Tag: تحریک انصاف

  • 9 مئی تاریخ کا سیاہ باب اور قیادت کی آزمائش – سلمان احمد قریشی

    9 مئی تاریخ کا سیاہ باب اور قیادت کی آزمائش – سلمان احمد قریشی

    تاریخ قوموں کی زندگی میں آئینہ ہوتی ہے، جو ماضی کی جھلک دکھا کر حال میں رہنمائی اور مستقبل کی سمت طے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو صرف حادثات نہیں بلکہ آزمائش ہوتے ہیں۔ قوم، ریاست اور قیادت، سب کے لیے۔ 9 مئی 2023 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک افسوسناک اور غیر معمولی سانحہ بن کر سامنے آیا، جس کی نوعیت اور شدت نے نہ صرف ریاستی اداروں کو جھنجھوڑا بلکہ قومی وحدت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔

    پنجاب حکومت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، سانحہ 9 مئی کے دوران پنجاب بھر کے 38 اضلاع میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پیش آئے، جن سے مجموعی طور پر 19 کروڑ 70 لاکھ روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ لاہور میں سب سے زیادہ 11 کروڑ روپے، راولپنڈی میں 2 کروڑ 60 لاکھ، اور میانوالی میں 5 کروڑ روپے کے نقصان کی تفصیل رپورٹ میں شامل ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں 319 مقدمات درج ہوئے اور 35 ہزار سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا، جن میں سے 24 ہزار سے زائد تاحال مفرور ہیں۔

    یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سیاست میں گرفتاریاں، جلاوطنی، پھانسیاں اور نااہلیاں کوئی نئی بات نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، قوم نے غم و غصہ ضرور محسوس کیا، لیکن اس کا اظہار کبھی ریاستی اداروں پر حملوں کی صورت میں نہیں ہوا۔ خاص طور پر آصف علی زرداری کا ”پاکستان کھپے” کا نعرہ ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے جذبات کے طوفان کے آگے بند باندھ دیا۔ یہی قیادت کا اصل کردار ہوتا ہے۔جذبات کو سمت دینا، انتقام کو تدبر میں بدلنا، اور احتجاج کو پُرامن رکھنا۔

    9 مئی کے واقعات اس اعتبار سے منفرد اور افسوسناک ہیں کہ یہ صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ منظم حملوں کی شکل اختیار کر گئے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو کوئی عام ریلی یا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک ادارے پر حملہ تھا۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس جماعت کے کارکنان کی جانب سے کیا گیا جس کے بانی چیئرمین کو آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا۔ نہ کوئی مارشل لا لگا، نہ ہی آئین معطل ہوا، لیکن ردِ عمل نے ثابت کیا کہ شعور کے دعوے داروں نے بے شعوری کا عملی مظاہرہ کیا۔

    اس موقع پر بطور قوم ہمیں اس المیے کی غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔ سیاست اپنی جگہ، اختلافات کا حق سب کو حاصل ہے، لیکن ریاستی اداروں پر حملے، قومی اثاثوں کی تباہی اور قانون کی دھجیاں کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالتیں کریں گی، لیکن قیادت کے اشتعال انگیز بیانات نے حالات کو جو رخ دیا، اسے نظر انداز کرنا بھی انصاف نہیں۔پی ٹی آئی قیادت نے گرفتاری کے ردِ عمل کو مشتعل بیانات اور ہجوم کو اداروں پر چڑھائی کی دعوت میں بدل دیا۔ پی ٹی آئی کی یہ روش صرف خطرناک نہیں بلکہ تاریخی حوالوں سے افسوسناک مماثلت بھی رکھتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں چھ نکات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان چھ نکات میں درحقیقت علیحدگی کی بنیادیں رکھی گئی تھیں، جن میں خودمختاری، کرنسی، ٹیکس اور فوج کے معاملات شامل تھے۔ اگرچہ ان نکات کو مغربی پاکستان میں شدت سے رد کیا گیا، لیکن عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔ عدم سنجیدگی، بداعتمادی، اور سیاسی ضد نے بالآخر سقوطِ ڈھاکہ کو جنم دیا۔

    افسوسناک امر یہ ہے کہ چند ہی ماہ قبل پی ٹی آئی کی قیادت شیخ مجیب الرحمٰن کو ”آئینی جدوجہد“ کا ہیرو اور ”اصولوں پر ڈٹ جانے والا لیڈر“ قرار دیتی رہی، جب کہ آج خود بنگلہ دیش کے عوام نے شیخ مجیب کی جماعت کو مسترد کر دیا۔ حالیہ انتخابات میں عوامی لیگ کو زبردست عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی رائے بدل چکی ہے، اور بنگلہ دیش کی نئی نسل اب مجیب الرحمٰن کے بیانیے کو فرسودہ سمجھتی ہے، تو پی ٹی آئی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیا اب بھی اسے مثالی جدوجہد کا استعارہ سمجھا جائے گا؟

    9 مئی 2023 کا دن پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں ایک ایسا ہی نکتہ آغاز تھا، جس نے ہمیں ماضی کے زخموں کی یاد دلا دی، اور موجودہ قیادت کے رویے کو بے نقاب کر دیا۔اسی طرح، امریکی مداخلت کا بیانیہ بھی آخرکار کھوکھلا ثابت ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی، عسکری قیادت، اور پارلیمانی تحقیق سب نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا، مگر پی ٹی آئی نے اس نکتہ پر بھی معافی مانگنے یا اصلاح کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ سنجیدگی کا فقدان سیاسی بیانیے کو وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر تاریخ کے کٹہرے میں ہمیشہ خسارے کا سودا ہوتا ہے۔

