ہمارا اصل ساتھی اور صحیح تشخص ہمارے اندر کا انسان ہے. اُسی نے عبادت کرنا ہے اور اسی نے بغاوت. وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا. اُسی اندر کے انسان نے ہم کو جزا و سزا کا مستحق بنانا ہے. فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے. ہمارا باطن ہی ہمارا بہترین دوست ہے اور وہی بدترین دشمن. باطن محفوظ ہوگیا تو ظاہر بھی محفوظ ہوگا.
جس نے اپنے اندر کا انسان (نفس) کو انا، غروروتکبر، ہوس، ریاکاری، بری خواہش و شہوات، حُبِّ دنیا، بغض، کینہ، حسد، حرص، لالچ سے خود کو ہلاک ہونے سے بچالیا وہی حقیقی معنوں میں بلند اور کامیاب ہوگیا.
اسلام اعتدال پسند ہے. اس میں احسان کی کافی اہمیت ہے، اسلام انسان میں روحانی ارتقاء چاہتا ہے، یہ دین نفس کا تزکیہ کرتا ہے. تزکیہ نفس کے حوالے سے ہم کبھی اعتدال کھو بیٹھتے ہیں. ضرورت اس بات کی ہے تزکیہ نفس پر وہ تعلیمات لوگوں کے سامنے لائی جائے جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں. پروفیسر خلیل الرحمٰن چشتی کی کتاب” تزکیہ نفس (مفہوم، ماہیت اور تدبیریں)” اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہے. اس کتاب میں تزکیہ کے حوالے سے اعتدال کی راہ دکھائی گئی ہے، تزکیہ نفس کے بارے میں قرآن اور حدیث کے احکام کو بیان کیا گیا ہے، خاص بات یہ ہے کہ صرف صحیح احادیث سے استدلال کیا گیا ہے، عام طور پر تزکیہ نفس پر جو کتابیں لکھی جاتی ہے؛ ان کی زبان مشکل ہوتی ہے لیکن زیر تبصرہ کتاب کا اسلوب نہایت ہی عمدہ ہے.
220 صفحات پر مشتمل کتاب کو مصنف نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے. پہلے چار ابواب مختصر ہیں البتہ پانچویں باب میں تفصیل سے موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے، کتاب کے پہلے باب “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل مقصد” میں مصنف نے سورہ آل عمران کی آیت 164 کے تحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے: 1،تلاوت آیات، 2 تعلیم کتاب 3، تعلیم حکمت اور 4 انسانوں کا تزکیہ
دوسرے باب” تزکیہ کیا ہے؟ “میں مصنف نے تزکیہ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم بیان کیا ہے اس باب میں مصنف نے تزکیہ کی قسمیں بھی بیان کی ہیں. مصنف تزکیہ نفس کے حوالے سے غلط فہمی کو دور بھی کرتے ہیں؛ لکھتے ہیں: “تزکیه نفس سے مراد نفس کو اتنا مارنا اور کچلنا نہیں چاہیے کہ اُس کی تمام خواہشات مرجائیں ۔ بلکہ خواہشات و میلانات کو کنٹرول کرتے ہوئے ، وحی الہی اور اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء پر چلنے کا نام تزکیہ نفس ہے۔ انسان کی معراج یہ ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات و میلانات کو اپنے تابع بنائے. ” (صفحہ 36)
تیسرے باب “اصول تزکیہ” میں مصنف نے قرآن و سنت کی روشنی میں 21 اصولوں کو مختصر مگر جامع بیان کیا ہے. اصول تزکیہ کے تحت مصنف بہت سی غلط فہمیوں کو دور بھی کرتے ہیں، اس باب میں کچھ اصطلاحات کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے جیسے طاغوت پر ایک بہترین مضمون اس باب میں شامل ہے.
چوتھے باب” عملی تزکیہ کا الٰہی پروگرام” میں مصنف لکھتے ہیں کہ اسلام نے اہل ایمان کی تربیت اور ان کے عملی تزکیے کے لیے جو پروگرام دیا ہے اس میں نماز اور انفاق دو اہم ترین ارکان ہیں. اس باب میں مصنف نے نماز اور انفاق کے ذریعہ تزکیہ کو بیان کیا ہے. اس سلسلے میں وہ قرآنی تعلیمات کو بھی پیش کرتے ہیں.
