۱۰؍اکتوبر کو اقوام متحدہ کے ایک اہم ذیلی ادارے یونیسف ( یواین آئی سی ایف یعنی اقوام متحدہ کا فنڈ برائے اطفال ) نے لڑکیوں کے لئے سالانہ عالمی دن کے موقع کی مناسبت سے خون کے آنسو رُلادینے والی ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ۔ یہ شرم ناک سروے اصلاً دنیائے انسانیت پر ایک زناٹے دار طمانچہ اور تازیانہ ٔ عبرت ہے ۔رپورٹ میں اکیسویں صدی کے مہذب‘ ترقی یافتہ اور باشعور کہلانے والے دور کی اس پہلو سے عکاسی کی گئی ہے کہ آج بچیوں اور خواتین کے حقوق کی جو دہا ئیاں دی جاری ہیں ‘ اُن کی عزت وآبرو کی محافظت کے جو بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں‘ اُنہیں مساوات‘ نیک سلوک اور خوش عنوانی کے نام سے جو نمائشی پھول مالائیں پہنائی جارہی ہیں ‘ حقیقت کی دنیا میں یہ سب ایک ڈھکوسلہ اور محض ایک نظر فریب دھوکہ ہے۔
اگر حقیقت ِ حال یہ نہ ہوتی تو یونیسف سروے رپورٹ میں انکشاف کیونکر کیا جاتا کہ دنیا بھر میں سالانہ ۱۸؍سال سے کم عمر کی ۳۷؍ہزار سے زائد لڑکیاں اپنی عزت وعصمت کی متاع کھوجاتی ہیں؟ مردوں کی بے قابو ہوس اور شہوت کی شیطانی قوت ان بچیوں کو گویا جیتے جی پیغام ِ اجل سناتی ہے۔ ظاہر ہے کہ متاثرین کی اس ہوش رُبا تعداد میں ہر دم اضافہ ہی ہورہاہے کیونکہ دنیا میں جابجا کچی عمر کی لڑکیوں پر ریپ اورجنسی تشدد کےوہ ناقابلِ بیان ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ !!! جائزہ رپورٹ میں درج تلخ حقائق یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ آج کا مرد پتھر کے زمانے میں رہنے والے غیر مہذب ‘حیا ناآشنااور ناخواندہ و پسماندہ انسان سے ہزار گنا گیا گزرا ہے.
بہر کیف یونیسف نے عالمی سطح پر خواتین کے حقوق اور صنف ِ نازک کو درپیش مسائل پر سروے کا مبارک مشن اپنے ہاتھ میں لے کر سائنٹفک اسٹڈی اور ڈِیپ یسرچ کی بنیاد پر رونگھٹے کھڑے کردینے والے اعدوشمار جمع کر کےہمارے ضمیر پر کچوکے ماردئے ہیں۔ اپنے اس پہلے عالمی تخمینے میں ادارے نے یہ خلاصہ کیا ہے کہ اس کے پیش کردہ اعداد وشمار میں اگردنیا بھر میں خواتین کے ساتھ آن لائن اور زبانی جنسی استحصال کی شکایات وحکایات بھی شامل کی جائیں توتصویر اور زیادہ پریشان کن ہوگی کیونکہ پھر تو پورے عالم میں سالانہ ۶۵ ؍ کروڑ خواتین بے حیا مردوں کی ہوس رانی اور جنس زدگی کی کسی نہ کسی صورت بھینٹ چڑھنے کی حقیقت دنیا پر منکشف ہوگی ۔ افسوس صد افسوس صدافسوس!!!
