Category: اسپورٹس

  • جو روٹ کا تاریخی سفر  – عرفان علی عزیز

    جو روٹ کا تاریخی سفر – عرفان علی عزیز

    اولڈ ٹریفوڈ کے تاریخی میدان پر جو روٹ نے ایک بار پھر اپنی کلاس اور مستقل مزاجی کا لوہا منوا لیا۔ بھارت کے خلاف چوتھے ٹیسٹ میچ کے دوران جب انہوں نے شاندار سنچری بنائی، تو وہ نہ صرف انگلینڈ کو مضبوط پوزیشن میں لے آئے بلکہ دو عظیم بلے بازوں، راہول ڈریوڈ اور ژاک کیلس کو ٹیسٹ رنز کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا۔

    ان لمحات نے کھیل کے شائقین کو برسوں پیچھے لے جا کر ایک اور عظیم لمحہ یاد دلایا: دسمبر 2012، ناگپور کا وہ ٹیسٹ جہاں نوجوان جو روٹ نے اپنا ڈیبیو کیا۔ 22ویں سالگرہ سے کچھ دن پہلے روٹ کو پہلی بار انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس میچ میں ان کا مقابلہ بھارت کے عظیم بلے باز سچن ٹنڈولکر سے ہوا ایک ایسا لمحہ جو صرف ایک بار پیش آیا۔ ٹنڈولکر نے اس کے بعد صرف چھ مزید ٹیسٹ کھیلے اور ایک بھی سنچری نہ بنا سکے۔ جبکہ جو روٹ نے تب سے ایک نہ رکنے والا سفر شروع کر دیا۔

    اب 2025 میں، روٹ کی عمر 34 سال ہے اور وہ اپنے کیریئر کے 157 ٹیسٹ میچز میں 38 سنچریاں اور 14,000 سے زائد رنز بنا چکے ہیں۔ اولڈ ٹریفورڈ پر بھارت کے خلاف ان کی حالیہ اننگز —150 رنز — نے انہیں رکی پونٹنگ سے بھی آگے کر دیا، اور اب ان کے آگے صرف ایک نام باقی ہےکہ سچن ٹنڈولکر، جن کے 15,921 رنز کا پہاڑ ابھی باقی ہے۔
    روٹ کی بیٹنگ میں ایک خاص ترتیب، توازن اور خوبصورتی ہے۔ سیدھی ڈرائیو، آف سائیڈ پر تھرڈ مین کی جانب دھیما سا ڈب، مڈ وکٹ پر نرم شاٹس اور اس کے ساتھ ان کے مشہور ریورس سویپ نے شائقین کو جادو میں جکڑ لیا۔ وہ جو ہر شارٹ میں مقصد رکھتے ہیں، ہر رن کے پیچھے حکمت ہوتی ہے، اور ہر اننگ میں اعتماد نمایاں۔

    اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جو روٹ ٹنڈولکر کے ریکارڈ کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے کیریئر میں وہ فی میچ اوسطاً 85.4 رنز بنا رہے ہیں، جبکہ 2021 کے بعد سے ان کا اوسط 93 رنز فی میچ ہے۔ گزشتہ 19 ٹیسٹ میں وہ توجہ، ہنر اور تسلسل کی ایسی مثال بن چکے ہیں کہ ان کا اوسط 101 رنز فی میچ رہا ہے۔ اگر ان کی یہ رفتار برقرار رہی، تو یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ روٹ 2027 میں اوول ٹیسٹ کے دوران، جو کہ ایشیز کا آخری میچ ہوگا، ٹنڈولکر کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ تصور کیجیے، ایک تاریخی لمحہ: جو روٹ کا ریکارڈ بنانا، اور ساتھ ہی انگلینڈ کی 5-0 سے فتح۔ یہ انگلینڈ میں ایک قومی جشن کا موقع بن جائے گا۔

    مگر سفر اتنا سادہ نہیں۔ روٹ نے اب تک دو ہی ٹیسٹ میچ مس کیے ہیں، وہ بھی انجری کی وجہ سے نہیں۔ وہ خوش قسمت ضرور رہے ہیں، مگر مستقبل میں چوٹ یا فارم کا مسئلہ آ سکتا ہے۔ خاص طور پر آسٹریلیا کا دورہ، جہاں وہ کبھی سنچری نہیں بنا سکے، ان کے لیے اب بھی ایک کھلا چیلنج ہے۔ 2013-14 کی سیریز میں وہ مچل جانسن کے قہر سے بچنے کے لیے آخری میچ سے باہر کر دیے گئے تھے۔ 2017-18 میں وہ بیمار ہو گئے تھے، اور 2021-22 کی سیریز میں انہوں نے ایسی گیند کھائی کہ ہر شائق کو تکلیف کا احساس ہوا۔ یہ وہ داغ ہے جو جو روٹ اپنے کیریئر میں دھونا چاہتے ہیں۔

    انگلینڈ کے آئندہ 26 ٹیسٹ میچز — آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، پاکستان، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور ایشیز کی اگلی سیریز — سب روٹ کے لیے مواقع ہیں۔ اگر وہ فٹ اور فارم میں رہے، تو سچن کا ریکارڈ ان کی پہنچ سے دور نہیں۔ جو روٹ انگلینڈ کی بیٹنگ کی تاریخ میں پہلے ہی ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وی جی گریس، جیک ہابز، والٹر ہیمنڈ، ڈینس کامپٹن، ڈیوڈ گاور، جیوفرے بائیکاٹ، کیون پیٹرسن، اور ایلسٹر کک جیسے ناموں کی فہرست میں اب جو روٹ کا اضافہ ہو چکا ہے شاید سب سے آگے۔

    اطہر جی کا کہنا تھا :
    “لیکن روٹ کے لیے صرف رنز اہم نہیں، بلکہ تکمیل اور تسلسل کی علامت بننا بھی اہم ہے۔ اور اب وہ اس سمت میں بڑھ رہے ہیں جہاں صرف ایک نام باقی ہے — سچن ٹنڈولکر۔ شاید کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو کہ انگلینڈ سے ایک کھلاڑی آ کر بھارت کے سب سے عظیم بلے باز کو چیلنج کرے گا، مگر اب یہ خواب حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب ہے۔”

    شیفلڈ کے ایک ہسپتال میں پیدا ہونے والا بچہ، جس کے والد نے اس کے لیے کارڈ بورڈ کا بلا بنایا تھا، اب دنیا کے سب سے بڑے بلے باز کے ریکارڈ کا تعاقب کر رہا ہے۔ یہ ہے کچن سچن کی کہانی — ایک خاموش، شائستہ، مگر مسلسل آگے بڑھنے والا سفر۔ روٹ کی اس دوڑ کا انجام کیا ہوگا؟ وقت بتائے گا، مگر اس وقت جو ممکن ہے، وہ ناقابلِ یقین ہے۔

    ٹیسٹ کرکٹ (Test)
    میچز: 156
    اننگز: 285، Not Outs: 24
    کل رنز:13,409
    اوسط (Average): 50.80
    اسٹرائیک ریٹ (SR): تقریباً 57.4
    فیفٹیوں/سنچریوں: 66 نصف سنچریاں، 38 سنچریاں
    دبل ڈبل (double tons): 6، ہائی اسکور 262
    چوکوں/چھکوں: 1,419 فورز، 45 چھکوں
    بولنگ (Off‑spin): 71 وکٹیں، بہترین اننگز 5/8، بولنگ اوسط around 45.3
    فیلڈنگ: 211 کیچز (outfielder record)

    اہم سنگ میل:
    انہوں نے حال ہی میں انٹرنیشنل ٹیسٹ رنز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر قبضہ کیا، رچی پوئنٹنگ و راول دَریڈ اور جے کے کالیس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، صرف سچن ٹنڈولکر کے بعد 2023‑25 کی World Test Championship میں سب سے زیادہ سنچریاں (19) اور نصف سنچریاں (41) بنانے والے کھلاڑی ہیں.

    ون ڈے انٹرنیشنل (ODI)
    میچز: 180
    انیگز: 169، Not Outs: 24
    کل رنز: 7,126
    اوسط: 49.14، اسٹرائیک ریٹ ~87.6
    سنچریاں: 18 (انگلینڈ کی تاریخ میں سب سے زیادہ)
    نچلا ہائی اسکور: 166 (2025 میں پاکستان کے خلاف)
    فیفٹی: 42
    چوکوں/چھکوں: 575 4s، 53 6s
    بولنگ: 28 وکٹیں (آئی ننگز بیسٹ 3/52)
    فیلڈنگ: 88 کیچز
    ٹی 20 انٹرنیشنل (T20I)
    میچز: 32
    انیگز: 30، Not Outs: 5
    رنز: 893، اوسط 35.7، اسٹرائیک ریٹ ~126.3
    نچلا ہائی اسکور: 90
    فیفٹی: 5
    سنچریاں: کوئی نہیں
    بولنگ: 6 وکٹیں (بہترین: 2/9)
    فیلڈنگ: 18 کیچز
    مجموعی اعداد و شمار (Other formats)
    First‑class: 22,000+ رنز، اوسط ~50
    List‑A (ODI طرز): 8,339 رنز، اوسط ~47.4

    خاص کارنامے اور اعزازات
    Test ٹیم میں 2017‑22 تک کپتانی کی: 64 ٹیسٹ، جن میں 27 جیتیں، 26 ہار …. 2021 میں ICC Men’s Test Cricketer of the Year اور Wisden Leading Cricketer in the World قرار پائے . England کے اعلی ترین Test (38) اور ODI (18) سنچریاں بنانے والے کھلاڑی ہیں . England کی World Cup میں سب سے ٹاپ run scorer، اور صرف انگلش کھلاڑی جو 1000+ ورلڈ کپ رنز بنا چکے ہیں . World Test Championship میں سب سے زیادہ سنچریاں و 50+ سکور کرنے والے کھلاڑی ہیں . فیلڈنگ میں سب سے زیادہ non‑wicketkeeper کیچز Test کرکٹ میں (Rahul Dravid کے برابر تُیلی ہوا)

