ہوم << کلچر کا اسلامی تصور. ڈاکٹر سیف ولہ رائے

کلچر کا اسلامی تصور. ڈاکٹر سیف ولہ رائے

پاکستانی کلچر بھی ایک طویل تاریخی ارتقا (کلچرل تسلسل) کی پیداوار ہے۔ جس کی بنیاد اسلامی عقائد پر ہے۔ تہذیب کے عناصر اور اجزائے ترکیبی کے سلسلے میں دانشوروں نے عقیدے کو تہذیب کی اساس اور مذہب کو اس کی اصل قرار دیا ہے۔ جس طرح عمل کا دارو مدار نیت پر ہے اسی طرح تہذیب کا دارو مدار بھی عقیدے پر ہے۔

اس حوالے سے انتظار حسین لکھتے ہیں:
’’مذہب اور تہذیب دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر دُنیا کی کوئی بھی تہذیب ایسی نہیں جو مذہبی اعتقادات کے کسی نہ کسی سلسلے پر مبنی نہ ہو۔‘‘ 1؎
دین اسلام تمام مذاہب میں ممتاز اپنے عقیدے کی وجہ سے ہے مسلمان اللہ کی وحدت پر، اللہ کے رسولوں اور نبیوں پر، ملائکہ پر اور اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتب پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات کہ مسلمان یوم حساب پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ دین اسلام میں یوم حساب اصل یوم حساب ہے۔
کان الاسلام قبل شیئی دُنیا ادی نیما بعد الیٰ نشو دولۃ ثم حضارۃ تکونت خلال قرون طویلۃ واخذت لھا صبغۃ خاصۃ تحت تاثیر التعالیم الاسلامیۃ و ھذ اما نسمیۃ بالثقافتہ الاسلامیۃ۔
’’(یعنی) اسلام سب سے پہلے تو ایک دین تھا جو بعد میں ایک سلطنت کے پیدا کرنے کا باعث ہوا۔ اور پھر ایک تمدن کا جس کی صدیوں کی طویل مدت میں تشکیل ہوئی اور اس نے تعلیمات اسلامی کے اثر کے ماتحت اپنا ایک خاص رنگ اختیار کیا۔ اسی کو ہم ’’اسلامی کلچر‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ 2؎
اس میں یہ جو تین درجے قائم کیے گئے ہیں۔
۱۔ اسلام سب سے پہلے دین تھا۔
۲۔ پھر بعد میں وہ ایک سلطنت کے پیدا کرنے کا باعث ہوا۔
۳۔ پھر اس نے ایک تمدن کو پیدا کیا جس کی صدیوں میں تشکیل ہوئی اور تعلیمات اسلامیہ کے ماتحت اس کا ایک خاص رنگ رہا۔
اسلام ایک کامل دین ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم۔
ترجمہ: ’’آج ہم نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘ 3؎
ان الدین عند اللہ الاسلام۔
ترجمہ: ’’بلاشبہ دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘ 4؎

اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اور اسی مناسبت سے
’’اسلامی تہذیب ایک رویہ زندگی سے عبارت ہے اور یہ رویہ زندگی ذوق جمال و فرحت، ذوق علم، ذوق جہاد اور ذوق عبادت کے مجموعے کا نام ہے۔‘‘ 5؎
دین کی اصطلاح انسانی زندگی کے پورے نظام کو زیر بحث لاتی ہے۔ لہٰذا تہذیب کا تعلق سرسری نوعیت کا ہے نہ تعلقات معاندانہ ہیں بلکہ تہذیب اسلام کا جزو لانیفک ہے اسلام ایک تہذیبی قوت ہے۔ تہذیب کا مدرسہ ان حقائق، عقائد، مقاصد اور اقتدار معیار پر ہے جن کا تعلق اقوام کی باطنی اور ظاہری تربیت سے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی کلچر عالمگیر یا ہمہ گیر تہذیب ہے۔ اسلام اپنے معیار استقامت کی وجہ سے ساری تہذیبیوں کے مقام کو بدلتا رہا۔ اس کے خاص اور ممتاز اصول مسلم ہیں۔ جو بنیادی اور نوعیت میں اجتماعی اور معاشرتی ہیں۔ اسلام کائنات کو جامد و ساکن نہیں سمجھتا بلکہ کائنات کے حرکی تصور کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اتحاد پیدا کرنے والے ایک نظام کی حیثیت سے وہ فرد کی قدرو قیمت کو ملحوظ رکھتا ہے۔ لیکن خونی رشتہ کو وحدت انسانی کی بنیاد تسلیم نہیں کرتا۔ وحدت انسانی کی خالص نفسیاتی بنیاد صرف اس وقت دریافت ہو سکتی ہے جب یہ بات ذہن نشین رہے کہ حیات انسانی کا سر چشمہ ایجابی اور تعمیر روحانیت ہے۔ یہ روحانیت انسان کو یاد دلاتی ہے اس اللہ کی جس نے اسے پیدا کیا۔ اس زمین کی جس پر وہ چلتا پھرتا ہے اس وحدت کائنات کی جس کا وہ ایک حصہ ہے۔ اس اللہ کی جس کا وہ بندہ اور غلام ہے اور اس روحانیت سے ہی تکمیل ہوئی ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک۔ یعنی روحانیت ایک کمال سے دوسرے کمال تک پہنچاتی ہے۔ جہاں اسلامی کلچر کی نشوونما ہوئی وہ خالص سامی النسل عرب کا گہوارہ تھی یہیں اس کلچر کے بانی وجہ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم دُنیا میں تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے توحید اور عالمگیر مساوات کا درس دے کر اسلامی کلچر کو نئی آب و تاب بخشی۔ تہذیب انسانی کے صدیوں کے جمود کو توڑا اور تاریخ کے پہیے کو آگے کی طرف رواں دواں کر دیا۔ اسلامی کلچر کی بہتر تفہیم کے لیے اسلامی تاریخ کو پانچ بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