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دُھتکار دیا
تلتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
مردوں کے لئے ہر ظلم روا عورت کے لیے رونا بھی خطا
مردوں کے لئے ہر عیش کا حق عورت کے لیے جینا بھی سزا
مردوں کے لئے لاکھوں سیجیں، عورت کے لیے بس ایک چتا
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جن سینوں نے ان کو دُودھ دیا ان سینوں کو بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے آگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا
ساحرؔ کا یہ مرثیہ دہائیوں قبل کہا گیا ‘ ان دنوں ابھی ماں بہن بیٹی کی عزتیں اس وسیع پیمانے پر تار تار نہیں ہورہی تھیں‘ ابھی اخلاقی وسماجی قدروں میں بڑا دم خم باقی تھا‘ ابھی آنکھوں کا پاس و لحاظ زندہ وجاوید حقیقت تھا‘ ابھی عورت بے آبروئی کے نیلام گھر کی داشتہ بنائی گئی تھی نہ وہ متاعِ کوچہ وبازار ہی بنی تھی ۔ ماضی کے مقابلے میں آج کے دور کوعورت کی عزت وتکریم کا سب سے بڑا دشمن دور کہنا قرین عقل ہے کیونکہ ہر جانب نربھیا کانڈ کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اس لئے مجھے لگتا ہے کہ شایدعورت کی موجودہ زمانے میں ہورہی نیلامیوں پر یہ مرثیہ ساحرؔ نے یونیسف کی زیر ِبحث تازہ جائزہ رپورٹ پر پیشگی طور پر کہا تھا تاکہ ہمارےعہد کےاُن بے ضمیرمردوں کا ضمیر جھنجوڑا جائے جو طبعاًآوارہ کتوں سے زیادہ شہوت پرست اور خنزیر سے زیادہ بے حیا وبے مروت واقع ہوئے ہیں کہ خواتین کی عزت سے کھلواڑ کرنا اُن کے بائیں ہاتھ کا مشغلہ بنا ہوا ہے۔ وہ قانون کی گرفت سے ڈرتے ہیں نہ اخلاق کی بندشوں سے اُن کی کوئی غرض ہے ۔ مادر پدر آزاد تہذیب میں پلے بڑھے ان بے ضمیر مردوں کی اس ناگفتہ بہ کہانی کا رشتہ اُن کی نشہ بازی‘ مادہ پرستی‘ عیاشی‘ دنیوی ریل پیل ‘ بلامحنت مال ودولت‘الحادی سوچ اور بد اخلاقی کی سونامی سے لازماً جُڑتاہے ۔
بہرصورت عالمی ادارے نے اپنے ان تذلیل آمیز اور رُسواکن انکشافات کو نام نہاد مہذب دنیا کے سامنے لانے تک ہی اپنی اہم ذمہ داری کو نہیں سمیٹا بلکہ یہ اہم اصول بھی انسانی دنیا کو یاد دلایا ہے : قانو نِ قدرت ہے کہ ہر مرض کی ایک دوا ہے‘ ہر بیماری کا ایک لگا بندھا علاج ہے۔ ا س سے پہلے کہ مرض لادو اور بیماری لاعلاج ہوجائے اپنی پرائی کوئی بھی کم نصیب ماں بہن بیٹی ناپاک وحیا باختہ آندھی میں اپنا سب کچھ کھو جائے‘ عالم ِانسانیت بہ ہوش وگوش اُٹھ کھڑی ہو‘ سب لوگ متحد ہوکر اس ننگ ِ انسانیت سلسلے کی روک تھام کرنے آگے آئیں‘ اپنے اپنے مثبت اصلاحی کردار کا حصہ اس اجتماعی سعی وکاوش میں ڈالیں‘ مہذب دنیا کی تمام حکومتیں اتفاق رائے سے ایسی جامع اور موثرانسدادی حکمت عملیاں وضع کریں کہ عورت ذات چاہے کسی بھی عقیدے قومیت ‘ رنگ نسل ‘ یا زبان وخطے سےتعلق رکھتی ہو‘ وہ جنسی ظلم وزیادتی کی بھٹی میں جل کر کوئلہ ہو جانے سے ہر ممکن طور بچائی جاسکے۔
دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے لئے یہ کام اولین فرصت میں کرنا وقت کی اذان ہے‘ اسے سب انسانوں نے چار وناچار دل وجگر کی کانوں سے سننا ہے اوراخلاق وقانون اور ِ آدمیت کے دائرے میں رہ کر کہیں بھائی ِ بن کر ‘کہیں باپ کی شکل میں ‘ کہیں بیٹے کی صورت میں جنسی زیادتی کی ممکنہ شکار بننے والی تمام خواتین کے گردآہنی ہاتھوں کا حصار بننا ہے تاکہ آدھی انسانیت کے دفاع کا فطری واخلاقی حق ادا کیا جاسکے ورنہ وہ دن دور نہیں جب بنت ِ حوا کے لئے روئے زمین پر جینا وُبال جان اور ایک سزائے سخت کاہم معنی ثابت ہو گا ۔