  • شاہین کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی- احمد حماس

    شاہین کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی- احمد حماس

    استعمار کے تلاطم میں گھری خلافت عثمانیہ۔۔۔۔۔۔
    برصغیر میں آٹھ صدیوں سے قائم حکومت کا سقوط۔۔۔۔۔۔
    دانش افرنگ کی چکاچوند سے مرعوب زعمائے ملت۔۔۔۔۔۔
    امت و ملت کی بصیرت سے محروم و مایوس نوجواں۔۔۔۔۔۔
    روح بلالی سے ناآشنا مساجد و مدارس اور رسم شبیری سے ناواقف خانقاہیں۔۔۔۔۔۔
    دوسری طرف بڑھتے ہوئے افرنگی و یورپی قدم اور وجود ملت کو توڑنے اور امت کا شیرازہ بکھیرنے کی سازشیں ۔۔۔۔۔۔

    یہ وہ حالات تھے جب سرزمین برصغیر میں ایک ایسی بابصیرت شخصیت نے جنم لیاکہ گردش دوراں نے جس کے ساز میں امت و ملت کے سوز کو کوٹ کوٹ کر بھردیا اور جس کی آشفتہ سری نے اس امت کے تن مردہ کو حیات نو بخشنے کے لیے اپنے فکر و فن کی تمام توانائیاں صرف کرنے پر مجبور کردیا۔

    کسریٰ کے محل کی شان و شوکت کو روند کر اس کے سامنے کلمہ حق کہنے والے صحابی رسول کی بے نیازی، محیط اطلس میں گھوڑے کے قدم ڈال کر سمندر کی مضطرب موجوں کے سامنے کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے زمین کی تنگ دامنی کا گلہ کرتے موسیٰ بن نصیر کا عزم صمیم اور ساحل اندلس پر کشتیاں جلاتے طارق بن زیاد کے یقین محکم نے تاریخ انسانی کے اس عظیم مفکر اور شاعر کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے عرب کے جاہل اور گنوار معاشرے میں جنم لیتے توحید پرست نوجوانوں کو جہاں آرائی کے جنوں سے مالا مال کردیا کہ جنہوں نے دنیا کو تہذیب و تمدن سے متعارف کروادیا اور آج ملت بیضا کے نوجوان جہاں بانی، جہاں آرائی و جہاں گیری کی بصیرت سے بانجھ کیوں ہوچکے ہیں؟

    اس راز کو پانے کے بعد انہوں نے اس ملت کو خواب غفلت سے جگانے کا ہی کام نہیں بلکہ اس کی فکر کی عالمگیریت نے دنیا کی بیشتر اقوام کو ”اقبال شناسی” پر مجبور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں اقبال کے پیغام کو ترجمہ کیا گیا۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ‘ ہمارا مقصود صرف امت مسلمہ کے نوجوانوں کو حضرت اقبال کی طرف سے دیے گئے پیغام کو آپ کے سامنے رکھنا ہے جس کو اقوام کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

    وہ نوجوانان اسلام سے مخاطب ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے شاندار ماضی کا نقشہ سامنے رکھتے ہوئے شباب ملت کو جھنجھوڑتے ہیں، کہ تو ایک ایسے آسماں کا ٹوٹا ہوا ستارہ اور اس ملت کا فرزند ہے کہ جس نے بڑے بڑے تاجوروں کے تخت و تاج کو اپنے پاؤں میں روند ڈالا تھا۔ گو کہ وہ کمزور اور فقر حال تیرے آباؤ تھے، دنیا کے بہت زیادہ وسائل بھی نہیں رکھتے تھے مگر وہ تہذیب و تمدن کی خوبصورتیوں سے بخوبی آگاہ تھے اور آئینِ جہان داری، یعنی دنیا پر حکمرانی کے اصولوں سے خوب واقف تھے۔ یہ ساری منظر کشی اقبال کے الفاظ میں بیان کرنا مناسب ہوگا۔

    [poetry]کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
    وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
    تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
    کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا
    تمدن آفریں’ خلّاقِ آئینِ جہاں داری
    وہ صحرائے عرب یعنی شُتر بانوں کا گہوارا
    سماں اَلفَقر فَخْری ‘ کا رہا شانِ امارت میں
    ”بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوئے زیبارا”
    گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
    کہ مُنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
    غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
    جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
    اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
    مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
    تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
    کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت راسیا وہ[/poetry]

    اقبال نے اپنے کلام میں ”شاہین” کو نوجوانوں کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شاہین ایک بلند پرواز، تیز نگاہ، غیرت مند اور خودار پرندہ ہے جو اپنا آشیانہ نہیں بناتا بلکہ بلند پوش چوٹیوں پر رہتا ہے، جو کسی کا کیا ہوا شکار نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کرتا ہے، مردہ جانورکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو ہتک محسوس کرتا ہے، جب وہ اپنے شکار پر جھپٹتا ہے تو خالی نہیں لوٹتا، اقبال امت مسلمہ کے جوانوں میں بھی یہی صفات چاہتے ہیں تاکہ وہ ملت کی آبیاری کا کام کرسکیں۔ اسی لیے وہ ان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں.

    [poetry]عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں!
    نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
    نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں[/poetry]

    یعنی تیرے رہنے کی جگہ کسی بادشاہ کی چوکھٹ نہیں، غلامی و محکومی کی زندگی گذارنا تیرا کام نہیںبلکہ تیرے شایان شان تو پہاڑوں کی چٹانیں ہیںاور بلند چوٹیاں ہیں۔ تیری زندگی تو سخت کوشی اور جواں مردی پر مشتمل ہے تو اسی کو اپنی صفت بنا لے۔

    اسی طرح اقبال نوجوانان مسلم کے فکر کی وسعت اور دنیا میں ملت کی آبیاری کے کام کو شاہین کی پرواز سے مستعار لیتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو ایک مسلم نوجوان کی زندگی کا اصل مقصد ہے اور اس کے فکر و کردار کی معراج ہے۔ اقبال راستوں میں پڑی ہوئی رکاوٹوںکا پرواہ نہیں کرنی چاہےے کیونکہ ایک مسلم نوجوان جب نان وجو اور آشیاں کی فکر میں مگن ہوجاتا ہے تو گویا اپنی موت کا سامان کرلیتا ہے. جب مسلم حکمران کشکول لے کر کافروں کے سامنے بھیک مانگتے ہیں تو گویا وہ ملت کی غیرت کا سودا کرلیتے ہیں اور پھرذلتیں اور محکومیاں ان کا مقدر بنتی ہیں۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں۔

    [poetry]اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
    جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی[/poetry]

    اسلام مومن کو ہر حال میں سربلند کر کے جینے کا ہنر سکھاتا ہے، افراد اور اقوام پر آزمائشیں اور سخت حالات آجاتے ہیں مگر ان میں گھبرانے اور ہتھیار ڈال دینے کی بجائے اللہ کے ساتھ تعلق کو پختہ کرکے اپنے مقصد پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔

    وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن۔ (آل عمران:138)
    ”اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔”

    [poetry]شاہین کبھی پرواز سے تھک کرنہیں گرتا
    پر دم ہے اگر تو تو نہیں ہے خطرہ افتاد[/poetry]

    ایک حقیقی مسلمان کی سوچ روٹی، کپڑا اور مکان تک محدود نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آپ کو مادی مفادات کا اسیر نہیں بناتا۔ چھوٹا سا نقصان بھی ہو جائے تو اس میں گھبرا کر پریشان نہیں ہوتا بلکہ یہ ساری چیزیں سچے مسلمان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کی سوچ روٹی، کپڑا، اور مکان کی قید سے نکل کر براعظموں سے ٹکراتی ہے ۔ ایک مومن عالمگیر سوچ کا حامل ہوتا ہے اور دنیا کو اپنے عمل اور کردار سے بدلنے کا سوچتا ہے۔ وہ دنیا سے ظلم، ناانصافی اور کفر و شرک کے اندھیروں کو ختم کر کے اسے دین اسلام کے نور سے روشن کرنے کی فکر سے مالا مال ہوتا ہے۔

    [poetry]نگاہ بلند سخن دلنواز، جاں پرسوز
    یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لیے[/poetry]

    ایک مسلمان جب اپنے کردار کی تعمیر اس انداز سے کرتا ہے، اپنی ترجیحات کو اس انداز سے ترتیب دیتا ہے، تو وہ حقیقی طور پر ملت کا حصہ بن جاتا ہے، اس کے جسم و جاں پر اللہ سبحان و تعالیٰ کی غلامی اور اس کے نبی کی اطاعت کی حکمرانی ہوتی ہے اور وہ دنیا کو اپنی بصیرت سے روشن کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ جب ایک مومن ایسا کردار پیش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مددگار بن جاتے ہیں ۔

    کیونکہ اس کے صالح اور اطاعت گزار بندے ہی اس زمین کے وارث ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس زمین کو اللہ کے نافرمانوں، زمین میں فساد پھیلانے والوں اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں جکڑنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے دور کھنے والوں سے آزاد کروائیں اور اس پر اس کے کلمے کو غالب و نافذ کردیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کردار کی تعمیر کریں۔یہی بصیرت اقبال عصر حاضر کے مسلم نوجوانوں کو دے رہے ہیں:

    [poetry]خدائے لم یزل کا دست قدرت تو ہے
    یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
    پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلمان کی
    ستارے جس کی گرد راہ ہو، وہ کارواں تو ہے
    عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
    مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں[/poetry]

    یہ پتھروں اور اینٹوں پر مشتمل دنیا کے گھر مومن کے آشیاں نہیں بلکہ یہ ساری دنیا مومن کا گھر ہے۔ جس کے حالات اور اس کی آرائش و زیبائش بھی ترے ذمے ہے۔

    [poetry]وہی جہاں ہے تیرا جسے خود کرے پیدا
    یہ سنگ و خشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے
    مہ و ستارا سے آگے مقام ہے جس کا
    وہ مشتِ خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے[/poetry]