’’پہلا متحدہ حکومت کا دور ۶۲۲ء یعنی ہجرت نبوی سے شروع ہو کر ۸۳۳ء تک دوسرا انتشار کا دور ۸۳۳ء سے ۱۲۵۸ء تک تیسرا دور تیرہویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک جس میں موجودہ زمانے کی سلطنتیں یعنی ترکی، ایران وغیرہ تشکیل پاتی اور اقدار حاصل کرتیں ہیں۔ چوتھا زوال و انحطاط کا دور اٹھارہویں صدی کے وسط سے لے کر ۱۹۱۸ء تک پانچواں دور ۱۹۱۹ء سے تا حال اسلامی نشاۃ الثانیہ کا زمانہ۔‘‘ 6؎
اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے دوران یہ عجب منظر دکھائی دیتا ہے کہ مختلف نسلوں اور قوموں کے فرزند اسلام کا پرچم اٹھائے فاتحانہ انداز میں قدم بڑھائے چلے جاتے ہیں۔ ہاشمی اموی، عباسی سلجوق، ترک، عثمانی، افغان، مُغل نہ جانے کتنے خانوادے، اسلامی کلچر کی پاسبانی کا فرض انجام دیتے رہے ایک قوم تھک جاتی تو دوسری قوم آگے بڑھتی اور اسلامی کلچر کی مشعل درخشاں کو تھام لیتی ہے۔ اس مرحلے پر اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود اسلامی کلچر کیا ہے۔ اور اس کے عناصر ترکیبی جس سے تہذیب ترتیب و تشکیل پاتی ہے کیا ہیں؟ یہ سوال زیر بحث موضوع کی واضح تفہیم کے لیے تو اہم ہے ہی لیکن اس بنا پر بھی اہم ہے کہ اس کے بارے میں مسلم مفکرین کی آرا مختلف ہیں اور بعض صورتوں میں آپس میں تضاد بھی ہے۔ خصوصاً تہذیب کے اجزاءیا بنیادی عناصر بیان کرتے ہوئے ہر ایک کی رائے جداگانہ ہے۔ ہر زمانے میں انسان کا حال اس کے ماضی سے متاثر ہوتا چلا آیا اور ہر نئی تعمیر میں پچھلی تعمیروں کے مواد سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن اسلامی کلچر اپنی ذات و جوہر میں خالص اسلامی ہے کسی غیر اسلامی موثر کے اثر کا اس میں ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔ ارباب علم و دانش نے اسلامی کلچر کی تعمیر و تعریف پر خامہ فرسائی کی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی متعین کردہ تعریفات پر نظر ڈال لی جائے۔ تاکہ ہمارا مفہوم واضح ہو سکے۔ اسلامی کلچر کے مباحث کے حوالے سے ڈاکٹر محمد علی فتاوی لکھتے ہیں:
’’تہذیب اسلامی حیات و کائنات سے متعلق اسلامی مفاہیم کے تحت ایک انسانی جماعت کی سرگرمیوں کے تفاعل کا نام ہے جو روئے زمین میں اللہ کی خلافت کو وجود میں لاتی ہے۔‘‘ 7؎
اسلامی کلچر کے حوالے سے سید فیضی لکھتے ہیں:
’’اسلامی تہذیب سے تین چیزیں مراد ہیں۔
۱۔ بلند ترین فکری سطح اور معیار جو اسلامی حکومت کے کسی دور میں پیدا ہوا ہو۔
۲۔ تاریخی لحاظ سے وہ کامرانی جسے اسلام نے ادب سائنس اور آرٹ کے میدان میں حاصل کیا۔
۳۔ مسلمانوں کا طریق زندگی، مذہبی عمل، زبان کے استعمال اور معاشرتی رسوم و رواج کے خصوصی ربط کے ساتھ۔‘‘ 8؎
اسلامی کلچر کے ضمن میں زبیر صدیقی لکھتے ہیں:
’’اسلامی ثقافت جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ایک مخصوص ذہنی مسلک کی نشاندہی کرتی ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے مرتب ہوتا ہے مثلاً وحدت ربّانی، عظمت انسانی اور وحدت نسل انسانی کا عقیدہ۔‘‘ 9؎

