ہوم << امت مسلمہ کی حیثیت اور اقامت دین کا فریضہ - ہادیہ عبدالمالک

امت مسلمہ کی حیثیت اور اقامت دین کا فریضہ - ہادیہ عبدالمالک

”تم وہ بہترین امت ہو جو اس دنیا کے لیے نکالے گۓ ہو۔تم بھلاٸ کا حکم دیتے ہو اوربراٸ سے روکتے ہو“۔
(سورہ آل عمران)

امت مسلمہ کو اللہ رب العزت نے کتنا بڑا اور شاندار رتبہ دیا۔کس اونچے مرتبے پرفاٸز کرکے اس دنیا میں بھیجا۔فرشتوں کی کثیر تعداد ہوتے ہوۓ بھی انسان کو اپنا ناٸب اور خلیفہ بناکر اس کرہ ارض پر بھیجا۔اپنے کلام پاک میں مسلمانوں کو ایک اعلی اسٹیٹس دیا۔

ویسا ہی بلند اور اونچا مقام جو انسان اس دنیا کی بھیڑ میں تلاش کرتا ہے۔انسانوں کے جھرمٹ میں اپنا ایک الگ اور منفرد مقام بنانے کے لیے جان مار دیتا ہے۔اسٹیٹس کی دوڑ میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اپنے تمام اغراض ومقاصد کو سرے سے بھلا ہی دیتا ہے۔اس کو دنیا سے رغبت اور دین سے بےرغبتی ہونے لگتی ہے۔وہ اپنے مقصد حیات کی تکمیل تو دور,اس کوسوچنا ہی نہیں چاہتا کہ اس طرح وہ دنیا کی ریس میں پیچھے رہ جاۓ گا۔ لیکن اس مقام پر وہ اپنے رب کی طرف سے دیے گۓ اعزاز اور رتبہ کو بھول جاتا ہے کہ اللہ نے اسے بہترین امت کے لقب سے نوازا۔مجھے آپ کو اور ہر ایمان لانے والے مرد و عورت کو اس اعزاز سے نوازا۔ہمیں تمام امتوں پر فضیلت دی۔ہمیں تمام امتوں سے آگے رکھا۔ہمیں اس دنیا میں اپنی خلافت کے لیے مقرر کیا۔

ایک دین اسلامی کو قائم کرنے کی ذمہ داری دی,وہ نظام,وہ ضابطہ حیات جو زندگیوں کوسنوار دے,جو دنیا و آخرت کو سنوار دے,اس سنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ادائیگی کروادے جس کے لیے سرکار دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صعوبتیں برداشت کیں,جس نظام حق کو نافذ کرنے کے لیے تئیس سال پر مشتمل دور رسالت میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور اپنے اعلی کردار و گفتار سے دلوں کو مسخر کیا,اسی سنت کو ہم بھلا بیٹھے! اس مقصد کو ایسے نظر انداز کیا جیسے جانتے ہی نہ ہوں۔اس دنیا کی رنگینیوں میں اتنا گم ہوگۓ کہ اپنا مقام و مرتبہ ہی بھول گۓ۔

جس دین کی بدولت امت مسلمہ کو زوال سے عروج حاصل ہوا,جس دین کی بدولت مسلمانوں نے اس دنیا کے ہر شعبے میں راج کیا اسی دین کی اتنی ناقدری کیسے؟جس ذمہ داری کو ادا کرنے آۓ تھے اسی کو بھلا بیٹھے۔اس رب کا اتنا حق نہیں ادا کرپاۓ۔اس نبی الزماں کی محبت کا ثبوت عمل سے دینے کے بجاۓ من گھڑت رسومات سے دینے لگے۔

ایک نظر رک کر اپنے آپ کو دیکھیں کہ کہاں کھڑے ہیں؟
کس حد تک اس فرض کی اداٸیگی ہورہی ہے؟
کیا ہمارے لیے دین زیادہ اہم ہے یا پھر دنیا؟

اس دین کو نافذ کرنے کا جو فرض مجھے ادا کرنا تھا,امر بالمعروف و نہی المنکر کا فریضہ جو میرے کاندھوں پر اترا گیا تھا کیا وہ میں نبھارہی ہوں یا برائیوں کے نظام میں رہ رہ کر خود بھی اس نظام کی عادی ہوگٸ ہوں؟برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتی ہوں یا پھر جس ڈگر پر دنیا چل رہی میں بھی ان کے پیچھے چل رہی ہوں؟

فرض کفایہ ادا کرنے کی دھن مجھ میں ہے یا بس ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں جہاں مقصد معلوم ہوتے ہوۓ بھی اس میں کوتاہی اور اعراض برتا جارہا ہے؟یہ دین اسلام تو ہمیں عزت دینے آیا تھا,دلوں کو مسخر کرنے آیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے ہی اس کی قدر نہ کی اور مغلوب ہوکر رہ گۓ۔اپنے کردار و گفتار ہی ایسے نہ بناۓ کے دلوں کو جیتا جاسکے۔

وہ عروج و شان و شوکت جو اس دین کی بدولت امت مسلمہ کو نصیب ہوا تھا وہ ہماری نا اہلی اور کوتاہیوں کے سبب ہم سے چھن رہا اور اگر اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ لیا تو دنیا تو اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے ہی لیکن ہمارے کھاتے میں کیا ہے اس پر ضرور نگاہ ڈالیں۔