ہوم << کیا یہ خاتمے کا آغاز ہے ؟ :عامر خاکوانی

کیا یہ خاتمے کا آغاز ہے ؟ :عامر خاکوانی

انگریزی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے اختتام کا آغاز Begining of The End۔ کیا ان آڈیو لیکس کے بارے میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے؟
کیا یہ کسی متھ، تصور، شخصیت، بت کو توڑنے اورپاش پاش کرنے کے عمل کا آغاز ہے جسے تراشنے میں برسوں لگے تھے۔
جلدی نہ کیجئے، اشارہ صرف عمران خان کی طرف نہیں۔ وہ تو فوکس پر ہیں ہی، شہباز شریف بھی زد میں آتے ہیں۔
شہباز شریف کا بھی امیج گورننس کے حوالے سے تراشا گیا تھا، ایک دیو قامت کمال درجے کا منتظم ۔ بدقسمتی سے جو وزیراعظم کے طور پر معمولی منتظم، اوسط سے بھی کم درجے کےوزیراعظم ثابت ہو رہے ہیں۔

اور ہاں اس ہیکر لفظ کو نہ برتیے۔ مجھے حیرت ہے کہ ہر جگہ ہیکر کا نام استعمال کیا جا رہا ہے ، ہیکر کیسے ؟

ہیکر کسی جگہ موجود مواد کو ہیک کرتا ہے یعنی چراتا ہے، وہ پاسورڈ وغیرہ ہیک کر کے ای میلز، فون میں موجود مواد ، کمپیوٹر وغیرہ کی ویب سائٹ ہیک کر لے گا۔ کسی ویب سائیٹ کو ہیک کر کے پاسورڈ بدل دے گا اور پھر اس پر اپنی مرضی کا مواد ڈال دے گا وغیرہ وغیرہ۔
ہیکر خفیہ ڈوائسز نہیں لگاتا، وہ ریکارڈنگ نہیں کرتا۔ وہ تیار شدہ مواد کو ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے۔ مواد تخلیق یا مواد تیار نہیں کرتا۔

یہ ریکارڈنگ وغیرہ تو وہی لوگ کرتے ہیں جن کا خفیہ پولیس، خفیہ محکموں سے تعلق ہوتا ہے یا وہ کسی مقامی/غیر ملکی فرد یا محکمے کے آلہ کار یعنی ایجنٹ ہوں۔
یہ کسی ہیکر کا کام نہیں۔ یہ منظم قسم کی سازش ہے۔

پرائم منسٹر ہائوس تک رسائی ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ وہاں پر وزیراعظم کے کمرے تک رسائی تو انتہائی مشکل ہے۔ فون کو ٹیپ کرنا الگ معاملہ ہے، مگر وزیراعظم کی کرسی یا میز کے نیچے کوئی ڈیوائس لگانا تو بہت ہی خطرناک معاملہ ہے ۔

یاد رہے کہ اس قسم کی اہم جگہوں کی ہر روز کم از کم دو بار تلاشی لی جاتی ہے، پورا کمرہ جدید ترین آلات کی مدد سے کلیئر کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی ڈیوائس لگی رہ سکے۔
اندازہ یہ ہو رہا ہے کہ ایسی ڈیوائس مستقل بنیادوں پر لگی رہی ۔

عمران خان کی ریکارڈنگز تو مارچ کی ہیں، شہباز شریف کی ریکارڈنگز تو ابھی دو ماہ پہلے کی ہیں ، چیئرمین نیب کی تقرری سے پہلے ۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ کئی مہینوں سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہو۔

اس کا مزید خطرناک پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم کے اس کمرے میں اہم میٹنگز ہوتی رہتی ہین، انتہائی کلاسیفائیڈ نوعیت کی۔ وہ بھی اگر ریکارڈ ہوئی ہیں اور کہیں وہ ریکارڈنگ واقعی ہیک ہوگئیں، غیر ملکی انٹیلی جنس اہلکاروں کے ہاتھوں ۔ تو کتنی بھد اڑے گی، کس قدر قومی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں طرف سے اپنی آڈیو لیکس کی کوئی تردید نہیں کی گئی ۔ یعنی مان لی گئیں۔ شہباز شریف کی لیکس کی بھی ن لیگ نے توجیہہ کی اور اس میں وزیراعظم کے اصول پسند ہونے کے پہلو کو ڈھونڈ لیا۔

تحریک انصاف بھی سائفر پارٹ ون اور پارٹ ٹو کو چیلنج کرنے کے بجائے اسی میں عمران خان کے سائفر والے موقف کی جیت کے پہلو کو لے رہی ہے۔
یعنی دونوں فریقوں کی آڈیو لیکس درست ہیں۔ اس سے یہ تو پتہ چلا کہ ڈیپ فیک اور اس طرح کی دیگر سازشی تھیوریز اس سب پر اپلائی نہیں ہوئیں۔

بس آخری نکتہ یہ ہے کہ وہ سب کارکن ، سوشل میڈیائی حامی جو ابھی ڈیمیج کنٹرول کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ زرا یہ سوچیں کہ اگر سینکڑوں گھنٹوں کی ریکارڈنگز ہیں تو بہت سے غیر محتاط جملے، خطرناک تبصرے اور نجانے کیا کیا کچھ سامنے بھی آ سکتا ہے۔
ایسا سب جس کا دفاع شائد ممکن ہی نہ ہو۔
پھر ڈیپ فیک ٹیکنالوجی وغیرہ کی آڑ میں چھپنا پڑے گا۔
اس لئے مفت مشورہ ہے کہ اس موضوع پر آنے والی فلم دیکھ لیں، کچھ اور مواد بھی پڑھ اور یو ٹیوب سے سن لیں ، کام آئے گا۔