پانچویں باب میں مصنف نے تزکیہ نفس کے حصول کے لیے بارہ عملی تدبیریں بیان کیے ہیں. پہلی تدبیر نمازوں میں خشوع و خضوع کا اہتمام میں مصنف لکھتے ہیں کہ تزکیہ نفس کے حصول کے لیے پہلی اور اہم ترین تدبیر یہ ہے کہ ہم اپنی نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کریں ، خشوع و خضوع سے کیا مراد ہے؟ نماز میں خشوع و خضوع کیسے پیدا کیا جائے؟ اس سلسلے میں قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا ہے.
فروغ ذات اور تحسین ذات کے لیے دوسری عملی تدبیر کے طور مصنف نماز تہجد بیان کرتے ہیں. اس سلسلے میں مصنف نوافل کے بارے میں چار اصول بھی بیان کرتے ہیں، مصنف لکھتے ہیں کہ فرض نمازوں کے بعد سب سے اہم نماز جو اہم ہے؛ وہ نماز تہجد ہے. اس کے ذریعہ بندہ کو مقام محمود مل سکتا ہے، مصنف اس مضمون میں نماز تہجد کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں.
مصنف لکھتے ہیں کہ تزکیہ نفس کے لیے جو عملی تدبیر ہے اس میں صفات الہی کا استحضار ہے. استحضار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات عالیہ کو ہمیشہ ذہن میں حاضر رکھنا چاہیے. اس استحضار کے فوائد بھی بیان کرتے ہیں. مصنف لکھتے ہیں کہ صفات الٰہی کے استحضار کے لیے اہم ہے کہ ہم روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں. اس سے صفات الٰہی ہمارے ذہن میں ہمیشہ موجود رہیں گے. بقول مصنف : “ضروری ہے کہ ہم روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کو ، اپنے معمولات میں شامل کر لیں۔ ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھیں ۔ اگر تفاسیر سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اردو تفاسیر کا مطالعہ کریں ۔ اور ہر آیت پر رک کر غور و تدبر کریں ۔ اللہ تعالی نے ترتیل سے (یعنی ٹھہر ٹھہر کر) قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے پڑھے لکھے آدمی کو صرف قراءت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ معانی اور مفہوم پر بھی غور کرنا چاہیے۔ بالخصوص یہ بات کہ اس آیت میں ، اللہ کی یہ مخصوص صفت کیوں آئی ہے؟ سلسلہ کلام سے اس صفت الٰہی کا کیا تعلق ہے؟ ہمارے لیے اس میں کیا پیغام ہے؟ اس کی روشنی میں ہم اپنے آپ کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟ اگر ایک دو سال تک ، آپ روزانه تلاوت مع ترجمہ و تدبر کے لئے آدھ گھنٹہ وقف کر دیں تو ان شاء اللہ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی عملی زندگی میں عظیم انقلاب برپا ہو گیا ہے. ” (صفحہ 94)
چوتھی تدبیر مصنف توبہ و استغفار کا کثرت سے اہتمام بیان کرتے ہیں. مصنف لکھتے ہیں کہ توبہ و استغفار ایک احساس ندامت ہے. اس باب میں مصنف نے استغفار کی اہمیت بیان کی ہے. مصنف کہتے ہیں کہ ہمیں گناہ کے بعد بھی استغفار کرنا چاہیے اور نیکی کے بعد بھی. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نیکی کرنے کے بعد استغفار کرتے تھے. اس مضمون میں مصنف نے استغفار کے 8 فوائد بیان کیے ہیں. اس باب میں مصنف لکھتے ہیں کہ استغفار کے دنیاوی فوائد بھی ہے ساتھ ہی مصنف مسنون استغفار کے اذکار بھی بیان کرتے ہیں.
فروغ ذات اور تحسین ذات کی پانچویں ترکیب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت درود کا اہتمام ہے. مصنف بیان کرتے ہیں کون سا درود کثرت سے پڑھی جائے اور کب پڑی جائے. مزکورہ باب میں قاری کو مسنون درود کے الفاظ بھی مل جائیں گے.