    اب وقت ہے کہ ہم جذبات سے بالاتر ہو کر عقل اور تدبر کو اپنائیں۔ قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور کارکنان کو یہ سکھانا ہوگا کہ ریاست ماں ہوتی ہے۔ اس پر ہاتھ اٹھانے والے اپنی جڑیں کاٹتے ہیں۔ تاریخ ہمیں یاد رکھے گی، سوال یہ ہے کہ ہم کیسے یاد رکھے جانا چاہتے ہیں؟اب جبکہ ملک ایک بار پھر معاشی استحکام کی طرف بڑھنے لگا ہے تو آئندہ انتخابات کے وقت بطور قوم اپنے ووٹ کو صرف نعروں، الزامات یا ماضی کے انتقام کی بنیاد پر نہ ڈالیں بلکہ سوچ، کردار اور ریاستی وفاداری کو مدنظر رکھیں۔ ہمیں ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی وحدت، آئین اور جمہوری اقدار کے علمبردار ہوں۔ اداروں کو بھی غیرجانبداری سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ انتخابات نہ صرف شفاف ہوں بلکہ ان پر عوام کا اعتماد بھی قائم ہو۔

    جو قیادت اداروں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتی ہو، اسے محض سیاسی مقبولیت کی بنیاد پر رعایت دینا مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ یہ وقت تاریخ سے سبق لینے کا ہے۔ خاکم بدہن، ڈھاکہ کے سانحے کو بھول جانا صرف سقوطِ اسلام آباد کا دروازہ کھولے گا۔9 مئی اگرچہ سیاسی جماعت کی پالیسی نہیں تھی، لیکن اشتعال انگیز بیانات اور سوشل میڈیا پر منفی مہم نے بہت سے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت پُرتشدد احتجاج کے الزامات کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان نے الذوالفقار نامی تنظیم سے تعلق کی بنیاد پر بہت کچھ برداشت کیا۔ اس وقت پی پی پی کی قیادت نے خود کو واضح طور پر اس تنظیم سے الگ رکھا اور جمہوری انداز میں سیاسی سفر جاری رکھا۔ الذوالفقار حقیقت تھی یا افسانہ،یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی نے جمہوریت اور جمہوری جدوجہد سے ہی اقتدار حاصل کیا۔ مینڈیٹ پر ڈاکہ، ظلم و ستم، ناانصافی سب کچھ دیکھا، لیکن پُرتشدد کارروائیوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔

    9 مئی میں کون ملوث تھا؟ کیا یہ سوچی سمجھی سازش تھی یا انفرادی فعل؟ اس کی مذمت اور اس الزام سے چھٹکارا بہت ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے سے لے کر بانی کی گرفتاری تک ملکی سیاست میں کچھ نیا نہیں ہوا۔ 9 مئی کے پُرتشدد واقعات اور اس کے بعد بیانیے کی تشکیل ایک نئی سوچ اور غیرسیاسی عمل تھا، جس پر ریاست خاموش نہیں رہ سکتی۔اس لیے 9 مئی کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دینا، اور جمہوری عمل کو آئینی دائرے میں رکھنا ہی ہمارے قومی مستقبل کی ضمانت ہے۔

  • دل پھر دل ہے،غم پھر غم ہے – سید وقاص جعفری

    دل پھر دل ہے،غم پھر غم ہے – سید وقاص جعفری

    [poetry]دل پھر دل ہے،غم پھر غم ہے
    رو لینے سے کیا ہوتا ہے[/poetry]
    پاکستان کی تمام دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، امریکہ مخالف ہونے کی دعویدار ہیں اور اس بنیاد پر کبھی نہ کبھی ووٹ حاصل کرتی آئی ہیں۔ اس ضمن میں ہر جماعت کا اپنا ہوم ورک ہے اور اس کے پاس عملی واقعات کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھیں جابجا حسب ضرورت بیان کیا جاتا ہے تا کہ عوام میں پائے جانے والے پاکستانی نیشنلزم کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے۔

    مثلاً اس وقت حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اس نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے شدید امریکی دباؤ برداشت کیا۔ 11 مئی کو ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے جواب دینے کا فیصلہ کیا تو فوراً صدر بل کلنٹن نے نواز شریف سے رابطہ کیا۔ 28 مئی کو پاکستان کے دھماکوں تک بل کلنٹن کی جانب سے پانچ دفعہ وزیراعظم کو فون کیا گیا جبکہ جاپانی وزیر اعظم نے بھی اپنا نمائندہ یہاں بھیجا۔ پاکستان کو ہر طرح کی دفاعی ضمانتیں اور مراعات پیش کی گئیں جبکہ انکار کی صورت میں شدید ردعمل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اس سب کے باوجود چونکہ یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ تھا اس لیے بہر صورت ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنے جوہری طاقت ہونے کا ثبوت دے دیا گیا۔

    اس وقت دوسری حکمران اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتوں کے ذریعے امریکی ایماء پر قتل کیا گیا کیونکہ وہ بین الاقوامی سطح پر امریکی مفادات کیلئے خطرہ بن رہے تھے اور ایک ’’اسلامی بلاک‘‘ کے خواہاں تھے۔ چنانچہ انہیں آمریت کے ذریعے ہٹا کر ہمیشہ کیلئے پاکستانی سیاست سے خارج کر دیا گیا۔

    حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جو مجموعی طور پر بھی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت سمجھی جاتی ہے، پاکستان تحریک انصاف ہے۔ اس جماعت نے عرصہ اقتدار کے آخری دنوں میں اپنی حکومت کے خاتمے کیلئے امریکہ کو ذمہ دار قرار دیا اور اس کے بعد امریکی مخالفت کے پاپولر بیانئے پر انتخابات میں بھی غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو امریکہ کی حکم عدولی کر کے روس کا دورہ کرنے کی پاداش میں رخصت کیا گیا۔ یہ سب باتیں بجا۔۔۔۔ یہاں تک کہ اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ق بھی کہہ چکی ہے کہ 2008ء میں ان کا اقتدار امریکی منشاء پر ختم ہوا۔

    سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنے والے تمام طبقات امریکی مخالفت پر کمربستہ ہیں تو غزہ میں جاری اس دور کے سب سے بڑے انسانی المیہ کے معاملے میں ہمارا ریاستی ردعمل اس قدر مردہ کیوں ہے؟ یہ بات تو سب پر عیاں ہے کہ اسرائیل اس بربریت میں فقط ’’فرنٹ مین‘‘ ہے۔ پالیسی فیصلے ‘انکل سام’ کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو اس خطے میں اسرائیل کا مصنوعی وجود اپنی چھاؤنی کے طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کی طرف سے غزہ میں تباہی کی امریکی پالیسی کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کیا جاتا جیسا کہ ہم ایٹم بم، اسلامی بلاک یا آزاد خارجہ پالیسی کے حصول کی جدوجہد میں کر چکے ہیں، لیکن اس کے برعکس ہمیں معمول کے بیانات کے علاوہ کوئی عملی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ایسا معمہ ہے جو ہماری سمجھ سے بلند ہے۔ آسٹریلیا، یورپ، یہاں تک کہ امریکہ میں فلسطینوں کی نسل کشی کے خلاف ارکان پارلیمان اور عوام ایسا بھرپور احتجاج کر رہے ہیں کہ عالمی سطح پر اخلاقی میدان میں اسرائیل تقریباً تنہا ہو کر رہ گیا ہے، جو حمایت اسے حاصل بھی ہے وہ مغربی حکومتوں کے مفادات کی مرہون منت ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس محاذ پر پاکستان کی جانب سے مزاحمت صرف اتنی ہی ہے جس سے پاکستانی عوام کی محض ‘اشک شوئی’ کی جا سکے۔

    اہلِ فلسطین اس وقت ایک قیامت کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پچاس ہزار سے زائد شہید ہیں۔ پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کیا ہمارے لیے بائیس لاکھ فلسطینی بھائیوں کی زندگی اپنے ایٹم بم یا اقتدار سے ارزاں ہے؟ کیا ایک انسان کی زندگی بھی انسانی اقتدار سے زیادہ قیمتی نہیں ہے؟ اس صورتحال میں قومی و بین الاقوامی سطح پر ہماری خاموشی بہرا کر دینے[english] (deafening silence)[/english] والی ہے۔ پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا واحد مسلمان ملک ہے، اس بنیاد پر اسے عالمی معاملات میں کچھ خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے جو دوسرے ممالک کو میسر نہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے عالمی دفاعی سیاست میں اپنے اثر و رسوخ[english] (active diplomacy)[/english] کو کماحقہ تو کجا کسی حد تک بھی استعمال کیا ہے؟

    طاقت کی نفسیات ایسی ہوتی ہے کہ اسے مظلومیت سے نہیں طاقت سے ہی خائف رکھا جا سکتا ہے۔ کیا اسلامی ممالک اور پاکستان نے اقوام متحدہ سے ’’اپیل‘‘ کرنے کی بجائے کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کا حتمی مطالبہ بھی کیا ہے؟ ہم تو اس وقت تک قومی سطح پر اسرائیلی مصنوعات اور کمپنیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی نہیں کر سکے جو شاید ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔

    فلسطین کا مسئلہ تقریباً پون صدی سے عالمی ضمیر کے اوپر ایک زخم کی صورت میں موجود ہے۔ یہ طویل عرصہ اس بات کی گواہی ہے کہ یہ زخم دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔ اس کیلئے جراحی درکار ہے ورنہ یہ زخم ہماری آئندہ نسلوں کیلئے ایسا بوجھ بن جائے گا جسے اٹھانا انسانیت کےلیے مشکل ہو گا۔ چنانچہ فیصلہ ہمیں ابھی کرنا ہے۔ فلسطینی تو پتھروں، درخت کی ٹہنیوں اور خالی ہاتھوں سے بھی دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشینری کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہم ان کے کام آ سکتے ہیں، یا ہمارے امریکی مخالفت کے دعویٰ صرف اپنے مفادات کی حد تک ہیں؟
    [poetry]صاف کہہ دو کہ لوگ بھی سن لیں
    بات سچ ہے تو زیرلب کیوں ہے[/poetry]

  • عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

    عمران خان کی حمایت جاری رکھیں. فیض اللہ خان

    تحریک انصاف کے سابق اور زبردستی ہروائے گئے موجودہ ایم این اے عالمگیر خان نے اپنی رہائش گاہ پہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قیادت اور صحافیوں کی ایک مشترکہ نشست میں ہمیں بھی دوستوں کے ساتھ شرکت کی دعوت دی. روایتی کھانوں کے ساتھ اصل لطف محمود خان اچکزئی، لطیف کھوسہ، اسد قیصر اور سلمان اکرم راجہ سمیت دیگر رہنماؤں کےساتھ براہ راست مکالمے میں آیا.

    مشر محمود خان اچکزئی سے میرا سوال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کیخلاف اے پی ڈی ایم تحریک چلارہی تھی، انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا، مگر انتخابات سے قبل میاں محمد نواز شریف نے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا. آپ، قاضی حسین احمد اور عمران خان تنہا رہ گئے اور بائیکاٹ کیا. کچھ سال قبل پی ڈی ایم بنی، عوامی بالادستی کا نعرہ بلند ہوا، انتخابات ہوئے، آپ کے اتحادی میاں صاحب اور آصف زرداری حکومت میں ہیں، جبکہ آپ اور مولانافضل الرحمن پھر سے سڑکوں پہ ہیں. کیا ضمانت ہےکہ کل کو عمران خان ڈیل نہیں کریں گے. اور انھوں نے ڈیل کر لی تو کیا پھر آپ دوبارہ سڑکوں پہ ہوں گے؟

    محمود خان اچکزئی کائیاں سیاستدان ہیں. اس سوال کا دو ٹوک جواب دینے کے بجائے ماضی سے بات کرنا شروع کی، اور کہا کہ لندن میں بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت وہ معاہدہ یا اتحاد تھا جو استخباراتی اداروں کی مداخلت کے بغیر قائم ہوا تھا. وہ کامیاب ہوتا تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی. محمود خان اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان پختونوں کی دو ہزار سال کے واحد ایسے رہنما ہیں جنھیں پختونوں نے بھرپور حمایت دی. اسی کی ذیل میں ان کی سوات میں کی گئی تقریر سے یہ حوالہ دینا بھی دلچسپی کا باعث بنے گا، جب انھوں نے کہا کہ سوات کے پختونوں عمران کے ساتھ یونہی کھڑے رہنا، وفاداری نبھانا، جان دینے سے بھی گریز نہ کرنا کہ یہی پشتون روایت ہے.

