حسبِ معمول محرم کے ان دنوں میں واقعۂ کربلا اور امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام پر، اہل علم میں بحث جاری ہے۔ مسلمانوں کا روایتی اور عمومی موقف اس بارے میں یہی رہا ہے کہ امام صاحب کا اقدام یزیدی ظلم و جبر کے خلاف ایک آئیڈیل شرعی اقدام تھا؛ آپ رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کر کے، ظلم و جبر کے مقابل کھڑے ہو کر، اپنی اور اپنے اہلِ خانہ اور معصوم بچوں تک کی جانیں قربان کر کے ظلم و جبر اور فسق و فجور کے خلاف آواز اٹھانے کو دینِ محمدی ﷺ اور اس کے حقیقی حاملین کی علامت باور کرایا۔ البتہ کچھ لوگوں نے اسے خروج، حصول ِاقتدار کی کوشش، امام کی خطا یا اجتہادی خطا سے تعبیر کیا۔ موخر الذکر قبیل کے نقطۂ ہائے نظر کو مسلمانوں میں عام طور پر کبھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اہلِ تسنن کے یہاں واقعۂ کربلا اور شہادتِ حسین کو دیکھنے کا زاویہ بلاشبہ اہل تشیع سے مختلف ہے، ان کے نزدیک اہلِ تشیع اس ضمن میں غلو کا شکار ہوئے ہیں، لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بایں ہمہ وہ عمومی طور پرشہادتِ حسین کو دینِ اسلام کے لیے ایک بڑی قربانی کی حیثیت سے دیکھتے آ رہے ہیں؛ ان کے نزدیک شہادت ِحسین اور اس سے متعلق واقعات کا استخفاف ناصبیت کی نامحمود کاوش ہے۔ راقم الحروف عام اہلِ سنت کے اس موقف کو درست سمجھتا ہے، اور مؤخر الذکر آرا کو ناصبیت یا اس کا شاخسانہ۔
موجودہ دور میں دہشت گردی، ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ کے تناظر میں بعض اہل ِ فکر امام حسین کے اقدام کو اس زوایے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر اس کو درست اور شرع کا مطلوب اقدام قرار دیا جائے، تو ان عسکریت پسندگروہوں کو اس سے تائید فراہم ہوگی۔ لیکن یہ محض ایک بےمحل اور غلط اندیشہ ہے، جس کے حوالے سے کچھ گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
مذکورہ نوعیت کے عسکری گروہوں کے طریق میں کوئی مماثلت جناب امام کے طرزِ عمل سے ہے اور نہ ان کے مقابل امام کے مقابل سے مماثل ہیں۔ امام کا اقدام مذکورہ انواع کے عسکری گروہوں کے اقدامات سے اپنی نوعیت میں یکسر مختلف ہے۔ امام صاحب کا اقدام حکومتِ وقت کے خلاف مسلح تصادم کی نوعیت کا ہرگز نہیں تھا۔ تاریخ کی کوئی شہادت ایسی نہیں، جس سے ثابت ہو سکے کہ آپ یزید یا اس کے کسی عامل سے جنگ کرنے نکلے تھے۔ آپ کا جنگ کا ارداہ ہوتا تو یقیناً آپ عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے جانے کے بجائے، اپنے حامیوں کے ساتھ تیاری کے بعد مسلح جتھے کی صورت میں نکلتے۔ آپ اہلِ کوفہ کے اصرار پر نکلے، اور اس بنا پر کہ امت کی ایک بہت بڑی تعداد یزید کے فسق و فجور اور ظلم و جبر کی بنا پر اسے مسلمانوں کا جائز حاکم نہیں سمجھتی اور چاہتی ہے کہ میں اس ذمہ داری کو اٹھاؤں، تو میرا اس سےگریز شریعت اور نانا کے مشن کی خلاف ورزی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پہنچ کر جب آپ نے معاملے کو برعکس دیکھا، اور یزیدیوں کو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے درپے آزار پایا، تو تصادم سےگریز کرنا چاہا، مگر ظالموں نے بیچ بچاؤ سے متعلق امام کا کوئی آپشن نہ مانا۔ لہٰذا مذکورہ مسلح گروہوں کے لیے جواز کے اندیشے کے تحت امام کے اقدام کا استخفاف کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جہاں تک واقعاتی شواہد کا تعلق ہے، تو ان کی روشنی میں بھی یہ اندیشہ بےبنیاد قرار پاتا ہے۔ ان شواہد میں سے چند یہ ہیں:
1۔ آج تک اکابرینِ امت میں اس نوع کے کسی عسکری گروہ کےاقدام کے لیے جناب امام کے اقدام کو تائیدی شاہد نہیں سمجھا گیا۔
2۔ امام حسین کے پیروکار ہمیشہ ایسےگروہوں کے مخالف رہے ہیں۔
3۔ ایسے گروہ اکثر و بیشترخارجی عقائد کے حامل رہے ہیں، اور خارجی خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کے دشمن چلے آتے ہیں۔