    اقبال مسلمان نوجواں کو یہ احساس بھی دلاتے ہیں، تو اپنی ذات میں تنہا نہیں بلکہ ایک ملت ‘ایک امت کا حصہ ہے۔ یہ امت ہی تیری پہچان ہے۔ تو رنگ و نسل’ قبیلے اور کنبے، لسانیت و وطنیت اور فرقہ بندی کے تعصبات کے سارے بتوں کو توڑ کر اس امت کا حصہ بن جا۔ تو ان سارے دائروں سے نکل کر ملت کے بحر بیکراں میں شامل ہوجا۔ یعنی اب تیری سوچ اور فکر اور کام اپنی ذات تک نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہو۔ مشرق و مغرب میں جہاں بھی اس امت کو تیری ضرورت ہو، تو ان کے لیے لبیک کہنے والاہو۔اس کا درد تیرا درد ہو اور اس کی خوشی تیری خوشی ہو۔

    [poetry]تو راز کن فکاں ہے ، اپنی آنکھوںپر عیاں ہوجا
    خودی کا راز داں ہوجا ، خدا کا ترجمان ہوجا
    ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انسان کو
    اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زبان ہوجا
    یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
    تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا
    غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
    تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا
    یہی ہے مقصود فطرت ، یہی ہے رمز مسلمانی
    اخوت کی جہاں گیری ، محبت کی فراوانی
    بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کو ملت میں گم ہوجا
    نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی[/poetry]

    اقبال یہ بات بخوبی سمجھتے تھے کہ دنیا میں اسلام کو غالب کرنے اور عزت و سربلندی سے جینے کے لئے سخت کوشش’ جواں ہمتی اور تحرک کی ضرورت ہے اور یہ قدرت کا اصول ہے کہ جو قومیں بلند ہمتی ‘ محنت اور قوت و توانائی سے دامن چراتی ہیں وہ جلد ہی دوسروں کی غلامی کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    [poetry]ہے شباب اپنے لہو کی لاگ میں جلنے کا نام
    سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگیں
    پلٹنا جھپٹنا ‘ پلٹ کر جھپٹنا
    لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ[/poetry]

    مگر مسلم نوجوان اس سے تہی دامن ہوچکے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کافر آج محض دنیا میں شہرت کے لئے بلند چوٹیاں سر کرتے ہیں۔ اس کے لئے موسم کی سختیوں اور موت کے خطرے سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ امریکہ ‘ بھارت اور اسرائیل میں کئی سرکاری و غیر سرکاری ادارے نوجوانوں کو سخت کوش زندگی کی تربیت دیتے ہیں جبکہ مسلم نوجوانوں کی حالت یہ ہے :

    [poetry]تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالیں ایرانی
    لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
    امارت کیا’ شکوہِ خسروی بھی ہوتو کیا حاصل
    نہ زورِ حیدری تجھ میں’ نہ استغنائے سلیمانی[/poetry]

    آج ہمیں اپنے شباب کی یہی حالت نظر آتی ہے ‘ وہ شاہین کی وسعت نظری اپنے اندر پیدا نہیں کرسکے اور نتیجہ یہ ہے کہ آج اقوام عالم، مسلمانوں پر غالب اور مسلط ہیں۔

    [poetry]افسوس صد افسوس شاہیں نہ بن سکا تو
    دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
    تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات[/poetry]

    کافر کی زندگی کا تحرک اور عمل فقط دنیاوی لذت اور فائدے کے لئے ہوتا ہے۔ ایک کافر کی تعلیم کا مقصد اچھی ڈگری’ نوکری اور دولت ولذت کا حصول ہوتا ہے یا اس سے بڑھ کر دنیا میں ناموری جبکہ ایک مسلم طالب علم کی تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہےے۔ اسے اپنے علم و ہنر کا مقصد، خود آگاہی و خدا آگاہی’ مقصدِ حیات کی پہچان ‘ اپنی عاقبت کی فکر اور دنیا میں اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے پر مبنی ہونا چاہےے۔ ایسے نوجواں ہی اقبال کی بصیرت کے مطابق زندگی کی شب تاریک کو سحر کرسکتا ہے اور معراجِ انسانیت کو پاسکتا ہے۔ اس امتیاز کو اقبال نوجوانوں کے سامنے یوںرکھتے ہیں:

    [poetry]پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
    کرگس کا جہاں ہے شاہیں کا جہاں اور[/poetry]

    جبکہ مسلمان ممالک میں نافذ تعلیمی نظام”لارڈ میکالے” کے نظریے پر مبنی ہے۔ جس میں حصول تعلیم کا مقصد ”نوکری” کا حصول ہے ۔ اقبال ایسے ہی نظام تعلیم کو سرمایہ امت کے لئے زہر قاتل قرار دے رہے ہیں۔

    [poetry]شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
    سبق شاہیں بچوں کو جو دے رہے ہیں خاکبازی کا[/poetry]

    ایسے نوجوان جس کی صلاحیتیں اور علم و ہنر فقط نوکری’ ڈگری اور ذاتی مفاد کے لئے ہوتی ہیں، اسے اقبال فریب خوردہ شاہیں قرار دیتے ہیں۔ جس کی آنکھوںسےظاہرہوتی ہے مغرب کی فکر’ تہذیب اور تعلیم کی چکاچوند اورجس کے نزدیک تڑپتی ہوئی امت کے غم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ دنیا کے حالات جیسے بھی ہوں اس کی غرض فقط روٹی’ کپڑا اور مکان کے گرد گھومتی ہے۔

    [poetry]ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلندی پرواز
    خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
    وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
    اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسمِ شاہبازی[/poetry]

    ہمارے اسلاف کی تاریخ روشن کردار نوجوانوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے دنیا کو اپنی بلندی کردار’ وسعت نظری’ قوت جہاں بانی اور عدل و مساوات کی بناء پر بدل کر رکھ دیا تھا۔ مگر آج شرق و غرب میں مسلمان اس لئے مبتلائے آزمائش ہیں کہ شباب اسلام اسلاف کی بصیرت سے محروم ہے۔ حکمران تمام تر وسائل اور قوتوں کے باوجود غلامیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ عیش و آسائش اور کرسی و اقتدار کے دلدادہ تو ہیں مگر جہاں بانی کے شعورکے شعورسے محروم ہیں۔ ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری قوم اگر فکر اقبال کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیتی اور ہمارے عوام و حکمران اس پر کھڑے ہوجاتے تو ہم پر زبوں حالی’ غلامی’ غیروں کے تسلط کی تاریک رات کبھی مسلط نہ ہوتی۔

    اقبال نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی، وہاں مسلمان مایوسیوں، غلامانہ رویوں اور تنگ نظری کے آسیب میں گھرے ہوئے تھے۔ مگر آج امیدوں کے بہت سے ہالے روشن ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت بیضا کے نوجواں تنگ نظری کے آسیب سے نکل کر اقبال کی بصیرت اور وسعت نظری کو اپناکر دنیا کو بدل دیں تاکہ دنیا و آخرت کی سرخروئی ان کا مقدر ٹھہرے۔

    [poetry]اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسہ
    ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا[/poetry]

  • انسانیت کے معراج سے حیوانیت کے عروج تک- رشید ہاشمی

    انسانیت کے معراج سے حیوانیت کے عروج تک- رشید ہاشمی

    مجھے اپنے دوست کی عیادت کےلیےایک ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا وہاں سے واپس آتے ہوئے ہسپتال کے گیٹ پرکیا دیکھتا ہوں کہ دو چھوٹے بچے جن کی عمریں مشکل سے چار سال سےچھ سال ہونگی ، بے سدھ پڑے سورہے ہیں انکے ہاتھ میں ایک رسی لپٹی ہوئی تھی جس میں چمکتے بیلون ہوا میں اڑ رہے تھے۔

    وہ رات کے ساڑھے دس بجے کاٹائیم تھا جب ہم ہسپتال سے نکل کے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے اچانک سے میرے دوست نے مجھے کہا یار جاءو ان بچوں کو یہ سو روپے دے آوٗ میں نے ان سے پیسے لیکر واپس ان بچوں کے پاس آکر بیٹھا اور ان کے سرکو ہلا یا مگر شاید وہ پورے دن کے تھکے ماندےہونے کی وجہ سے نہ اٹھے،میں نے پھر دوسرے بچے کے سر کوہلایا تو وہ بچہ اٹھا کر پوچھنے لگا:سرکیاآپکو بیلون چاہییں؟؟ میں نے کہا کہ نہیں بیٹا میں آپ کو پیسے دینے آیا ہوں. اور ہاتھ آگے بڑھا کران سے کہا:

    یہ لیں سو روپے اور ابھی آپ گھر چلے جائیں کیونکہ رات کافی ہوگئی ہے. وہ معصومیت سے کہنے لگا نہیں جی!میرے گھر جانے کا ٹائیم ابھی نہیں ہوا مجھے یہ سارے بیلون بیچ کر پھر جانا ہوگا اورابھی تو صرف چار ہی بِکے ہیں. وہ نیند کی شدت کی وجہ سے دوبارہ سونے لگا تھا کہ میں نے ان سے کہا : بیٹا! آپ سوجاوٗ گے تو کون آکربیلون خریدے گا ؟ یہ سن کر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا کیونکہ انہیں وہ بیلون بیچ کر ہی گھر میں داخلےکا حکم ہوگا۔یقین کریں مجھے اس انے والدین بڑے بے رحم لگے کہ کس طرح ان ننھے اور معصوم بچوں کو روڈ کے کنارے چھوڑ ا ہوا ہے؟؟

    اور کس طرح بیچارگی کی حالت میں بغیر بستر کے وہ بچے سورہے ہیں؟کیا یہ بچے احساسات سے عاری تھے؟کیا ان کی کوئی فیلنگ نہیں تھی؟ کیا انکو کھیلتے اور یونیفارم پہنے بچے دیکھ کرکھیلنے یا اسکول جانے کا دل نہیں کرتا ہوگا ؟؟لیکن المیہ یہ بھی تو ہے کہ ان کے بے حس والدین کو چھوڑ کر کوئی اور بھی تو یہ احساس نہیں رکھتا ۔نہ ملکی حکمران ،نہ اس ملک کے دانشور ، نہ تھری پیس میں ملبوس ٹی وی پر بیٹھے اینکرز جو سارا دن اپنے عقل دانش اور لفاظی سے دنیا کو مسحور کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔!!