چھٹی تدبیر مصنف کثرت درود کا اہتمام بیان کرتے ہیں، ذکر کب کیا جائے؟ کیسے کیا جائے؟ اس سلسلے میں اعتدال کی راہ کیا ہے؟ مصنف لکھتے ہیں: “اسلام ، دین ودنیا کا ایک ایسا جامع اور حسین امتزاج ہے ، جس کی نظیر دنیا کے کسی اور مذاہب میں نہیں مل سکتی۔سورۃ الجمعہ میں جو احکامات دیئے گئے ہیں ، ذرا ان پر غور فرمائیے۔ سب سے پہلے، تجارت چھوڑ کر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ دھوپ کرنے کا حکم دیا گیا۔ پھر فرمایا گیا: ” جب نماز ختم ہوجائے تو اللہ کے فضل کی تلاش میں مشغول ہو جاؤ، اس کے معًا بعد فرمایا گیا: اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو تجارت سے ہٹا کر ذکر میں مشغول کرتا ہے۔ اور ذکر سے ہٹا کر تجارت میں ۔ ہر صورت میں یاد الٰہی سراسر قائم رہتی ہے۔ کبھی مفقود نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے ، جس میں دین و دنیا کی منزلیں باہم پیوست ہیں” (صفحہ 121)
اس مضمون میں مصنف چند مسنون اذکار بھی بیان کرتے ہیں.
ساتویں تدبیر مصنف کثرت دعا کا اہتمام کہتے ہیں اس سلسلے میں وہ ایک غلط فہمی بھی دور کرتے ہیں؛ لکھتے ہیں: “بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کسی وزیر تک راست نہیں پہنچ سکتے ، اسی طرح اللہ تک بھی کسی نہ کسی کا واسطہ لازمی ہے۔ یہ دلیل نہایت بودی اور کمزور ہے ۔ اس لیے کہ وزیروں کو آپ
کے احوال کا علم نہیں ہوتا اور نہ وہ آپ کو جانتے ہیں۔ نہ وہ سینوں کے رازوں سے واقف ہیں ، نہ وہ قدوس ہیں؛ نہ وہ سبوح ہیں ، نہ وہ کامل علم رکھتے ہیں، چنانچہ وزیروں تک رسائی کے لیے ، کسی درمیانی واسطے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان واسطوں میں افراد ، ٹیلیفون ،فیکس خطوط، ملاقات وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو بھی جانتا ہے اور آپ کی ضرورت کو بھی سمجھتا ہے۔” (صفحہ 143)
نفلی روزوں کی کافی اہمیت ہے. مصنف فروغ ذات اور تحسین ذات کے لیے آٹھویں تدبیر نفل روزوں کا اہتمام بتاتے ہیں البتہ مصنف کا خیال ہے کہ نفل روزے تعداد میں اگر کم بھی ہوں لیکن ان کا اہتمام مستقل مزاجی کے ساتھ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ رب العزت کو وہ عمل زیادہ پسند ہے جو چاہے کم ہو لیکن مستقل ہو، نفلی روزوں کا اہتمام کب کب کرنا چاہیے مسلمان صحیح احایت کی روشنی میں رہنمائی بھی کرتے ہیں.
مصنف نے حصول تزکیہ نفس کی نویں تدبیر یہ بیان کی ہے کہ ہمیں قبر کے مناظر کو ذہن میں رکھنا چاہیے، عام طور پر عذاب قبر کے حوالے سے غیر مستند واقعات بیان کیے جاتے ہیں لیکن مصنف نے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی بات کی ہے، مصنف اس مضمون میں قبر میں کیا ہوتا ہے لکھتے ہیں اس سلسلے میں صحیح احادیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے، عذاب قبر سے پناہ کے بارے میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا معمول تھا؛ وہ بھی بیان کیا ہے.
قرآن کریم میں قیامت کے مناظر کی عکاسی کی ہے. مصنف دسویں تدبیر بتاتے ہیں کہ ہمیں عذاب قیامت کا استضحار رکھنا چاہیے. اس مضمون میں مصنف قران کریم سے مناظر عذاب قیامت بیان کرتے ہیں، روز قیامت کا بہترین نقشہ صحیح احادیث کی روشنی میں کھنچتے ہیں. اس سلسلے میں سید قطب شہید کی مناظر قیامت بھی قاری کو پڑھنی چاہیے.