    لطیف کھوسہ نے محفل کے اختتام پہ مجھے کہا کہ آپ کا سوال بالکل درست تھا، اور اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کل کو خان مفاہمت کرلے گا، اور طاقتور کی مداخلت برقرار رہے گی تو ہم عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ مخالف سمت میں کھڑے ہوں گے. کل کیا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا ، یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کیخلاف جدوجہد کی، بلکہ پیپلز پارٹی کی قربانیاں کسی سے بھی زیادہ رہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی طاقت کے سڑکوں پہ نہ نکلنے اور سیاسی حکمت عملی کی ناکامی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے طاقتور قوتوں سے مفاہمت کی اور اپنا بیانیہ چھوڑ دیا. پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے کرپشن بھی خوب کی مگر ثابت کچھ نہ ہوا، البتہ یہ بیانیہ ان کے خلاف بھرپور استعمال ہوا ، اور آج کرپشن کا بیانیہ پاکستانی سیاست سے باہر اور عوامی بالادستی کا مقبول بیانیہ ہے. مگر اب اس کا علم عمران خان کے ہاتھ میں ہے .

    سیاستدان کے پاس بندوق نہیں ہوتی. وہ جمہور کی طاقت سے اپنے لیے رستہ نکالتا ہے. پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اس سے پہلے بلوچ و پشتون قوم پرست قیادت عوامی بالادستی اور آئین کی حاکمیت کا بیانیہ لیکر چلے تھے. یہ طویل اور صبر آزما سفر ہے. سیاستدان باہمی جنگیں پھر بھی کرسکتے ہیں مگر عوامی بالادستی کے معاملے پہ بہرحال انھیں ایک ہونا پڑے گا، ورنہ معتوب محبوب اور محبوب معتوب ہوتے رہیں گے، اور دائروں کا یہ سفر کبھی اختتام پذیر نہیں ہوگا .

    خدا کرکے کہ عمران خان ڈٹا رہے، لیکن وہ بھی مفاہمت کر گیا تو پھر طویل شب ہے. محمود خان اچکزئی کے الفاظ میں جب تک ہم سیاستدان اپنی خامیوں کا جائزہ لیکر کندھے فراہم کرنا ترک نہیں کریں گے ، بات بنے گی نہیں. جب تک عمران خان مفاہمت نہیں کرتا ، اس کی حمایت اور تائید ہر انصاف پسند انسان کو جاری رکھنی چاہیے.

  • آرمی چیف کے نام عمران خان کے خطوط – ارشدزمان

    آرمی چیف کے نام عمران خان کے خطوط – ارشدزمان

    عمران خان، پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم، نے حالیہ ہفتوں میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام متعدد خطوط ارسال کیے ہیں۔ ان خطوط میں انھوں نے ملک کی سیاسی، معاشی، اور سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

    عمران خان کے حالیہ خطوط اور ان کے ردعمل پر جو سیاسی ماحول بن رہا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت یا کم از کم اپنے مؤقف کی شنوائی کے خواہاں ہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملنے والے جوابات میں کسی مفاہمت یا نرمی کے بجائے طنز اور سختی جھلکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں عمران خان کی یہ حکمتِ عملی ایک بڑی سیاسی غلطی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ان کی جماعت کے حامیوں کی توقع تھی کہ وہ سخت مؤقف پر قائم رہیں گے اور مزاحمتی سیاست کو مزید تیز کریں گے، مگر اس طرح کے خطوط نے ایک مختلف تاثر پیدا کیا ہے۔ اس سے ایک طرف ان کے حامیوں میں مایوسی اور اضطراب بڑھ رہا ہے، تو دوسری طرف مخالفین اسے ایک کمزور قدم قرار دے رہے ہیں۔

    یہ بھی سچ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ پارٹی قیادت احتجاجی تحریک منظم کرنے میں ناکام رہی، اور عوامی ردعمل بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ یہ حقیقت کہ عمران خان بار بار کال دینے کے باوجود وہ عوامی دباؤ پیدا نہیں کر پا رہے جو 2022 میں نظر آیا تھا، اس بات کی علامت ہے کہ یا تو لوگ تھک چکے ہیں، یا ان میں خوف اور غیر یقینی صورتحال نے جگہ بنا لی ہے۔ اس وقت عمران خان کو ایک واضح حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر وہ اسی طرح غیر مؤثر خط و کتابت اور بے سمت کالز پر انحصار کرتے رہے، تو یہ ان کی سیاسی ساکھ کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    پہلا خط (3 فروری 2025):
    اس خط میں عمران خان نے چھ نکات اٹھائے، جن میں 8 فروری 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی، 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ پر کنٹرول کی کوشش، پیکا قانون کے تحت اظہارِ رائے پر پابندیاں، اور تحریک انصاف کے کارکنوں پر جبر و تشدد شامل ہیں۔ انہوں نے عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پالیسیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔

    دوسرا خط (8 فروری 2025):
    اس خط میں عمران خان نے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گن پوائنٹ پر 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی قید کی سختیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں 20 دن تک مکمل لاک اپ میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔

    تیسرا خط (13 فروری 2025):
    اس خط میں عمران خان نے 2024 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا معاملہ دوبارہ اٹھایا اور کہا کہ منی لانڈرز کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے رول آف لا کی عدم موجودگی کو اس کا سبب قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ 18 لاکھ لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں اور 20 ارب ڈالر کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہو چکا ہے۔

    سیاسی نقصان اور عمومی تاثر:
    تجزیہ کاروں کے مطابق، عمران خان کے ان خطوط سے ان کی مایوسی اور پریشانی ظاہر ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ان خطوط کو فوج کے بارے میں عمران خان کی پرانی سوچ کی عکاسی قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے خطوط لکھنا، جب فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، افسوسناک ہے اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

