600x314

ابراہیم اکارڈ: ملتِ ابراہیم کے نام پر صدی کا سب سے بڑا نظریاتی فریب . عارف علی شاہ

کیا کوئی شخص قرآن پڑھنے کے بعد یہ مان سکتا ہے کہ وہ قوم، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے باوجود ان کے عقائد، ان کی عبادات، ان کے شعائر، ان کے قبلے، اور ان کے منتخب کردہ دینی نام (اسلام) سے انحراف کر چکی ہو، وہ آج "ملتِ ابراہیم” کی نمائندہ بن سکتی ہے؟

یہی دعویٰ اس وقت ابراہیم اکارڈ کی صورت میں کیا جا رہا ہے، جسے دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی، عالمی امن، اور مشترکہ روحانی وراثت کا نام دے کر مسلمانوں کو ایک نئے فکری دھوکے میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔یہ محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی منصوبہ ہے، جس میں یہود و نصاریٰ کو ملتِ ابراہیم کا برابر کا شریک باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ دراصل اس فکری بنیاد پر قائم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سب کے مشترک نبی تھے، لہٰذا اُن کی ملت پر سب کا مساوی حق ہے۔ لیکن قرآن مجید اس موقف کو صریح الفاظ میں رد کرتا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امامتِ خلق کا منصب عطا فرمایا، تو اس کے ساتھ ایک مستقل ضابطہ بھی قائم کر دیا: "لا ینال عہدی الظالمین” یعنی جو لوگ ظلم میں مبتلا ہوں گے، وہ میرے اس عہدِ امامت سے خارج ہوں گے۔ ظلم کی تعبیر قرآن کے مطابق شرک، انکارِ وحی، تحریفِ کلامِ الٰہی، اور شعائرِ دین سے انحراف پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر اہلِ کتاب کی تاریخ دیکھی جائے تو یہی وہ جرائم ہیں جن پر قرآن نے انھیں مسلسل تنبیہ اور لعنت کی ہے۔ ان کی سب سے بڑی کوتاہی یہی تھی کہ انھوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی، انبیاء کو قتل کیا، حق کو چھپایا، شعائر کو مسخ کیا، اور جب نبی خاتم ﷺ آئے تو ضد، حسد اور عناد کے سبب اُن کا انکار کر دیا۔

حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر کیا، اور اسی کعبہ کو مرکز توحید قرار دیا۔ نبی کریم ﷺ کو حکم ہوا "فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام”، یعنی بیت المقدس سے رُخ موڑ کر کعبہ کی طرف منہ کرو۔ یہی قبلہ ابراہیم کی پہچان تھا۔ لیکن اہلِ کتاب نے نہ صرف اس قبلے کو مسترد کیا بلکہ اس کے مقام اور شعائر سے مکمل روگردانی اختیار کی۔ حج جسے ابراہیم نے تمام انسانیت کے لیے اللہ کے حکم سے فرض قرار دیا، اسے ترک کر دیا گیا۔ قرآن کہتا ہے "وَأَذِّن فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ” حضرت ابراہیم کا وہ اعلانِ حج آج بھی جاری ہے، لیکن وہ اقوام جو اس شعیرہ کی نہ تعظیم کرتی ہیں، نہ ادائیگی، وہ کس طرح ملتِ ابراہیم میں شریک ہو سکتی ہیں؟

ابراہیمی سنت کا ایک اور عظیم مظہر قربانی ہے، جو منیٰ میں حضرت اسماعیل کی یادگار کے طور پر باقی رکھی گئی۔ لیکن انہی اقوام نے، جنھیں ابراہیم اکارڈ میں شراکت دار بنایا جا رہا ہے، نہ صرف قربانی کو بدلا بلکہ اسماعیل کو ہٹا کر اسحاق کو "ذبیح اللہ” قرار دے دیا۔ قرآن کی صاف تعلیمات کے باوجود یہ تحریف آج بھی ان کے مذہبی نصاب میں موجود ہے۔ ملتِ ابراہیم کے دعوے دار اگر شعائر ابراہیم سے ہی انکاری ہوں تو وہ اس ملت سے نسبت کیسے قائم کر سکتے ہیں؟

یہ بھی ملحوظ رہے کہ ابراہیم نے اپنے دین کا نام "اسلام” رکھا قرآن کہتا ہے: هو سماكم المسلمين” اس نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ ایک اور جگہ فرمایا: "ما كان إبراهيم يهوديا ولا نصرانيا ولكن كان حنيفا مسلما”۔ یعنی نہ وہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو حنیف اور مسلم تھے۔ اس کے باوجود، یہود و نصاریٰ نہ صرف اپنے الگ الگ ناموں پر قائم ہیں بلکہ دین اسلام کو مکمل تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اگر وہ ابراہیم کے ماننے والے ہوتے تو وہی نام اختیار کرتے جو ابراہیم نے خود کے لیے منتخب کیا تھا اور وہ ہے "مسلم”.