    اور نہ ہم میں سےکوئی سوچتا ہے کہ یہ بچے ہمارے اپنے تو نہیں لیکن ہمارے اسی معاشرے کا حصہ ہیں اگر آج ہم نے انکے انسان بننےمیں مددگار ثابت نہ ہوئے تو کل یہی بچے ہمارے بچوں سے اپنے بچپن کے دنوں کی نارسائی اوربے کسی کا بدلہ ہماری بے حسی ،اور خود غرضی کو وجہ بنا کر لے رہے ہونگے۔ اور تب وہ چوری ،ڈکیتی کرتے یا کسی کو مارتے ہوئے ہمارے لیے احساس کا رشتہ کیوں استوار کریں گےجب ایک بے حس معاشرے کی ٹھوکریں بچپن سے انکامقدر رہی ہوں اور احساس کے لفظ سے اس معاشرے نے روز اول سے نا آشنا رکھا ہو!

    کاش کوئی اور نہیں تو آج ہم ہی وہ پہلے فر دبنیں جو انسانیت و احساس کی معراج تک پہنچنے کی جستجو میں لگ جائے اور انکو حیوانیت کے عروج تک پہنچنے سے بچائیں اور یقین کریں کہ یہ کام کرکے اس بات پر فخر محسوس کریں کہ معاشرے کو آپ نے ایک ذمہ دار فرد اور احساس رکھنے والا فر دیا ۔

  • سپن باولنگ کا خاموش جادوگر ذوالفقار بابر  – سلمان احمد قریشی

    سپن باولنگ کا خاموش جادوگر ذوالفقار بابر – سلمان احمد قریشی

    کرکٹ ہمارے ہاں محض کھیل نہیں، خواب ہے، جنون ہے، اور بعض اوقات ایک نعرہِ امید بھی بن جاتا ہے۔ کبھی یہی کھیل قومی وقار کا استعارہ تھا، اور اس کی سب سے مضبوط کڑی سپن بولنگ کا شعبہ۔ مگر آج جب قومی ٹیم کے اسپن ڈیپارٹمنٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو خلا نظر آتا ہے، ایک ایسی کمی جو چبھتی ہے۔ اس خلا کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ٹیلنٹ کو پہچاننے کی بجائے تعلقات، شہرت اور میڈیا کے شور کو ترجیح دی۔

    دھیما انداز، گہرا کمال ذوالفقار بابر، اک شخصیت، اک ہنر، اک رویہ،اوکاڑہ کی مٹی سے اُٹھنے والا یہ بائیں ہاتھ کا اسپن باؤلر جب بین الاقوامی کرکٹ میں داخل ہوا، تو نہ عمر اس کے حق میں تھی، نہ وقت۔ لیکن پھر بھی اُس نے وہ کر دکھایا جس کی تمنا کئی نوجوان دلوں میں لے کر گمنامی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ذوالفقار بابر انہی خاموش گوہر نایاب میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا سپنر جس نے ثابت قدمی، محنت اور مسلسل جدوجہد سے خود کو منوایا۔ وہ میرے شہر اوکاڑہ کا فرزند ہے، اور میرا ذاتی دوست۔ میں نے اس کو قریب سے دیکھا ہے، اس کی سادگی، شرافت اور عاجزی کو محسوس کیا ہے۔ دنیا کے بڑے میدانوں اور شہروں کو دیکھنے کے باوجود اس کے اندر وہی پرانی معصومیت، وہی دھیمہ لہجہ اور وہی احترام باقی ہے جو اس کی پہچان ہے۔

    اوکاڑہ کی سرزمین نے جب کرکٹ کے میدان میں ذوالفقار بابر جیسا گوہرِ نایاب پیش کیا تو شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو کہ یہ خاموش مزاج اور درویش طبع نوجوان عالمی سطح پر پاکستان کا پرچم بلند کرے گا۔ وہ نہ صرف میرے شہر کے سپوت ہیں بلکہ ایک ایسے بااخلاق، نفیس اور سادہ مزاج انسان بھی ہیں جن سے میری متعدد ملاقاتیں رہیں۔ اکثر مجھے اپنے گھر مدعو کرتے، جہاں کھانے سے زیادہ گفتگو میں محبت، خلوص اور کرکٹ کا جذبہ ہوتا۔ذوالفقار بابر نے 35 برس کی عمر میں بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز کیا۔یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب بیشتر کھلاڑی اپنے اختتام کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ لیکن ”ذولفی” نے اس روایت کو توڑ دیا۔ وہ نہ صرف ایک بااخلاق انسان ہیں بلکہ ایک مخلص دوست بھی۔ اوکاڑہ شہر کے اس سادہ دل سپاہی نے اپنی کارکردگی سے قومی ٹیم میں جگہ بنائی، وہ بھی ایسے وقت میں جب عمر کی حدیں عبور ہونے لگتی ہیں۔

    ذوالفقار بابر نے 2013 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی 20 میچ سے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا۔ٹیسٹ ڈیبیو کے موقع پر آخری گیند پر سنگل لے کر پاکستان کو جتوانا ایک یادگار لمحہ تھا۔ یہ کارنامہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محنت، یقین اور لگن سے منزل حاصل کی جا سکتی ہے، چاہے وقت کچھ بھی ہو۔مختصر لیکن بہترین بین الاقوامی کیریئر میں 15ٹیسٹ میچز میں 54 وکٹیں، بہترین بولنگ 5/74 اور5ون ڈے انٹرنیشنل میچزمیں4 وکٹیں اسی طرح 7 ٹی 20 انٹرنیشنل میچز میں 12وکٹیں ذوالفقار بابر کے نام ہیں۔ذوالفقار بابر نے ٹیسٹ کرکٹ میں 50 وکٹیں 36 سال اور 330 دن کی عمر میں مکمل کر کے پاکستان کا ”بزرگ ترین“ اسپن باؤلر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔اس سے قبل یہ ریکارڈ جادوگر اسپنر سعید اجمل کے پاس تھا جنہوں نے 33 سال اور 222 دن کی عمر میں 50 وکٹیں مکمل کی تھیں۔یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ اگر عزم ہو، تو عمر صرف ایک عدد رہ جاتی ہے۔2014 میں آسٹریلیا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں 14 وکٹیں لے کر پاکستان کی شاندار فتح کے ہیرو بنے۔ 115 سے زائد اوورز کرائے، جو کسی دو میچز کی سیریز میں ایک اسپنر کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔ایک ہی اننگ میں 10 وکٹیں لینے والے چند پاکستانی گیند بازوں میں شامل ذوالفقار بابر نے متعدد مواقع پر ”مین آف دی میچ” اور ”مین آف دی سیریز” کے اعزازات حاصل کیے۔

    سپن کا خاموش جادوگرذوالفقار بابرڈومیسٹک کرکٹ کے سلطان ہیں۔ 108فرسٹ کلاس میچز میں 509 وکٹیں،بہترین اننگ بولنگ 10/143،بہترین میچ بولنگ 15/145انکا ریکارڈ ہے۔2012-13 کے سیزن میں 96 وکٹیں حاصل کر کے قومی سطح پر سب کی توجہ حاصل کی۔2010-11 اور 2012-13 سیزن میں ٹاپ پرفارمر رہے۔ذوالفقار بابر نے پاکستان کے فرسٹ کلاس اور ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی خود کو منوایا۔کئی بار قومی ٹیم میں واپسی کے امیدوار بنے، لیکن سلیکشن پالیسیوں کی پیچیدگیاں آڑے آئیں۔

    ذوالفقار بابر کے والد عبدالغفار ایک سابقہ انٹرنیشنل فٹبالر رہے ہیں۔ انہوں نے بیٹے کے کرکٹ شوق کو نہ صرف سراہا بلکہ بھرپور تعاون بھی کیا۔ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ان کے والد نے کبھی زبردستی نہیں کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بیٹے کا دل کس کھیل میں دھڑکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی محبت اور فطری لگاؤ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ذوالفقار بابر کے والد نہایت نیک سیرت انسان ہیں، ایک سادہ مگر باوقار شخصیت۔ ان کی والدہ کچھ عرصہ قبل وفات پا چکی ہیں، اور ایک بڑا بھائی، جو مقامی سطح پر کرکٹ کھیلتا تھا، ایک میچ سے واپسی پر سڑک حادثے کا شکار ہو کر جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ دکھ ذوالفقار نے سینے میں سمیٹ کر زندگی کے سفر کو جاری رکھا، اور کرکٹ کے میدان میں خود کو منوایا۔

    نہایت بردبار، سنجیدہ اور محنتی ذوالفقار بابر کا میدان کے اندر اور باہر رویہ مثالی رہا ہے۔ وہ نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کس طرح حوصلہ اور صبر سے منزل کو پایا جا سکتا ہے۔ اب کوچنگ اور کرکٹ کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اوکاڑہ اور دیگر چھوٹے شہروں کے نوجوانوں کو وہ پلیٹ فارم مہیا کریں، جو انہیں وقت پر میسر نہ آ سکا۔ اوکاڑہ میں ایک کرکٹ اکیڈمی اور فٹنس سینٹر کے قیام کا ارادہ بھی رکھتے ہیں تاکہ نوجوان کھلاڑی فٹ رہ کر قومی خدمت کر سکیں۔ ذوالفقار بابر کا سفر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہنر اگر خالص ہو اور نیت سچی، تو وقت خود راستے بنا دیتا ہے۔ اوکاڑہ کا یہ ”خاموش باؤلر“ دراصل ایک بلند آواز ہے،استقامت، صلاحیت اور عاجزی کی آواز۔