    مزید برآں، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان خطوط کے ذریعے عمران خان اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ تاہم، اس طرح کے اقدامات سے ان کی اعصابی اور نفسیاتی کمزوری کا تاثر ملتا ہے اور یہ سیاسی و جمہوری اصولوں کے خلاف سمجھے جا رہے ہیں۔ قیادت کا تقاضا ہے کہ وہ ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرے، نہ کہ مفاہمت اور پسپائی کا۔ عمران خان کے یہ خطوط ان کی سیاسی حکمت عملی پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور ان کی قیادت کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

    یہ نکتہ واقعی بہت اہم ہے کہ عمران خان ہمیشہ نیلسن منڈیلا کی استقامت اور عزیمت کی مثالیں دیا کرتے تھے، لیکن حالیہ خطوط میں وہ ایک مختلف رویہ اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں منڈیلا کی جدوجہد سے متاثر ہوتے، تو وہ مشکلات کے باوجود اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہتے اور کسی قسم کی “رحم کی اپیل” یا فوجی مداخلت کی امید نہ رکھتے۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید کاٹی، لیکن انہوں نے کبھی اپنے جابروں سے رحم کی درخواست نہیں کی، بلکہ ہر مشکل کو اپنی جدوجہد کا حصہ سمجھا اور بالآخر عزت و وقار کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ عمران خان اگر واقعی اسی اصول پر کاربند رہنا چاہتے ہیں، تو انہیں بھی استقامت، صبر اور غیر متزلزل مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، بجائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک پر شکوہ کریں اور مداخلت کی امید باندھیں۔

    یہ خطوط اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ وہ دباؤ میں آچکے ہیں اور اب ایک راہِ فرار یا کسی نرم گوشے کی تلاش میں ہیں۔ جو لوگ انہیں ایک “بہادر اور ناقابلِ تسخیر لیڈر” کے طور پر دیکھتے تھے، ان کے لیے یہ رویہ مایوس کن ہو سکتا ہے۔ سیاست میں نظریاتی جنگیں استقامت اور مضبوط اعصاب سے لڑی جاتی ہیں، نہ کہ رحم کی درخواستوں یا مفاہمتی پیغامات سے۔

  • ریاست ہو گی ماں کے جیسی – احمد شہزاد

    ریاست ہو گی ماں کے جیسی – احمد شہزاد

    طویل عرصے سے سُنتے آئے ہیں کہ “ریاست ہو گی ماں کے جیسی” . ریاست کو ماں کہا جاتا ہے کیونکہ ماں کا دل نرم گداز ، سمندر جیسا گہرا،ا ور آسمان کی طرح وسیع ہوتا ہے۔ ماں اولاد سے حد درجہ پیار کرتی ہے ، نفرت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ غلطی در غلطی پر معاف بھی کرتی ہے اور سینے سے بھی لگاتی ہے۔ کبھی کبھار اولاد کا لہجہ تلخ بھی ہو جاتا ہے تو معاف کرنے کا حوصلہ ماں کا ہی ہوتا ہے۔
    [poetry]ریاست ہو گی ماں کے جیسی
    ہر شہری سے پیار کرے گی [/poetry]

    دیکھا جائے تو پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس ریاست کو ایک سیاسی جمہوری فیصلے کی صورت حاصل کیا گیا ۔ مگر افسوس کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس جمہوریت کو آمریت کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ریاست کا بنیادی مقصد اپنے ہر شہری کو تحفظ اور امن و امان فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی بلا خوف وخطر گزار سکے ۔پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 16 ریاست کے ہر شہری کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے، جبکہ احتجاج کو آمریت کی بنا پر ریاست مخالف بیانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ریاست جب حقوق غصب کر لیتی ہے تواحتجاج کرنا جرم بن جاتا ہے اور یوں ریاست حقِ آواز بلند کرنے والے کو کچلنے کے درپے رہتی ہے۔

    26 نومبر 2024 کا دن بھی کلینڈر پر ایک سیاہ دھبے کی طرح ثبت ہو گیا ہے۔نہتے پرامن سیاسی کارکنوں کے احتجاج کو بزورِ طاقت ختم کیا گیا۔رات کے وقت مکمل بلیک آؤٹ کرتے ہوئے ریاست نےدشمن کا منہ توڑنے کے بجائے اپنے ہی بیٹوں کے جگر چھلنی کر دیے۔ وہ ریاست جو ماں کے جیسی تھی، اسے اجنبی بنتے دیر نہیں لگی۔ فائرنگ اور شیلنگ سے ایک نئی داستان رقم ہوئی.سانحہ 1971 ہو، اکبر بگٹی کا قتل ہو، لال مسجدکا واقعہ، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ، بلوچ و دیگر نوجوانوں کا اغوا، ریاست ہر موقع پر ناکام ہی دکھائی دی ہے ۔ اس سے بھی بڑا المیہ تو 26 نومبر کو یہ ہوا کہ حکومت نےلاشوں اور زخمیوں کا ریکارڈ چھپا کر جمہوریت کو زندہ لاش بنا دیا۔

    حکومت نے نیشنل میڈیا کو تو کنٹرول کر لیا لیکن انٹرنیشنل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور آزاد صحافیوں کو کنٹرول نہیں کر سکے، باضمیر صحافی اور وی لاگرز نے حقیقت کھول کر بیان کر دی۔ جہاں پورا معاشرہ گراوٹ کا شکار ہے وہاں عدلیہ بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئی، حالانکہ عدل کا منصب اللہ نے ان منصفوں کو دیا ہے. وائے افسوس کہ قتلِ عام پرآنکھیں موندے ہوئے ہیں۔

    جبر کا ماحول ہے ، ظلم کا بازار خوب گرم ہے، جن کے پیارے زندگی کی بازی ہار گئے وہ غم و الم کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اہلِ سیاست کے سینے میں دل تو ہوتا نہیں، مخالف سیاسی رہنما لاشوں اور زخمیوں کی تعداد پر ٹھٹھا اورتمسخر اُڑا رہے ہیں حکومت اور وزراء سرے سے انکار کر رہے ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ حرف کی حرمت کے داعی بھی سچ سے گریزاں ہیں۔ ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال معاشرتی توازن کو بگاڑ دیتا ہے ، نفرت کو بڑھاتا ہے۔ ایسا عمل ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ ریاست ماؤں کو کیسے دلاسہ دے گی اور زخموں پر مرہم کیسے رکھے گی۔

