تین جون 2022 کو بھارت میں ایک نئی فلم ریلیز کی گئی، جس کا نام ہے ، "سمراٹ پرتھوی راج"، اس میں نمایاں کردار نبھائے ہیں ، اکشے کمار ، سنجے دت ، سونو سود ، منوشی چلھر ودیگر بالی وڈ اداکاروں نے۔ مرکزی کردار نبھایا اکشے کمار نے ، پرتھوی راج کا۔ ابتدائی طور پر اس فلم کا نام صرف "پرتھوی راج" تھا، جس میں بعد ازاں ، فلم کے ریلیز ہونے سے ایک ہفتہ قبل "سمراٹ" کا سابقہ بھی شامل کیا گیا ، جو سنسکرت لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے، بادشاہ۔ اس کا بجٹ ، IMDB انٹرنیٹ مووی ڈیٹا بیس کے مطابق اڑھائی کروڑ امریکی ڈالرز تھا ، یعنی لگ بھگ پانچ ارب پاکستانی روپے ۔ اسے بالی ووڈ کی تاریخ کی چند مہنگی ترین فلمز میں سے ایک کہا جا سکتا ہے۔ اس فلم کو یش راج فلمز کے سائے تلے بنایا گیا ہے۔ اور اسے برس ہا کی محنتِ شاقّہ کے بعد پروڈیوس کیا گیا۔
اب یہ فلم ہے ایک سادہ سے موضوع پر ، جسے بالی ووڈ سینے سے لگا کر بیٹھ گیا ہے۔ پرتھوی راج اور محمد غوری کی دو جنگیں ، جو 1191 اور 1192 عیسوی میں لڑی گئی تھیں۔ پہلی جنگ میں پرتھوی راج کامیاب رہے جبکہ دوسری اور فیصلہ کن جنگ محمد غوری کے نام رہی اور پرتھوی راج کا رجواڑہ تمام ہوا۔ پرتھوی راج مارے گئے۔ یہاں یہ تاریخ ختم ہوئی مگر بھارت میں مودی کا ہندوتوا یہیں سے تو جنم لیتا ہے۔ سلطان محمد غوری کے بعد یہاں پر ایک کے بعد ایک مسلمان حکمران افغانستان سے ، یا افغانستان کے رستے یہاں کامیابی سے حکومت کرتا رہا ، یہاں تک کہ یہ قصہ 1857 کو تمام ہوا۔
اب پرتھوی راج کے اس تاریخی واقعہ کو تو آپ نے سن لیا ، اب یہ بھی سنیے جو "سمراٹ پرتھوی راج" میں بیان کیا گیا ہے ۔ فلم والے پرتھوی راج میں وہ ہر خوبی موجود ہےجو کسی انسان میں ہو سکتی ہے ، جبکہ محمد غوری اتنا برا کردار ہے جتنا کوئی انسان ہو سکتا ہے۔ اس فلم میں بنیادی طور پر بہت سے جھول ہیں ، بہت سے تاریخی حقائق کو مسخ کیا گیا ہے، جن کا تذکرہ ہم یہاں کریں گے۔ اس فلم کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ اسے دنیا بھر کی لکھی ہوئی تاریخی کتب کو چھوڑ کر، سولہویں صدی کی ایک ایپک نظم سے اخذ کیا گیا ہے، جبکہ یہ قصہ بارہویں صدی کا ہے ۔ چار سو برس بعد کوئی آپ کو بتائے کہ ستائیس فروری 2019 کو ابھی نندن نے چار طیارے گرائے تھے تو یقین ضرور کیجیے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نظم میں بیان کردہ تاریخ کی پیروی بھی اس فلم میں نہیں کی گئی۔
سب سے پہلی تاریخی حقیقت جس سے انحراف کیا گیا ،وہ ہے ترائن کی دونوں جنگوں کا مقصد ۔ جناب ، ان جنگوں کا مقصد دہلی کا حصول بالکل نہیں تھا۔ ترائن کی جنگ اس باعث ہوئی کہ محمد غوری بٹھنڈا فتح کرنے کو آئے تھے۔ 1191 میں پرتھوی راج اس کا دفاع کرنے کو آگے بڑھے۔ اس جنگ میں محمد غوری شکست کھا گئے تھے ۔ پھر دوسری جنگ کا احوال تو سب کو معلوم ہی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ فلم میں یہ بڑی وجہ بتائی گئی ہے کہ پرتھوی راج نے یہ جنگ ، افغانیوں کے ہاتھوں ہندو خواتین کی عزت محفوظ رکھنے کے لیے لڑی تھی۔