یونیسف جائزہ رپورٹ میں مختلف خطوں‘ ملکوں ‘ قوموں میں بنت ِ حوا کی حا لت ِ زار کا احاطہ کر تے ہوئے ان کے خلاف جرائم کے موضوع پر دستیاب ڈیٹا کی روشنی میں بتا یا گیا ہے کہ جنسی تشدد کی سب سے زیادہ تعداد افریقہ میں پائی جاتی ہے جہاں ۷؍کروڑ ۹۰ ؍ لاکھ لڑکیاں اور مستورات مردوں کی پھیلائی ہوئی اس بد بختانہ وبا کی متاثرین میں شامل ہیں ‘ اس کے بعد مشرقی اور جنوبی ایشیا کا نمبر آتا ہے جہاں۷؍کروڑ ۵۰؍لاکھ ‘ پھر وسطی اورجنوبی ایشیا میں۷؍کروڑ ۳۰؍لاکھ خواتین بدترین جنسی مظالم کی ستائی ہوئی ہیں ۔
یورپ اور شمالی امریکہ میں ۶؍کروڑ۸۰؍لاکھ‘ لاطینی امریکہ میں۴؍کروڑ ۸۰؍لاکھ ‘ کیر بین ‘ شمالی افریقہ اورمغربی ایشیا میں۲؍کروڑ۹۰؍ لاکھ اور اوشیا نا میں۶۰؍لاکھ حوا کی بیٹیاں توہین ِنسواں ذلتوں کا ہدف بن چکی ہیں۔ غرض روئے زمین پر کوئی خطہ کوئی براعظم کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں خواتین کی عزتیں نہیں لوٹی جارہیں اور جہاں مردوں کی لمحاتی تسکین عورتوں کی زندگیاں عمر بھر کے لئے داغ دار بناکر نہیں چھوڑی جاتیں ۔ یہاں یہ بات ملحوظِ نظر رہے کہ اوپر کی سطور میں دئے گئے اعداوشمار ان کیسوں تک محدود ہیں جو پولیس اور دیگر سماجی ورفاہی اداروں میں رپورٹ ہوتی ہیں ‘ جب کہ وہ معاملات جو سماجی دباؤ اور شرم وحیا کی دبیزچلمن آڑے آنے سے اخفا کے پردوں میں چھپ کر رہ جاتے ہیں ‘اُن کو اگر ڈیٹا میں شامل کیا جائے تو یہ یقین دل میں سماجائےگا کہ دنیا میں قیامت ِکبریٰ کب کی برپا ہوچکی ہے ۔
اگرچہ عورتوں کے خلاف جرائم کے اسباب ومحرکات جاننا اس بناپر ضروری ہیں کہ ان کے سدباب کے لئے کارگر اقدامات ممکن ہوں‘ مگر اس وقت انسانی دل اور سماجی سوچ رکھنے والے تمام انسانوں پر پہلا فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ اپنے اپنے حدود میں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس جنگل کی جیسی آگ کو بجھانے میں اپنا تعمیری کردار اداکریں جس کی لپٹیں کہیں بھی زندگیوں کو آنافاناً بھسم کر سکتی ہیں ۔
بلاشبہ اس کے لئے بہتر پولیسنگ کی جائز حد تک اشد ضرورت سےا نکار کی مجال نہیں ہوسکتی مگر یہ کام خالص پولیس اور سرکاری مشنری کانہیں بلکہ اس کے لئے سماجی اصلاح کاروں ‘ مستند این جی اوزاور مذہبی علما کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اور کندھے سے کندھا ملاکر انتھک کام کرنا ہو گا تب جاکر یہ ننگ ِ انسانیت وباکسی حدتک قابو میں آسکتی ہے ۔
حکومتِ وقت کو چاہیے کہ خواتین کو زبانی کلامی ایمپاورمنٹ ایمپاورمنٹ کی راگ نہ سنائیں بلکہ سابق نائب وزیراعظم اور وزیرداخلہ ایل کے ایڈوانی کے اس زریں مشورے پر بھی سنجیدہ غور وتفکر کرے کہ بلات کاری کے مجرم کو عدالتی کارروائی کے بعد سزائے سخت دی جائے تاکہ اس نوع کے مجرموں کی سرکوبی ممکن ہو اور پوری دنیا میں ہمارا ملک بلاتکاری مُکت ہونے کا اعزا ز حاصل کر سکے ۔
تبصرہ لکھیے