    ذوالفقار بابر کا کیریئر شاید اعداد و شمار میں لمبا نہ ہو، لیکن اس کا ہر اسپیل، ہر وکٹ اور ہر اوور ایک کہانی ہے۔ خاموش محنت، خودداری، اور اپنے فن سے سچی وابستگی کی کہانی۔ ایسے کھلاڑیوں کو میڈیا نے وہ مقام نہ دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ ہم نے شہرت کو کارکردگی پر ترجیح دی، اور ہنر کو صرف اشتہاروں کی روشنی میں تلاش کرنے لگے۔

    لیکن سچ یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو میدان میں بولتے ہیں، جو کم گو ہوتے ہیں مگر ان کی گیند چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ ”میں آیا ہوں، اور میں کچھ خاص لایا ہوں۔”ذوالفقار بابر ایک ایسے ہی خاموش مجاہد کا نام ہے۔ ہماری کرکٹ کو ایسے کرداروں کی ضرورت ہے، جو صرف گیند کے گرد نہیں، اپنے کردار کے گرد بھی مضبوط ہوں۔ ہمیں اس ہنر کی پہچان کرنی ہوگی جو ہمارے شہروں، گلیوں، اور دیہاتوں میں سانس لے رہا ہے۔اس سے پہلے کہ وقت اور سسٹم اُسے خاموش کر دے۔

    ذاتی طور پر جب میں ان سے ملاقات کرتا ہوں، تو ان کی عاجزی، محبت، اور سادگی مجھے ہمیشہ متاثر کرتی ہے۔ وہ ایک سچے انسان اور اچھے دوست ہیں۔ذوالفقار بابر اس عہد کے ان سپاہیوں میں سے ہیں جو خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، کوئی شور نہیں مچاتے، لیکن جب میدان میں آتے ہیں تو مخالفین کی صفیں درہم برہم کر دیتے ہیں۔ وہ واقعی ایک خاموش انقلابی ہیں جنہیں وقت پر مقام ملا، اور انھوں نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنے نام کر لیا۔

    آج ذوالفقار بابر کا بیٹا سلمان کالج کا طالبعلم ہے اور اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کرکٹ کے میدان میں قدم جما رہا ہے۔ دعا ہے کہ جس طرح باپ نے حالات، وسائل اور سسٹم کی دیواروں کو پھلانگ کر ملک کا نام روشن کیا، بیٹا بھی جلد قومی ٹیم کا حصہ بنے اور باپ کی وراثت کو نئی بلندیوں تک پہنچائے۔کہانی ذوالفقار بابر کی ہے، مگر آئندہ صفحات شاید اس کے بیٹے کے ہوں۔

  • پی ایس ایل بائیکاٹ، اس پہلو پر بھی نظر ڈال لیں – محمد عامر خاکوانی

    پی ایس ایل بائیکاٹ، اس پہلو پر بھی نظر ڈال لیں – محمد عامر خاکوانی

    پی ایس ایل ہمارا مقامی کرکٹ ٹورنامنٹ ہے۔ خالصتاً میڈ اِن پاکستان پراڈکٹ ۔ یہ پاکستانی برانڈ ہے۔

    اس کے تمام تر سپانسرز پاکستانی ہیں، مقامی کمپنیاں ہیں۔ ان کے مالکان پاکستانی ہیں۔ ان میں کام کرنے والے تمام ملازمین پاکستانی ہیں ، ان کا منافع پاکستان ہی میں خرچ ہوتا ہے۔ باہر نہیں جاتا۔

    پی ایس ایل ٹورنامنٹ کا فل س طین کے مظلو مو ں سے کوئی ٹکرائو، ،کوئی تصادم نہیں۔ اس ٹورنامنٹ نے، انتظامیہ نے، کھلاڑیوں نے اور یہ میچز دیکھنے والوں نے ہرگز ہرگز کوئی ظلم نہیں کیا، ظالموں کا ساتھ نہیں دیا۔ مظلوموں کی حمایت ہی کی ہے۔

    اس لیے مجھے تو پی ایس ایل کے بائیکاٹ کا مطالبہ عجیب وغریب، غلط ، بے جواز اور بچکانہ سا لگا ہے ۔

    اگر کسی کو کرکٹ پسند نہیں، وہ کرکٹ نہیں دیکھنا چاہتا۔ کسی کو پی ایس ایل یا کسی بھی قسم کا کرکٹ ٹورنامنٹ پسند نہیں تو وہ نہ دیکھے۔ اس کی اپنی مرضی، مگر اپنی ناپسند کو بائیکاٹ کا روپ تو نہ دے۔ یہ زیادتی اور ناانصافی ہوگی، ایک پاکستانی برانڈ سے جو بڑی مشکل سے دنیا بھر کی لیگز میں نمایاں ہوا ہے۔

    ہمارے پڑوس میں عین اسی وقت آئی پی ایل کھیلی جا رہی ہے۔ وہاں کا کراوڈ، میڈیا، لوگ، سب شعبہ زندگی دیوانہ وار اسے سپورٹ کر رہے ہیں۔ جو بھارتی شہری کرکٹ نہیں دیکھتے وہ بھی آئی پی ایل کو سپورٹ کر رہے ہیں، صرف اس لئے کہ یہ ایک مقبول بھارتی برانڈ ہے۔

    ادھر ہم ہیں کہ اپنے اکلوتے برانڈ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو بھارتی چاہتے ہیں۔ وہ تو ہمیشہ سے یہ چاہتے تھے کہ پی ایس ایل ختم ہوجائے اور آئی پی ایل ہی تنہا راج کرے اس خطے میں۔

    پی ایس ایل کے بائیکاٹ کا مطالبہ اور مہم چلانے والے اسی بھارتی ایجنڈے کو تقویت پہنچانے پر تلے ہیں، نادانستگی میں۔

    یہ بھی کوئی دلیل نہیں کہ چونکہ غ ز ہ میں ظلم ہو رہا ہے تو ٹورنامنٹ نہ ہو۔

    ابھی آئی سی سی کا بڑا ٹؤرنامنٹ چیمپینز ٹرافی پاکستان میں ہوئی۔ اس کے بائیکاٹ کی مہم کیوں نہیں چلائی گئی ؟ وہ تو پی ایس ایل سے بھی بڑا ٹورنامنٹ تھا۔

    اور کیا ملک میں ایونٹس اور تقریبات ہونا ختم ہوگئی ہیں ؟ کیا شادیاں نہیں ہو رہیں؟ آج اتوار چھٹی کا دن ہے، زرا اپنے اپنے شہر کے شادی ہالز میں جا کر دیکھیں، ایک بھی خالی نہیں ملے گا۔ روزانہ، ہر ہفتے بے شمار تقریبات، سیمینارز وغیرہ ہو رہے ہیں۔

    کیا لوگ معمول کی زندگی نہیں گزار رہے ؟ کیا بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے سیاہ ماتمی لباس پہنے سر پر خاک ڈالے صف ماتم پر بیٹھے ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ اپنی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے کام کاج کرتےہیں، اپنی پسند کی فلمیں ،ڈرامے دیکھتے ہیں، سیر تفریح کے لئے جاتے ہیں۔ ہوٹلنگ کرتےہیں ، یار دوست اکھٹے ہو کر گپیں لگاتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ گیمز بھی دیکھتے یا کھیلتے ہیں۔

    کیا یہ سب معمول کی سرگرمیاں انہیں مظلوموں کی حمایت سے باز رکھ سکیں ہے ؟ ظاہر ہے نہیں۔ آپ اپنا کوئی موقف رکھتے ہوئے، مظلوموں سے ہمدردی کرتے ہوئے، ان کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے بھی اپنی معمول کی زندگی گزارتے ہیں خاص کر جب اس معاملے کو دو سال ہونے کو ہوں۔
    اس سب میں پی ایس ایل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیوں ؟

    یہ اعتراض تو نہایت کمزور اور بودا ہے کہ اس کے سپانسر ظالموں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ بات غلط اور بے بنیاد ہے۔ پی ایس ایل کے تمام سپانسرز مقامی کمپنیان اور مقامی لوگ ہیں۔

    آپ کو کرکٹ دیکھنا پسند نہیں نہ دیکھیں۔ پی ایس ایل سے چڑ ہے نہ دیکھیں۔ جو مرضی کریں، آپ کی مرضی ہے۔ آپ اپنا جو مرضی موقف رکھیں، ہمیں یا کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔

    بس پلیز اس بائیکاٹ کو جذباتی رخ نہ دیں۔ اپنے ایک موقف کو تقدس کا چولہ نہ پہنائیں۔ اسے ایمان کا مسئلہ نہ بنائیں۔ پی ایس ایل دیکھنا یا نہ دیکھنا کوئی ایمان کا یا غیرت ایمانی کا مسئلہ نہیں۔ یہ مظلوموں کے ساتھ بے وفائی یا ان سے زیادتی نہیں اور نہ ہی یہ ظالموں کا ساتھ دینا ہے۔

    خدارا بے بنیاد اور غلط پروپیگنڈہ نہ کریں۔ اپنے موقف کو اگر آپ دینی رخ دیں گے، جذبات کے شیرے میں ڈبو دیں گے، اسے ایمانی موقف قرار دیں گے تو پہلے سے شدید عدم برداشت کی حامل قوم اور معاشرے میں فساد برپا ہوجائے گا۔

    لوگ پھر اپنے ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں پر حملہ آور ہوں گے ، توڑ پھوڑ کریں گے، دشنام طرازی کریں گے اور وہ سب کچھ ہوگا جو نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ذمہ دار پھر وہی لوگ ہی ہوں گے جو اس بائیکاٹ کو جذبات، ایمانی رخ دیتے ہوئے اسے تقدس کا جبہ اوڑھا رہے ہیں۔ پھر یقین رکھیں کہ آپ بھی ظالم اور ظلم کرنے والے ہوں گے۔ دنیا میں نہ سہی تو روز آخرت اس کا حساب آپ سب کو بھی دینا ہوگا۔

