Tag: جنگلی حیات

  • ماحولیاتی تبدیلیاں، ہم کیا کریں – علیشبہ فاروق

    ماحولیاتی تبدیلیاں، ہم کیا کریں – علیشبہ فاروق

    دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اور سائنس دانوں نے ایسا کہا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے لازم ہو چکے ہیں۔ ماحولیاتی آگاہی سے مراد وہ شعور ہے جو افراد اور معاشرے کو ماحول کی حفاظت اور اس کے استحکام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دراصل ہوتی کیا ہے ؟
    کسی ایک علاقے کی اب و ہوا اس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں ۔

    انسان اپنی ضروریات پوری کرتے ہوۓ فطرت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہماری زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آب و ہوا میں تو ہمیشہ سے قدرتی تغیرات ہی ہوتے ہیں لیکن انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اب عالمی درجہ حرارت بھر رہا ہے ،اور ہماری زمین بہت بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ ماضی میں تو لوگ تیل ،گیس اور کوئلے کا استعمال کرتے تھے۔ تب سے دنیا میں تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرمی ہوئی ہے ۔ان سب کا استعمال بجلی کے کار خانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس جو کاربن ڈائی اکسائیڈ ہے اس کی مقدار 19سویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گزشتہ دو دہائیوں سے اس میں 12 فیصد مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی وجہ جنگلات کی کٹائی، درختوں کا نہ اگانا، درختوں کو جلایا جانا یہ سب تو عام ہو چکا ہے۔ ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ اور جب درخت نہیں ہوں گے تو اس کا اخراج تو ممکن ہو گا ہی۔

    ہر سال 3 مارچ کو جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کا مقصد دنیا بھر میں جنگلی جانوروں اور پودوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور ان کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یہ دن 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے طے کیا گیا تھا اور اس کا مقصد جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کرنا ہے۔ بد قسمتی سے جنگلی حیات کو اج بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے جلسوں ،جلوسوں ،مذاکروں، مظاہروں اور کانفرنسوں سے زیادہ مستقل بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے ۔تاکہ تمام شعبہ جات میں کام کرنے والے اپنے ہنر اور تجربے کو حاصل کر تعلیم سے ہم آہنگ کر کے ہر سرگرمی کو موسمیاتی تقاضوں کے مطابق بنا سکیں۔ ہم سب جنگلی حیات کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں کے اس پاس کے ماحول کو صاف رکھیں، جنگلات کی کٹائی کو روک کر اور غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کر کے جنگلی حیات کی مدد کریں۔

    اگر ہم مستقبل کی بات کریں تو سیاسی دانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو گلو بل وارمنگ کے لیے محفوظ حد مقرر کیا ہے۔ اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانوں کی طرز زندگی کو تبدیل کریں گی۔ بہت سے سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو صدی کے اختتام تک 3 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ کہ اضافے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے ۔دنیا کے مختلف ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے اہداف اپنائیں جو ان کے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو اس صدی کے وسط تک سفر تک لے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اخراج مساوی مقدار جذب کر کے متوازن ہو جاۓ گا۔ مثال کے طور پر درخت لگانے کے ذرائع زیادہ کیے جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کو کم کریں ،اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں، ہوائی سفر کم کریں، پلاسٹک کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنائیں۔

    ماحولیاتی تبدیلی اور بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی سخت ماحولیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس اپنی پاک عرض سرزمین کو ماحولیاتی تحفظ فراہم کریں اور اس کے استحکام کے لیے جنگلات کا تحفظ بھی کریں۔ صحت مند اور قدرتی ماحول برقرار رکھنے کے لیے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہو گا۔ فضائی آلودگی کے علاوہ صاف پانی کی عدم دستیابی شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو صاف پانی فراہم کیا جاۓ جس کی وجہ سے وہ بیماریوں سے بھی بچ سکیں۔

