ہوم << ورلڈ کالمسٹ کلب، روداد اک تقریب کی - حافظ یوسف سراج

ورلڈ کالمسٹ کلب، روداد اک تقریب کی - حافظ یوسف سراج

WhatsApp Image 2016-08-27 at 11.20.19 PM یہ بھی اچھا ہوا کہ حافظ شفیق الرحمٰن صاحب وہابی نہیں، گو وہ اتنے غیر وہابی بھی نہیں، بہرحال جس ہائی جمپ سے انھوں نے کامیابی کی قوس ِ قزح کو جا چھوا ہے، اب انھیں  نظر بد سے بچنے کے لیے غیر وہابیانہ چلے کشی اور اوراد و وظائف کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایمبیسڈر ہوٹل میں، اعتدال ِصحافت کاتتمۂ شام مکرم مجیب الرحمن شامی صاحب اور دیگر جید اہل ِصحافت نے جس طرح سے انھیں اعتماد کے پھول لفظوں سے لاد اورحرفِ محبت کے موتیوں سے تول دیا ہے تو اب محبان ِحافظ غالب کے ہمنوا ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں ؎
نظر لگے نہ اس کے دست و بازو کو
لوگ کیوں میرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
شامی صاحب کی تائید کوئی معمولی معاملہ نہیں کہ آنجناب صحافت ِموجود کے وہ موجدِ ارجمند سائنس دان ہیں کہ جنھوں نے کسیلی بات سلیقے سے کہہ دینے اور صحافت کی ہر کٹھالی و کٹھنائی سے بسلامت گزرجانے کا ہنر ایجاد اور ایزاد کر دکھایا ہے۔ برجستہ گوئی ہو کہ بذلہ سنجی، نکتہ دانی ہو کہ کوزہ لفظ میں معنی کی صورت گری و ارزانی و طغیانی، یہ شخص شخص وحید ہے، یہ فرد فردِ فرید ہے۔ مجلسوں میں (ماتم کی نہیں، صحافت کی) وہ وقت بھی آتاہے کہ عزیزانِ مصر ہی نہیں، بازارِ صحافت کی زلیخائیں بھی اس یوسفِ صحافت کے لیے کیمرہ نامی سوت کی اٹیاں تھامے محوِ آرزو دیکھی جاتی ہیں۔ کالمسٹ کلب کی مذکورہ تقریب سے خطاب میں اپنے آغازِ قلم کی یادیں تازہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ موجودہ صحافت میں جدید کالم کے موجد عبدالقادر حسن، نوائے وقت سے جنگ (کرنے؟)گئے تو تب نوائے وقت کو اپنے محاذ کے لیے نیا توپچی ڈھونڈنا تھا، اور یوں قرعۂ فال اس قسمت کے سکندر کے نام نکلا۔ واہ! توگویا یہ البیلا کالم کاریوں تلاشا اور تراشا گیا!
اے شوخ ستمگر تیری ایجاد کو شاباش!
یادش بخیر، کسی نے کہا تھا کہ کاش ابوالکلام ایک بار اور جیل جاتے، تاکہ اہلِ ذوق غبارِ خاطر جیسے ایک اور شاہکار کا استقبال کر سکتے۔ تواے کاش! اک اور بار عبدالقادر حسن کو نوائے وقت میں لایا، بٹھایا اور پھر سے اٹھایا جائے، کہ شاید اردو صحافت کے پنڈال میں کوئی اور بانکا خطیب ایسا ہی اک اور جلسۂ عام بپا کر سکے۔
حفیظ اللہ نیازی کہ جن کے چہرے کا جمال ان کے قلم کے کمال کی ہمسری کرتا تھا، یہاں یوں گویا ہوئے کہ آئندہ مقررین کے لیے خاصا مواد فراہم کرگئے۔ شامی صاحب اور حافظ شفیق الرحمن صاحب کو ایساموقع اللہ دے۔ نیازی صاحب نے تجویز دی کہ ورلڈ کالمسٹ کلب کے نام سے’ورلڈ‘ کا لفظ ہٹا دیا جائے۔ اپنے خطاب میں شامی صاحب نے نیازی صاحب کو ڈھونڈا۔ وہ تب ہتھیار ڈالنے جا چکے تھے۔ (ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں نہیں، اللہ کے حضور اپنی پیشانی کو سرنڈر کرنے!)۔ شامی صاحب نے کہا، میں نے کہا تو تھا کہ نماز مجھے بھی پڑھنی ہے مگر شاید نیازی صاحب کو یقین نہیں آیا۔ پھر فرمایا، کسی کی سالگرہ میں جائیں تو اسے نام بدلنے کا مشورہ نہیں دیتے۔ یہ مشورہ شاید چئیرمین ورلڈ کالمسٹ کلب کے لیے مصرع طرح ثابت ہوا۔ چنانچہ ا س پر انھوں نے گرہ ہی نہیں لگائی دو غزلے اور سہہ غزلے بھی کہہ سنائے۔ فرمایا کہ سڈنی، بار سلونا، لندن، نیو یارک اور جرمنی کے علاوہ میاں والی میں بھی اس تنظیم کا نظم قائم ہو چکا ہے اور پھر تو حافظ صاحب نے اتنے ضلعوں کے نام اس رفتار سے گنے کہ بخدا بسوں کا کوئی کنڈکٹر بھی سنتا تو ہوش کھو بیٹھتا ؎
میر دریا ہے، سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
ویسے میں تب سے یہ بھی دعا کر رہا ہوں کہ اللہ کرے واقعی پاکستان کے نقشے میں اتنے اضلاع ثابت یا دریافت بھی ہو جائیں! فرمایا ورلڈ کا لفظ ہم ہٹائیں بھی تو کیوں کہ اسلامیت، انسانیت اور پاکستانیت ہمارا لوگو ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں سے ماورا اسلام کی اگرتعلیمات عالمگیر ہیں تو اس کے نام لیواؤں کا نام اور پیغام کیسے محدود اور پابند کیا جا سکتا ہے۔ نیازی صاحب کے کالم کو رئوف کلاسرا سب رنگ ڈائجسٹ کی نثر کا عکس بتاتے ہیں مگر یہاں عمران خان کے لتے لیتے کالم کے علاوہ بھی اس نیازی کی اک خوبی آشکار ہوئی۔ فکاہی پچ پر آپ نے فی البدیہہ ایسے چھکے لگائے کہ مجھے ان کے حضور فکاہی کالم لکھنے کی بھی عرض گزارنا پڑی۔ کہیں پڑھا تھا کہ ایم اسلم نے علامہ اقبال کو اپنی شاعری دکھائی تو علامہ نے انھیں نثر لکھنے کی ہدایت کی۔ ایک مجلس میں ایم اسلم نے یہ بات بتاتے ہوئے کہا، صاحبو!اس دن کے بعد آج تک ہم نے شعر نہیں کہا۔ یہ سن کر کسی من چلے نے جملہ کسا، جناب تو کیا آپ نے علامہ کو اپنی نثر نہیں دکھائی تھی؟ (تاکہ وہ اس سے بھی منع کر دیتے) تو بہرحال یہاں ایسی کوئی بات نہیں، اس خاکسار نے یہ مشورہ نیازی صاحب کا کالم پڑھ کر نہیں، ان کی گفتگو سن کر ہی دیا تھا۔
