ہوم << سیاست دانوں سے التجا، ہمیں مزید تقسیم نہ کریں- محمد اکرم چوہدری

سیاست دانوں سے التجا، ہمیں مزید تقسیم نہ کریں- محمد اکرم چوہدری

یوم آزادی مبارک، یقیناً یہ ملک ترقی کرے گا، حالات بہتر ہوں گے، ہم آگے بڑھیں گے، مسائل سے نکلیں گے، مشکلات ختم ہوں گی، قوم متحد ہو گی۔ نوجوان تخلیقی کام کریں گے۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوں گے۔

سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں کام کرنے کا انداز تبدیل ہو گا۔ آج ہم جو کچھ بھی ہیں پاکستان کی وجہ سے ہیں، کسی بھی مذہبی، سیاسی جماعت کے رکن بعد میں اور پاکستانی پہلے ہیں۔ یہ ضرور دیکھیں کہ مسائل ہیں لیکن یہ بھی سامنے رکھیں کہ ہم کن حالات سے گذر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ پاکستان کو برا بھلا کہنا، خامیاں نکالنا بہت آسان ہے۔ نکالتے رہیں لیکن آزادی جیسی عظیم نعمت کی قدر کریں، ملک اپنا ہے، ملک ان گنت قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ کبھی پورے شہر میں چند گاڑیاں ہوا کرتی تھیں آج ہزاروں لاکھوں گاڑیاں ایک ہی وقت میں پاکستان کی سڑکوں پر نظر آتی ہیں، ہم بے سروسامانی کے عالم میں تھے لیکن آج ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہمارے پاس گھر نہیں تھے لیکن آج لاکھوں، کروڑوں لوگ جدید ترین گھروں میں رہتے ہیں.

بہترین نہ ہوں لیکن صحت کی سہولیات تو ہیں، اپنے ادارے ہیں، تعلیم عالمی معیار کی نہ بھی ہو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہے، اس ملک نے ہمیں پہچان دی ہے، مقام دیا ہے، یقین مانیے تمام خرابیاں اور برائیاں ہمارے اندر ہیں، ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ملک آگے نہیں بڑھ رہا، ہمارے فیصلے ایسے ہیں کہ ہم رکے ہوئے ہیں، باہمی اختلافات اور ذاتی مفادات کی وجہ سے ہم پیچھے ہیں۔ ملک کو برا بھلا کہنے کے بجائے اگر ہم اپنے کاموں پر توجہ دیں تو مسائل ختم ہو سکتے ہیں اور ملک ترقی بھی کرے گا۔ یہ وطن ہمارے آباو¿ اجداد کی بے پناہ محنت اور قربانیوں سے حاصل ہوا ہے چونکہ ہم پیدائشی آزاد ہیں اس لیے ہمیں آزادی کی قدر بھی نہیں ہے۔

جن لوگوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا ہے قیام پاکستان سے آج تک مختلف ادوار دیکھے ہیں ان سے پوچھیں کہ آزادی کی قدر و قیمت کیا ہے، اس ملک کی اہمیت کیا ہے۔ مجھے ڈاکٹر مشتاق احمد نے تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات لکھ بھیجے ہیں۔ اس میں یقیناً ہم سب کے لیے سبق ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملک سے محبت کی چلتی پھرتی داستان ہیں۔ وطن کی خدمت کرتے رہے، مشکلات کا سامنا کیا ترقی یافتہ ممالک کی کئی پیشکشوں کو رد کرتے ہوئے اپنے وطن میں رہنے کو ترجیح دی۔

ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں اکرم چودھری صاحب میں قیام پاکستان کے وقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا ہمارے گاو¿ں کا نام شینکر گڑھ تھا۔ ہمارا خاندان ہوشیار پور سے ہجرت کر کے پاکستان آیا۔جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو بچوں کے جلوسوں میں نعرے لگتے تھے "بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان" "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" ہندو مسلمان بچوں کو مار کر بھگا دیتے تھے۔ تقسیم کے بعد ہمارا خاندان سترہ یا اٹھارہ اگست کو فیروز پور کے کسی ریلوے سٹیشن سے ٹرین پر سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچا تھا۔ خالی ہاتھ گھر سے نکلے، دہشتگرد سکھوں اور جنونی ہندوو¿ں کے قہر سے بچنے کے لیے مردوں نے ہندوو¿ں جیسی دھوتی اور خواتین نے ساڑھیاں پہنیں اور حلیہ بھی انہی جیسا بنا لیا تھا، ہمارے پاس ایک بڑا گلاس بھی تھا جس پر مندر بنے ہوئے تھے۔ لاشوں سے بھری ٹرینیں، خون سے رنگی بوگیاں لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچتی رہیں وہ لمحات یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ہماری ٹرین چوبیس گھنٹے میں لاہور ریلوے سٹیشن پہنچی یہ جاننا مشکل نہیں کہ چند گھنٹوں کا یہ سفر اتنا طویل کیوں ہوا، ٹرین سست رفتار میں چلانے کا جنونی سکھوں اور ہندوو¿ں کو مسلمانوں کے قتل عام کا موقع دینا تھا۔ سکھ گھوڑوں پر سوار ٹریک کے ساتھ نعرے لگاتے، فائرنگ کرتے تھے۔ ریل گاڑی کی چھت پر بیٹھے افراد میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو جبکہ بوگیوں میں مہاجرین نے ایک دوسرے کے اوپر لیٹ کر جان بچائی۔ ایسی بدحواسی، بے بسی، خوف اور دہشت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ سکھ حملہ کرتے اور خواتین کو اٹھا کر بھاگ جاتے تھے۔ بچوں کو ہوا میں اچھالتے اور برچھی پر لٹکا دیتے۔ چوبیس گھنٹوں کا یہ سفر چوبیس برسوں پر حاوی معلوم ہوتا ہے۔ ان حالات میں ہم لاہور پہنچے۔ اسے ہماری خوش قسمتی کہیں کہ والد علی محمد مرحوم محکمہ انہار میں افسر تھے۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر چیف انجینئر سے ملاقات ہوئی ہم ایک رات ان کے گھر ٹھہرے پھر لاہور سے فیصل آباد روانہ کر دیا گیا۔ فیصل آباد میں ہمیں ایک سرکاری گھر ملا، ہمارے سامنے ایک اہلکار نے گھر کا تالا توڑا۔ مکان میں موجود سامان نیلام کر کے وہ گھر ہمارے حوالے کر دیا۔

فیصل آباد کی جناح کالونی میں ایک مہاجر کیمپ لگا ہوا تھا میرے والد علی محمد مرحوم کئی روز تک اس مہاجر کیمپ میں جاتے، جان پہچان کے لوگوں کو گھر لے آتے پھر جیسے تیسے کہیں ان کا بندوبست کرتے اور روانہ کر دیتے۔ فیصل آباد سے ہم نے کئی سکھوں اور ہندوو¿ں کو پیدل بھارت جاتے دیکھا لیکن کسی نے ان پر حملہ کیا نہ ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ انیس سو اڑتالیس میں تیسری جماعت میں دوبارہ داخل ہوا، اسی سال میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا سکول سے واپس آتا تو چلتے چلتے سوچتا رہتا کہ ہمارا کیا بنے گا جس نے ملک بنایا وہی انتقال کر گئے۔ قیام پاکستان کے بعد کافی دیر تک بالخصوص خواتین کی یہی سوچ تھی کہ انگریز نکل جائے گا اور ہم واپس چلے جائیں گے۔