گیارہویں تدبیر مصنف عذاب جہنم کا استحضار بتاتے ہیں، مصنف لکھتے ہیں کہ نفس کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک ربانی تدبیر عذاب جہنم کو ذہن میں رکھنے کا ہے. اس سلسلے میں وہ قرآن کریم کی آیات بیان کرتے ہیں، اس مضمون میں دوزخ کا نقشہ قرآن و سنت کی روشنی میں خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے. دورخ کے عذاب کی نوعیت کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے، عذاب جہنم پر مستند مواد اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں.
قرآن جہاں عذاب جہنم کا نقشہ کھینچتا ہے؛ وہیں انعامات جنت کو بھی تفصیل سے بیان کرتا ہے. مصنف تزکیہ نفس کی بارہویں تدبیر استحضار جنت بیان کرتے ہیں. مصنف لکھتے ہیں کہ استحضار جنت یہ ہے کہ مومن بندہ، قبر اور عذاب کی یاد کے ساتھ ساتھ جنت کے تصور سے بھی اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے، قرآن کریم میں انسانی فطرت اور نفسیات کو ذہن میں رکھکر ہی جنت کا تفصیلی ذکر ملتا ہے لکھتے ہیں: “اللہ تعالیٰ کے علاوہ ، جو خالق کائنات اور خالق انسان ہے ، بھلا اور کون ہو سکتا ہے ، جو انسانی نفسیات اور انسانی طبائع کے بارے میں بہتر علم رکھتا ہو؟ دراصل حقیقت یہ ہے کہ انسانی نفس، عذاب کے تصور سے خوف زدہ ہوتا ہے اور نیکیوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ برائیوں سے اجتناب کرتا ہے۔ اسی طرح ثواب اور انعامات کی توقع ، اسے زیادہ محنت کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اور وہ اعلیٰ درجات کے حصول کے لیے سرگرداں ہو جاتا ہے۔قرآن مجید نے چونکہ جنت کا ذکر بتکرار کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کی ہیں؛ اس لیے ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان انعامات کا استحضار کرے۔ ذہن کو اس طرف مائل کرنے سے نفس کا تزکیہ یقینی ہے۔” (صفحہ 214)
یہ کتاب آج کے مادی دور میں بندہ مومن کے لیے نہایت ہی اہم کتاب ہے. وہ لوگ جو اجتماعی جدوجہد کرتے ہیں؛ ان کے لیے اس کتاب میں کافی مواد مل سکتا ہے. ملت پبلی کیشنز سرینگر کی روایت رہی ہے کہ انہوں نے نہایت ہی اہم موضوعات پر عمدہ کتابیں شائع کی ہیں.اس کتاب کی طباعت بھی عمدہ ہے. اس کی قیمت 250 روپے بھی مناسب ہے. یہ کتاب واٹس اپ نمبر 9419561922 پر حاصل کی جا سکتی ہے.
Tag: تزکیہ نفس
-

تزکیہ نفس (مفہوم، ماہیت اور تدبیریں) – سہیل بشیر کار
-

توکل اور آزمائش-ڈاکٹر صفدر محمود

سچ پوچھیں تو اصل نام وہی ہوتا ہے جو گمنام کو نصیب ہوتا ہے۔ جو وقت کی تاریکی میں چاند کی مانند ابھرتا اور اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیتا ہے۔ گمنام کے نام سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے مشن، مقصد اور خدمت میں اس طرح غرق ہو جاتے ہیں کہ وہ نام و نمود سے بالکل بے نیاز ہو جاتے ہیں بلکہ نام و نمود سے دور بھاگتے ہیں۔ شہرت، دولت، مرتبہ اور اختیار انسان کی فطری خواہشات ہیں اورانسان اس قدر کمزور واقع ہوا ہے کہ اکثر اوقات شہرت، دولت، مرتبے اور اختیار کے پیچھے یوں سرپٹ بھاگتا ہے کہ اس کی خواہش پر ہوس کا گمان ہوتا ہے۔ تزکیہ نفس کیا ہے؟ قلب اور باطن کو ہر قسم کی ہوس سے پاک اور صاف کرنا….. اور سچ یہ ہے کہ جب انسان تزکیہ نفس کی منزل طے کر کے اپنے آپ کو ہوس، جنسی خواہشات، دنیاوی غلاظتوں اور حرص سے پاک کر لیتا ہے تو اس کے باطن میں نور الٰہی اترتا ہے۔
