ کی نصرت اس سے منہ موڑ لیتی ہے۔
    بات یہ نہیں کہ عوام کے لیے کیا کچھ کیا بلکہ بات یہ ہے کہ کوشش کتنی کی گئی۔کتنے لوگ آپ کی سیرت وکردار،عادات واطوار،اور اخلاق کے گرویدہ ہوگئے۔کتنے مصیبت ذدہ لوگوں تک پہنچ گئے۔اگر کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم تو بول سکتے ہیں۔اپنی مشکلات بتا سکتے ہیں۔
    سچ تو وہ لوگ بول سکتے ہیں جو درست راستے سے آئے ہوں۔چور دروازوں سے آئے ہوئے لوگ کھبی سچ نہیں بول سکتے۔ جب کسی معا شرے میںاونچ نیچ کی فضا ہو،انصاف کی فراہمی کا فقدان ہو،مہنگائی عروج پر ہواوربیروزگاری عام ہو ۔ایسے میں چند لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیںجو تبدیلی کے نام پر،حقوق کے نام پر اور اسلام کے نام پر ہم سے ووٹ مانگنے کی اسدعا کرتے ہیں اور ہم ان کے جھانسے میںآکر ان کو بیڑاپار کرنے والے تصور کرکے جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیتے ہیں ۔ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے ۔لیکن یہ ’’مداری‘‘لوگ ہیںجو اپنا تماشہ دکھا کر اپنے ووٹروں ،ارکان وجملہ کارکنان کو بھول کر اوجھل ہوتے ہیں۔
    ذرا سوچئیے!کون ہے وہ سیاست دان جو بے غرض لوگوں کی فلاح کے لیے سوچتا ہے۔ایک معمولی سا کمبل دیتے وقت پارٹی قابضین کے ہمراہ میڈیا کے سامنے تماشہ کھڑا کر دیتے ہیں۔
    مجھ اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ فلاں کا تعلق فلاں قبیلے سے ہے،وہ روکھی سوکھی کھاتا ہے یا فائیو سٹار میں،معمولی لباس پہنتا ہے یا مہنگا پوشا ک زیب تن کرتا ہے،پیدل سفر کرتا ہے یا مہنگی گاڑی میں،داڑھی والا ہے یا مونچھ اور داڑھی دونوں سے بے نیاز۔
    مجھے تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کام کتنا کرتا ہے،حقیقی کام کرتا ہے یا ادھر ادھر کی پھینکتا ہے،اس تک رسائی ممکن یا نہیں،وہ میری بات سنتا ہے یا مجھے سناتا ہے،میٹھے اور نرم لہجے میں بات کرتا ہے یا روکھے پن سے ،اپنی مفادات کی سوچتا ہے یا عوامی مفادات عزیز رکھتے ہے،قول وفعل میں یکساں ہے یا ان میں تضاد ہے،اخلاص سے معمور دل رکھتا ہے یا دولت اور شہرت کا بھوکا۔
    ہمارے ملک کی سیاست میں عبادت کم اور منافقت زیادہ ہے۔یہاں فرشتہ صفت لوگ بہت ہی کم ہیں۔بعض لوگوں کے اخلاص پر شک کرنا گناہ ہوتا ہے لیکن ایسے لوگوں کو آگے آنے نہیں دیا جاتایا پھر پارٹی کی مفادات کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔باقی سب ایک جیسے ہیںکوئی کھلم کھلا ملک کا دشمن ہے تو کسی نے منافقت اور دو رنگی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور کوئی مذہب کے نام روٹیاں توڑ رہا ہے۔
    بخدا ان تبدیلی کے دعویداروں اور انقلاب کے داعیوں سے مجھے وہ شخص ہزارہا درجے بہتر لگتا ہے جو پلاسٹک کے تھیلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے جھک جا تا ہے۔روٹی کے ٹکڑے کو اٹھانے کے لیے اپنے ہاتھ گندے کرتے ہیں۔
    اگر سب ایک جیسے ہیں تو پھر جھگڑا کس بات پر۔کیوں اپنی توانا ئیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کرتے ہیں۔حقیقی کام بہت مشکل ہوتا ہے۔’’فیس بک ‘‘ کے مورچوں سے تیر اور گولے پھینکنے سے نہ توانقلاب آیا ہے اور آئے گا۔۔۔۔۔

  • ڈگڈگی-حامد میر

    ڈگڈگی-حامد میر

    hamid_mir1