    اب بھی وقت ہے کہ ریاست ماں کا کردار نبھاتے ہوئے حق داروں کو حق ادا کرے، جن سے مینڈیٹ چھینا ہے انہیں لوٹائے۔ ناحق گرفتاروں کو رہا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے۔ جب جسم لہو لہو، دامن زخم زخم اور آنکھ اشک اشک ہو تو ایسے میں نفرتوں کے دھارے پھوٹتے ہیں، اور پھر یہی نفرتوں کے دھارے سیلاب بن کر ریاست کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے میں کاش ! کوئی تو ہو جو غمزدوں کی ڈھارس بنے ،انھیں تسلی اور اطمینان کی دولت سے نوازے اور رواداری کو فروغ دے۔

  • عمران خان مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں – ارشد زمان

    عمران خان مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں – ارشد زمان

    مراد سعید کا یہ بیان کہ ”عمران خان مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں“، تاریخی اور فکری لحاظ سے بہت کمزور ،سطحی، بچگانہ اور بے بنیاد دکھائی دیتا ہے۔ اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو اخوان المسلمون اور تحریک انصاف کا کوئی موازنہ نہیں بنتا، اور عمران خان کو محمد مرسی شہید سے ملانا بھی ایک سطحی اور غیر حقیقی بات ہوگی۔

    اخوان المسلمون اور تحریک انصاف دو مختلف جہتیں ہیں
    1. نظریاتی اساس:
    • اخوان المسلمون ایک نظریاتی اسلامی تحریک ہے، جس کی بنیاد امام حسن البنا نے رکھی تھی۔ اس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق سماج کی اصلاح، اسلامی ریاست کا قیام، اور مغربی استعمار کے اثرات کا خاتمہ تھا۔
    • تحریک انصاف ایک قومی سیاسی جماعت ہے، جس کی بنیاد کسی نظریاتی فریم ورک پر نہیں بلکہ کرپشن کے خاتمے، انصاف کے قیام اور روایتی سیاست کے خلاف جدوجہد جیسے عمومی نکات پر رکھی گئی۔ اس میں اسلام پسندی، قوم پرستی، لبرل ازم، اور موقع پرستی سب کچھ ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    2. عزیمت اور استقامت:
    • اخوان المسلمون کی تاریخ قربانیوں، صبر، اور استقامت سے بھری ہوئی ہے۔ مصری، شامی، اور دیگر مسلم دنیا میں اخوان کے کارکنان نے ظلم برداشت کیا، شہادتیں دیں، سالہا سال قید کاٹی، مگر اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
    • تحریک انصاف کی سیاست میں نظریاتی استقامت کم اور مفاداتی وابستگیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ یوٹرن لینا ایک معمول بن چکا ہے، اور پارٹی بارہا اپنے ہی بیانیے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

    3. قیادت کا کردار:
    • محمد مرسی شہید ایک فکری اور نظریاتی لیڈر تھے، جنھیں اخوان کی فکری تربیت اور تنظیمی نظم و ضبط حاصل تھا۔ انھوں نے اقتدار میں آکر اسلامی اقدار کے مطابق ریاستی امور چلانے کی کوشش کی، اور آخر تک اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ انھیں ظالم فوجی حکومت نے قید میں ڈال کر شہید کر دیا، مگر وہ اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔
    • عمران خان کا سیاسی سفر زیادہ تر موقع پرستی، اقتدار کے حصول اور پھر اس کے چھن جانے کے بعد مزاحمت پر مبنی رہا ہے۔ وہ نظریاتی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی مقبولیت اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر اقتدار میں آئے اور جب حالات بدلے تو بیانیہ بھی بدل گیا۔

    4. عوامی تحریک اور سیاسی تنظیم:
    • اخوان المسلمون ایک مضبوط، منظم، اور نظریاتی بنیادوں پر قائم جماعت ہے، جس کا ایک تربیتی اور فکری ڈھانچہ موجود ہے۔ کارکنان کا پارٹی سے تعلق وقتی یا جذباتی نہیں، بلکہ فکری وابستگی پر مبنی ہوتا ہے۔
    • تحریک انصاف ایک عوامی جذباتی تحریک ہے، جس کے کارکن زیادہ تر سوشل میڈیا اور مظاہروں کی حد تک متحرک ہوتے ہیں۔ پارٹی میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے اور جب آزمائش آتی ہے تو لوگ بکھر جاتے ہیں۔

    اخوان المسلمون کی تاریخ عزیمت، استقامت، اور قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس نے مسلسل ظلم، جبر اور ریاستی جبر کے باوجود اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا۔ حسن البنا سے لے کر سید قطب، عمر تلمسانی، محمد بدیع اور محمد مرسی تک، اخوان کی قیادت اور کارکنان نے ہمیشہ اسلامی اصولوں پر مبنی سیاست اور سماجی اصلاح کے لیے قربانیاں دیں۔

    میدانِ رابعہ:
    اخوان کی عزیمت کی سب سے بڑی مثال میدان رابعہ میں دی گئی قربانی ہے. مراد سعید صاحب ویسے بھی آج کل ”عافیت“ کی زندگی گزار رہے ہیں. اگر صرف یہی ایک داستان پڑھنے کی زحمت کر لیں تو چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ 2013 میں مصری فوج نے جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اخوان المسلمون پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اس کے بعد لاکھوں افراد نے قاہرہ کے میدانِ رابعہ العدویہ میں دھرنا دیا، جسے تاریخ کا سب سے بڑا پرامن احتجاج قرار دیا جا سکتا ہے۔

    14 اگست 2013 کو مصری فوج نے نہتے مظاہرین پر ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں اور بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔
    • ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، کم از کم 1,000 سے 4,000 افراد شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
    • ہزاروں افراد زخمی اور گرفتار کر لیے گئے، جبکہ اخوان کے سینئر قائدین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
    • محمد مرسی کو بھی قید کر دیا گیا، جہاں وہ کئی سالوں بعد عدالت میں ہی شہید کر دیے گئے۔
    یہ اخوان المسلمون کی استقامت کی مثال ہے.