  • پاکستان کی روایتی مجبوریاں، بھارت چمپیئن ٹرافی لے اڑا – عمرفاروق

    پاکستان کی روایتی مجبوریاں، بھارت چمپیئن ٹرافی لے اڑا – عمرفاروق

    چمپیئنز ٹرافی 2025 کے فائنل میچ میں بھارت نے نیوزی لینڈ کو شاندار مقابلے کے بعد شکست دے کر تیسری مرتبہ چمپیئنز ٹرافی اپنے نام کر لی۔بھارت نے اس ٹورنامنٹ کے تمام میچز باآسانی اپنے نام کیے۔یہ ٹورنامنٹ کئی حوالوں سے اہم تھا کیونکہ اس کی میزبانی ایسے وقت میں پاکستان کو ملی تھی جب پاکستان کے پاس کوئی بھی انٹرنیشنل ایونٹ کی میزبانی کے لیے ڈھنگ کا میدان تک نہیں تھا۔ بھارت نے اس بات پر روایتی واویلا مچایا اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ پاکستان اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی نہیں کر سکتا، لیکن موجودہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ریکارڈ مدت میں پاکستان کے تین بڑے اسٹیڈیمز جن میں لاہور قدافی اسٹیڈیم، راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم اور نیشنل اسٹیڈیم کی مکمل تزئین و آرائش کروائی اور آئی سی سی کو اس بات پر قائل کیا کہ ہم اس ایونٹ کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔

    جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئی تو اصل ڈرامہ تب شروع ہوا، جب بھارت نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا۔ یہاں بہت سے سابق کرکٹرز اور تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ پاکستان اس پر ڈٹ جائے اور بھارت کے بغیر پورا ٹورمنٹ پاکستان میں کروائے، لیکن ایسا کرنا پاکستان کے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کیونکہ یہ بات پاکستان اور بھارت دونوں جانتے تھے کہ پورا ٹورمنٹ ایک طرف اور پاک بھارت میچ ایک طرف، یہ مال کمانے کا بہترین موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیا جا سکتا تھا جس میں ایک سیکنڈ کے ٹی وی کمرشل پر کروڑوں آتے ہوں۔

    بہر حال بھارت نے پاکستان کے سامنے نیوٹرل وینیو کا آپشن رکھا، جس کو پاکستان نے اس شرط کے ساتھ قبول کر لیا کہ مستقبل میں کسی بھی بڑے ایونٹ میں پاکستان کے میچز بھی بھارت کے ساتھ نیوٹرل وینیو پر ہی ہوں گے. لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں ممالک ریلیشن اتنے ہی خراب ہیں تو پھر کسی بھی ایونٹ میں دونوں ٹیموں کو ایک ہی گروپ میں رکھ کر میچز کروانا اتنا ضروری کیوں ہیں، جبکہ دونوں ممالک یہ بات جانتے ہیں کہ کرکٹ کے ذریعے بھی ریلیشن میں بہتری کی امید نہیں ہے؟ سوائے دونوں بورڈ کے مالی فائدے کے.

    بہرحال کرتے کراتے یہ میگا ایونٹ جب شروع ہوا تو بھارت پر یہ الزام بھی لگا کہ جے شا جو کے موجودہ آئی سی سی اور بی سی سی آئی کے سابق چیئرمین ہیں، انھوں نے اس ٹونامنٹ میں بھارت کو فیور دی اور ایسے گراؤنڈ کا انتخاب کیا، جس کی بھارت کی ٹیم کو مکمل سپورٹ ملی اور سپنرز کا جال بچھایا گیا ، جس سے کسی بھی ٹیم کو پھنسایا جا سکے. دبئی اور پاکستان کی پچز میں زمین آسمان کا فرق ہے. دوسری ٹیموں کے پاس صرف پاکستانی کنڈیشنز کے مطابق تیاری تھی، جس کا الزام برطانوی اخبار the times نے لگایا ”ٹاس کرانے کی کیا ضرورت، روہت شرما سے پوچھ لیں بیٹنگ کرنی یا بولنگ”

    بھارت کو ایک وینیو دینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں دوسری ٹیموں کی طرح زیادہ سفر نہیں کرنا پڑا، جس سے کھلاڑیوں کو کافی مدد ملی، جنوبی افریقا کے کھلاڑی بھی اس بات کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی آخری امید نے بھی دم توڑ دیا اور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ایک بار پھر مایوس کن رہی، اور پہلے ہی میچ سے تقریبا باہر ہو گئی. رہی سہی کسر روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست سے نکل گئی۔ ان تمام تر فیورز کے الزامات کے باوجود بھارت کے ٹیم نے ہر میچ میں شاندار کارکردگی پیش کی اور دلیری سے کھیلی کسی بھی ڈیپارمنٹ میں کمی نظر نہیں آئی اور پاکستان کی میزبانی سے نہ صرف فائنل چھینا بلکہ ٹرافی بھی لے گئے۔

    ایک بات جو قابل غور اور نہایت شرم ناک تھی. وہ یہ کہ پاکستان میزبان تھا اور فائنل میچ کی پوسٹ میچ تقریب میں پاکستان کی طرف سے کوئی بھی ہوسٹ نیشن کے طور پر ٹرافی کو پیش کرنے والا نہیں تھا. اس موقع پر ابھی تک پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے وضاحت سامنے نہیں آئی لیکن اس طرح کے انٹرنیشنل لیول کا شاندار ٹورمنٹ پاک بھارت روایتی تنگ نظری اور سیاسی دشمنی کی نظر ہو گیا۔

    اب دیکھنا دلچسپ ہو گا کے آنے والے آئی سی سی ٹورمنٹ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کون سا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے کیا بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا ہے یا پھر سے بھارت مضبوط معیشت کے دم پر اپنی بات منوائے گا؟ اس سوال کا جواب ہمیں آنے والے ایونٹ میں ملے گا لیکن ایک بات صاف ہو گئی کہ اس وقت کرکٹ میدان میں ہو یا میدان کے باہر بھارت مکمل راج کر رہا ہے۔

  • کیا پاکستانی ٹیم تبلیغ کی وجہ سے ہارتی ہے؟ محمد عبید

    کیا پاکستانی ٹیم تبلیغ کی وجہ سے ہارتی ہے؟ محمد عبید

    پاکستانی ٹیم نے اب تک 46 بڑے ٹورنامنٹس کھیلے ہیں اور ان میں سے محض 5 ہی جیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ پاکستان نے آج تک جتنے بھی ٹورنامنٹس جیتے ہیں، اس کے مقابلے میں اس سے آٹھ گنا زیادہ ٹورنامنٹس ہارے ہیں۔
    کیا پاکستان کی ان سارے ٹورنامنٹس میں ہار جانے کی وجہ کھلاڑیوں کا تبلیغی ہونا تھا؟؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے ذمہ دار ساری ٹیم پر ہے۔

    ویسٹ انڈیز جو کسی زمانے میں کالی آندھی سمجھی جاتی تھی، اسی طرح سنتھ جے سوریا، کمار سنگاکارا اور مہیلا جاوردھنے جیسی کھلاڑیوں کی ٹیم سری لنکا، آج اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بڑی ٹیموں کے میگا ایونٹ چیمپئنز ٹرافی تک سے باہر ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟؟ کیا وہ تبلیغ کرنے کی وجہ سے ایسا ہوگئے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری خراب منیجمنٹ اور ناکارہ نظام ہے۔

    کچھ حقائق
    پاکستان کی طرف سے ہر فارمیٹ میں سب سے زیادہ سکور کرنے والا تبلیغی مذہبی انضمام الحق ہے۔ پاکستان کی طرف سے ون ڈے انٹرنیشنل میں انفرادی طور پر سب سے زیادہ سکور کرنے والے فخر زمان اور سعید انور دونوں مذہبی اور تبلیغی ہے۔ پاکستان کے 92 ورلڈ کپ کے جیتنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے میں بھی انضمام الحق کا نام شامل ہے۔ پاکستان جو ٹورنامنٹس جیتا ہے ان میں سال 2009 کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل اور فائنل جتوانے والا شاہد آفریدی مذہبی اور تبلیغی ہے، سال 2012 کا ایشیا کپ جتوانے والا بھی یہی مذہبی اور تبلیغی آفریدی ہے، سال 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کا فائنل تبلیغی اور مذہبی فخر زمان نے جتوایا تھا۔ سال 2000 کے ایشیا کپ کا مین آف دی ٹورنامنٹ تبلیغی اور مذہبی ذہن رکھنے والا محمد یوسف تھا۔ تب اس نے اگرچہ اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن اس کا رجحان مذہبی تھا اور اس وجہ سے ہی اس نے اسلام قبول کیا ہے اور آج وہ ہم عام مسلمانوں سے زیادہ مذہبی اور تبلیغی ہے۔

    رضوان بیچارہ
    عجیب بات ہے کہ پاکستان کی بھارت کے خلاف شکست کے بعد محمد رضوان کی تبلیغی زندگی اور اس بیچارہ کی روزمرہ کے لائف سٹائل پر تنقید ہو رہی ہے، جیسے کہ اس کی ذاتی زندگی کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی ہے۔ یہ انتہائی درجہ کی نیچ حرکت ہے اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ لبرل اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ آپ رضوان پر جو چاہیں تنقید کریں لیکن خدارا اس کی ذاتی زندگی اور خاص کر اس کے مذہبی زندگی پر تنقید ہرگز نہ کریں، کیونکہ اس طرح سے آپ فتنہ پھیلا رہے ہیں اور اپنے اندر کی مذہب بیزاری اور مذہب سے نفرت کا ہی اظہار کر رہے ہیں۔پاکستان کے سیکولرز کے بارے میں جب ہم کہتے ہیں کہ وہ لبرل سیکولرز نہیں ہے بلکہ وہ Laicite کے ماننے والے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے۔

    پاکستانی سیکولرز (لبرل یا Laicite)
    پاکستان میں پائے جانے والے اکثریت سیکولر “لبرل سیکولر” نہیں ہے بلکہ یہ زیادہ تر فرانسیسی نظام Laicite کے قریب ہیں، کیونکہ ایک “لبرل سیکولر” کے نزدیک مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، اور اگر کوئی شخص معاشرے میں کھلے عام مذہبی روپ میں رہنا پسند کرتا ہے تو یہ اس کا بنیادی حق ہے۔