اسلام کے مرکزی شعائر میں یومِ جمعہ کی تعظیم بھی شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ہمیں جمعہ عطا کیا، جبکہ یہود و نصاریٰ نے ہفتہ اور اتوار کو اختیار کیا۔ جو قومیں دینِ ابراہیم کے اوقات، شعائر، قبلے اور عبادات کو پسِ پشت ڈال دیں، ان کے ساتھ دینی وحدت کا نعرہ صرف سادہ لوحی نہیں بلکہ قرآن سے انحراف ہے۔قرآن نے اہلِ کتاب کی جن بداعمالیوں، بدعہدیوں، تحریفات اور روحانی سازشوں کو سورہ بقرہ کے ابتدائی دس رکوعوں میں بیان کیا ہے، وہ دراصل اُن کی معزولی کا اعلان ہے۔ اللہ نے صاف فرمایا:

"فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً”۔
ایسے میں ان اقوام کو ملتِ ابراہیم کے نام پر شریک کرنا قرآن کے فیصلے کی صریح مخالفت ہے۔

ابراہیم اکارڈ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کے سامنے ’’بین المذاہب اتحاد‘‘ کے نام پر یوں پیش کیا جا رہا ہے گویا یہ کوئی دینی فریضہ ہو، یا "امتِ واحدہ” کی طرف واپسی کا مقدس ذریعہ۔ لیکن یہ نظریہ اس بنیادی نکتے کو نظر انداز کرتا ہے کہ "امتِ واحدہ” صرف توحید کی بنیاد پر قائم تھی، نہ کہ محض نسلی رشتے یا جغرافیائی وحدت پر۔حضرت ابراہیمؑ نے قوم، قبیلے، اور باپ کی مخالفت مول لی لیکن توحید پر سودے بازی نہیں کی۔ اُنہوں نے صاف کہہ دیا:
"إِنِّي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ، إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي”۔

یہ براءت، یعنی عقائدِ باطل سے لا تعلقی، ملتِ ابراہیم کی روح ہے۔ لیکن ابراہیم اکارڈ کا اصل نکتہ تو برعکس ہے . یہاں تو عقیدے، قبلے، شریعت اور پیغمبر پر اختلاف کے باوجود "اتحاد” کی بات ہو رہی ہے ایک ایسا اتحاد جو روحِ ابراہیمی کے منافی ہے۔یہ معاہدہ یہ نظریہ پروان چڑھاتا ہے کہ چونکہ ہم سب ابراہیمی ہیں، اس لیے ہمیں یکجا ہو کر ایک اخلاقی اتحاد بنانا چاہیے۔ لیکن یہ بیانیہ خود قرآن سے متصادم ہے۔ قرآن نے اہلِ کتاب کی روش کو "افساد فی الارض” کہا،جب انھوں نے وحی میں تحریف کی، احکام چھپائے اور دینِ الٰہی کو ذاتی مفاد کا آلہ بنا دیا۔ اللہ نے فرمایا: "وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً” اور یہی طرز آج ابراہیم اکارڈ میں اپنایا گیا ہے۔

یہود و نصاریٰ کی مذہبی قیادت آج بھی مسلمانوں کی عبادات، حجاب، قرآن، اور شعائر سے بغض رکھتی ہے۔ بیت المقدس میں اذان روکنا، قرآن کی توہین، اور عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کو ہوا دینا یہ سب اس ’’ابراہیمی اتحاد‘‘ کو کھلا مذاق بنا دیتا ہے۔یہ معاہدہ محض سفارتی ہوتا تو اسے سیاسی تناظر میں دیکھا جاتا، مگر جب اسے ملتِ ابراہیم کا لباس پہنایا گیا، تو یہ فکری و دینی حملہ بن گیا۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ’’ملتِ محمدیہ‘‘ کو بھی اسی ’’ابراہیمی چھتری‘‘ کے نیچے لایا جائے گا، جہاں نہ رسالت کا مقام محفوظ ہو گا نہ شریعت کا۔ اس سے پہلے کہ باطل ہمارے شعائر پر نظریاتی قبضہ کرے، ہمیں قرآن کے الفاظ میں اعلان کرنا ہو گا:
"إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ”۔

ابراہیم کا نام لینا آسان ہے، لیکن ان کی راہ پر چلنا مشکل ہے۔ یہ راہ توحید، قربانی، قبلہ، شعائر، نبی کی اطاعت، اور اخلاص کا نام ہے۔ جو ان میں سے کسی ایک سے انکاری ہو، وہ قرآن کی نظر میں ملتِ ابراہیم سے خارج ہے۔
ابراہیم اکارڈ دراصل ایک "نیا ابراہیمی مذہب” متعارف کرانے کی کوشش ہے ایسا مذہب جو توحید کے بجائے مصلحت پر، اور رسالت کے بجائے بین الاقوامی تصورات پر کھڑا ہو۔

امتِ مسلمہ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں: یا تو وہ اس نظریاتی حملے کو پہچان کر اس کا علمی، دینی اور فکری جواب دے، یا خاموشی اختیار کر کے آئندہ نسلوں کو ایک ایسے مصنوعی دین کے سپرد کرے جو ابراہیم کے نام پر باطل کی بندگی سکھاتا ہے۔

مصنف کے بارے میں

عارف علی شاہ

عارف علی شاہ بنوں فاضل درس نظامی ہیں، بنوں یونیورسٹی میں ایم فل اسکالر ہیں، اور کیڈٹ کالج میں بطور لیکچرر مطالعہ قرآن اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عصرحاضر کے چلینجز کا ادراک اور دینی لحاظ سے تجاویز و رہنمائی کا پہلو پایا جاتا ہے

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment