ہوم << توکل اور آزمائش-ڈاکٹر صفدر محمود

توکل اور آزمائش-ڈاکٹر صفدر محمود

dr-safdar-mehmood
سچ پوچھیں تو اصل نام وہی ہوتا ہے جو گمنام کو نصیب ہوتا ہے۔ جو وقت کی تاریکی میں چاند کی مانند ابھرتا اور اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیتا ہے۔ گمنام کے نام سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے مشن، مقصد اور خدمت میں اس طرح غرق ہو جاتے ہیں کہ وہ نام و نمود سے بالکل بے نیاز ہو جاتے ہیں بلکہ نام و نمود سے دور بھاگتے ہیں۔ شہرت، دولت، مرتبہ اور اختیار انسان کی فطری خواہشات ہیں اورانسان اس قدر کمزور واقع ہوا ہے کہ اکثر اوقات شہرت، دولت، مرتبے اور اختیار کے پیچھے یوں سرپٹ بھاگتا ہے کہ اس کی خواہش پر ہوس کا گمان ہوتا ہے۔ تزکیہ نفس کیا ہے؟ قلب اور باطن کو ہر قسم کی ہوس سے پاک اور صاف کرنا..... اور سچ یہ ہے کہ جب انسان تزکیہ نفس کی منزل طے کر کے اپنے آپ کو ہوس، جنسی خواہشات، دنیاوی غلاظتوں اور حرص سے پاک کر لیتا ہے تو اس کے باطن میں نور الٰہی اترتا ہے۔
جہاں ہوس نے ڈیرے ڈالے ہوں وہاں رضائے الٰہی کی روشنی کیونکر داخل ہوگی..... اور سچ یہ بھی ہے کہ تزکیہ نفس کٹھن ترین اور مشکل ترین منزل ہے۔ میرے نزدیک یہ فتوحات عالم، بلند ترین پہاڑی چوٹیوں، سمندروں اور پہاڑوں کو فتح کرنے سے بھی مشکل کام ہے کیونکہ اپنے آپ کو فتح کرنا اور جیتے جی خاک میں ملا لینا کسی عظیم فاتح اور بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والوں کے بھی بس کا روگ نہیں ہوتا۔ نامور ہستیوں اور بظاہر بلندیوں پر متمکن افرادکے دلوں میں جھانکیں تو وہاں آپ کو ’’ہل من مزید‘‘ یعنی نہ ختم ہونے والی خواہش کی ہوس نظر آئے گی جبکہ سچا تزکیہ نفس انسان کو دنیاوی ہوس سے پاک کر کے قرب الٰہی کی صف میں بٹھا دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فقط اتنی سی ہے کہ جب انسان نام و نمود، دنیاوی عزت و شہرت، دولت، اقتدار و اختیار، جنسی ترغیبات اور رعب و داب کی خواہشات سے پاک یا بے نیاز ہو جاتا ہے تو وہ ’’توکل‘‘ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے توکل کا مقام نظر نہ آنے والی وہ بلندی ہے جہاں انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر رضائے الٰہی کے تابع کر لیتا ہے، ہر کام اور ہر حرکت میں رضائے الٰہی ڈھونڈتا ہے،،
جو مل جائے اس پر شکر ادا کرتا ہے اور جو نہ ملے اس پر یوں صبر کرتا ہے جیسے اس کی کوئی خواہش ہی نہ تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ متوکل انسان محرومی ، رنج و الم اور زیادتی و بے انصافی کے احساس سے بھی بے نیازی ہوتا ہے کیونکہ اسکا ہر جذبہ، احساس، ردعمل اور خواہش رضائے الٰہی کے تابع ہوتی ہے نہ کہ دنیاوی نظام اور دنیاوی جبر و قدر کا شاخسانہ ..... صبر اور شکر اسوۂ حسنہ ﷺ کا ایک اہم سبق اور ہمارے لئے روشنی کا مینار ہے۔ صبر اور شکر ہی ’’توکل‘‘ کی عمارت کے بنیادی ستون ہیں جن پر یہ عمارت کھڑی ہے۔ صبر و شکر کا امتحان روزمرہ کی زندگی میں بھی ہوتا ہے لیکن ان کا اصل امتحان آزمائش کے دور میں ہوتا ہے۔
سبحان اللہ کہ جو شخص رضائے الٰہی اورقرب الٰہی کا متمنی ہوتا ہے اور یہ خواہش خلوص نیت سے دل میں پروان چڑھاتا ہے اللہ پاک اسے ضرور آزماتے ہیں کیونکہ آزمائش اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ حیرت ہے کہ خالق اپنی مخلوق کو پوری طرح جاننے کے باوجود اسے آزماتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ آزمائش اس نظام کا حصہ ہے، آزمائش انسان کو مزید پختہ کرتی اور کندن بناتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ کسی مقام کے حصول کے لئے امتحان پاس کرنا اوراپنی اہلیت کا ثبوت بھی تو دینا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں باربار آزمائش کا ذکر ہوا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ پاک اپنے پیارے نبیوں، پیغمبروں اور صالحین کو ہردور میں آزماتے رہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سلسلہ جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا اور قرب الٰہی کی آرزو رکھنے والے اپنی اپنی حیثیت، اپنے اپنے ظرف اور اپنی اپنی منزل کے مطابق آزمائش کے مراحل سے گزارے جاتے رہیں گے۔ رہی آزمائش تو اس کی سینکڑوں قسمیں ہیں جن میں معروف قسمیں طویل بیماری، طویل محرومی، زوال، معاشرتی جبر و انتقام، آسمانی آفات وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی میں آپؐ پر کون سے مظالم نہ ڈھائے گئے۔ طائف کے سفر سے لے کر شعیب ابوطالب تک کا تصور کر کے انسان کانپ جاتا ہے اور پھر ان مظالم کے مقابلے میں صبر و شکر دیکھ کر انسان حیرت کی وادیوں میں گم ہو کر سوچنے لگتا ہے کہ کیا کوئی عام انسان اتنے مصائب اور مظالم برداشت کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جتنا بڑا مقام ہوگا اور جتنی عظیم پوزیشن ہوگی اسی قدر بڑی آزمائش بھی ہوگی کیونکہ اللہ پاک اپنے بندے کو خوب جانتے ہیں۔ آزمائش کی بھٹی یا آزمائش کی منزل سے سرخرو ہو کر ہی باطن کی روشنی اور قرب الٰہی ملتا ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ آزمائش کا ایک ضروری جزواستقامت بھی ہے اور آزمائش میںمبتلا کرنے سے پہلے استقامت کا امتحان لیا جاتا ہے۔ استقامت یہ کہ انسان نے قرب الٰہی کے حصول کے لئے جوزہد و تقویٰ ، عبادات اور تزکیہ نفس کا سلسلہ شروع کیا ہے کیا وہ اس میں مستقل مزاج ہے، کیا وہ ان پر باقاعدگی سے عمل کررہا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ ایک رات عبادت اور ذکر الٰہی میں گزار دی اور پھر دوسری رات فجر تک سوتے رہے۔ استقامت بھی اللہ پاک کی عطا کردہ نعمت اور توفیق ہوتی ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ چنانچہ استقامت آزمائش کی منزل کی پہلی سیڑھی ہے۔ انسان جب قرب الٰہی کے جنون میں استقامت کی تصویر بنتا ہے اور مسائل و مصائب کے باوجود مستقل مزاجی سے اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے تو آزمائش کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بہرحال ایک بات واضح ہے کہ اس سفر کے راہی کا اولین اثاثہ تزکیہ نفس اور دوم صبر و شکر ہوتا ہے۔ باطن کو دنیاوی غلاظتوں سے صاف کئے بغیر اور صبر و شکر کی منزل حاصل بغیر قرب الٰہی کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ ہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ سب اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی دین ہے، وہ عطا فرمائیں یا نہ..... یہ رضائے الٰہی کا معاملہ ہے جس میں انسان بے بس ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اللہ پاک بہترین انصاف کرنے والے ہیں، وہ کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کرتے۔ اکثر اوقات ہماری محرومیاں اور روحانی راہ میں ناکامیاں ہماری نیتوں میں کھوٹ یا کمی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
آ زمائشوں کا ذکر ہو تو دولت، اقتدار، شہرت اور اختیار بھی آزمائشوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جس نے اللہ پاک کی ان نعمتوں کو مخلوق خدا کی خدمت اور راہ حق کے حصول کے لئے استعمال کیا اور وہ سرخرو ہوا لیکن جس نے انہیں اپنی ذاتی لذتوں اور تسکین نفس کا سامان بنایا وہ ناکام ٹھہرا۔ قول فیصل ہے کہ اکثر لوگوں کو ان کی خدمات اور خواہشات کا اجر اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ غیب کا علم میرے رب کی ملکیت ہے وہی جانتا ہے کہ انہیں اگلے جہان میں بھی اجر ملے گا یا نہیں؟ لیکن میں ان کی بات کررہا ہوں جو نام و نمود، دنیاوی نعمتوں، لذتوں اور نفسانی خواہشات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ان کا زہد و تقویٰ ہو، مجاہدات ہوں یا مخلوق کے لئے خدمات یہ سب کچھ صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لئے ہوتا ہے نہ کہ دنیاوی احترام اور مقام کے لئے۔ اکثر یہ لوگ اپنی زندگی میں گمنام اور گوشہ نشین رہتے ہیں لیکن وفات کے بعد اللہ پاک ان کے نام، کام اور مقام کو دوام بخش دیتے ہیں۔ مٹی میں ملنے کے بعد ان کی خوشبو ہر سو پھیلتی چلی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اصل نام وہی ہوتا ہے جو گمنام کو نصیب ہوتا ہے، جو وقت کی تاریکی میں چاند کی مانند ابھرتا اور چاروں طرف ٹھنڈی ٹھنڈی سکون بخش روشنی پھیلا دیتا ہے۔ باقی محض وقت اور نظر کا فریب۔ آج ہے کل نہیں ہوگا۔ رہے نام اللہ کا۔

Comments

Click here to post a comment