سورج ڈھل چکا تھا۔ دریچے سے چھن کر آتی زرد روشنی نیم تاریک کمرے میں بکھری پڑی تھی، جیسے وقت کسی بوسیدہ دیوار پر آخری کرنوں کی تحریر لکھ رہا ہو۔ کمرے کے ایک کونے میں وہی قدیم آئینہ تھا، جو برسوں سے دیوار سے ٹکا کھڑا تھا— دھندلا، بے جان، جیسے اس کے اندر قید عکسوں پر وقت نے مٹی کی چادر ڈال دی ہو۔
صالحہ بیگم نے اپنی بوڑھی آنکھیں مسلیں اور آئینے میں جھانکا۔
یہ وہی آئینہ تھا، جس کے سامنے کھڑے ہو کر کبھی وہ، ان کے بہن بھائی، اور ان کے کزنز کھلکھلا کر ہنسا کرتے تھے۔
وہ شامیں یاد آئیں جب خالہ کے صحن میں چاندنی راتوں میں سب بہن بھائی چارپائیاں ڈال کر کہانیاں سنتے تھے۔
ماموں چٹکلے سناتے، خالو کبھی کبھار سخت لہجے میں ڈانٹ دیتے، اور خالہ ہمیشہ بچوں کی طرف داری کرتیں،
"ارے، بچوں کے کھیل کود پر کیا ناراض ہونا؟"
پھر وہ دن بھی تھے جب عید پر سب ایک دوسرے کے گھروں میں آتے، رنگ برنگے کپڑوں میں خوشبوئیں بسی ہوتیں، چوڑیوں کی کھنک ماحول میں گھل جاتی۔ ماموں کا بیٹا حسن ہمیشہ سب سے زیادہ عیدی وصول کرتا، اور سب بہنیں ناراض ہو کر ایکا کر لیتیں،
"یہ تو ناانصافی ہے!"
اور نانی ہنستے ہوئے سب کو اضافی سکے تھما دیتیں۔
لیکن وہ دن بیت چکے تھے۔
پہلے فاصلے معمولی تھے، پھر بڑھنے لگے، اور پھر ان کے درمیان خاموشی کا ایک ایسا دریا بہنے لگا، جسے پار کرنے کی خواہش کسی نے کی ہی نہیں۔
ایک کزن کے الفاظ کڑواہٹ میں ڈھل گئے، دوسرے کی لاپروائی نفرت بن گئی۔ ایک نے دوسرے کی خوشی میں شرکت نہ کی، دوسرے نے عیادت کا تکلف نہ برتا۔ چھوٹے چھوٹے شکوے پتھروں کی طرح دلوں پر جمع ہوتے گئے، یہاں تک کہ ایک پہاڑ کھڑا ہو گیا۔
خالہ بیمار ہوئیں، لیکن کوئی ان کی تیمار داری کو نہ آیا۔ ماموں کی وفات ہوئی، مگر تعزیت کے رسمی پیغامات سے زیادہ کسی نے کچھ نہ کیا۔
وہ جو ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ، اب برسوں ہو گئے، کسی نے کسی کو عید مبارک کا پیغام بھیجنے کی زحمت نہ کی۔
ایک روز صالحہ نے ہمت کر کے ماموں زاد کو فون کیا،
"صفیہ، کیسی ہو؟"
دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی، پھر ایک تھکی ہوئی آواز آئی،
"زندگی گزر رہی ہے… بس وہی روزمرہ کی مصروفیات۔"
کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ بات کو وہاں سے جوڑا جا سکتا۔ دونوں کے پاس کرنے کو کوئی بات ہی نہیں تھی سو رسمی سلام دعا کے بعد فون بند ہوگیا جو دھاگے ٹوٹ چکے تھے، وہ بُننے کے قابل ہی نہ رہے تھے۔
آج صالحہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی۔
اسے وہ رات یاد آئی جب گرمی کی چھٹیوں کی ایک رات سب کزنز نے چھت پر مل کر ستارے گنے تھے، جب سب نے وعدہ کیا تھا،
"ہم کبھی الگ نہیں ہوں گے!" ان ستاروں کی طرح ساتھ ساتھ رہیں گے
اور آج؟
سب اپنے اپنے گھروں میں تھے، اپنے اپنے خول میں قید۔
رشتے جو کبھی ایک درخت کی ڈالیاں تھے، وقت کے تھپیڑوں نے انہیں الگ کر دیا تھا۔
کسی نے حسد میں راہ بدلی، کسی نے ضد میں۔
کسی نے صرف اتنی کوتاہی کی کہ بس ایک بار حال نہ پوچھا، اور وہ کوتاہی رشتے کی قبر پر آخری مٹی ثابت ہوئی۔
وقت گرہ بن جائے تو ہاتھ کی جنبش سے کھل جاتا ہے،
لیکن جب وہ گرہ دراڑ میں بدل جائے،
تو رشتے صرف ماضی کی ایک مٹیالی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔
آج وہ تصویر دھندلا چکی تھی۔
اور اس کی گواہی صرف یہ پرانا آئینہ دے سکتا تھا،
جو دیوار سے ٹیک لگائے خاموش کھڑا تھا۔
اور انتظار میں تھا کہ وہ بچپن اور وہ بچے جو اب بڑے ہوگئے ہیں کبھی واپس آکر اس کے سامنے کھڑے ہوں.
تبصرہ لکھیے