بس ایسے ہی وقت گذرتا رہا، میں سکول سے کالج اور پڑھتے پڑھتے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری میں ٹاپ کیا، پھر پی ایچ ڈی کرنے انگلینڈ چلا گیا وہاں سے واپسی پر حج کرتے ہوئے پاکستان واپس آیا۔ اس کے بعد روزگار کی تلاش میں شہر قائد پہنچا۔ یہاں پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن میں اہم عہدے پر پچیس برس خدمات انجام دیں۔ انیس سو سینتالیس میں ہجرت کرتے ہوئے سکھوں اور ہندوو¿ں کے مظالم دیکھے اس ادارے میں قومی اثاثوں کا تحفظ کرتے ہوئے بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت سے صرف ایک مرتبہ ہجرت کرتے ہوئے تکلیف برداشت کی لیکن ملازمت کے دوران کئی مرتبہ دھمکیوں اور ممکنہ حملوں سے بچنے کے لیے اہلخانہ کے ساتھ راتیں کراچی کی سڑکوں پر گذاری ہیں۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی بدانتظامی، ناانصافی، میرٹ کے قتل عام اور اپنوں کو نوازنے کے واقعات اتنی تیزی سے ہوئے کہ لوگ انگریزوں کو یاد کرتے کہ کم از کم گوروں کے دور میں میرٹ اور ناانصافی نہیں ہوتی تھی۔ پھر ان آنکھوں نے سقوط ڈھاکہ بھی دیکھا ہے۔ پاکستان ٹوٹنے کے سانحے نے سب کو رلایا ہے۔ سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو کراچی کی ایک مسجد میں قاری تنزیل الرحمن نے رو رو کر اللہ سے معافی مانگی۔ دعا میں ایسا درد، ایسی تکلیف کبھی نہیں سنی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کی تکلیف میں دیکھا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکہ تک حکومت میں رہنے والے یا اس کے بعد حکومت بنانے والے سب اس سانحے میں برابر کے شریک ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں، حقائق کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں سمجھ آئے گی کہ اداروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سازش کے تحت تباہ و برباد کیا گیا ہے۔

جس نسل نے پاکستان بنتے دیکھا ہے بد قسمتی سے اس نسل نے ملک کو بگڑتے، ٹوٹتے اور لٹتے دیکھا ہے۔ وہ نسل خوش قسمت ہے کہ آزاد و خودمختار ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ نسل بدقسمت بھی ہے کہ آج بھی اقبال اور قائد کے پاکستان کو ڈھونڈ رہی ہے۔ آج ہم جلسوں میں الجھے ہوئے ہیں کاش کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان ماضی سے سبق سیکھیں، ملک کی خدمت کو مقصد بنائیں، ہم بہت تقسیم ہو چکے ہیں مزید تقسیم نہ کریں۔ قوم کو متحد کریں، تیرا میرا، نیا پرانا، چور ڈاکو، بددیانت، غدار کے طعنوں سے نکل کر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہوں پچھتر برس بہت ہوتے ہیں مزید وقت ضائع نہ کریں۔ ہم ان پچھتر برسوں میں بہت جنگیں لڑ چکے ہیں۔ کئی دہائیاں جنگیں لڑتے اور ان جنگوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹتے ہوئے گذار چکے ہیں۔ اب برسوں بعد امن آیا ہے۔ اس وقت کو سیاسی لڑائیوں میں ضائع نہ کریں۔

انیس سو اڑتالیس سے لے کر آج تک تاریخ پر نظر دوڑائیں کہ کتنی مرتبہ اور کتنے عرصے کے لیے حالت جنگ میں رہے ہیں۔ اب قوم کو کسی اور سیاسی جنگ میں دھکیلنے کے بجائے زخموں پر مرہم رکھیں۔ گذرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لا سکتے لیکن آنے والے وقت کو تو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اللہ میرے وطن کا حامی و ناصر ہو۔ شکریہ

ڈاکٹر صاحب نے زندگی بھر کا تجربہ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ کاش ہم ایک قوم بن جائیں، کاش ہمارے سیاستدان اپنی سوچ بدلیں، نوجوان نسل کی رہنمائی کریں۔ آئندہ پچیس سال کی منصوبہ بندی کریں اور خوابوں کو حقیقت میں بدلیں۔ پاکستان زندہ باد

Comments

Click here to post a comment