ہوم << سپن باولنگ کا خاموش جادوگر ذوالفقار بابر - سلمان احمد قریشی

سپن باولنگ کا خاموش جادوگر ذوالفقار بابر - سلمان احمد قریشی

کرکٹ ہمارے ہاں محض کھیل نہیں، خواب ہے، جنون ہے، اور بعض اوقات ایک نعرہِ امید بھی بن جاتا ہے۔ کبھی یہی کھیل قومی وقار کا استعارہ تھا، اور اس کی سب سے مضبوط کڑی سپن بولنگ کا شعبہ۔ مگر آج جب قومی ٹیم کے اسپن ڈیپارٹمنٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو خلا نظر آتا ہے، ایک ایسی کمی جو چبھتی ہے۔ اس خلا کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ٹیلنٹ کو پہچاننے کی بجائے تعلقات، شہرت اور میڈیا کے شور کو ترجیح دی۔

دھیما انداز، گہرا کمال ذوالفقار بابر، اک شخصیت، اک ہنر، اک رویہ،اوکاڑہ کی مٹی سے اُٹھنے والا یہ بائیں ہاتھ کا اسپن باؤلر جب بین الاقوامی کرکٹ میں داخل ہوا، تو نہ عمر اس کے حق میں تھی، نہ وقت۔ لیکن پھر بھی اُس نے وہ کر دکھایا جس کی تمنا کئی نوجوان دلوں میں لے کر گمنامی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ذوالفقار بابر انہی خاموش گوہر نایاب میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا سپنر جس نے ثابت قدمی، محنت اور مسلسل جدوجہد سے خود کو منوایا۔ وہ میرے شہر اوکاڑہ کا فرزند ہے، اور میرا ذاتی دوست۔ میں نے اس کو قریب سے دیکھا ہے، اس کی سادگی، شرافت اور عاجزی کو محسوس کیا ہے۔ دنیا کے بڑے میدانوں اور شہروں کو دیکھنے کے باوجود اس کے اندر وہی پرانی معصومیت، وہی دھیمہ لہجہ اور وہی احترام باقی ہے جو اس کی پہچان ہے۔

اوکاڑہ کی سرزمین نے جب کرکٹ کے میدان میں ذوالفقار بابر جیسا گوہرِ نایاب پیش کیا تو شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو کہ یہ خاموش مزاج اور درویش طبع نوجوان عالمی سطح پر پاکستان کا پرچم بلند کرے گا۔ وہ نہ صرف میرے شہر کے سپوت ہیں بلکہ ایک ایسے بااخلاق، نفیس اور سادہ مزاج انسان بھی ہیں جن سے میری متعدد ملاقاتیں رہیں۔ اکثر مجھے اپنے گھر مدعو کرتے، جہاں کھانے سے زیادہ گفتگو میں محبت، خلوص اور کرکٹ کا جذبہ ہوتا۔ذوالفقار بابر نے 35 برس کی عمر میں بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز کیا۔یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب بیشتر کھلاڑی اپنے اختتام کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ لیکن ''ذولفی'' نے اس روایت کو توڑ دیا۔ وہ نہ صرف ایک بااخلاق انسان ہیں بلکہ ایک مخلص دوست بھی۔ اوکاڑہ شہر کے اس سادہ دل سپاہی نے اپنی کارکردگی سے قومی ٹیم میں جگہ بنائی، وہ بھی ایسے وقت میں جب عمر کی حدیں عبور ہونے لگتی ہیں۔

ذوالفقار بابر نے 2013 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی 20 میچ سے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا۔ٹیسٹ ڈیبیو کے موقع پر آخری گیند پر سنگل لے کر پاکستان کو جتوانا ایک یادگار لمحہ تھا۔ یہ کارنامہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محنت، یقین اور لگن سے منزل حاصل کی جا سکتی ہے، چاہے وقت کچھ بھی ہو۔مختصر لیکن بہترین بین الاقوامی کیریئر میں 15ٹیسٹ میچز میں 54 وکٹیں، بہترین بولنگ 5/74 اور5ون ڈے انٹرنیشنل میچزمیں4 وکٹیں اسی طرح 7 ٹی 20 انٹرنیشنل میچز میں 12وکٹیں ذوالفقار بابر کے نام ہیں۔ذوالفقار بابر نے ٹیسٹ کرکٹ میں 50 وکٹیں 36 سال اور 330 دن کی عمر میں مکمل کر کے پاکستان کا ”بزرگ ترین“ اسپن باؤلر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔اس سے قبل یہ ریکارڈ جادوگر اسپنر سعید اجمل کے پاس تھا جنہوں نے 33 سال اور 222 دن کی عمر میں 50 وکٹیں مکمل کی تھیں۔یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ اگر عزم ہو، تو عمر صرف ایک عدد رہ جاتی ہے۔2014 میں آسٹریلیا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں 14 وکٹیں لے کر پاکستان کی شاندار فتح کے ہیرو بنے۔ 115 سے زائد اوورز کرائے، جو کسی دو میچز کی سیریز میں ایک اسپنر کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔ایک ہی اننگ میں 10 وکٹیں لینے والے چند پاکستانی گیند بازوں میں شامل ذوالفقار بابر نے متعدد مواقع پر ''مین آف دی میچ'' اور ''مین آف دی سیریز'' کے اعزازات حاصل کیے۔

