ہوم << سیاح متوجہ ہوں! - رابعہ خرم درانی

سیاح متوجہ ہوں! - رابعہ خرم درانی

ہر سیاح سے ذمہ دارانہ رویے کی استدعا ہے۔
"شیر آیا شیر آیا" والی کہانی اور اس کے نتائج سے ہم سب واقف ہیں۔ غیر سنجیدگی کسی بھی معاملے میں درست رویہ نہیں، لیکن دورانِ سیاحت غیر سنجیدگی یا لاپرواہی بالکل ناقابل قبول ہے۔

آپ کا ارادہ کہاں جانے کا ہے؟ روڈ میپ کیا ہے؟ کہاں ٹھہریں گے؟ کتنے افراد ہوں گے؟ ڈرائیونگ کون کرے گا؟ سواری کون سی زیرِ استعمال ہو گی؟ اس کا میک، ماڈل اور نمبر کیا ہے؟ اس کی ورکنگ کنڈیشن کیسی ہے؟ تیل، پانی، ٹائرز اور انجن کی کیفیت کیا ہے؟ ڈرائیور ایک ہے یا زیادہ؟ ان کا ڈرائیونگ تجربہ کتنا ہے؟ کیا وہ میدانی علاقے کے ڈرائیور ہیں یا پہاڑی علاقے کی ڈرائیونگ جانتے ہیں؟ جہاں جانے کا ارادہ ہے، کیا پہلے وہاں جا چکے ہیں یا یہ پہلی بار ہے؟

گھر میں پیچھے کسے اعتماد میں لیا ہے؟ کس سے رابطہ رکھیں گے؟ کس کے فون پر اپنی لوکیشن بھیجیں گے؟ ایمرجنسی یا فون آف ہونے کی صورت میں دیگر ہم سفروں کے نمبرز کیا گھر والوں کے ساتھ شیئر کیے ہیں یا نہیں؟ یعنی اگر آپ سے رابطہ ممکن نہ ہو تو کوئی دوسرا نمبر بھی قرابت داروں کے علم میں ہو تاکہ وہ پریشان ہونے سے پہلے مکمل رابطے کی کوشش کر سکیں۔

اگر شمالی علاقہ جات کا ارادہ ہے تو یاد رکھیں کہ میدانی علاقوں کی سمز وہاں عموماً کام نہیں کرتیں۔ وہاں کا نیٹ ورک SCOM ہے۔ چند میدانی علاقوں کی سمز کچھ جگہ سگنل پکڑ لیتی ہیں۔

گھر میں منتظر فیملی کو اپنی لوکیشن، خیریت، اگلی منزل اور راستے کے حالات سے آگاہ رکھنا سیاح کی ذمہ داری ہے۔ اس سے غفلت صرف لاپروائی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہے، جو آپ کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔بہتر ہے کہ فیملی سے رابطے کا وقت مقرر کیا جائے — ہر دو، چار یا چھ گھنٹے بعد ایک میسج یا کال کر لی جائے تاکہ رابطہ نہ ہونے کی صورت میں بروقت ریسکیو ممکن ہو سکے۔یاد رکھیں، شمالی علاقوں میں نیٹ ورک سروس بہت عمدہ نہیں، اس لیے نہ صرف اپنی سمز علاقے کے حساب سے منتخب کریں بلکہ جہاں ممکن ہو، وہاں کے مقامی لینڈ لائن نمبرز بھی فیملی کو مہیا کریں۔

اگر آپ کا ارادہ دو چار روز کسی ایک جگہ ٹھہر کر ارد گرد کے علاقے ایکسپلور کرنے کا ہے تو جس ہوٹل/گیسٹ ہاؤس میں آپ مقیم ہیں، اس کا نمبر اپنے فون میں سیو کریں اور فیملی کو بھی اطلاع دیں۔ جب بھی ہوٹل سے باہر نکلیں، ہوٹل اسٹاف مثلاً مینیجر کو اپنی روانگی اور ممکنہ واپسی کا وقت بتا دیں تاکہ وہ بھی آپ کے منتظر ہوں — اور اگر ضرورت پڑے تو آپ کے ریسکیو میں، مقامی ہونے کی وجہ سے، ممد و معاون ثابت ہوں۔

جب تک PTDC موٹلز فعال تھے، ہماری پہلی ترجیح وہی ہوتے تھے۔ بہترین، صاف ستھرا ماحول اور ذمہ دار مینیجرز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ جہاں چیک ان کرتے، مکمل معلومات کا اندراج کیا جاتا: کب تک رہیں گے، کہاں جائیں گے، کب واپسی ہو گی، کھانا کہاں کھائیں گے۔ یہ سوالات گو بیوی یا ماں کے عمومی سوالات جیسے لگتے ہیں، لیکن دورانِ سیاحت یہی آپ کی حفاظت یقینی بناتے ہیں۔

سفر کی ابتدا میں صدقہ دیں اور دورانِ سفر صدقہ بار بار دیتے رہیں۔ سفر کی مسنون دعائیں ازبر کر لیں اور انہیں دہراتے رہیں۔ سیاحت محض مادی خوشی کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ قدرت کے حسن، جلال اور نظم کے مشاہدے سے روحانی ترقی کا زینہ بھی بن سکتی ہے۔ انسان جیسی سوچ رکھتا ہے، حالات بھی ویسے ہی پیش آتے ہیں۔