    دوسری طرف سیکولرزم کے Laicite ورژن والے بھی اگرچہ مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ بتلاتے ہیں اور انسان کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کا حق دیتے ہیں، لیکن ان کے مطابق مذہب صرف عبادت گاہ تک ہی محدود ہونا چاہیے، اور وہ اسے معاشرے میں باقی کسی بھی جگہ قبول نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حجاب پر پابندی عائد کردیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ مذہب کا معاشرتی اظہار ہے جو نہیں ہونا چاہیے اور معاشرے کو مکمل سیکولر ہونا چاہیے۔

    ریاستی الحاد اس چیز کو ایک درجہ آگے لے جا کر مذہب پر مکمل پابندی لگا دیتا ہے، اور ایک انسان کو اس کے گھر میں بھی مذہب پر عمل پیرا ہونے کی اجازت نہیں دیتا ہے، اور ایسی حکومت میں تمام عبادت گاہیں ختم کر دی جاتی ہے۔

    پاکستان کے سیکولرز میں، میں نے دو باتیں نوٹ کی ہے جو کہ تقریباً زیادہ تر میں موجود ہیں، اور اس لیے میرے مطابق یہ “لبرل سیکولرزم” کے بجائے Laicite کو درست مانتے ہیں۔ وہ دو باتیں یہ ہیں:
    1) یہ لوگ کھیل کے میدانوں سے لیکر یونیورسٹی کے کیمپس تک ہر جگہ مذہب کے اظہار کیے جانے پر طنز کرتے رہتے ہیں، اور اس اظہار کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق ایسے اظہار یعنی کہ کرکٹ کے میدان میں نماز ادا کرنے سے آپ اس چیز میں یعنی کرکٹ میں مذہب گھسا رہے ہیں جو کہ درست عمل نہیں ہے۔ یعنی کہ ان کے نزدیک اگرچہ مسلمان ہونا آپ کا حق ہے، لیکن اسلام یا اپنی مسلمانی کا اظہار آپ کو میدانوں یا کسی اور جگہ کے بجائے صرف مسجد یا اپنے گھر میں ہی کرنا چاہیے، یہی Laicite کی پہچان ہے۔ یہ لبرل سیکولرزم نہیں ہے۔ لبرل سیکولرزم میں آپ کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے تھا۔

    2) دوسری بات یہ کہ یہ لوگ اتاترک جیسے بندے کو اسلامی دنیا کا ہیرو تسلیم کرتے ہیں جو کہ Laicite کی ایک نمائندہ مثال ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ Laicite کے پیروکار ہیں۔ کچھ ان میں لبرل سیکولر بھی ہیں ، اور کچھ ریاستی الحاد والے بھی ہیں۔

  • اسکور مکمل کہانی نہیں سناتا-سید شہریار کاظمی

    اسکور مکمل کہانی نہیں سناتا-سید شہریار کاظمی

    پاکستان بمقابلہ سعودیہ عرب فٹبال میچ، فائنل اسکور ، سعودی عرب 4، پاکستان صفر
    بظاہر اسکور بورڈ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان بری طرح یہ فٹبال میچ ہارا ہے۔ مگر کہانی یہ نہیں۔
    آٹھ سال سے باقاعدہ فٹ بال دیکھ رہا ہوں۔ آج پہلی مرتبہ کسی قابل ذکر میچ میں پاکستان کو دیکھ کر جو کیفیات تھی وہ بیان کرنا مشکل ہے، سبز ہلالی پرچم سعودیہ کے گراؤنڈ میں لہرا رہا تھا، ہمارے لڑکے (جو کسی بھی کلب سے محروم ہیں) اس ٹیم کے خلاف کھیل رہے تھے جو ورلڈ چیمپیئن ارجنٹینا کو ہرا چکی ہے، جس کے پلیئرز رونالڈو، بینزیما، نیمار اور فرمینو جیسے ٹاپ کلاس کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ یہ مقابلہ پاکستان فٹ بال کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
    یہ مقابلہ دو ایسی ٹیموں کے خلاف ہے جن کے درمیان وسائل کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ سعودیہ کی فٹبال جرسی ایڈیڈاس اسپانسر کرتا ہے، پاکستان کے پاس میجر اسپانسر ہی نہیں ہے، سعودیہ کی ڈومیسٹک لیگ میں دنیائے فٹبال کے ٹاپ کھلاڑی کھیلتے ہیں، ہمارے پاس لیگ اسٹرکچر ہی نہیں ہے، سعودیہ کا کوچ اطالوی لیجنڈ روبرٹو مانسینی ہے۔ سعودیہ کے ایک فٹ بال پلئیر کی سالانہ آمدنی ہمارے پورے فٹ بالنگ سیٹ اپ سے زیادہ ہے۔
    باوجود اسکے ہمارے لڑکوں نے بہترین کھیل پیش کیا، اور 90 منٹ تک سعودیہ کو دو گولز تک محدود رکھا، لڑکوں نے دو بہترین اٹیک بھی کیے جو اویسی نے شاندار طریقے سے روک لیے (سعودیہ کا یہ گول کیپر رونالڈو اور میسی جیسے پلئیرز کے خلاف زچ کردینے والی پرفارمنس دے چکا ہے) انجری ٹائم میں پاکستان کو دو گول پڑ گئے جسکی وجہ سے یہ اسکور بورڈ ہمیں 4-0 نظر آتا ہے۔
    تو یہ تصویر کہانی کا عکس نہیں ہے۔ ہماری کہانی اس تصویر سے ماوراء ہے، اور یہ وہ پہلا قدم ہے جو دنیائے فٹ بال میں ہم نے رکھا ہے۔ بغیر کسی منظم نظام کے، یہ قدم اپنے آپ میں ایک داستان ایک کامیابی ہے۔

  • افغان باقی کہسار باقی-ڈاکٹر تنویر الحسن زبیری

    افغان باقی کہسار باقی-ڈاکٹر تنویر الحسن زبیری

    آج کے ورلڈ کپ کے میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم افغان ٹیم سے شکست کھا گئی ۔۔ مین آف دی میچ کا اعزاز وصول کرنے والے کھلاڑی “زردان” نے اپنا ایوارڈ ان ڈی پورٹ ہونے والے افغان مہاجرین کے نام موسوم کردیا۔جنہیں پاکستان سے زبردستی بے دخل کیا جارہا ہے۔ ۔اور اس وقت ہمارے کئی نام نہاد دانشور افغانوں کو پاکستان سے دھکے دے کر نکالنے کے عمل کے سرخیل ہیں۔۔

    افغان جنگ میں روسی افواج نے یوکرائن سے کئی گنا زیادہ وسائل اور بری افواج میدان میں اتاریں۔۔۔ بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹتے کا شاید کسی کو اندازہ بھی نہ ہو۔۔۔تاسف تو دور کی بات۔۔۔ اب تو کسی کو معلوم ہے یا نہیں کی ۔۔۔۔افغان روس جنگ میں تاریک راہوں میں مارے جانے والے افغانیوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔۔ جبکہ ساٹھ لاکھ افغان اپنی جان۔ مال عزت۔ بیٹیوں ور ماوں کی عصمت اور آبرو کی حفاظت کیلئے لئے ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے۔۔ ایران میں انہیں سخت حفاظتی انتظامات میں “ریفیوجی کیمپس ” میں رکھا گیا ۔اور حالات سازگار ہونے پر نوے فیصد مہاجرین کو باعزت گھر بجھوا دیا۔۔ باقی دنیا میں پناہ گزین اور مستقل بس جانے والے افغانیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس آغاز کے دور میں۔۔۔پاکستان افغان بھائیوں کی امداد و اعانت میں کسی سے پیچھے نہ تھا۔۔۔ KPK کے مختلف علاقوں میں افغان خیمہ بستیاں آباد کی گئیں اور پاکستان تقریبا” چالیس لاکھ نفوس کا میزبان بنا۔۔۔پاکستان کو افغان بھائیوں کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ ایک لاکھ سے زائد پاکستانی بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں شہید ہوئے۔۔

    اسی 80 کی دہائی کے اوائل تھے۔۔۔تب میں میڈیکل کالج کا طالبعلم تھا۔۔ ہم دوستوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر انتظام چندہ جمع کرنے کے کیمپ لگائے۔۔۔ لوگوں نے اپنی استطاعت سے زیادہ ایثار کیا۔۔ ہمارے گھروں کی خواتین نے اپنے زیور بیچ کر کھلے آسمان تلے بے یارومددگار افغانیوں کا ساتھ دیا۔۔۔ قوم نے ہجرت مدینہ میں انصار کی یاد تازہ کردی۔۔۔ مگر ہمارے تب کے رہنما اور عوام شدت جذبات میں کچھ زیادہ ہی بہہ گئے اور انہیں خانہ بستیوں سے نکال کر سارے ملک میں پھیلا دیا۔۔ جس کے نتیجے میں زیر زمین۔۔جرائم پیشہ عناصر نے پورے ملک میں اسلحہ اور منشیات کا ایک جال بچھا دیا۔۔۔ اس مافیا کو ہمارے کرپٹ اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی چلی گئی۔۔۔ 9/11 کے ساتھ ہجرت ثانی شروع ہوئی ۔ امریکہ اور نیٹو افواج کی افغانستان میں دراندازی سے لاکھوں نئے مہاجر پاکستان میں داخل ہوگئے۔۔۔ تب میں PIMA کا صدر تھا ۔ ہم لوگوں نے مسلم دنیا اور دیگر ممالک کی میڈیکل تنظیموں کے ساتھ ملکر افغان مہاجرین کیلئے طویل عرصہ تک طبی سہولیات اور ہسپتال قائم کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔۔
    ان پناہ گزینوں کو UN چارٹر کے تحت refugee status اور تحفظ حاصل ہے۔۔۔مگر بدقسمتی سے مہاجرین کے روپ میں دہشت گردوں نے پاکستان میں اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر بے گناہ شہریوں اور محافظوں پر حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔۔۔