    ایک صحت مند ماحول ہماری صحت اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے درخت لگانے کی مہم کو جاری و ساری رکھنا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں ہم اس ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی مشکلات کو ختم کر سکیں۔ ماحولیاتی آگاہی آج کے دور میں ناگزیر ہے، کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے حال بلکہ مستقبل کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اگر ہم ابھی سے مؤثر اقدامات نہیں کریں گے تو ہماری آئندہ نسلوں کو ایک بگڑا ہوا ماحول ملے گا۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کے لیے ایک صحت مند اور پائدار سیارہ چھوڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ ماحولیاتی آگاہی ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ترغیب دیتی ہے جو ہمارے سیارے کے مستقبل کو محفوظ بنائیں ۔ اس لیے ہر فرد، معاشرہ، حکومت اور بین الاقو امی تنظیموں کو ماحول کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ زمین کو ایک محفوظ اور بہتر جگہ بنایا جا سکے۔

  • کراچی میں جنگلی حیات کا عجائب گھر  –  رفیع عباسی

    کراچی میں جنگلی حیات کا عجائب گھر – رفیع عباسی

    فطرت کا عجائب گھر صحرائے تھر کو کہا جاتا ہے لیکن کراچی کی ایک قدیم عمارت میں’’ جنگلی حیات کا عجائب گھر‘‘ یا وائلڈ لائف موزیم بنایا گیا ہے جہاں ہمہ اقسام کےجنگلی جانور، حشرات الارض، رینگنے والےکیڑے،فضا میں اڑنے والے پرندے، آبی مخلوق و درندےحنوط شدہ شکل میں اس عجائب گھر میں موجود ہیں۔دین محمد وفائی روڈ پر آرٹس کونسل کے چوراہے سے جب فوارہ چوک کی جانب چلیں تو وائی ایم سی اے ہال اور پی آئی آئی اے آڈیٹوریم کےدرمیان زرد پتھروں سے تعمیر کی گئی قدیم عمارت واقع ہے جو فری میسن ہال یا ہوپ لاج کے نام سے معروف تھی۔ چند عشرے قبل تک اسرار کی دھند میں چھپی یہ عمارت گردو نواح کی آبادی میں ’’جادو گھر‘‘ نام سے پہچانی جاتی تھی۔ اس کی تعمیر فری میسن سوسائٹی کے ٹرسٹ نے 1914 میں کرائی تھی ، جس کےہال میں فری میسن تنظیم کے ممبران کی ادبی ، سماجی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد ہوتا تھا۔ فری میسن کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ یہودیوں کی تنظیم ہے ۔ اس کے باوجود اس تنظیم کے اراکین میں مسلمان بڑی تعداد میں موجود تھے۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور حکومت میں اس تنظیم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی، جولائی 1973 میں فری میسن ہال اور سوسائٹی کا ریکارڈ حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔1983ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نےمارشل لا ریگولیشن کے تحت تنظیم کو کالعدم قراردے دیا۔1990ء میں اس کی عمارت میں سندھ وائلڈ لائف کا دفتر اور مکھیہ کا آفس بنایا گیا۔عمارت اور ہال آج بھی بہترین حالت میں موجود ہیں۔2001ء میں سندھ حکومت نے اسے قومی ورثہ قرار دیا۔1991ء میں اس عمارت میں جنگلی حیات کا عجائب گھر قائم کیا گیا جس میں روزانہ لوگوں کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی جن میں زیادہ تعداد طلباء کی تھی۔