افسوس ناک منظر یہ ہے کہ ان جنگوں کو بنیادی طور پر دو مذاہب یعنی اسلام اور ہندو مت ، یا افغانی اور بھارتی تہذیب کے مابین جنگ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔پرتھوی راج اور ان کی افواج کے لباس اور پرچم نارنجی اور زعفرانی رنگوں میں ، جبکہ غوری افواج کی سبز پگڑی اور پرچم بھی سبز؟؟؟
ارے یہ باتیں آپ کو بتا کون رہا ہے؟ تاریخ میں آج تک کسی مورخ شاعر یا ادیب نے ، بشمول سولہویں صدی کی اس ایپک نظم کے شاعر ، چندر بردائی نے بھی پرتھوی یا غوری کے لباس اور پرچموں کی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔ پھر ان پر مخصوص ہندو اور مسلمانوں کے مبینہ نمائندہ رنگوں کی چھاپ لگانے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟
پھر اس فلم کی بالکل ابتدا میں اکشے کمار(بطور پرتھوی راج) کہتے ہیں کہ یہ جنگ ہندو مذہب کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ کیا آج تک کہیں بھی پرتھوی راج کو ہندو مذہب کے ہیرو کے طور پر بیان کیا گیا؟ جس عہد کے یہ واقعات ہیں ، تب تو ذات یا نسل کی بنیاد پر کسی کو پہچانا جاتا تھا۔ یعنی ، پرتھوی راج ، چوہان یعنی راجپوت تھے اور محمد غوری ، غوری تھے ، تاجک الاصل ۔ہندو مسلم کی لڑائی کیوں چھیڑی جا رہی ہے بھئی؟
اب ایک اور لطیفہ سنیے، پرتھوی راج ، سنگِ مرمر کے شاندار محل میں رہ رہے تھے۔ کیوں مودی صاحب، چندر پراکاش صاحب ، بارہویں میں ہندوستانیوں کو سنگ مرمر کی عمارتیں آپ بنا کر دے رہے تھے؟ بھارت میں پہلی سنگ مرمر کی عمارت 1435 میں وفات پانے والے پہلے ملواڑی سلطان ، ہوشنگ شاہ غوری کا مزار تھا، جو ان کی وفات کے بعد، 1440 میں تعمیر کیا گیا۔ اب یہ سنگ مرمر کے محل اس سے اڑھائی سو برس پہلے پرتھوی راج کو کون بنا کر دے رہا تھا ، یہ ہم کبھی نہیں جان سکیں گے۔ جبکہ اس فلم میں تمام طرزِ تعمیر مغلیہ عہد کا دکھایا گیا ہے۔ جو سولہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک رہا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بارہویں صدی میں یہ سب کیوں دکھایا جا رہا ہے؟ وہ بارہویں صدی، جب بھارت میں لکڑی کی عمارتیں بنتی تھیں یا سادہ اینٹوں کی دیواریں۔
سدی سید مسجد جو 1573 میں تعمیر ہوئی ، اسے پرتھوی راج کے عہد کی ایک ہندو عمارت دکھایا گیا ۔ کیا اس لیے کہ ایودھیا کی بابری مسجد کی طرح اسے بھی ہندو پس منظر کی عمارت قرار دے کر منہدم کر دیا جائے؟ یہی نہیں ، غور میں شمشیر زنی کے اسٹیڈیمز (Gladitorial Arenas) بھی دکھائے گئے ہیں ، جن کا ذوق رومیوں کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ پھر اس ایرینا میں سپر ہیرو پرتھوی راج چوہان، بینائی سے محروم ہو کر بھی تین شیروں سے مقابلہ کرتے ہوئے تینوں کو مار گراتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑی، چاند تک کی چھلانگ اس فلم میں ماری گئی ہے ، جس کا تذکرہ آخر میں کیا جائے گا۔
اور ہاں پرتھوی راج کی فارسی کا تذکرہ تو رہ ہی گیا۔ پرتھوی راج کو فارسی کے الفاظ ، گستاخی معاف ، عشق ، شکریہ وغیرہ کس نے سکھائے ، جبکہ خود محمد غوری کی زبان ترکی تھی؟ کس کس تاریخی حقیقت کے ساتھ کھیلیں گے اکشے ایند کمپنی؟ ایک اور انحراف ہے راجہ جے چند کے ہاتھوں پرتھوی راج کی بد ترین شکست اور پرتھوی راج کا دہلی فرار ہو جانا۔ شاید اس منظر کو اس باعث نہیں دکھایا گیا کہ اس سے پرتھوی راج کے اساطیری ، دیو مالائی کردار کو زک پہنچتی تھی؟
بد ترین اور سب سے افسوس ناک پہلو وہی ہے جس میں محمد غوری کو ایک womanizer کے روپ میں ، ایک بے حیا اور بےحمیت شخص کے روپ میں بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔یعنی آپ اپنے ہیرو کو آئرن میں بنائیے یا سپر مین ، مگر اس کے لیے کسی بھلے انسان کے کردار پر یوں بھدے انداز سے کیچڑ اچھالنا کہاں کا انصاف ہے؟ جبکہ تاریخی حقائق سو فیصد اس سے مختلف ہوں؟
اور ہاں ، یہ بات واضح رہے کہ 1192 کے بعد پرتھوی راج کے ساتھ کیا ہوا ، اس حوالے سے دو مختلف آرا ہیں ۔ پہلی یہ کہ شکست خوردہ راجہ ، پرتھوی راج کو قتل کر دیا گیا۔ جبکہ دوسرے طبقے کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ پرتھوی راج کو انہی کی ریاست کا ، غوری سلطنت کا ما تحت حکمران بنا دیا گیا ۔ لیکن اس فلم میں تیسری جہت تراشی گئی۔ پرتھوی راج نے اس فلم میں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کے باوجود ، اپنی چھٹی حس کے سہارے ، محمد غوری کو تیر کی مدد سے مار دیا!!!
اس فلم میں ایک اور بیہودہ اور قابلِ اعتراض منظر وہ ہے ، جب اپنی عزتوں کی حفاظت کے لیے پرتھوی راج کے محل کی خواتین نے بڑے فخر سے خود سوزی کی ۔ بھائی یہ کیا بات ہوئی؟ کیا یہ فیمینسٹ تحریک اور طبقے کو نہیں کھٹکا؟ اپنے مردوں کی ناک اونچی کرنے کے لیے، جوہر نامی رسم میں زندہ جل جانے والی رانیاں اور معزز خواتین کو دیکھ کر آپ کا دل کیوں نہیں گھبراتا؟ کیا کسی سمت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھارت ایک پڑھا لکھا یا با شعور سماج ہے؟ کیا کسی جانب سے ان کے حکمران، مہذب کہلائے جانے کے لائق ہیں؟
در حقیقت ، یہ فلم افغانیوں کو بر صغیر میں حملہ کرنے والے بے حمیت ، بے اصولے اور بد کردار لٹیرے بنا کر پیش کرنے کی ایک اور سازش ہے ۔ واضح رہے کہ سات دہائیوں سے بالی ووڈ ایسی فلمیں تواتر سے بنا رہا ہے جن میں مسلم حکمرانوں ، یا بالخصوص افغانستان سے آبائی تعلق رکھنے والے حکمرانوں کو ولن، ڈاکو اور لٹیرے بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
1952 کے بیجو باورا اور 1957 کی رانی روپ متی فلم سے یہ قصہ شروع ہوتا ہے اور اس میں تو بیسیوں ایسی فلمز سے گزرنے کے بعد ، کیسوری ، پدما وت ، باجی راؤ مستانی ، پانی پت سے ہوتے ہوئے اس سمراٹ پرتھوی راج پر بھی بریک نہیں آئی۔ کب تک بھارتی فلم ساز ادارے برصغیر کے ان حکمرانوں کے بارے میں آگ اگلتے رہیں گے؟ اور تاریخی حقائق تو الگ چیز ہیں ، موجودہ عہد کے حوالے سے بنائی گئی فلموں میں بھی افغانیوں ، بالخصوص پشتونوں کو دہشت گرد ، غنڈے اور قانون شکن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ 2003 کی اسکیپ فرام طالبان ، 2004 کی آن ، 2017 کی رئیس ، 2008 کی آ وینس ڈے جیسی ایسی کتنی ہی فلمیں ہیں جن میں افغانستان والوں کو دہشت گرد اور غنڈے بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ شاید اب وقت آ گیا ہے کہ با خبر اور باحیثیت طبقے اس تاریخ کے مسلسل قتل پر آواز بلند کریں اور ایسا تب تک ممکن نہیں جب تک یہ آواز خود افغانستان سے اٹھائی نہیں جاتی۔
تبصرہ لکھیے