    عام افغان شہری غیرت مند۔ جفاکش۔ اسلام اور امن پسند ہیں اور انکی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اب اچانک انہیں اور انکے اہل و عیال کو بلاسبب نکالا جارہا ہے ۔۔ان میں سے اکثر کی تیسری نسل پاکستان میں موجود ہے اور اب گویا وہ ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے یا assimilate ہو چکے ہیں۔۔۔ ان کو زبردستی بے دخل کرنا۔۔ دہشت گردی کے مسئلہ کا حل نہیں۔۔۔۔سیاسی اور عسکری قیادت کو افغان حکومت کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کا قلع قمع اور واپسی repatriation کا انتظام کرنا چاہیے ورنہ حالات میں بہتری آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ۔۔
    مجھے یاد ہے کہ شاید 1985 میں نیشنل جیوگرافک National Geographic جیسے موقر میگزین کے سرورق پر ایک معصوم اور پری چہرہ افغان مہاجر بچی کی دکھ۔ یاسیت اور بے وطن ہونے کے خوف سے مزین شاہکار تصویر شائع ہوئی۔۔۔ میں تب ایشیائی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری لو چی کن Lo Chi Kin کو ناصر باغ کے افغان مہاجر کیمپ کے دورے پر لے کر پشاور گیا تھا۔۔۔ہماری وہاں نیشنل جیوگرافک کے فوٹو جرنلسٹ میک کری McCurry سے بھی ملاقات ہوئی۔۔۔ یہ تصویر اگلے شمارے کے سرورق پر شائع ہوئی اور دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔۔۔ اسے مشرقی مونا لیزا Mona Lisa of the east کا خطاب دیاگیا۔۔۔ یہ ایک نامعلوم بچی کی تصویر تھی اور اسکا سراغ لگانے کی متعدد بار کوشش کی گئی۔ سیکڑوں متمول مسلم اور مغربی خاندان اسکو گود لینا چاہتے تھے۔۔۔ دو دہائیوں کے بعد McMurray اسکو ڈھونڈنے دوبارہ پشاور جاپہنچا۔۔۔مگر اس کا سراغ نہ مل پایا۔۔۔ اس نے تمام افغان پناہ گزین کیمپس میں اس تصویر کی تشہیر کروائی اور اسکے چینل کی جانب سے اطلاع فراہم کرنے والے کیلئے خطیر رقم کا اعلان کیا گیا ۔۔۔بالآخر کئی ماہ کی رات دن کی کوششوں اور iris detection ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کا کھوج لگا لیا گیا۔۔۔ محض بیس برس گزرنے کے بعد وہ عمر رسیدہ لگتی تھی ۔۔۔ بوڑھا McCurry اسکو دیکھ کر رو پڑا۔۔ اپنی حالت زار پر ۔۔اس نے دری زبان میں اسے جواب دیا۔۔۔”غریب الوطنی۔۔۔ انسان کو شناخت کھودینے کی گہرائی میں اتار دیتی ہے۔۔۔۔صرف شکستہ وجود رہ جاتا ہے۔۔۔حسن و جمال۔ دل۔ دماغ اور شگفتگی تو اپنے وطن میں ہی رہ جاتی ہے” ۔۔ اس خاتون کا نام شربت گلے تھا۔۔۔ اسکو منظر عام پر آنے کے بعد ہمارے حکام نے 2015 میں اسے زبردستی deport کردیا ۔۔۔کہتے ہیں وہ اس تصویر اور پہچانے جانے سے خائف کہیں دور دراز غاروں کی مکین ہے یا مر کھپ چکی ہے۔۔۔یہی مہاجرین کا المیہ ہے۔۔۔ چند گنے چنے دہشت گردوں کی سزا لاکھوں معصوم بچوں اور خواتین کو دینا نا انصافی ہے۔۔۔ہم نے مہاجرین کو خود ہی منظم discipline نہیں کیا۔۔۔۔اب ایکا ایکی ان کو دھتکارنا مناسب نہیں لگتا ۔ ہماری نسلوں نے ان پر جان چھڑکی۔ چھاوں بکھیری اور انکی عزتوں پر پہرہ دیا۔ انکے زخموں پر مجھ جیسے مسیحاوں نے خود مرہم رکھا۔ ہم کیسے ان جگر گوشوں کو آزمائش کی بھٹی کی بھٹی میں دھکیل رہے ہیں۔۔
    اقبال نے کہا تھا۔۔۔
    کڑکا سکندر بجلی کی مانند
    تجھ کو خبر ہے اے مرد ناگاہ
    نادر نے لوٹی دلی کی دولت
    اک ضرب شمشیر افسانہ کوتاہ
    افغان باقی کہسار باقی
    الحکم للہ-الملک للہ
    حاجت سے مجبور مردان آزاد
    کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ
    محروم خودی سے ہجس دم ہوا فقر
    تو بھی شہنشاہ۔۔ میں بھی شہنشاہ
    قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
    جس نے نہ ڈھونڈی سلطان کی درگاہ۔۔۔۔۔

  • رونالڈو کا  النصر کی جانب سے متوقع ڈیبیو: سید شہریار کاظمی

    رونالڈو کا النصر کی جانب سے متوقع ڈیبیو: سید شہریار کاظمی

    کرسٹیانو رونالڈو یوں تو خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں مگر تازہ صورتحال جس نے رونالڈو کو ہر فٹ بال شائق کی توجہ کا محور بنا دیا ہے وہ رونالڈو کا سعودی کلب النصر سے کیا جانے والا معاہدہ ہے۔ ڈھائی سال پر مشتمل یہ معاہدہ اس حوالے سے ریکارڈ ساز ہے کہ اس کے بعد کرسٹیانو رونالڈو دنیا کے سب سے مہنگے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ وہ اس معاہدے کی بدولت سالانہ 200 ملین ڈالر کے لگ بھگ آمدنی حاصل کریں گے۔
    کرسٹیانو رونالڈو ، سعودی عرب کی آل اسٹارز الیون کی جانب سے اپنا پہلا میچ ، پیرس سینٹ جرمین کے خلاف 19 جنوری ، رات دس بجے بروز جمعرات کو کھیلنے والے ہیں۔
    لائنل میسی، مباپے اور نیمار جونیئر سمیت بہت سے عالمی شہرت یافتہ فٹبالرز پیرس سینٹ جرمین کا حصہ ہیں۔

    النصر سے اس معاہدہ کا مطلب کرسٹیانو رونالڈو کی یورپین فٹ بال کے سفر کا اختتام بھی ہے۔ اور یوں پندرہ سال سے جاری عظیم فٹ بالر لیونل میسی سے انکی حریفانہ مسابقت کا اختتام ہو چکا ہے۔ اس موقعہ پر ہم رونالڈو کے بنائے گئے چند ریکارڈز کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔

    رونالڈو فٹبال کے بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے زیادہ 118 گول کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں، انھوں نے یہ ریکارڈ ایران کے علی داعی سے چھینا جن کے 109 گولز تھے۔ اب تک رونالڈو اور علی داعی ہی فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں 100 سے زائد گول کرسکے ہیں۔

    عالمی مقابلوں کے ساتھ ساتھ رونالڈو کلب فٹ بال میں بھی سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ اپنے پاس رکھتے ہیں انھوں نے کلب فٹبال میں کل 810 دفعہ گیند کو جال کے اندر پہنچایا ہے۔

    رونالڈو ہسپانوی کلب رئیل میڈرڈ کے سرفہرست سٹرائیکر ہیں، انھوں نے رئیل میڈرڈ کے لیے ریکارڈ 451 گول اسکور کیے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ اطالوی کلب جویئنٹس کی جانب سے تیز ترین 100 گول کرنے کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔

    یہ تو رہی داستان رونالڈو کے گولز کی، اب بات کرلی جائے رونالڈو کی ٹرافیوں اور میڈلز کی۔۔۔

    پرتگال کی جانب سے رونالڈو کی شاندار پرفارمنس
    رونالڈو پرتگال کے عظیم ترین کھلاڑی ہیں۔ رونالڈو سے پہلے پرتگال صرف 3 دفعہ ورلڈ کپ کھیل سکی تھی، رونالڈو کے پرتگال کی طرف سے کھیلنے کے بعد پرتگال پانچ میں سے پانچ مرتبہ ورلڈ کپ کے لیے اہل ثابت ہوئی۔ رونالڈو نے پرتگال کو 2016 میں یورپ کے سب سے بڑے فٹ بال مقابلے یورو کپ کا فاتح بنوایا، اور 2018 میں افتتاحی نیشنز لیگ کا تاج بھی پرتگال کے سر پر سجانے کا سبب بنے۔

    اس کے علاوہ کلب فٹ بال میں رونالڈو؛ کلب کی دنیا کے سب سے بڑے مقابلے چیمپینز لیگ کے پانچ مرتبہ فاتح رہے ہیں۔ انھوں نے انگریزی کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کی طرف سے ایک اور ہسپانوی کلب رئیل میڈرڈ کی جانب سے چار مرتبہ اس کپ کو جیتا ہے۔ رئیل میڈرڈ کی جانب سے ہی رونالڈو کو 4 کلب ورلڈ کپس، اور تین یوئیفا سپر کپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    انھوں نے مانچسٹر یونائٹڈ کی جانب سے کھیلتے ہوئے تین مرتبہ انگلش لیگ، رئیل میڈرڈ کی جانب سے دو مرتبہ ہسپانوی لیگ، اور جوئینٹس کی نمائندگی کرتے ہوئے دو مرتبہ اطالوی لیگ جیتی۔ دونالڈو پانچ بیلن ڈور جیت چکے ہیں۔ رونالڈو نے دس مرتبہ سال کے بہترین فٹ بالر کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ یوئیفا کے سالانہ فٹ بالر کا اعزاز وہ پانچ دفعہ اپنے نام کرچکے ہیں۔ اسکے علاوہ انھوں نے پانچ مرتبہ گولڈن بوٹ بھی جیت رکھا ہے۔