ہوم << محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں - نعمان اکرم

محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں - نعمان اکرم

وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان میں پایا جاتا ہے. جس زمین میں انسان پیدا ہوتا ہے، شب و روز گزارتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار، دوست، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے، وہاں کی گلیاں، در و دیوار، پہاڑ، گھاٹیاں، پانی اور ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے.
تارک وطن ہونے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کمانے کے لیے باہر جاتے وقت دل بہت افسردہ ہوتا ہے، وجہ یہی کہ وطن سے محبت انسانی فطرت میں شامل ہے. اسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لیے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ الفاظ دیکھیے.
”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے، کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں، اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا.“ (ترمذی)
یہ الفاظ اس عظیم شخصیت کی مقدس زبان سے نکلے ہیں، جنھیں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور جن کی پیروی کرنا اپنے لیے باعث نجات اور باعث فخر سمجھتے ہیں. یہ الفاظ اس وقت نکلے تھے جب وہ اپنے وطن سے نکل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی ایذیت جھيلی مگر اپنے وطن میں رہنے کو ترجیح دی، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور خدا کا حکم آگیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی مکہ سے نکلتے ہیں، اور نکلتے وقت دل پر اداسی چھائی ہوئی ہے. اور زبان مبارک پر مذكورہ جملہ جارى تھا، جس کا لفظ لفظ دل میں وطن سے بھرپور محبت اور لگاؤ کا احساس پیدا کرتا ہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں اور مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں ہوتی ہے تو بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے مکہ والوں کے حق میں بد دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ اس وقت آپ سرزمين مدینہ کے ليے دعا فرماتے ہیں:
”اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ سے ویسے ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.“ (متفق علیہ)
اسلام نے عالمی برادری کا تصور پیش کرتے ہوئے سارے انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد قرار دیا اور ان کے درمیان ہر قسم کے تقسیم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہو، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم. نے حکم دیا کہ ”جس کسی نے کسی امن سے رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا، یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں کل قیامت کے دن اس کا حریف ہوں گا.“
بلکہ اسلام نے جانوروں، پودوں اور پتھروں کے ساتھ بھى اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ :
” اگر قیامت ہونے ہونے کو ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے لگا دو کہ اس میں بھی ثواب ہے“ (صحيح الجامع 1424)
وطن کی سلامتی اِس امر میں ہے کہ لوگوں کے مال، جان، عزت اور خون کی حفاظت کی جائے، ملک کے مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی جائے، ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک رکھا جائے۔ معاشرے میں امن وامان کو پھیلایا اور ظلم و زیادتی کے ہر عمل سے خود کو بچایا جائے. معاشرے کے امن کو غارت کرنے والوں کو معاشرے کے لیے ناسور سمجھا اور کیفرکردار تک پہنچانے کےلیے حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ اب ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اب تک اپنے ملک کے لیے کیا کیا ہے. ملک کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے. عوامی بہبود کے لیے کیا کیا ہے. عوامی بیداری مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟
اب
یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے جس کو اکثر لوگ سمجھ نہیں پاتے اور کنفیوز کر دیتے ہیں
”مسلمان محب وطن ہوتا ہے لیکن وطن پرست ہرگز نہیں ہوتا“،
وطن پرستی اور حب الوطنی دو بلکل مختلف چیزیں ہیں۔ حب الوطنی (وطن سے محبت) ایک فطری جذبہ ہے لیکن وطن پرستی کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان حق و ناحق کا معیار خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنے وطن کو بنا لے۔ یہ شرک کی ایک شکل ہے اور اسلام اس کی بھی اسی طرح بیخ کنی اور مخالفت کرتا ہے جس طرح شرک کی باقی تمام شکلوں کی. (بحوالہ پروفیسر خورشید احمد ... حاشیہ ۔ اسلامی نظریہ حیات)
یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر وطن پرست یعنی نیشنلسٹ اور اسلام آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔ پس جب تک یہ محبت ایک انس تک ہے تو شاید کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو، لیکن جب ہم اس بنیاد پر اپنے آپ کو دوسروں سے کاٹ دیں، اور وطن پرستی کو حق و باطل کا معیار بنا لیں اور اس کی وجہ سے ظلم پر آمادہ ہو جائیں تو یہ مطلوب نہیں ہے. یاد رہے کہ وطن سے محبت ہمیں عصبیت کی طرف نہ لے جائے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں۔ عصبیت سے مراد یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنی قوم، ذات قبیلے اور علاقے کی وجہ سے دشمنی روا رکھے جبکہ ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہماری دوستی بھی انصاف اور اللہ کے قائم کردہ اصول کے لحاظ سے ہونی چاہیے اور دشمنی بھی اسی لحاظ سے، اگر اس کے علاوہ ہے، اور بلاوجہ آپ اپنے ملک، قوم یا علاقے کی حمایت میں کھڑے ہیں جبکہ آپ کو پتہ بھی ہے کہ آپ کی قوم یا علاقے والے غلط ہیں اور ناانصافی کر رہے ہیں تو یقنی طور پر آپ عصبیت ہی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایک مسلمان اپنے وطن سے بےحد محبت کرتا ہے اور اس کی راہ میں جان دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے، بشرطیکہ وہ راہ جس کے لیے وہ جان دے رہا ہے خدا اور اس کے رسول ﷺ سے نہ ٹکراتی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنے والد سے تو بہت محبت کرتا ہے، اپنی ماں کے سامنے اف تک نہیں کہتا، اپنی اولاد کے لیے تو جان بھی دے دیتا ہے لیکن جب ماں باپ یا اولاد ہی کفر کی تعلیم دیں یا کفر کی طرف سے تلوار اٹھا لیں تو ایک مسلمان اپنی اس محبت کی خاطر اللہ تبارک و تعالی کو ناراض نہیں کر سکتا پھر وہ وہی کرتا ہے جو ایک صحابی رضی اللہ تعالی نے اپنے غیرمسلم بھائی کے بارے کہا تھا کہ جب وہ قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو فرمایا اس کے ہاتھ کس کے باندھو، اس کی ماں بہت امیر ہے، چھڑوانے کے لیے کافی جزیہ دے گی، تو بھائی نے کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو، ہم دونوں بھائی ہیں، مجھے تم چھڑوانے کے بجائے مزید پھنسا رہے ہو تو اس صحابی نے کہا کہ تم نہیں، یہ میرے بھائی ہیں جو تمہیں باندھ رہے ہیں۔
ہمارے لیے صیحیح صرف وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق صحیح ہے اور غلط وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق غلط ہے۔ ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوتی ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے تب تک کوئی مومن نہیں ہووسکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجائوں۔ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ سامنے آجائے تو تمام محبتیں چھوٹی پڑ جاتی ہیں. بس یہی وہ حب الوطنی اور نیشنل ازم میں فرق ہے جسے اکثر لوگ کنفیوژ ہوتے ہیں یا جان بوجھ کر کر جاتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں.
اے اللہ پاکستان کو محبت، امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے، اسلام کا قلعہ اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے. آمین

Comments

Click here to post a comment