سپن کا خاموش جادوگرذوالفقار بابرڈومیسٹک کرکٹ کے سلطان ہیں۔ 108فرسٹ کلاس میچز میں 509 وکٹیں،بہترین اننگ بولنگ 10/143،بہترین میچ بولنگ 15/145انکا ریکارڈ ہے۔2012-13 کے سیزن میں 96 وکٹیں حاصل کر کے قومی سطح پر سب کی توجہ حاصل کی۔2010-11 اور 2012-13 سیزن میں ٹاپ پرفارمر رہے۔ذوالفقار بابر نے پاکستان کے فرسٹ کلاس اور ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی خود کو منوایا۔کئی بار قومی ٹیم میں واپسی کے امیدوار بنے، لیکن سلیکشن پالیسیوں کی پیچیدگیاں آڑے آئیں۔

ذوالفقار بابر کے والد عبدالغفار ایک سابقہ انٹرنیشنل فٹبالر رہے ہیں۔ انہوں نے بیٹے کے کرکٹ شوق کو نہ صرف سراہا بلکہ بھرپور تعاون بھی کیا۔ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ان کے والد نے کبھی زبردستی نہیں کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بیٹے کا دل کس کھیل میں دھڑکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی محبت اور فطری لگاؤ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ذوالفقار بابر کے والد نہایت نیک سیرت انسان ہیں، ایک سادہ مگر باوقار شخصیت۔ ان کی والدہ کچھ عرصہ قبل وفات پا چکی ہیں، اور ایک بڑا بھائی، جو مقامی سطح پر کرکٹ کھیلتا تھا، ایک میچ سے واپسی پر سڑک حادثے کا شکار ہو کر جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ دکھ ذوالفقار نے سینے میں سمیٹ کر زندگی کے سفر کو جاری رکھا، اور کرکٹ کے میدان میں خود کو منوایا۔

نہایت بردبار، سنجیدہ اور محنتی ذوالفقار بابر کا میدان کے اندر اور باہر رویہ مثالی رہا ہے۔ وہ نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کس طرح حوصلہ اور صبر سے منزل کو پایا جا سکتا ہے۔ اب کوچنگ اور کرکٹ کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اوکاڑہ اور دیگر چھوٹے شہروں کے نوجوانوں کو وہ پلیٹ فارم مہیا کریں، جو انہیں وقت پر میسر نہ آ سکا۔ اوکاڑہ میں ایک کرکٹ اکیڈمی اور فٹنس سینٹر کے قیام کا ارادہ بھی رکھتے ہیں تاکہ نوجوان کھلاڑی فٹ رہ کر قومی خدمت کر سکیں۔ ذوالفقار بابر کا سفر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہنر اگر خالص ہو اور نیت سچی، تو وقت خود راستے بنا دیتا ہے۔ اوکاڑہ کا یہ ”خاموش باؤلر“ دراصل ایک بلند آواز ہے،استقامت، صلاحیت اور عاجزی کی آواز۔

ذوالفقار بابر کا کیریئر شاید اعداد و شمار میں لمبا نہ ہو، لیکن اس کا ہر اسپیل، ہر وکٹ اور ہر اوور ایک کہانی ہے۔ خاموش محنت، خودداری، اور اپنے فن سے سچی وابستگی کی کہانی۔ ایسے کھلاڑیوں کو میڈیا نے وہ مقام نہ دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ ہم نے شہرت کو کارکردگی پر ترجیح دی، اور ہنر کو صرف اشتہاروں کی روشنی میں تلاش کرنے لگے۔

لیکن سچ یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو میدان میں بولتے ہیں، جو کم گو ہوتے ہیں مگر ان کی گیند چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ ''میں آیا ہوں، اور میں کچھ خاص لایا ہوں۔''ذوالفقار بابر ایک ایسے ہی خاموش مجاہد کا نام ہے۔ ہماری کرکٹ کو ایسے کرداروں کی ضرورت ہے، جو صرف گیند کے گرد نہیں، اپنے کردار کے گرد بھی مضبوط ہوں۔ ہمیں اس ہنر کی پہچان کرنی ہوگی جو ہمارے شہروں، گلیوں، اور دیہاتوں میں سانس لے رہا ہے۔اس سے پہلے کہ وقت اور سسٹم اُسے خاموش کر دے۔

ذاتی طور پر جب میں ان سے ملاقات کرتا ہوں، تو ان کی عاجزی، محبت، اور سادگی مجھے ہمیشہ متاثر کرتی ہے۔ وہ ایک سچے انسان اور اچھے دوست ہیں۔ذوالفقار بابر اس عہد کے ان سپاہیوں میں سے ہیں جو خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، کوئی شور نہیں مچاتے، لیکن جب میدان میں آتے ہیں تو مخالفین کی صفیں درہم برہم کر دیتے ہیں۔ وہ واقعی ایک خاموش انقلابی ہیں جنہیں وقت پر مقام ملا، اور انھوں نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنے نام کر لیا۔

آج ذوالفقار بابر کا بیٹا سلمان کالج کا طالبعلم ہے اور اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کرکٹ کے میدان میں قدم جما رہا ہے۔ دعا ہے کہ جس طرح باپ نے حالات، وسائل اور سسٹم کی دیواروں کو پھلانگ کر ملک کا نام روشن کیا، بیٹا بھی جلد قومی ٹیم کا حصہ بنے اور باپ کی وراثت کو نئی بلندیوں تک پہنچائے۔کہانی ذوالفقار بابر کی ہے، مگر آئندہ صفحات شاید اس کے بیٹے کے ہوں۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment