ہوم << معاشی غارت گر, عالمی سازش اور عمران خان

معاشی غارت گر, عالمی سازش اور عمران خان

تحریر:ادیب یوسفزے
عمران خان کی حکومت جانے کے بعد ایک مخلوط قسم کی حکومت بنی۔ یہ نئی حکومت کچھ بڑے بڑے دعوے کر کے آئی ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران یہ چہرے مکمل منصوبہ بندی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے لیکن جونہی ان کو حکومت ملی، اِن کے ہاتھوں سے سب کچھ نکلتا دکھائی دیا ۔ سب سے بڑی ناکامی موجودہ حکومت کو فیول کی قیمتوں میں ملی۔ یہ ایک طرح سے کامیابی بھی ہے لیکن عوامی حلقوں میں اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔کامیابی اِس حوالے سے ہے کہ سب جانتے ہیں ملکی معیشت کا دارومدار آئی ایم ایف پر ہے اور آئی ایم ایف کو خوش کرنا ہماری مجبوری ہے ورنہ ملک کا دیوالیہ ہوسکتا ہے۔

حقیت یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے پیٹرول تو مہنگا کرلیا لیکن اِس کا سہرا ہر زاویے سے گزشتہ حکومت کے سر سجتا ہے.ہر چند کہ اِس سے قبل موجودہ حکومت سبسڈی پر سبسڈی دیے جا رہی تھی. جس کا خمیازہ ہم نے آئی ایم ایف کے ڈیل میں بھگتا، لیکن یہ سبسڈی کسی بھی حکومت کے لئے اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنا اگلے الیکشن کے لئے کیمپین ۔ یہ بات واضح ہے کہ ملک اِس وقت آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں ہے سو اُن کی بات ماننا ہماری مجبوری ہے۔ کوئی بھی حکمران سیاسی جماعت اپنا سیاسی کیرئیر داؤ پر نہیں لگا سکتی. موجودہ حکومت نے پیٹرول مہنگا کر کے ایک بولڈ لیکن مشکل ترین فیصلہ لیا ہے۔ لیکن اِس سب معاملے میں چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ اِس کے پیچھے آخر ہے کون؟ عمران خان نے سبسڈی کیوں دی؟ موجودہ حکومت سبسڈی کیوں دے رہی تھی؟ اب سبسڈی کیوں نہیں دی جارہی؟ اِن سوالوں کے جوابات ہمیں تاریخ کے صفحوں میں ملیں گے۔

گزشتہ حکومت کے چند وزرا کے بیانات اور عمران خان کے دورہ روس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عمران خان نے روس سے رعایتی قیمت پر فیول خریدنے کے تناظر میں سبسڈی پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن آمریکہ نے اُنہیں گھر بھیج دیا. ہندوستان نے بھی روس سے رعایتی قیمت پر فیول خریدنے کا معاہدہ کیا. وہ ایک آذاد ریاست ہے سو اُنہوں نے فیول کی قیمتوں میں واضح کمی کر دی ہے. روس سے رعایتی قیمت پر فیول خریدنے سے ملک کو آذادی نہیں دلوائی جاسکتی لیکن کسی حد تک ملکی معیشت کو آذاد کر کے ملک کے لئے اچھے فیصلے لیے جاسکتے ہیں. عمران خان کا یہی منصوبہ تھا لیکن اُنہیں دھر لیا گیا۔

اِس وقت پاکستان مزید سبسڈی دینے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کے معاشی غارت گر آپ کو اپنے جال میں بہت پہلے ہی پھنسا چکے ہیں. ہم نے قرضہ واپس کرنا ہے اور یوں اُن کے مطابق فیصلے لینا ہونگے. مخلوط حکومت نے آئی ایم ایف کے پیش کردہ ہدایات کی روشنی میں فیول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا، جو مستقبل میں مزید بھی بڑھ سکتا ہے، نتیجتاً ایک غریب پاکستانی کو اپنی جیب سے اضافی پیسے دینے ہونگے تاکہ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لیا جاسکے. بظاہر عمران خان کی بڑی غلطی یہ تھی کہ اُنہوں نے آمریکہ کو براہ راست چیلنج کیا اور روس سے معاہدے کا منصوبہ بنایا لیکن عمران خان کو آمریکہ کے انسٹالڈ لوگوں کا علم نہیں تھا!

جان پارکنزایک آمریکی مصنف ہیں۔ انہوں نے اپنی دو معرکتہ آلآراء تصنیفات ،"کنفیشن آف این اکنامک ہِٹ مین"( معاشی غارت گر کے اعترافات) اور”دی سیکرٹ ہسٹری آف دی امریکن امپائر" میں آمریکہ کا طریقہ واردات واضح الفاظ میں بیان کر چُکے ہیں کہ کس طرح ملکوں کی فرسٹ لائن لیڈر شپ (جو آمریکی پالیسوں سے انحراف کرے) کا بوریا بستر گول کرکے سیکنڈ لائن لیڈر شپ(جو آمریکی غلامی قبول کرے) کو اوپر لایا جاتا ہے تاکہ اس ملک کے قدرتی وسائل سے لیکر، اداروں، کاروباری منڈیوں ، سیاسی قیادت، اور سرمایہ پر قبضہ کر کے اپنے ماتحت رکھے۔ معاشی غارت گر انتہائی درجے کے ماہرین ہوتے ہیں جو تیسری دنیا کے ممالک کو آمریکہ کے جال میں پھنسانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں. یہ غارت گر تیسری دنیا کو سنہرے خواب دکھاتے ہیں اور خوابوں کی تکمیل کے لئے قرضے آٖفر کرتے ہیں۔ قرضے لینے کے بعد غریب ممالک مزید غریب تر ہوجاتےہیں، مہنگائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، کرنسی کی قیمت کم ہوتی جاتی ہے اور یوں آخر میں یہ ممالک سری لنکا کی طرح اکنامک ڈیفالٹ کا راستہ اپناتے ہیں۔ جان پارکنز خود ایک معاشی غارت گر رہ چکے ہیں. اُنہوں نے خود کئی ملکوں میں آمریکی سازشوں کو کامیاب بنایا ہے۔ پارکنز نے خود کئی ممالک کو قرضے لینے پر راضی کیا ہے ؛ سو اس تناظر میں ان کے تجربات سے ہم پاکستانی سیاسی منڈٰی کو سمجھ سکتے ہیں۔

پرکنز کے مطابق جدید دور میں ترقی پذیر ممالک کو اپنے ماتحت رکھنے کے لئے آمریکا اب پرانے طریقے ترک کرچکا ہے. اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ترقی پذیر ممالک کو اپنے شکنجے میں لینے کےلیے امریکا ایک مخصوص پجال بچھاتا ہے۔ یہ جال انتہائی چالاکی سے پھیلایا جاتا ہے تاکہ غریب ممالک کو اس کی بھنک تک نہ ہو۔

سب سے پہلے آمریکا ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے سنہرے خواب دکھا کر قیادت کو قائل کرتا ہے کہ قرضوں سے ملک میں خوشحالی آئے گی(جیسے پاکستان بننے سے اب تک ہوتا آرہا ہے). ان کے جال میں پھنسنے کے بعد قرضے لیے جاتے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے متاثرہ ملک مزید قرضے لیتا ہے. اِس میں یہ شرط بھی رکھی جاتی ہے کہ اِس رقم کو خرچ کرنے کے لئے اِن کے منتخب کردہ نمائندوں سے مشورہ کرنا ہوگا یعنی قرض میں لی گئی رقم اِنہی کے مطابق خرچ کرنا ہوگی۔ یہ نمائندے آئی ایم ایف اور وڑلڈ بینک وغیرہ کے اشارے پر نئے ٹیکسس لگاتے ہیں، اس ملک کی کرنسی کو ڈی ویلیو کرتے ہیں جس سے مہنگائی کا طوفان آتا ہے اور متاثرہ ملک امریکی مفادات کا ساتھ دینے کےلیے مجبور ہوجاتا ہے. عمران خان اِن تمام شرطوں کو ماننے سے انکار کر کے روس سے معاہدہ کرنے کے خواہاں تھے یا روس کو اپنا نیا معاشی غارت گر بنانا چاہتے تھے. عمران خان کی خواہش تھی کہ کسی طرح ملک کو آمریکی شکنجے سے آزاد کر لیا جائے، لیکن جب آمریکہ کے اِن شرائط کو ماننے سے کوئی انکار کرے یا اِس شکنجے سے نکلنے کی کوشش کرے تو اس ملک میں انارکی پھیلانے کےلیے اس کی لیڈرشپ کو قتل کیا جاتا ہے. یا اِن کو اقتدار سے محروم کردیا جاتا ہے. اگر براہ راست قتل کرنا مقصود ہو تو قتل کو بادی النظر میں حادثے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے. اِس حوالے سے جان پارکنز نے ثبوتوں کے ساتھ اپنے تمام دعوؤں کا دفاع کیا ہے۔ یا

انکار کرنے والی قیادت سے نمٹنے کے بعد آمریکہ اور مالیاتی اداروں کا تیسرا آپشن متعلقہ ملک میں خانہ جنگی کا ہوتا ہے. پہلے خانہ جنگی کروائی جاتی ہے، پھر ملک میں افراتفری پھیلائی جاتی ہے اور یوں ملکوں کو اپنے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کی صورت آپ کے سامنے ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات اور عمران خان کو ڈی سیٹ کرنے میں کس کا کیا کردار رہا، کس کی ایماء پر یہ سب ہوا، مہنگائی کا طوفان کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ آمریکی حواری کون ہوسکتے ہیں؟ ملکی خیرخواہ کون ہیں؟ یہ سب جاننے کے لئے مطلوبہ کتابوں کا مطالعہ اشد ضروری ہے. بہر صورت یہ تمام کردار واضح ہوچکے ہیں جب آپ اپنی آنکھوں سے سیاسی وابستگی کی پٹی ہٹا کر ایک بار ملکی مفاد کا سوچیں گے تو تمام کردار آپ کی نظروں کے سامنے دندناتے پھرتے نظر آئیں گے

Comments

Click here to post a comment