کلچر کے مباحث میں اسلامی کلچر اور تہذیب کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر محمد ارشد خان بھٹی لکھتے ہیں:
’’اسلامی تہذیب سے مراد وہ اسلامی عقائد ہیں جن پر ایمان لا کر ایک شخص مسلمان کہلاتا ہے۔ اور ایک مخصوص طرز فکر اختیار کرتا ہے۔ اسلامی عقائد میں ایک خدا کو مانتا ہے اس کے فرشتوں، رسولوں کتابوں اور آخرت کی زندگی پر ایمان لانا ضروری ہے ان نظریات کے مطابق مسلمان اپنی زندگی میں اللہ کے دیئے ہوئے قوانین (قرآن) پر عمل کرتے ہیں اور اس طرح کی اسلامی معاشرت اسلامی تمدن کہلاتی ہے جس میں کلمہ طیبہ کو ماننے والے نظام مساجد و صیام، زکوٰۃ کی ادائیگی اور حج کا بالخصوص التزام ہوتا ہے۔‘‘ 10؎
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ میں مسلم کلچر کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’اسلام ایک خاص طریق فکر (Attitude of Mind) اور پوری زندگی کے متعلق ایک خاص نقطہ نظر (Outlook of life) ہے پھر وہ ایک خاص طرز عمل ہے جس کا راستہ اسی طریق فکر اور اسی نظریہ زندگی سے متعین ہوتا ہے۔ اس طریق فکر اور طرز عمل سے جو ہیت حاصل ہوتی ہے وہی مذہب اسلام ہے وہی تہذیب اسلامی ہے۔‘‘ 11؎

حوالہ جات
1۔ انتظار حسین،تہذیب ۔۔۔۔ علاقائی اور قومی، مشمولہ کلچر، ص: ۵۰۴
2۔ سرکار سید العلماء
الحاج سید علی نقی النقوی صاحب قبلہ، اسلامی کلچر کیا ہے؟، لاہور: اشاعت امامیہ مشن پاکستان رجسٹرڈ، فروری ۱۹۶۰ء، ص: ۳
3۔ المائدہ ۵ : ۳
4۔ البقرہ ۲ : ۱۳۸
5۔ سید عبد اللہ، اسلامی تہذیب، مشمولہ اسلامی تہذیب و ثقافت، ص: ۱۶
6۔ رشید، غلام دستگیر، اسلامی تہذیب کیا ہے؟، حیدر آباد دکن: اشاعت اُردو رزاقی مشین پریس، ۱۹۴۴ء، ص: ۱۷۱
7۔ محمد فتاوی، ڈاکٹر، اسلامی تہذیب کی تفہیم جدید، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، ۱۹۸۲ء، ص: ۲۸
8۔ خالد علوی، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، لاہور: الفیصل، ۲۰۰۵ء، ص: ۱۲۴
9۔ خالد علوی، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، لاہور: المکتبہ علمیہ، ۱۹۷۸ء، ص: ۳۵۲
10۔ محمد ارشد خان بھٹی، پروفیسر، مطالعہ تہذیب اسلامی، لاہور: اصباح الادب اُردو بازار، س ن، ص: ۱۳۹۔ ۱۴۰
11۔ ابو الاعلیٰ مودودی، سید، اسلامی ریاست، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء، ص: ۴۲

(مضمون نگار ڈاکٹر سیف ولہ رائے، پاکستانی اور اسلامی کلچر میں اردو کے مباحث پر اتھارٹی ہیں، اور گیریژن کالج لاہور میں پروفیسر ہیں)