    • اس ظلم و جبر کے باوجود اخوان نے ہتھیار نہیں اٹھائے، بلکہ سیاسی اور دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو نہ جبر سے دبتی ہے، نہ اقتدار کے لالچ میں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرتی ہے۔ میدانِ رابعہ کا قتلِ عام اور محمد مرسی کی شہادت اس تحریک کی استقامت کی روشن مثالیں ہیں، اب ذرا اس تناظر میں تحریک انصاف کو پرکھا جائے کہ یہ بیچاری کہاں کھڑی ہے. اس پس منظر میں دیکھیں تو واقعی عمران خان صدر محمد مرسی نہیں اور تحریک انصاف اخوان المسلمون نہیں.

  • عمران خان کی سیاست ، کھیل اصل میں ہے کیا؟ – اعجازالحق عثمانی

    عمران خان کی سیاست ، کھیل اصل میں ہے کیا؟ – اعجازالحق عثمانی

    پاکستانی سیاست میں جو نظر آتا ہے، وہ حقیقت نہیں ہوتی، اور جو حقیقت ہوتی ہے، وہ نظر نہیں آتی۔ آج کل ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بازی عشق کی بازی ہے، جو ہارے گا، وہ جیتے گا، اور جو جیتے گا، وہ ہارے گا۔

    عمران خان جیل میں ہیں، ان کی جماعت کٹی پھٹی حالت میں ہے، عدالتوں میں مقدمے، پارٹی میں بغاوتیں، اور مخالفین کا دباؤ۔۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی وہ ملکی سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ سیاسی میدان میں سب سے زیادہ اسکور اس وقت بھی ان کے بیانیے کا ہی ہے۔چاہے عدالتوں کے فیصلے ان کے خلاف آئیں، چاہے پارٹی پر پابندیاں لگیں، عوام کے دلوں میں ان کی جگہ اب بھی قائم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی اس مقبولیت کو بچا پائیں گے؟ یا پھر اس کہانی کا انجام وہی ہوگا، جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے؟

    دوسری طرف، وہی پرانا کھیل جاری ہے۔ مذاکرات کی خبریں گرم ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بات چیت ہو رہی ہے، کوئی درمیانی راستہ نکالا جا رہا ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ حکومت محض ایک مہرہ ہے۔ اصل فیصلہ کہیں اور ہوگا۔ جنہیں مذاکرات کرنا ہیں، وہ ٹیبل پر نہیں بیٹھے، اور جو بیٹھے ہیں، وہ اصل فیصلے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ سب کچھ طے شدہ ہے، بس اسکرپٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ اور سنا ہے رائیٹر اب سکرپٹ بدلنے لگا ہے۔

    عمران خان جانتے ہیں کہ اگر وہ جیل سے باہر آتے ہیں تو عوام یہ سمجھے گی، کہ یہ کسی معاہدے کا نتیجہ ہے، تو ان کا سارا بیانیہ برباد ہو جائے گا۔ وہ اب تک ایک مزاحمت کار، ایک نظریاتی لیڈر، اور “حقیقی آزادی” کی علامت بن چکے ہیں۔ لیکن اگر یہی شخص ایک دن خاموشی سے باہر آتا ہے، کیسز ختم ہو جاتے ہیں، اور سیاست میں نرمی آ جاتی ہے، تو کیا یہ سب اتفاق ہوگا؟ نہیں! یہ وہی سیاست ہوگی، جو سالہا سال سے چل رہی ہے۔

    لیکن کھیل صرف عمران خان کے گرد نہیں گھوم رہا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک امتحان میں ہے۔ اگر عمران خان کو مکمل دیوار سے لگا دیا جاتا ہے، تو ملک میں بے چینی بڑھے گی۔ اگر انہیں کھلی آزادی دی جاتی ہے، تو وہ پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھریں گے۔ اس صورتحال میں درمیانی راستہ نکالنا سب سے ضروری مگر ایک مشکل کام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان باہر بھی آ جائیں، لیکن یہ تاثر بھی نہ جائے کہ وہ جیت گئے ہیں۔ دوسری طرف، عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ وہ باہر آئیں، لیکن ایسا نہ لگے کہ وہ کسی ڈیل کے تحت آئے ہیں۔

    یہ وہ مقام ہے جہاں سیاست اور طاقت کا اصل کھیل شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کچھ فیصلے پس پردہ کیے جاتے ہیں، اور عوام کو ایک اور کہانی سنا دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بار یہ کہانی کس کے حق میں لکھی جائے گی؟ کیا عمران خان ایک نئے انداز میں سیاست میں واپسی کریں گے؟ یا یہ ایک اور سبق ہوگا، جو پاکستانی سیاست کی کتاب میں شامل کر دیا جائے گا؟

    یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر واقعی ایک “سیاسی مفاہمت” ہونے جا رہی ہے، تو اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟ کیا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے؟ یا پھر پس پردہ کوئی ایسا دباؤ ہے جو ان دونوں کو دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں اکٹھا کر رہا ہے؟ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ عمران خان کو دیوار سے لگانے کی حکمتِ عملی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عوام کا ردعمل، عدالتی فیصلے، اور بین الاقوامی دباؤ، سب نے مل کر ایک ایسی فضا بنا دی ہے جہاں عمران خان کو سیاست سے مکمل طور پر بے دخل کرنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ یہ بھی نہیں چاہتی کہ عمران خان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئیں۔