سعداللہ شاہ کے کلام نے سماں باندھا تو بابا نجمی نے پنجابی کلام کی قوت دکھائی۔ تب انگلش کے وہ پروفیسر یاد آگئے جنھوں نے پنجابی دانش کے حضور انگلش لٹریچر کو فروتر قرار دیا تھا۔ خواجہ جمشید امام نے بتایا کہ سیاست میں ان کے امام عمران خان ہیں اور وہی سب سے زیادہ ان کے قلم کی زد میں رہتے ہیں۔ اس پر سٹیج پر بیٹھے میرے حلقے کے مسلم لیگی ایم این اے ماجد ظہور صاحب نے دل ہی دل میں شکر اد اکیا کہ صد شکر وہ مسلم لیگ میں نہیں۔ ویسے ماجد ظہور صاحب نے سیاست کے جو اوصاف بتائے، انھیں سن کر حیرت ہوئی کہ تب وہ مسلم لیگ میں کیوں ہیں؟ نوید شہزاد صاحب کی بات سے ان کی بلند فکری اور متوازن شخصیت واضح ہوئی۔ کالم نگار برائی کی نشان دہی کرے، اس کا آپریشن نہ کرے ، یہ ان کا کہنا تھا۔ نوید چودھری صاحب! تو گویا آپ چاہتے ہیں کہ آدھے کالم نگار کالم ہی نہ لکھیں؟ یعنی اگر کسی کو بیگم و باس کا غصہ نکالنے کے علاوہ کچھ لکھنا نہ آئے تو گویاوہ کالم ہی نہ لکھے؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
نوائے وقت کی کالم نگار محترمہ رابعہ رحمٰن فرمانے لگیں، میں شامل ہوئی تو مجھے تنظیم کے مقاصد کا پتا نہ تھا۔ کچھ ملاقاتوں کے بعد اطمینان ہو ا کہ تنظیم میں شمولیت کا فیصلہ غلط نہ تھا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کو ایسے صدیق کارکنان کی قدر کرنی چاہیے۔ ابرار بھٹی، سعداللہ شاہ اور ڈاکٹر عبدالباسط صاحبان نے جس طرح اس خامکار کے کالم کے بارے حسنِ ظن کا مظاہرہ کیا، اس پر ان کا شکریہ! یادش بخیر، رئوف طاہر صاحب بھی آئے تھے، اور تقریر سے معذرت کرگئے، یہ کہہ کر کہ نیازی صاحب کی تقریر ہی کافی ہے، فرمانے لگے، ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اس پر نیازی صاحب نے ذرا مائنڈ نہیں کیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی محاورہ ہے یا کم ازکم نیازی صاحب نے اسے محاورہ ہی سمجھا تھا۔
بہرحال ورلڈ کالمسٹ کلب کو اس دن صحافی برادری نے دل و جان سے داد دی۔ ڈیڑھ سو کے قریب، اہل قلم، اہل صحافت اور اہل کتاب (مراد اصحابِ کتاب!) کی شرکت محض اتفاق نہیں، بلکہ اتفاق میں برکت کا اعلان ہے۔ اس تنظیم نے اپنا لوہا منوا لیا حالانکہ ان کے اس اتفاق کا اتفاق کے لوہے یا اتفاق فاؤنڈری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چنانچہ اس خاکسار کے علاوہ، جناب حافظ شفیق الرحمٰن ، ناصر اقبال، سعید کھوکھر، ناصف اعوان، ذبیح اللہ بلگن، فاروق چوہان، عبدالستار اعوان ، اور لاہور کے صدر حافظ طارق عزیز کی ٹیم عقیل انجم اعوان، الطاف احمد، ابن ِ صحرا، سجاد اظہر، معاذ جانباز، وحید راجہ، ڈاکٹر عبدالباسط، پروفیسر طاہراقبال، جاہد احمد، شہباز سعید آسی، اسحاق جیلانی اور قاضی سعد اختر کو بے حد مبارکباد، آخر میں ایک بار پھر اس خاکسار کو اس کامیاب ایونٹ پر دوبارہ بے حد مبارکباد، دیکھیے تنظیم کے لیے کام کم کرنا یا نہ کرنا دہری مبارکباد میں ہرگز مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ حافظ

Comments

Click here to post a comment