Tag: حب الوطنی

  • حُبُّ الوَطنی – مفتی منیب الرحمن

    حُبُّ الوَطنی – مفتی منیب الرحمن

    حُبُّ الوطَنی کے معنی ہیں:’’اپنے وطن سے محبت کرنا‘‘، وطن سے محبت انسان کا فطری تقاضا ہے ، ایک حد تک یہ تقاضا چرند پرند اور حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے،روزی کی تلاش میں دن بھر سرگرداں رہنے کے بعد پرندے اپنے گھونسلوں میں آتے ہیں، شہد کی مکھیاں اپنے چھتوں کی طرف لوٹتی ہیں، شیر اپنی کچھار کی طرف آتا ہے،پالتو جانور اپنے باڑے کی طرف آتے ہیں، حتیٰ کہ سردیوں کے موسم میں گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرنے والے سائبیریا کے پرندے موسم بدلتے ہی اپنے وطن کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم اللہ پر توکل کرو جیساکہ اُس پر توکل کرنے کا حق ہے، تو تمھیں بھی اُسی طرح رزق عطا کیا جائے گاجیساکہ پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے (اپنے گھونسلوں کی طرف )لوٹتے ہیں، (ترمذی: 2344)‘‘۔ سلیمان علیہ السلام اپنے تخت پر فضا میں محوِ پرواز تھے ، زمین پر چیونٹیوں کی ملکہ نے اپنی رعایا کو حکم دیا ،اس کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(۱) ’’ یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں آئے تو (اُن کی ملکہ) چیونٹی نے کہا: چیونٹیو! اپنے بلوں میں گھس جائو، کہیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں ،(النمل:18)‘‘،(۲) ’’اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ پہاڑوں ، درختوں اوراونچے چھپروں میں گھر بنائیں،(النحل:68)‘‘۔ پس معلوم ہوا کہ چیونٹیوں اورشہد کی مکھیوں میں بھی اپنے ٹھکانے کا شعور موجود ہوتا ہے۔

    قرآنِ کریم نے صرف اس صورت میں ترکِ وطن کی اجازت دی ہے ،جب اپنے وطن میں دین وایمان ، عزت وآبرو اور جان ومال محفوظ نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور(اے مسلمانو!) تمھیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے، حالانکہ کمزور مرد ، عورتیں اور بچے یہ دعا کر رہے ہیں:اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال دے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنادے اور کسی کواپنے پاس سے ہمارا مددگار بنادے، (النسآء:75)‘‘۔

    چونکہ مکۂ مکرمہ میں مسلمانوں کی جان ومال ، عزت وآبرو اور دین وایمان محفوظ نہ تھے، اس لیے ہجرت کا حکم ہوا ، یہاں وہ ہجرت مراد نہیں ہے جو بہتر روزگار ، اعلیٰ تعلیم ، زندگی کے عیش وعشرت ،راحتوں کے حصول اور بہتر مستقبل کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ وطن کی محبت اگرچہ غالب رہتی ہے ، لیکن اگر وطن میں جان ومال اور عزت وآبرو محفوظ نہ ہو تو دین وایمان اور جان کی حفاظت کے لیے بادلِ ناخواستہ ترکِ وطن کرنا پڑتا ہے۔

    رسول اللہ ﷺ جب کفارِ مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مدینۂ طیبہ تشریف لے گئے تو آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! تو مدینے کو بھی ہمارے لیے اسی طرح محبوب بنا، جس طرح تو نے ہمارے لیے مکہ کومحبوب بنایا تھا یا اُس سے بھی زیادہ محبوب بنادے ،اس کے بخار کو جُحفہ کی طرف منتقل فرمااور اس کے ناپ تول کے پیمانوں میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرما،(بخاری:6372)‘‘، ایک روایت میںہے:’’اس کی آب وہوا کو ہمارے لیے سازگار بنادے، (بخاری: 1889)‘‘۔

    اس سے معلوم ہوا کہ وطن کی محبت انسان کے دل ودماغ اور روح میں پیوست ہوتی ہے، یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ جب سید المرسلین ﷺ پر غارِ حرا میں پہلی وحی ربانی نازل ہوئی ، آپ اپنے کاشانۂ اقدس میں تشریف لائے اور اُمُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سارا ماجرا بیان کیا اور اندیشے کا اظہار کیا ، انھوں نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: آپ کو خوش خبری ہو، قسم بخدا! اللہ آپ کو بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مشکلات میں مبتلا لوگوں کی مددکرتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچاورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں .

    انھوں نے زمانۂ جاہلیت میں نصرانی مذہب کو اختیار کرلیا تھا ، وہ لکھنا جانتے تھے اور انجیل کو عربی میں لکھتے ، وہ بوڑھے شخص تھے ، ان کی بینائی چلی گئی تھی، اُن سے حضرت خدیجہ نے کہا: چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنو، ورقہ بن نوفل نے کہا: بھتیجے! بولو کیا کہنا چاہتے ہو، رسول اللہ ﷺ نے سارا ماجرا ان کو بیان کیا، ورقہ بن نوفل نے کہا: یہ وہی ناموس (رازدار فرشتہ) ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش! جب آپ کی قوم آپ کو جِلا وطن کرے گی ،اُس وقت میں زندہ اور جوان ہوتا (اور آپ کی حمایت میں کھڑا ہوتا)، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا وہ مجھے اپنے وطن سے نکال دیں گے،ورقہ بن نوفل نے کہا: جو شخص بھی آپ کی طرح پیغامِ وحی لے کر آیا،اُس کی قوم اُس کی دشمن بن گئی ،اگر میں آپ کے عہدِ نبوت کو پاتا تو آپ کی پوری پوری مدد کرتا، ( مسلم:160)‘‘۔

    علامہ ابوالقاسم سہیلی حدیثِ ورقہ کے تحت ’’حُبّ الرّسُولِﷺ وَطَنہ(رسول اللہ ﷺ کی اپنے وطن سے محبت)‘‘کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں:
    ’’ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:’’ آپ کی قوم کے لوگ آپ کو جھٹلائیں گے‘‘،اس پر آپ نے کچھ نہیں کہا، پھر انھوں نے کہا: ’’وہ آپ کو اذیت پہنچائیں گے‘‘، اس پر بھی آپ نے کچھ نہیں کہا، پھر جب انھوں نے یہ کہا: ’’وہ آپ کو اپنے وطن سے نکالیں گے‘‘ ،تو اس پر آپ ﷺنے فرمایا: ’’کیا واقعی وہ مجھے اپنے وطن سے نکالیں گے؟‘‘، یہ اس بات پر دلیل ہے : ’’وطن کی محبت تقاضائے فطرت ہے اور وطن سے جدائی انسان کو گراں گزرتی ہے اورمکۂ مکرمہ کی تو بات ہی کیا ہے کہ وہاں اللہ کا حرم ہے ، بیت اللہ ہے، آپ کے جدِّاعلیٰ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وطنِ مالوف ہے ، سو اس سے نکالے جانے کے تصور سے ہی رسول اللہ ﷺ کادل کانپ اٹھا،(الروض الانف، ج:2،ص: 273)‘‘۔

    ہجرت کی شب مکے سے یثرب جاتے ہوئے آپ نے سرزمینِ مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے مکہ! بخدا! تو اللہ کی زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اور سب سے محبوب ہے،اگر مجھے یہاں سے زبردستی نہ نکالا جاتا تومیں کبھی تجھے نہ چھوڑتا ،( ترمذی:3925)‘‘۔ جب آپ کا وطن مالوف کفارِ مکہ کی ستم رانیوں کے سبب چھوٹ گیا تو آپ ﷺ نے مدینۂ منورہ کی محبوبیت کے لیے دعا فرمائی، علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

    ’’یہ حدیث مدینۂ منورہ کی فضیلت اور حب الوطنی کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے اور دل وطن کی طرف مائل ہوتا ہے،(فتح الباری ،ج:3،ص:783)‘‘، علامہ ابن بطال لکھتے ہیں:’’اللہ نے وطن کی محبت اور شوق پر جانوں کو پیدا کیا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے یہی کیاا ور یہی بہترین نمونہ ہے،(شرح ابن بطال،ج:4،ص:435)‘‘۔

    رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس آتے اور مدینے کے بالائی علاقوں پر آپ کی نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے اور سواری کے جانور کو ایڑ لگادیتے ، (بخاری:1886)‘‘۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں: ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ آیا، اُمّ المؤمنین نے پوچھا: اُصَیل! تم نے مکہ کو کس حال میں چھوڑا ، اس نے کہا: میں نے مکہ کو اس حال میں چھوڑاکہ اس کی وادی چمک دار تھی ، گھاس گھنی ہوچکی تھی اوردرختوں کی کونپلیں نکل چکی تھیں، آپ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اور فرمایا:اُصَیل! تم نے ہمارے دل میں مکے کے شوق کو ابھاردیا ہے اور ایک روایت میں ہے:’’(بس کرو)دلوں کو قرار پکڑنے دو،(زرقانی علی المؤطا،ج:4،ص:364) ‘‘۔

    آج کل ہمارے ہاں بعض لوگ بزعمِ خویش حُبُّ الوطَنی کے اجارہ دار بنے ہوئے ہیں اور اپنے مخالفین پر غداری کی تہمت لگارہے ہیں ۔ عہدِ حاضر کے تناظر میں جس دستوری نظام کے تحت ہم جی رہے ہیں ،اُس میں ایک حکومت ہوتی ہے ،جو جمہوری طریقے سے ملک کا نظم ونسق چلاتی ہے ، اُس سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اور دلائل کی بنیاد پر اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ،یعنی اُسے تقدیس کا درجہ حاصل نہیں ہوتاکہ اُس سے اختلاف کی گنجائش نہ رہے ،بس صرف اطاعت کی جاسکتی ہے، اس کے مقابل ریاست و مملکت ہے، جو محترم ہے ،اُس سے وفا کا رشتہ ہر حال اور ہر صورت میںقائم رکھنا لازم ہے ،اسی لیے وطن کی سرزمین کو ’’مادرِ وطن‘‘ کہتے ہیں کہ وہ ماں کی طرح اپنے باشندوں کو اپنی آغوش میں لیتی ہے.

    اس کے سینے پر اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں ،وہ اپنے باشندوں پر نچھاور کرتی ہے، الغرض حکومت اور ریاست کادرجہ یکساں نہیں ہے ، ریاست کو دوام ہے ، جبکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ، اتار چڑھائو آتا رہتا ہے ،حکومت کا مخالف غدار نہیں ہوتا، بلکہ بعض صورتوں میں اقتدار پر فائز طبقے سے زیادہ وطن کا وفادار ہوتا ہے، جبکہ ریاست کا مخالف یقینا غدار ہوتا ہے، کیونکہ وہ اپنی ’’مادرگیتی ‘‘کی حرمت کا سودا کرتا ہے، اگر حکومت وریاست لازم وملزوم ہوتے تو حکومتِ وقت کی پالیسیوں کی مخالفت غداری کہلاتی ، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

    جب رسول اللہ ﷺ بیعتِ عقبہ کے موقع پر اہلِ یثرب کی بیعت لے رہے تھے تو اہلِ یثرب نے پوچھا:’’ بیعت کی شرائط کیا ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:حالات خوشگوار ہوں یا دشوار، تم ہر قیمت پر میری بات سنو گے ، میرا کہا مانو گے ، فراخی وتنگی ہر حال میں ساتھ دو گے ،امر بالمعروف اور نھی عن المنکر میں ساتھ دو گے ، ہر حال میں کلمۂ حق کہنے میں کسی کی پروا نہیں کرو گے اور میری مدد کرو گے، اپنے قبیلے کی طرح میرا دفاع کرو گے اور میں اس کے صلے میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ، اہلِ یثرب نے پوچھا: یارسول اللہ!جب ہم آپ کا ساتھ نبھائیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کو غلبہ عطا فرمائے گا تو کیا آپ ہمارا ساتھ چھوڑ دیں گے، آپ ﷺ نے تبسم فرمایااورکہا:نہیں!ہم تمھارے جان ومال اور آبروکا دفاع کریں گے.