    عمران خان کی سیاست میں ایک چیز واضح ہے کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں، لیکن ان کی مقبولیت ان کی حکمتِ عملی کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ اگر وہ اپنے حامیوں کو یہ یقین دلا پاتے ہیں کہ وہ بغیر کسی ڈیل کے باہر آئے ہیں، تو ان کی سیاست مزید مضبوط ہو گی۔ لیکن اگر عوام کو ذرا سا بھی یہ تاثر گیا کہ عمران خان نے کسی ڈیل کے نتیجے میں اپنی مشکلات کم کی ہیں، تو ان کے لیے اپنی موجودہ مقبولیت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وہ توازن ہے جسے عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی یہ ایک نازک موڑ ہے۔ اگر عمران خان بغیر کسی واضح سمجھوتے کے باہر آتے ہیں، تو ان کا بیانیہ مزید مضبوط ہو گا۔ لیکن اگر انہیں کسی شرط کے ساتھ ریلیف دیا جاتا ہے، تو عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ یہ بھی وہی پرانی سیاسی بساط ہے، جہاں سب آخر میں ایک ہی میز پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پس پردہ بہت کچھ چل رہا ہے، اور عوام کو صرف اتنا دکھایا جا رہا ہے جتنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

    یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے: اگر عمران خان واقعی باہر آ جاتے ہیں، تو کیا وہ دوبارہ اُسی انداز میں سیاست کر سکیں گے؟ یا پھر ان کے لیے ایسے حالات بنا دیے جائیں گے جہاں وہ محدود ہو کر رہ جائیں؟ کیا ان کی جماعت کو مکمل طور پر بحال ہونے دیا جائے گا؟ کیا انہیں الیکشن میں آزادانہ حصہ لینے دیا جائے گا؟ یا پھر وہ ایک کنٹرولڈ سیاست کا حصہ بننے پر مجبور ہو جائیں گے؟ یہ تمام سوالات اس وقت پاکستانی سیاست کے گرد گھوم رہے ہیں، لیکن ان کے جوابات آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔

    کھیل جاری ہے، اسکرپٹ پر کام ہو رہا ہے، کردار اپنے اپنے ڈائیلاگ یاد کر رہے ہیں۔ بس پردہ اٹھنے کی دیر ہے، دیکھتے ہیں کہ اس بار پردے پر کون ہیرو بن کر آتا ہے۔

  • حکومت مذاکراتی عمل میں سنجیدہ نہیں – سلمان اکرم راجا

    حکومت مذاکراتی عمل میں سنجیدہ نہیں – سلمان اکرم راجا

    پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ کمیشن بن جاتا تو معاملات آگے بڑھ سکتے تھے۔

    اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی کی زندگی پر مبنی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب میں سلمان اکرم راجا نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل میں سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ بانی چیئرمین نے مشکلات کے باوجود طاقتوروں کو للکارا، پی ٹی آئی عوام کی جماعت ہے، جس نے غریب کسانوں اور ہاریوں کےلیے جدوجہد کی ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے واضح کہا تھا کہ سنجیدہ مذاکرات کےلیے تیار ہیں، حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل میں سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو 7 دن کا وقت دیا گیا تھا اس میں کمیشن نہیں بنا، کمیشن بنایا جاتا تو معاملات آگے بڑھ سکتے تھے، بانی پی ٹی آئی نے ملک کی خاطر مذاکرات کیے۔

  • شیر افضل مروت اَن گائیڈڈ میزائل ہیں – لطیف کھوسہ

    شیر افضل مروت اَن گائیڈڈ میزائل ہیں – لطیف کھوسہ

    پاکستان تحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی اور سینئر وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ شیر افضل مروت ایک اَن گائیڈڈ میزائل ہیں۔ وہ اچھے آدمی ہیں مگر جارحانہ انداز میں تیز بھاگتے ہیں، جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

    انھوں نے کہا اگر وہ سلمان اکرم راجہ یا بیرسٹر گوہر کو گالیاں دینا شروع کر دیں اور کہیں کہ میں ہی سب کچھ ہوں تو بانی پی ٹی آئی کو انہیں ’’شٹ اپ کال‘‘ دینا ہی پڑتی ہے، اس بیان کے بعد اب وہ میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔

    سردار لطیف کھوسہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کینیڈا کے ایک گروپ کی جانب سے منعقدہ تقریب میں بھی شرکت کی جس کا اہتمام مقامی عہدیداروں کرنل (ر) سہیل انور، سلمان ارشد اور کاشف یوسف نے کیا تھا۔

    سردار لطیف کھوسہ نے مختلف سوالوں کے جواب میں کہا کہ پارٹی میں کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو وہ بانی پی ٹی آئی کو مائنس کر کے اپنے علاقے بلکہ اپنے گھر نہیں جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی تو اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیں گے بلکہ الیکشن لڑنے کا حق بھی ہو گا اور اس سلسلے میں پابندیوں کو ختم کر دیں گے۔

    سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے امریکہ مداخلت کرے۔ ہم عوام کی حمایت چاہتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی جلد رہا ہوں گے۔

  • تحریک انصاف کے جنید اکبر بلا مقابلہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی منتخب

    تحریک انصاف کے جنید اکبر بلا مقابلہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی منتخب

    پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر بلامقابلہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی منتخب ہوگئے۔

    چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی نامزدگی کیلئے اجلاس ہوا جس میں ارکان نے شرکت کی۔

    قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ایم این اے جنید اکبر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے متفقہ چیئرمین منتخب ہوئے، طارق فضل چوہدری، عمر ایوب، شبلی فراز نے جنید اکبر خان کا نام تجویز کیا۔

    ریاض فتیانہ، عامر ڈوگر، وجہیہ قمر، سردار یوسف زمان اور دیگر نے جنید اکبر کی تائید کی۔

    اراکین کمیٹی نے جنید اکبر خان کو مبارکباد پیش کی، جنید اکبر خان نے متفقہ طور پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) منتخب ہونے پر اراکین کا شکریہ ادا کیا۔

    کمیٹی ممبران نے جنید اکبر خان کو کمیٹی کو چلانے پر اپنی جانب سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔

    نومنتخب چیئرمین پی اے سی جنید اکبر خان نے کہا کہ تمام اراکین کو ساتھ لے کر چلوں گا۔

    خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چئیرمین شپ کیلئے کافی عرصے سے تنازع چل رہا تھا جو کہ بلا آخر حل ہوگیا ہے۔