    یہ عمارت تقریباً ایک ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے ، جس کا ایک سرا دین محمد وفائی روڈ سے شروع ہوتا ہے تو دوسرا سرا ایوان صدر روڈپر نکلتا ہے۔ یہ عمارت دو منازل پر مشتمل ہے۔ لوہے کے پھاٹک سے جب عجائب گھر کی عمارت کےوسیع و عریض احاطے کے اندر قدم رکھیں تو وہاں کارپارکنگ اور سکیورٹی عملےکے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ بائیں جانب چہار دیواری کے ساتھ کثیر تعداد میں ہاتھی دانت اور جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئےہیں۔ اب تو وہاں بھی مختلف اقسام کے درندوں اور چوپایوں کے حنوط شدہ اجسام ایستادہ کئے گئے ہیں۔ عمارت میں داخل ہوتےہی سامنے کی طرف لکڑی کی محراب اورچوبی سیڑھیاں نظر آتی ہیں ۔اس کی بائیں جانب چھوٹا سا باغ ہے جس میں نایاب قسم کے درخت اور پودے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ وائلڈ لائف ملازمین کے رہائشی کوارٹرز ہیں، جن کے سامنے جانوروں کے شکار کے لیے لائسنس کے اجراء کا دفتر بنا ہوا ہے۔ گراؤنڈ فلور پر وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر اور ان کا عملہ بیٹھتا ہے، سیڑھیوں کے ساتھ دیواروں پر نصف درجن تختیاں لگی ہیں جن پر عمارت کی تعمیر اور فری میسن تحریک کے اراکین کے نام کنداں ہیں۔ جب اوپر جاتے ہیں تو پہلی منزل کی سیڑھیاں چڑھنے سے قبل ، زینے پر پلیٹ فارم بنا ہوا ہے جس پر دفتر کے اردلی کی نشست گاہوں کے طور پر قدیم طرز کی دو کرسیاں رکھی ہیں۔ پہلی منزل پر بائیں جانب محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے کنزرویٹر، جاوید مہر اور دائیں ہاتھ پر ان کے عملے کا دفتر ہے۔اس فلور پر ایک وسیع و عریض ہال میں لائبریری ہے، جس میں جنگلی حیات کے بارے مختلف زبانوں میں تحریر کی گئی 800 کتابیں موجود ہیں، جنگلی حیات کے موضوع پر اتنی بڑی تعداد میں کتابیں شاید ہی پاکستان کی کسی دوسری لائبریری میں موجود ہوں ۔کنزرویٹر، جاویدمہر نےبتایا کہ اس لائبریری کی مرمت اور تزئین و آرائش کا منصوبہ زیر غور ہیں جب کہ جنگلی حیات سے متعلق مزید کتابیں بھی منگوائی جائیں گی۔ لائبریری میں ائیرکنڈیشن لگا ہوا ہے، کرسیاں، میزیں قاعدے سے رکھی ہوئی ہیں اور مطالعے کی غرض سے آنے والے طلباء کی رہنمائی کے لئے لائبریرین بھی موجود ہے تاکہ طلباء اور محققین اپنی مطلوبہ کتابیں لے کر پرسکون ماحول اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ کتب بینی کرسکیں۔

    جب واپس نیچے آئیں گے تو سیڑھیوں کے عقب میں کشادہ ائیرکنڈیشن ہال ہے جس میں سندھ میں جنگلی حیات کاپہلا عجائب گھر بنایا گیا ہے۔ اس ہال میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے فرش پر لکڑی کےاسٹول یا مٹی کےپلیٹ فارم بناکر جانوروں کی ممیاں رکھی گئی ہیں۔ یہ حنوط شدہ جانور دیکھنے میں اصل معلوم ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے مگرمچھ سے واسطہ پڑتا ہے جو منہ پھاڑےمیوزیم میں آنے والوں کواس طرح دیکھ رہا ہے جیسے ان پر حملہ کردے گا، لیکن یہ بے جان ہے۔محکمہ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید مہر کےمطابق کراچی میں منگھوپیر مزار کے ساتھ بنے تالاب میں سیکڑوں کی تعداد میں مگرمچھ موجود ہیں، لیکن عجائب گھر میں رکھا مگرمچھ ان سے علیحدہ نسل کا ہے جو منگھوپیر، ہالیجی اور اندرون سندھ کی دیگر جھیلوں میں پائے جاتے ہیں۔ مگرمچھ کا شمار خطرناک آبی درندوں میں ہوتا ہے۔ جھیلوں اور تالابوں پر تعینات وائلڈ لائف کاعملہ آبی مخلوق کی نگرانی کرتا ہے۔جب یہ کسی مگرمچھ کو سست یا بیمار محسوس کرتا ہے تو فوری طور پر وائلڈلائف حکام کو اطلاع دی جاتی ہےجو بیمار جانور کو کراچی لاکر اس کا علاج معالجہ کراتا ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ صحت یاب نہ ہوسکے اور مر جائےتو اس کا مردہ جسم حیاتیات کے طلبہ کے تحقیقی کاموں کے لیے تعلیمی اداروں میں بھیج دیاجاتا ہےجو ان پر تجربات کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ جانور طبعی موت اور کچھ حادثات کا شکار ہوکرمرتے ہیں۔ اس مگرمچھ کے مردہ جسم کو درس گاہوں کو بھیجنے کی بجائے،مصالحے اور مختلف کیمیکلز لگا کر حنوط شدہ حالت میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ یہ بیس سال تک اسی حالت میں رہے گا ۔معینہ مدت کے بعدجب اس کی کھال اور جسمانی اعضاء جھڑنا شروع ہوجائیں گے تو اس کی جگہ دوسرا مگرمچھ حنوط کرکے رکھنا پڑے گا۔ یہی صورت حال میوزیم میں موجود دوسرے جانوروں کی بھی ہے۔

