ہوم << نانگا پربت اور ہما - رفیعہ شیخ

نانگا پربت اور ہما - رفیعہ شیخ

نانگا پربت کی برف پوش چوٹیوں پر شام اتر رہی تھی۔ آسمان پر بکھری ہوئی سرخی کسی قدیم لوح پر کندہ کسی پوشیدہ عبارت کی مانند تھی، جیسے صدیوں پرانے راز برف کی سپید چادر میں دفن تھے۔ ہوا میں ایک انجانا ارتعاش تھا، جیسے وقت خود اپنے وجود کا بوجھ محسوس کر رہا ہو۔

یوسف نے آسمان کی وسعتوں میں نگاہ دوڑائی۔ اچانک اُس کی آنکھوں میں حیرت کا ایک غیر مرئی طوفان اٹھا۔ بادلوں کی اوٹ سے ایک سایہ نمودار ہوا—دیوہیکل، پراسرار، اور ماورائی۔ ہما تھا، وہی جو صدیوں سے کہانیوں میں سنا گیا، مگر کسی آنکھ نے اسے یوں حقیقت میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس کے پروں پر گرتی ہوئی سورج کی کرنیں سنہری زریں چادر کی مانند لہرا رہی تھیں، اور ہر جنبش کے ساتھ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے فضا میں مقدر کی نئی سطریں لکھی جا رہی ہوں۔

زیبا کی سانسیں کسی انجانے خوف سے مقید ہوگئیں۔ اُس نے یوسف کی کلائی کو زور سے تھام لیا، جیسے حقیقت اور سراب کے مابین کوئی نادیدہ جنگ جاری ہو۔ "یوسف، یہ... یہ کیا ہے؟" اُس کے لرزتے ہونٹوں سے مدھم سرگوشی نکلی۔

یوسف نے ایک لمحے کو اپنی پلکیں جھپکائیں، پھر دھیرے سے بولا، "یہ ہما ہے، زیبا! وہی ہما جسے صدیوں سے قسمت کا محافظ کہا جاتا ہے۔ جس کے سایہ تلے آ جانے والا تقدیر کا امین بن جاتا ہے۔ مگر یہ یہاں کیوں آیا ہے؟ نانگا پربت کی ان بلند چوٹیوں پر؟"

ہوا کے جھونکے میں یکدم شدت آ گئی، جیسے برفیلے ذرات میں کوئی نادیدہ قوت سرایت کر گئی ہو۔ برف یوں بکھری جیسے وقت کے صفحات پلٹ رہے ہوں۔ ہما پرندہ اپنے سنہری پروں کو کھولے پہاڑ کے گرد گردش کرنے لگا، جیسے کسی گمشدہ روح کی تلاش میں ہو۔ اُس کی چمکدار آنکھیں زمین پر کسی مہر شدہ تحریر کی مانند جمی ہوئی تھیں، جیسے وہ کسی نادیدہ راز کی گواہی دے رہی ہوں۔

زیبا نے سہم کر کہا، "اگر یہ ہمارے لیے آیا ہے تو؟ اگر یہ ہم سے کچھ چاہتا ہے؟ کیا ہم اُس کی طلب کو پورا کر سکیں گے؟"

یوسف کی نظریں ہما کے پروں میں لپٹی ہوئی اُس روشنی میں گم تھیں، جو کسی ازلی نوشتے کی مانند لگ رہی تھی۔ "زیبا، کچھ مقدر انسانوں سے ان کی مرضی نہیں پوچھتے، وہ ان پر مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ شاید ہماری قسمت کا فیصلہ ان پہاڑوں سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ شاید ہم کسی ایسی کہانی کا حصہ ہیں جس کا آغاز بھی ہمیں معلوم نہیں۔"

ہما ایک آخری بار جھکا، اُس کے پروں کی روشنی نانگا پربت کی سفید برف میں سرایت کرنے لگی۔ ایک لمحے کے لیے فضا میں سنہری دھند بکھر گئی، اور وقت جیسے رک گیا۔

زیبا کی آنکھوں میں کسی ان کہے خوف کی پرچھائیاں لرزنے لگیں۔ اُس نے سرگوشی کی، "کیا تقدیر کی زنجیریں توڑی جا سکتی ہیں، یوسف؟ کیا انسان ازل کی لکھی تحریر کو بدل سکتا ہے؟"

یوسف نے گہری سانس لی، اُس کی آنکھوں میں سوچ کا ایک طوفان برپا تھا۔ "تقدیر اور ارادے کی جنگ ازل سے جاری ہے، زیبا۔ مگر کچھ حقیقتیں اتنی بے رحم ہوتی ہیں کہ انسان چاہ کر بھی انہیں بدل نہیں سکتا۔ شاید ہمارا اختیار محض ایک سراب ہو، اور ہم اُس خواب کی تعبیر کے محتاج ہوں جو کسی اور نے دیکھا ہو۔"

زیبا کی نظریں آسمان میں منڈلاتے ہما پر جمی تھیں، "اگر یہی سچ ہے، تو پھر ہم کس لیے ہیں؟ اگر تقدیر ہی سب کچھ ہے تو خواب، خواہش، اور بغاوت کی کوئی وقعت نہیں؟"

یوسف نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا، "بغاوت شاید وہ واحد روشنی ہے جو تقدیر کے اندھیروں کو چیر سکتی ہے۔ مگر یہ روشنی خود اپنے وجود کی قیمت مانگتی ہے۔ کیا تم وہ قیمت چکانے کے لیے تیار ہو؟"

نانگا پربت کی فضائیں خاموش تھیں، جیسے پہاڑ بھی اس مکالمے کے اختتام کے منتظر ہوں۔ اور پھر ایک چیخ فضا میں بلند ہوئی—یہ چیخ زیبا کی تھی، یا نانگا پربت کے کسی قدیم راز کی، کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر یوسف نے آنکھیں بند کر کے ہاتھ بڑھا دیا، اور قسمت نے اپنی مہر لگا دی۔

ہما پرندہ ایک آخری بار جھپٹا، اُس کے پروں سے جھڑتی سنہری چمک برف پر بہتے وقت کی طرح پھیل گئی۔ زیبا اور یوسف ایک لمحے کو روشنی میں ڈوب گئے، اور جب وہ روشنی ماند پڑی، تو پہاڑ کی چوٹی پر صرف سنہری چمک باقی رہ گئی۔ لوگ صدیوں تک نانگا پربت پر ان کی کہانی سناتے رہے، مگر وہ کہانی ہمیشہ ایک راز بنی رہی۔ ہما پرندہ ایک اور مقدر کو اپنی روشنی میں جذب کر چکا تھا، اور نانگا پربت کے سفید برفیلے گنبد پر ایک نئی داستان کندہ ہو چکی تھی.