تین روز قبل، سکردو کچورا سے روانہ ہونے والی ایک کار اور اس کے چار مسافر آج بابوسر ٹاپ سے بخیریت بازیاب ہو گئے، لیکن تین روز تک انہوں نے اپنی خیریت سے گھر والوں کو باخبر نہیں کیا، جس پر ان کی فیملی نے سوشل میڈیا پر تلاش شروع کی۔ سیاحتی مشینری حرکت میں آئی۔ اللہ کے فضل سے وہ سب محفوظ اور بخیریت تھے، لیکن رابطہ نہ رکھنے کے وہ مجرم تھے۔ یہ رویہ درست نہیں۔ اس سے “شیر آیا شیر آیا” والی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔نتیجتا کبھی حقیقی ایمرجنسی میں ریسکیو کا کام تعطل کا سکار ہو سکتا ہے جیسا ہمیں گجرات کے چار دوستوں کی گمشدگی و بازیابی میں دیکھنے میں آیا۔ یہ طویل وقفہ کسی بھی ایمرجنسی صورتحال میں نہایت اذیت ناک اور مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

ہر سیاح سے ذمہ دارانہ رویے کی استدعا ہے

ایک بار ہم غذر PTDC سے چیک آؤٹ کر کے پھنڈر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک چشمے کو عبور کرتے ہوئے چشمے کی تہہ میں موجود کسی نوک دار پتھر نے کار کے آئل چیمبر کو نقصان پہنچایا، جس سے لیکیج شروع ہو گئی۔ آٹومیٹک کار کچھ دور جا کر جام ہو گئی۔ ہمارے ساتھ بچے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں گاڑی میں چھوڑ کر پیدل کسی مکینک کی تلاش میں نکل گئے۔ ہر گزرتی گاڑی ہمیں لفٹ آفر کر رہی تھی لیکن ہم سب سے یہی کہتے رہے کہ PTDC غذر کے مینیجر تک پیغام پہنچا دیں کہ ہم ان کے مہمان ہیں، ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے، ہماری مدد کریں۔ بیشتر لوگ پیغام پہنچائے بغیر آگے بڑھ گئے لیکن ایک مہربان نے پیغام پہنچا دیا۔ جب تک ڈاکٹر صاحب مکینک لے کر واپس آئے، غذر پی ٹی ڈی سی کے مینجر شاہ صاحب بھی ایک طاقتور گاڑی لے کر ہمیں ریسکیو کرنے پہنچ چکے تھے۔

شاہ صاحب نے بتایا کہ وہ یہ نہ جان سکے کہ پیغام کس مہمان کی طرف سے ہے، لیکن چونکہ مےڈے کال ان کے نام تھی سو انہوں نے مدد کو آنا ضروری سمجھا۔ ہماری کار کا آئل چیمبر خراب تھا، جو مقامی مکینک کی استطاعت سے باہر تھا، لیکن چونکہ ہمیں پہلے بھی ایسا تجربہ ہو چکا تھا، چند تدابیر سے ہم نے آئل ڈال کر کام چلایا۔

کچھ مسافر شاہ صاحب کی گاڑی میں سوار ہوئے جبکہ ڈاکٹر صاحب ایک ساتھی کے ساتھ اپنی گاڑی چلا رہے تھے۔ ہماری گاڑی کو ٹو چین کے ذریعے شاہ صاحب کی گاڑی کے ساتھ باندھا گیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پہاڑی علاقوں کی بل دار سڑکوں پر ٹو چین کی گئی گاڑی کو کنٹرول کرنا عام ڈرائیور کے بس کی بات نہیں، لہٰذا اگر اپ ماہر ڈرائیور نہیں تو یہ کام کسی مقامی ماہر ڈرائیور کے سپرد کرنا بہتر ہے۔

ہمارا پھنڈر کا پروگرام تو رہ گیا، لیکن ہم بحفاظت غذر PTDC پہنچے، جہاں مزید ایک دن قیام کیا۔ وہاں ایک نفیس فیملی سے دوستی ہوئی جن کی خاتون خانہ میری ہم نام تھیں، اور آج بھی میری فیس بک فرینڈ ہیں۔ اس روز ہم نے خلتی لیک پر شاندار قوس و قزح کا نظارہ کیا۔ اگلے دن گاڑی مرمت کروائی۔ یاسین ویلی جانے کا ارادہ کیا لیکن دوبارہ چشمے سے گزرتے ہوئے گاڑی کے نیچے سے دھواں نکلتا محسوس ہوا، سو یہ پروگرام بھی کینسل کر کے گلگت روانہ ہو گئے۔ وہ دن گاڑی کی ورکشاپ میں گزر گیا، لیکن اس کے بعد کا ہنزہ ٹور بہترین رہا — چیری، سیب اور ناشپاتی کے مزے لیے۔ ہنزہ ریور کے سیاہی مائل لیکن میٹھے پانی سے دانت صاف کرنا بھی ایک انوکھا تجربہ تھا۔

اصل بات یہی ہے کہ دورانِ سیاحت اپنی سواری، ہم سفر، رابطے اور راستے کے حوالے سے مکمل ذمےدار رویہ اپنائیں تاکہ سیاحتی حکومتی اور رضاکار مشینری محفوظ سیاحوں کو تلاش کرنے میں وقت اور توانائی ضائع نہ کرے ، بلکہ جنہیں واقعی مدد کی ضرورت ہو، ان تک فوری امداد پہنچائی جا سکے۔
ہر سیاح سے ذمہ دارانہ رویے کی استدعا ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی کا پیشہ مسیحائی ہے، لفظ حوالہ ہیں کہ خیال ان کے قلم سے رعنائی پاتے ہیں۔ کم گو ہیں، مگر مشاہدہ تیز اور گہرا ہے۔ سوشل میڈیائی مناقشوں سے دور رہنا پسند ہے، مگر قلم خاموش نہیں رواں ہے، بردباری اس کی خاصیت ہے۔ ایک دہائی سے یہی ان کی پہچان ہے۔ دلیل کا آغاز کرنے والوں میں سے ہیں

Click here to post a comment