    جاوید مہر کے مطابق، اس عمارت میں محکمہ وائلڈ لائف کے دفاتر قائم ہونے کے ایک سال بعد یہ عجائب گھر بنایا گیا تھا، وسیع و عریض ہال میں چاروں طرف کی دیواروں پر سندھ کے صحرائی علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کی 322 میں سے 190 اقسام کی قد آدم تصاویر لگائی گئیں، جن میں سائبریا اور دیگر سرد علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجر پرندوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ میوزیم کے تین اطراف کی دیواروں پر بڑے بڑے شو کیس بنائےگئے جن میں مختلف جانوروں کو حنوط کرکے رکھا گیا تھا۔ لیکن ایک عشرے بعد جب ان کے مردہ اجسام کی مدت پوری ہوگئی تو ان کے بال ، کھال اور جسمانی اعضا جھڑ کرمیوزیم میں،کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کی صورت میں جمع ہوتے رہے۔تفریح کی غرض سے آنے والے افراد نے بھی یہاں موجود قیمتی نوادرات کو نقصان پہنچایا جس کے بعد یہ عجائب گھر بند کرنا پڑا۔چندسال قبل اقوام متحدہ کےادارے یو این ڈی پی کےمالی تعاون سےاس کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ میوزیم کی صفائی ، ستھرائی ، تزئین و آرائش کرائی گئی۔ ستمبر 2019ء میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا، فروری 2020ء میں اس کا افتتاح ہوا، لیکن کورونا کی وباء کی وجہ سے اسے دوبارہ بند کرناپڑا۔ جب اس وباء کا خاتمہ ہوا اورحکومت کی طرف سےایس او پیز کی پابندیاں ہٹالی گئی تو میوزیم بھی دوبارہ کھول دیا گیا لیکن اس کے دروازےجنگلی حیات کے مطالعے ، مشاہدے اور تحقیق و تفتیش کی غرض سے آنے والے طلباء و صحافیوں کے لیے کھولے جاتے ہیں۔ میوزیم دیکھنے والوں کو نگراں سے اجازت لینا پڑتی ہے، اجازت ملنے کے بعد محکمہ وائلڈ لائف کا ایک اہل کارساتھ رہتا ہے جو گائیڈ کے فرائض انجام دیتے ہوئے جنگلی حیات کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے۔ میوزیم میں گرین ٹرٹل یعنی سبز کچھوے کے حنوط شدہ جسم کے علاوہ اس کا سر اور ڈھانچہ بھی رکھا گیا ہے۔ اس کی افزائش نسل ’’،میرین گرین ٹرٹل پروجیکٹ‘‘ ہاکس بے میں ہوتی ہے ۔ ایک شو کیس میں جنگلی بلی کا ڈیڑھ فٹ لمبا ڈھانچہ موجود ہے ۔ اس کی کھال کے ساتھ صرف سر ہے باقی دھڑ نہیں ہے ۔ اسے ’’فشنگ کیٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مچھلیوں کا شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتی ہے۔ جنگلی بلی کا یہ ڈھانچہ محکمہ وائلڈ لائف نے خفیہ اطلاع ملنے پر ایک گھر سے برآمد کیا تھا ۔ مالک مکان کو وائلڈ لائف ایکٹ مجریہ 2020 کے تحت چھ ماہ قید و جرمانے کی سزادی گئی۔

    میوزیم میں دریا اور جھیلوں کے علاوہ سمندری حیات، سندھ کے صحرائی علاقوں، پہاڑوں، میدانوں اور جھیلوں میں پائے جانے والے جانوروں سمیت پرندوں، دودھ دینے اور رینگنے والے جانوروں کو حنوط کر کے رکھا گیا ہے۔سندھ کےصحرا اور جنگلات میں رینگنے والے جانوروں کی 107، ممالیہ جانوروں کی 82 اور پرندوں کی 322 اقسام ہیں،جن میں سےمیوزیم میں، رینگنے والے 30 اور دودھ پلانے والےجانوروں کے 26 حنوط شدہ نمونے رکھے گئے ہیں۔باگ یاہرن جسے پاڑا بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی اس میوزیم کے فرش پر بنے چبوترے پر رکھا ہوا ہے۔ نایاب نسل کا ہرن جسے مقامی زبان میں ’’کھاوڑ‘‘ اور انگریزی میں Hok Deer کہا جاتا ، اس عجائب خانے میں موجود ہے۔ یہ ہرن کیچڑ اور پانی والی خنک جگہوں پر رہتا ہے۔ اس عجائب گھر میں کیرتھر نیشنل پارک سے بھی آئی بیکس سمیت کئی مردہ جانوروں کے اجسام لا کر وائلڈ لائف میوزیم میں محفوظ کیے گئے ہیں۔اس ہال میں خوں خوارقسم کے جانور بھی رکھے گئے ہیں جن میں گیدڑ اور بھیڑیئے قابل ذکر ہیں۔ صحرائے تھر میں پائے جانے والے نایاب جانور چنکارا، کالا ہرن ، تلور، لومڑی،نگرپارکرکے مور کے حنوط شدہ اجسام ٹرافیوں کی صورت میں میوزیم میں سجائے گئے ہیں۔ یہاں اونچی جگہ پر کالاناگ بھی پھن اٹھائے کھڑاہے۔ اسے انڈین کوبرا کہتے ہیں، یہ انتہائی زہریلا ہوتا ہے،جس کا ڈساجاندار چند منٹوں میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔ پاکستان میں اس کی نسل نایاب ہے، یہ بھارت کے صحرائی علاقوں میں رہتا ہے۔ وہاں سے رینگتا ہوا پاکستانی حدود میں داخل ہوتا ہے جہاں جوگی قبیلے کے سپیرے اسے پکڑ لیتے ہیں۔محکمہ جنگلی حیات کے حکام نےجوگی سپیروں سے مردہ سانپ حاصل کرکے میوزیم میں سجایا ہے۔شو کیس میں نایاب نسل کا ایک سانپ بھی سجا ہوا ہے جس کا انگریزی نام [english] Maynard Awl Headed Snake [/english] ہے۔ یہ جھاڑیوں ، پودوں کےجھنڈ اور ریتیلے ٹیلوں میں رہتا ہے۔

    اس کے علاوہ صحرا اور جنگلوں میں رینگنے والے مختلف نسل کے تقریباً دو درجن سانپ شوکیسوں کے دو مختلف حصوں میں بوتلوں میں کیمیکل ڈال کر رکھے گئے ہیں۔ ایک حصے میں بے ضرر سانپ ہیں ، جن کے کاٹنے سے انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا جب کہ دوسرے حصے میں خطرناک قسم کے ناگ رکھے گئے ہیں جن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ شوکیسوں میں مختلف اقسام کے پرندے، چھ انچ سے ایک فٹ لمبی چھپکلیاں، گوہ اور دیگر رینگنے والے جانور بھی رکھے ہیں۔ پہاڑی طوطے، مار خور بھی یہاں اپنی اصل ہئیت میں موجودہیں۔آبی اور جنگلی حیات، حشرات الارض، پرندے ، وائلڈ لائف میوزیم میں ایک ہی چھت کے نیچے موجود ہیں۔یہاں جانوروں کی ممیوں کو دیکھ کر اصل کا گمان ہوتا ہے۔وسائل کی کمی اور نامساعد حالات کے باعث سالوں تک غیر فعال رہنے والا یہ میوزیم اب فعال ہوکر لوگوں کی تفریح کے علاوہ طلبہ، محققین کے لئے معلومات کا ذریعہ بن رہا ہے۔

  • جنگلی حیات کے محافظ کو سلام – محمد فرقان

    جنگلی حیات کے محافظ کو سلام – محمد فرقان

    پاکستان میں جنگلی حیات اور ان کو درپیش مسائل ایک سنگین موضوع ہے جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ میں ذاتی طور پر جنگلی حیات سے بے انتہا محبت رکھتا ہوں اور ان کی نسلوں کو ختم ہوتا دیکھ کر بہت دکھی ہوتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگلی حیات کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ ان کی نسلوں کا بچاؤ مشکل ہو رہا ہے، اور میں اکثر اس پر سوچتا ہوں کہ ہم ان کے تحفظ کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی، میں پرامید بھی ہوں کہ پاکستان میں موجود مختلف تنظیمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں اور ان کی محنت رنگ لا رہی ہے۔

