میں اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ میز پر نسخہ ہائے وفا کھلا رکھا تھا جس کے صفحات پر وقت کی گرد جم چکی تھی۔ باہر ہوا ساکت تھی، جیسے شہر کسی گہری نیند میں...
رفیعہ شیخ کا تعلق لاہور سے ہے۔ اجوکا تھیٹر سے اسکرپٹ رائٹنگ کا کورس کیا۔ الحمرا تھیٹرز کے لیے اسٹیج ڈرامہ ''میڈا عشق وی توں'' کے عنوان سے لکھا، جو بعد میں ناول کی صورت میں شائع ہوا۔ مختلف رسائل میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھتی ہیں۔ سینرجی بکس کے نام سے آن لائن بک اسٹور چلاتی ہیں۔
رات آہستہ آہستہ شہر پر اتر رہی تھی۔ ہر گلی، ہر کوچہ، ہر زینہ اس کی سیاہ چادر میں لپٹتا جا رہا تھا۔ جیسے کوئی پراسرار سایہ دبے پاؤں چل رہا ہو، آہستہ...
سورج کی کرنیں دھیرے دھیرے زمین پر بکھر رہی تھیں، جیسے کسی نازک ہاتھ نے زعفرانی رنگ کو آسمان کی وسعتوں سے اتار کر خاک پر چھڑک دیا ہو۔ صبح کے سائے ابھی...
نانگا پربت کی برف پوش چوٹیوں پر شام اتر رہی تھی۔ آسمان پر بکھری ہوئی سرخی کسی قدیم لوح پر کندہ کسی پوشیدہ عبارت کی مانند تھی، جیسے صدیوں پرانے راز...
سورج ڈھل چکا تھا۔ دریچے سے چھن کر آتی زرد روشنی نیم تاریک کمرے میں بکھری پڑی تھی، جیسے وقت کسی بوسیدہ دیوار پر آخری کرنوں کی تحریر لکھ رہا ہو۔ کمرے...