4۔ ایسےگروہ خود اپنے لیے امام حسین کو اسوہ کم ہی سمجھتے ہیں۔
5۔ اگر موجودہ نوعیت کی بغاوتوں کے لیے اسوۂ حسین سے استدلال ہو سکتا تو چلو اہلِ سنت نہ سہی، اہلِ تشیع تو ایسا عام کر رہے ہوتے، اور جہاں جہاں وہ اقلیت میں ہیں، سنیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہوتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ سنی ہی نہیں شیعہ بھی ایسے اقدامات کے روادار نہیں، بلکہ ایسے اقدامات کی انھی گروہوں کی جانب سے سب سے زیادہ مخالفت ہوتی ہے۔
پھر اگر تفہیم کی خاطر فرض کرلیں کہ امام کا اقدام مسلح تصادم ہی تھا، تو بھی اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ جو گروہ جب چاہے، جس مرضی حکمران کے خلاف ہتھیار اٹھا لے اور اپنی تائید میں امام حسین کے اسوے کو پیش کرنا شروع کر دے۔ کیا امت اور اس کے علماء و محققین اور اہلِ دانش کے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ کس کا کون سا اقدام کس کے خلاف اس زمرے میں آتا ہے اور کون سا نہیں! واللہ اگر ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ سے متعلق یہ وہم بھی ہو سکتا کہ ان کے اقدامات لیے اس عظیم اسوے میں کوئی تائیدی مسالہ ہے، تو امت کا سوادِ اعظم انھیں یوں رد نہ کر چکا ہوتا۔ ایسے اقدامات کے لیے اس اسوے سے دلیل تبھی لائی جا سکتی ہے، اور کسی بھی زمانے میں تبھی لائی جا سکے گی ، جب یہ ثابت کر دیا جائے کہ اٹھنے والا گروہ امام کے طرزِ فکر و عمل سے حقیقی تمسک رکھتا ہے، اور جس کے خلاف اٹھ رہا ہے، وہ یزید کا خوشہ چیں ہے، اور اہلِ نظر جانتے ہیں کہ امت کو یہ باور کرانا آسان نہیں، اگر اتنا ہی آسان ہوتا، تو اس طرح کے عسکری گروہ امت سے حسین کی محبت کو اپنے لیے کیش کرا چکے ہوتے۔
اب ذرا واقعۂ کربلا اور شہادتِ حسین سے متعلق اپنے دانشوروں کی حالیہ استخفافانہ تحریروں پر مختصر تبصرے:
ایک تحریر برادرم عمار ناصر صاحب کی ہے، جس میں آپ نے قراردیا ہے کہ جناب امام رضی اللہ عنہ کا اقدام ”گنجائش“ کی قبیل سے ہے۔ اس پر مجھے عمار بھائی سے بس ایک گزارش کرنا ہے، اور وہ یہ کہ آپ تو اتنے کھلے ذہن والے ہیں؛ آپ کی فقہ میں بہت توسع ہے، تو امام صاحب کے لیے اتنی تنگ دامانی کیوں؟ میرے بھائی! گنجائش تو ہم ”استاذ امام“ کے تمام اقوال و اقدامات کی شرع سے بآسانی نکال سکتے ہیں، کیا امام عالی مقام کے لیے بھی بس ایسی ہی”گنجائش“ کافی ہے! امام صاحب تھوڑا سا حق زیادہ ہی رکھتے ہیں ”استاذ امام“ سے تو، تھوڑا دل بڑا کر کے، ان کے لیے کچھ بڑی گنجائش نکالنی چاہیے، اگر برا نہ مانیں تو!
ایک سلفی اہل ِ علم نے بعض ناصبیت زدہ کتابوں کے حوالے سے مشورہ دیا ہے کہ ان میں گویا تحقیق کے دریا بہائےگئے ہیں، اور واقعہ کربلا کو ایک نئے انداز سے بیان کرنے کی قابل داد و تحسین کوشش کی گئی ہے۔ ان کا مشورہ یہ بھی ہے کہ واقعۂ کربلا سے متعلق نئی تحقیقات کو غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی انداز سے دیکھنا چاہیے۔ اب ایسے لوگوں کی خدمت میں کیا عرض کیا جائے، جو نواسۂ رسول کی ظالمانہ شہادت پر اسے تو غیر جذباتی انداز سے دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں، اور خود اپنے ایک ایک جملے اور فرمان کے بارے میں اتنے جذباتی ہیں کہ اس سے اختلاف یا اس کی تردید کو اپنے حق میں واقعۂ کربلا سے بڑا ظلم سمجھتے ہیں۔
ان ”غیر جذباتی“ لوگوں سے میری بس اتنی گزارش ہے کہ میں تمھارے جذبات سے واقفیت چاہتا ہوں، اس صورتِ حال پر کہ تمھارا نواسہ اپنے سارے خانوادے سمیت سرِ صحرا پیاسا مارا گیا ہے اور میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ جناب معاملے کو ذرا معروضی انداز سے دیکھیں، ممکن ہے موصوف سے کوئی اجتہادی خطا ہوگئی ہو، نئی نئی تحقیقات آ رہی ہیں، انتظار کریں، وہ آپ کے زخموں کو بھر دیں گی، آپ کو باور کرادیں گی کہ ذرا سی بات تھی، اندیشۂ عجم نے جسے یونہی زیب داستاں کے لیے بڑھا دیا ہوا ہے۔
تبصرہ لکھیے