    پاکستان میں سردار جمال خان لغاری کی مثال ایک ایسی روشن کرن ہے جو جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے بہت کچھ کر چکی ہے۔ میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ ان کا کردار نہ صرف میرے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک مثال ہے۔ سردار جمال خان لغاری نے اپنی ذاتی زمین کو جنگلی حیات کے لیے وقف کر رکھا ہے، اور یہ ان کی جنگلی حیات سے محبت اور ان کے تحفظ کے عزم کی واضح علامت ہے۔ میں نے خود ان کی سنچری کا کئی بار دورہ کیا ہے، اور ہر بار وہاں پرندوں کو آزادانہ گھومتے دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم نے ٹھوس اقدامات کیے تو ہم جنگلی حیات کی نسلوں کو بچا سکتے ہیں۔

    یہ سنچری، جہاں پرندے آزادانہ طور پر پرواز کرتے ہیں، ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہے، اور اس کا سہرا سردار جمال خان لغاری کے سر ہے۔ میں ان کے اس جذبے سے بے حد متاثر ہوں کہ انہوں نے اپنی ذاتی زمین کاشت کرنے کی بجائے جنگلی حیات کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ ان کی اس سنچری میں شکاریوں کا بھی سامنا ہے، لیکن سردار صاحب نے اس کے لیے بہت سخت انتظامات کر رکھے ہیں تاکہ جنگلی حیات کو نقصان نہ پہنچے۔ شکاری دور دراز سے آ کر شکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن سردار جمال خان لغاری نے ان کے خلاف سخت حفاظتی تدابیر اختیار کی ہیں تاکہ جنگلی حیات کا تحفظ یقینی بن سکے۔

    سردار جمال خان لغاری نے اپنی فاؤنڈیشن ” سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن” کی بنیاد بھی رکھی ہے جو کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی ہے۔ میں ان کی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھنے پر ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کی اس فاؤنڈیشن سے جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ سردار صاحب کی محنت اور ان کی لگن سے میں بہت متاثر ہوں، اور ان کا کام ایک بہترین مثال ہے کہ کیسے ہم اپنی ذاتی محنت اور عزم سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔

    پاکستان میں موجود بین الاقوامی اور ملکی تنظیمیں بھی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہیں اور میں پرامید ہوں کہ ان کی محنتوں کے ذریعے پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ میں مزید بہتری آئے گی۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جنگلی حیات کی نسلوں کا بچاؤ اب ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ان کی نسلوں کو بچانے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا، اور اگر ہم سب اس کام میں حصہ ڈالیں تو ہمیں اس میدان میں کامیابی ضرور ملے گی۔

    میں یقین سے کہتا ہوں کہ سردار جمال خان لغاری جیسے افراد کی رہنمائی سے پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ایک نیا باب کھلا ہے۔ ان کی سنچری اور ان کی فاؤنڈیشن کے ذریعے ہمیں یہ سکھنے کا موقع ملتا ہے کہ جنگلی حیات کا تحفظ صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہے۔ ہمیں بھی ان کی طرح اپنی ذاتی زمینوں اور وسائل کو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے وقف کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے ماحول کو محفوظ بنا سکیں۔

    میں سردار جمال خان لغاری کو ان کی بے شمار خدمات اور محنتوں کے لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ ان کی کوششوں سے پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ میں مزید کامیابیاں حاصل ہوں۔ ان کی فاؤنڈیشن اور ان کے اقدامات ایک نئی امید کی کرن بن چکے ہیں، اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کی محنت سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط بنیاد بنے گی۔

    پاکستان میں جنگلی حیات کی حالت بہت تشویش ناک ہے، لیکن میں پرامید ہوں کہ اگر ہم سب مل کر کام کریں تو ہم ان کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں سردار جمال خان لغاری کی طرح جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عزم اور جذبہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ ماحول چھوڑ سکیں۔