    پرانے زمانے کے کئی بادشاہ درندوں کو آپس میں لڑانے کا شوق رکھتے تھے ۔ یہ بادشاہ شیر اور چیتوں کی لڑائی کراتے۔ کبھی شیر کو ہاتھی یا گینڈے سے بھی لڑا دیتے اور گینڈے کے سینگ سے شیر کی درگت بنتے دیکھ کر خوش ہوا کرتے ۔ ایک زمانے میں نصیر الدین حیدر لکھنو کا نواب تھا ۔ اس کے پاس ایک ایسا خونخوار گھوڑا تھا جو شیر سے لڑائی جیت جاتا تھا ۔ ایک دفعہ نواب صاحب نے اس گھوڑے کے مقابلے پر تین بھینسے چھوڑ دیئے لیکن گھوڑا ان بھینسوں پر بھی حاوی ہو گیا ۔جہاں جہاں حکمران شیر، چیتوں، ہاتھیوں اور گینڈوں کو آپس میں لڑاتے تھے وہاں کے عام لوگوں نے مرغے، بٹیر اور تیتر لڑانے کے شوق پال لئے۔ ہمارے ہاں یہ شوق ابھی تک موجود ہے اور لڑنے والے اکثر مرغوں، بٹیروں اور تیتروں کو بڑے فخر سے شیرو، رستم اور مولا جٹ کے نام دیئے جاتے ہیں ۔پاکستان کی سیاست میں بھی آپ کو ایسے کئی مرغے، بٹیر اور تیتر نظر آئیں گے جنہیں شیر، چیتا، رستم، سہراب، وطن کی شان ، ملت کی آن اور نجانے کیا کچھ کہا جاتا ہے ۔ یہ مرغے، بٹیر اور تیتر جب ایک دوسرے کو للکارتے ہیں اور ایک دوسرے کو نوچتے ہیں تو ارد گرد بیٹھے ہوئے تماشائی زور زور سے شاباش شاباش، زبردست زبردست، واہ واہ اور چھا گیا کے نعرے لگاتے ہیں لیکن انہیں آپس میں لڑانے والے کہیں دور بیٹھ کر ٹی وی اسکرینوں پر لڑائی کا مزا لیتے ہیں ۔
    سیاسی لڑائیوں میں استعمال ہونے والے اکثر مرغوں، بٹیروں اور تیتروں کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ ملک و قوم کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔جو لڑنے کے قابل نہیں رہتا وہ لڑا ئی کے میدان میں آنے سے گریز کرتا ہے اور یہ دعوے شروع کر دیتا ہے وہ ایسی لڑائی میں شامل نہیں ہو گا جس سے جمہوریت خطرے میں پڑ جائے۔ اس قسم کی بہانے بازیاں کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ لڑائی کا فیصلہ انہوں نے نہیں بلکہ کسی اور نے کرنا ہے ۔ شاید اسی لئے پاکستانی سیاست میں ڈگڈگی کا ذکر بھی سنائی دینے لگا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈگڈگی کا ذکر کرنے والوں کو بذات خود بھی ڈگڈگی بجانے والوں کی صحبت سے کافی فائدہ حاصل ہو چکا ہے لیکن آج کل انہیں ڈگڈگی بہت بری لگتی ہے کیونکہ ڈگڈگی کی تال پر ان سے بہت اچھا ناچنے والے میدان میں آ چکے ہیں ۔ قوم کی مسیحائی کے یہ دعویدار خود ڈگڈگی بجائیں تو ٹھیک، دوسروں کو نچوائیں تو ٹھیک لیکن کوئی ان کے مقابلے پر ڈگڈگی بجانی شروع کر دے تو وہ بہت برا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ پاکستان کی بقاء کی جنگ نہیں بلکہ کچھ صاحبان اختیار کی انا کی جنگ ہے ۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ آپس میں دست وگریبان ہے ۔
    طاقتور لوگوں کی ایک لڑائی کراچی میں چل رہی ہے ۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی لڑائی کو کوئی صاحب ہوش اصولوں کی لڑائی قرار نہیں دے سکتا ۔ مصطفیٰ کمال کی طرف سے ڈاکٹر عشرت پر لگائے جانے والے الزامات ایک فرد کیخلاف نہیں بلکہ ان طاقتور اداروں کے خلاف چارج شیٹ ہیں جن کی مرضی اور منظوری سے ڈاکٹر عشرت پچھلے 14برس سے گورنر ہائوس سندھ میں بیٹھے ہیں ۔مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر عشرت العباد نے جو تماشہ شروع کیا ہے اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی ڈگڈگی موجود ہے لیکن اسے بجانے والا کراچی میں نہیں کہیں اور بیٹھا ہے ۔ آئین کے مطابق سندھ کا گورنر دراصل صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے ۔ موجودہ گورنر سندھ کو جنرل پرویز مشرف لیکر آئے تھے لیکن آج کل وہ اس وفاق کے نمائندے ہیں جس میں تمام اختیارات وزیر اعظم نواز شریف کے پاس ہیں ۔ صوبے کے گورنر کی طرف سے کھلم کھلا سیاسی بیانات پر وفاق کی خاموشی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈگڈگی والا اسلام آباد کے ریڈ زون میں کہیں بیٹھا ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون ہو سکتا ہے ؟ زیادہ مت سوچیئےبس اتنا جان لیجئے کہ اسلام آباد اور آس پاس کے علاقوں میں ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد ڈگڈگی والے ہیں اور ’’پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘‘ کی صدائیں لگا رہے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ حکومت تو مضبوط نظر آتی ہے لیکن جمہوریت کمزور ہے ۔ سیاست دان اپنی لڑائی میں پاکستان کے ریاستی اداروں کو گھسیٹ رہے ہیں ۔
    ہمارے کچھ ادارے تو خود ہی سیاست میں گھس جاتے ہیں اور اگر کوئی ادارہ سیاست میں مداخلت سے گریز کرے تو اسے زبردستی سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔ ہم سب نے دیکھا کہ پاکستان کے آئین سے غداری کے ملزم جنرل پرویز مشرف کو چار چھ ہفتوں کیلئے علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجنا حکومتی فیصلہ تھا ۔ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے میں ایسی کوئی اجازت نہ دی گئی تھی لیکن حکومت نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مشرف کو بیرون ملک بھجوایا جا رہا ہے ۔ پانامہ پیپرز کا معاملہ سامنے آیا تو اسے طے کرنے کی بجائے لٹکایا گیا اورا سپیکر قومی اسمبلی کو اس میں گھسیٹ کر انہیں متنازعہ بنا دیا گیا ۔ اب عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا ہے تو حکومت اس معاملے کو سیاسی و انتظامی طریقے سے حل کرنے کی بجائے ایک دفعہ پھر عدالتوں سے یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ وہ عمران خان کو 2نومبر کے احتجاج سے روک دیں ۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ عدالتوں کو سیاست میں گھسیٹنے کی بجائے پانامہ پیپرز پر اپوزیشن کے موقف پر کچھ لچک دکھائیں اور عمران خان سے 2نومبر کے احتجاج کا جواز چھین لیں؟
    بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان آئین سے بغاوت نہیں ؟ میں جواب میں کہتا ہوں کہ یقیناً کسی فرد یا جماعت کو اسلام آباد بند کرنے کا اختیار نہیں لیکن جب ملک کا چیف جسٹس یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے تو پھر آپ اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کو آئین سے بغاوت کیسے قرار دیں گے ؟ یہ ناچیز پانامہ پیپرز کے معاملے پر حکومت کے تاخیری حربوں سے نالاں ہے اور اسلام آباد بند کرنے کے اعلان پر بھی پریشان ہے ۔ وزیر اعظم صاحب چاہیں تو سب کی پریشانی دور ہو سکتی ہے ۔ وہ اپنی ڈگڈگی بند کر دیں تو دوسری طرف سے ڈگڈگی بجانے والا خاموشی پر مجبور ہو جائے گا بصورت دیگر دونوں طرف سے ڈگڈگی بجتی رہےگی اور مجھ جیسے پاگل کسی ایک کی ڈگڈگی پر ناچنے کی بجائے دونوں پر انگلی اٹھاتے رہیں گے۔