    جس سے تمہاری جنگ ہے، اُس سے ہم بھی جنگ کریں گے اور جس سے تمہارا امن کا معاہدہ ہے، ہم اُس کی پاسداری کریں گے اور تمہارا ساتھ کسی حال میں نہیں چھوڑیں گے، (سبل الھدیٰ والرشاد، ج:3،ص: 201-203،خلاصہ)‘‘۔چنانچہ آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا ، رسول اللہ ﷺ پورے حجاز کے حاکم بن گئے، لیکن تب سے آج تک آپ اہلِ مدینہ کے درمیان موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔

  • محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں – نعمان اکرم

    محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں – نعمان اکرم

    وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان میں پایا جاتا ہے. جس زمین میں انسان پیدا ہوتا ہے، شب و روز گزارتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار، دوست، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے، وہاں کی گلیاں، در و دیوار، پہاڑ، گھاٹیاں، پانی اور ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے.
    تارک وطن ہونے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کمانے کے لیے باہر جاتے وقت دل بہت افسردہ ہوتا ہے، وجہ یہی کہ وطن سے محبت انسانی فطرت میں شامل ہے. اسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لیے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ الفاظ دیکھیے.
    ”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے، کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں، اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا.“ (ترمذی)
    یہ الفاظ اس عظیم شخصیت کی مقدس زبان سے نکلے ہیں، جنھیں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور جن کی پیروی کرنا اپنے لیے باعث نجات اور باعث فخر سمجھتے ہیں. یہ الفاظ اس وقت نکلے تھے جب وہ اپنے وطن سے نکل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی ایذیت جھيلی مگر اپنے وطن میں رہنے کو ترجیح دی، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور خدا کا حکم آگیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی مکہ سے نکلتے ہیں، اور نکلتے وقت دل پر اداسی چھائی ہوئی ہے. اور زبان مبارک پر مذكورہ جملہ جارى تھا، جس کا لفظ لفظ دل میں وطن سے بھرپور محبت اور لگاؤ کا احساس پیدا کرتا ہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں اور مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں ہوتی ہے تو بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے مکہ والوں کے حق میں بد دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ اس وقت آپ سرزمين مدینہ کے ليے دعا فرماتے ہیں:
    ”اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ سے ویسے ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.“ (متفق علیہ)
    اسلام نے عالمی برادری کا تصور پیش کرتے ہوئے سارے انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد قرار دیا اور ان کے درمیان ہر قسم کے تقسیم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہو، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم. نے حکم دیا کہ ”جس کسی نے کسی امن سے رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا، یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں کل قیامت کے دن اس کا حریف ہوں گا.“
    بلکہ اسلام نے جانوروں، پودوں اور پتھروں کے ساتھ بھى اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ :
    ” اگر قیامت ہونے ہونے کو ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے لگا دو کہ اس میں بھی ثواب ہے“ (صحيح الجامع 1424)
    وطن کی سلامتی اِس امر میں ہے کہ لوگوں کے مال، جان، عزت اور خون کی حفاظت کی جائے، ملک کے مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی جائے، ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک رکھا جائے۔ معاشرے میں امن وامان کو پھیلایا اور ظلم و زیادتی کے ہر عمل سے خود کو بچایا جائے. معاشرے کے امن کو غارت کرنے والوں کو معاشرے کے لیے ناسور سمجھا اور کیفرکردار تک پہنچانے کےلیے حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ اب ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اب تک اپنے ملک کے لیے کیا کیا ہے. ملک کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے. عوامی بہبود کے لیے کیا کیا ہے. عوامی بیداری مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟
    اب
    یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے جس کو اکثر لوگ سمجھ نہیں پاتے اور کنفیوز کر دیتے ہیں
    ”مسلمان محب وطن ہوتا ہے لیکن وطن پرست ہرگز نہیں ہوتا“،
    وطن پرستی اور حب الوطنی دو بلکل مختلف چیزیں ہیں۔ حب الوطنی (وطن سے محبت) ایک فطری جذبہ ہے لیکن وطن پرستی کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان حق و ناحق کا معیار خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنے وطن کو بنا لے۔ یہ شرک کی ایک شکل ہے اور اسلام اس کی بھی اسی طرح بیخ کنی اور مخالفت کرتا ہے جس طرح شرک کی باقی تمام شکلوں کی. (بحوالہ پروفیسر خورشید احمد … حاشیہ ۔ اسلامی نظریہ حیات)
    یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر وطن پرست یعنی نیشنلسٹ اور اسلام آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔ پس جب تک یہ محبت ایک انس تک ہے تو شاید کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو، لیکن جب ہم اس بنیاد پر اپنے آپ کو دوسروں سے کاٹ دیں، اور وطن پرستی کو حق و باطل کا معیار بنا لیں اور اس کی وجہ سے ظلم پر آمادہ ہو جائیں تو یہ مطلوب نہیں ہے. یاد رہے کہ وطن سے محبت ہمیں عصبیت کی طرف نہ لے جائے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں۔ عصبیت سے مراد یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنی قوم، ذات قبیلے اور علاقے کی وجہ سے دشمنی روا رکھے جبکہ ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہماری دوستی بھی انصاف اور اللہ کے قائم کردہ اصول کے لحاظ سے ہونی چاہیے اور دشمنی بھی اسی لحاظ سے، اگر اس کے علاوہ ہے، اور بلاوجہ آپ اپنے ملک، قوم یا علاقے کی حمایت میں کھڑے ہیں جبکہ آپ کو پتہ بھی ہے کہ آپ کی قوم یا علاقے والے غلط ہیں اور ناانصافی کر رہے ہیں تو یقنی طور پر آپ عصبیت ہی کا شکار ہو رہے ہیں۔
    ایک مسلمان اپنے وطن سے بےحد محبت کرتا ہے اور اس کی راہ میں جان دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے، بشرطیکہ وہ راہ جس کے لیے وہ جان دے رہا ہے خدا اور اس کے رسول ﷺ سے نہ ٹکراتی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنے والد سے تو بہت محبت کرتا ہے، اپنی ماں کے سامنے اف تک نہیں کہتا، اپنی اولاد کے لیے تو جان بھی دے دیتا ہے لیکن جب ماں باپ یا اولاد ہی کفر کی تعلیم دیں یا کفر کی طرف سے تلوار اٹھا لیں تو ایک مسلمان اپنی اس محبت کی خاطر اللہ تبارک و تعالی کو ناراض نہیں کر سکتا پھر وہ وہی کرتا ہے جو ایک صحابی رضی اللہ تعالی نے اپنے غیرمسلم بھائی کے بارے کہا تھا کہ جب وہ قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو فرمایا اس کے ہاتھ کس کے باندھو، اس کی ماں بہت امیر ہے، چھڑوانے کے لیے کافی جزیہ دے گی، تو بھائی نے کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو، ہم دونوں بھائی ہیں، مجھے تم چھڑوانے کے بجائے مزید پھنسا رہے ہو تو اس صحابی نے کہا کہ تم نہیں، یہ میرے بھائی ہیں جو تمہیں باندھ رہے ہیں۔
    ہمارے لیے صیحیح صرف وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق صحیح ہے اور غلط وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق غلط ہے۔ ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوتی ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے تب تک کوئی مومن نہیں ہووسکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجائوں۔ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ سامنے آجائے تو تمام محبتیں چھوٹی پڑ جاتی ہیں. بس یہی وہ حب الوطنی اور نیشنل ازم میں فرق ہے جسے اکثر لوگ کنفیوژ ہوتے ہیں یا جان بوجھ کر کر جاتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں.
    اے اللہ پاکستان کو محبت، امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے، اسلام کا قلعہ اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے. آمین