جہاں ہوس نے ڈیرے ڈالے ہوں وہاں رضائے الٰہی کی روشنی کیونکر داخل ہوگی….. اور سچ یہ بھی ہے کہ تزکیہ نفس کٹھن ترین اور مشکل ترین منزل ہے۔ میرے نزدیک یہ فتوحات عالم، بلند ترین پہاڑی چوٹیوں، سمندروں اور پہاڑوں کو فتح کرنے سے بھی مشکل کام ہے کیونکہ اپنے آپ کو فتح کرنا اور جیتے جی خاک میں ملا لینا کسی عظیم فاتح اور بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والوں کے بھی بس کا روگ نہیں ہوتا۔ نامور ہستیوں اور بظاہر بلندیوں پر متمکن افرادکے دلوں میں جھانکیں تو وہاں آپ کو ’’ہل من مزید‘‘ یعنی نہ ختم ہونے والی خواہش کی ہوس نظر آئے گی جبکہ سچا تزکیہ نفس انسان کو دنیاوی ہوس سے پاک کر کے قرب الٰہی کی صف میں بٹھا دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فقط اتنی سی ہے کہ جب انسان نام و نمود، دنیاوی عزت و شہرت، دولت، اقتدار و اختیار، جنسی ترغیبات اور رعب و داب کی خواہشات سے پاک یا بے نیاز ہو جاتا ہے تو وہ ’’توکل‘‘ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے توکل کا مقام نظر نہ آنے والی وہ بلندی ہے جہاں انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر رضائے الٰہی کے تابع کر لیتا ہے، ہر کام اور ہر حرکت میں رضائے الٰہی ڈھونڈتا ہے،،
جو مل جائے اس پر شکر ادا کرتا ہے اور جو نہ ملے اس پر یوں صبر کرتا ہے جیسے اس کی کوئی خواہش ہی نہ تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ متوکل انسان محرومی ، رنج و الم اور زیادتی و بے انصافی کے احساس سے بھی بے نیازی ہوتا ہے کیونکہ اسکا ہر جذبہ، احساس، ردعمل اور خواہش رضائے الٰہی کے تابع ہوتی ہے نہ کہ دنیاوی نظام اور دنیاوی جبر و قدر کا شاخسانہ ….. صبر اور شکر اسوۂ حسنہ ﷺ کا ایک اہم سبق اور ہمارے لئے روشنی کا مینار ہے۔ صبر اور شکر ہی ’’توکل‘‘ کی عمارت کے بنیادی ستون ہیں جن پر یہ عمارت کھڑی ہے۔ صبر و شکر کا امتحان روزمرہ کی زندگی میں بھی ہوتا ہے لیکن ان کا اصل امتحان آزمائش کے دور میں ہوتا ہے۔
سبحان اللہ کہ جو شخص رضائے الٰہی اورقرب الٰہی کا متمنی ہوتا ہے اور یہ خواہش خلوص نیت سے دل میں پروان چڑھاتا ہے اللہ پاک اسے ضرور آزماتے ہیں کیونکہ آزمائش اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ حیرت ہے کہ خالق اپنی مخلوق کو پوری طرح جاننے کے باوجود اسے آزماتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ آزمائش اس نظام کا حصہ ہے، آزمائش انسان کو مزید پختہ کرتی اور کندن بناتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ کسی مقام کے حصول کے لئے امتحان پاس کرنا اوراپنی اہلیت کا ثبوت بھی تو دینا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں باربار آزمائش کا ذکر ہوا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ پاک اپنے پیارے نبیوں، پیغمبروں اور صالحین کو ہردور میں آزماتے رہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سلسلہ جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا اور قرب الٰہی کی آرزو رکھنے والے اپنی اپنی حیثیت، اپنے اپنے ظرف اور اپنی اپنی منزل کے مطابق آزمائش کے مراحل سے گزارے جاتے رہیں گے۔ رہی آزمائش تو اس کی سینکڑوں قسمیں ہیں جن میں معروف قسمیں طویل بیماری، طویل محرومی، زوال، معاشرتی جبر و انتقام، آسمانی آفات وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی میں آپؐ پر کون سے مظالم نہ ڈھائے گئے۔ طائف کے سفر سے لے کر شعیب ابوطالب تک کا تصور کر کے انسان کانپ جاتا ہے اور پھر ان مظالم کے مقابلے میں صبر و شکر دیکھ کر انسان حیرت کی وادیوں میں گم ہو کر سوچنے لگتا ہے کہ کیا کوئی عام انسان اتنے مصائب اور مظالم برداشت کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جتنا بڑا مقام ہوگا اور جتنی عظیم پوزیشن ہوگی اسی قدر بڑی آزمائش بھی ہوگی کیونکہ اللہ پاک اپنے بندے کو خوب جانتے ہیں۔ آزمائش کی بھٹی یا آزمائش کی منزل سے سرخرو ہو کر ہی باطن کی روشنی اور قرب الٰہی ملتا ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ آزمائش کا ایک ضروری جزواستقامت بھی ہے اور آزمائش میںمبتلا کرنے سے پہلے استقامت کا امتحان لیا جاتا ہے۔ استقامت یہ کہ انسان نے قرب الٰہی کے حصول کے لئے جوزہد و تقویٰ ، عبادات اور تزکیہ نفس کا سلسلہ شروع کیا ہے کیا وہ اس میں مستقل مزاج ہے، کیا وہ ان پر باقاعدگی سے عمل کررہا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ ایک رات عبادت اور ذکر الٰہی میں گزار دی اور پھر دوسری رات فجر تک سوتے رہے۔ استقامت بھی اللہ پاک کی عطا کردہ نعمت اور توفیق ہوتی ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ چنانچہ استقامت آزمائش کی منزل کی پہلی سیڑھی ہے۔ انسان جب قرب الٰہی کے جنون میں استقامت کی تصویر بنتا ہے اور مسائل و مصائب کے باوجود مستقل مزاجی سے اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے تو آزمائش کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بہرحال ایک بات واضح ہے کہ اس سفر کے راہی کا اولین اثاثہ تزکیہ نفس اور دوم صبر و شکر ہوتا ہے۔ باطن کو دنیاوی غلاظتوں سے صاف کئے بغیر اور صبر و شکر کی منزل حاصل بغیر قرب الٰہی کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ ہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ سب اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی دین ہے، وہ عطا فرمائیں یا نہ….. یہ رضائے الٰہی کا معاملہ ہے جس میں انسان بے بس ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اللہ پاک بہترین انصاف کرنے والے ہیں، وہ کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کرتے۔ اکثر اوقات ہماری محرومیاں اور روحانی راہ میں ناکامیاں ہماری نیتوں میں کھوٹ یا کمی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
آ زمائشوں کا ذکر ہو تو دولت، اقتدار، شہرت اور اختیار بھی آزمائشوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جس نے اللہ پاک کی ان نعمتوں کو مخلوق خدا کی خدمت اور راہ حق کے حصول کے لئے استعمال کیا اور وہ سرخرو ہوا لیکن جس نے انہیں اپنی ذاتی لذتوں اور تسکین نفس کا سامان بنایا وہ ناکام ٹھہرا۔ قول فیصل ہے کہ اکثر لوگوں کو ان کی خدمات اور خواہشات کا اجر اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ غیب کا علم میرے رب کی ملکیت ہے وہی جانتا ہے کہ انہیں اگلے جہان میں بھی اجر ملے گا یا نہیں؟ لیکن میں ان کی بات کررہا ہوں جو نام و نمود، دنیاوی نعمتوں، لذتوں اور نفسانی خواہشات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ان کا زہد و تقویٰ ہو، مجاہدات ہوں یا مخلوق کے لئے خدمات یہ سب کچھ صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لئے ہوتا ہے نہ کہ دنیاوی احترام اور مقام کے لئے۔ اکثر یہ لوگ اپنی زندگی میں گمنام اور گوشہ نشین رہتے ہیں لیکن وفات کے بعد اللہ پاک ان کے نام، کام اور مقام کو دوام بخش دیتے ہیں۔ مٹی میں ملنے کے بعد ان کی خوشبو ہر سو پھیلتی چلی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اصل نام وہی ہوتا ہے جو گمنام کو نصیب ہوتا ہے، جو وقت کی تاریکی میں چاند کی مانند ابھرتا اور چاروں طرف ٹھنڈی ٹھنڈی سکون بخش روشنی پھیلا دیتا ہے۔ باقی محض وقت اور نظر کا فریب۔ آج ہے کل نہیں ہوگا۔ رہے نام اللہ کا۔