میں نے عجیب و غریب خواب دیکھا ہے کہ آپ کے جسم کا ٹکڑا میری جھولی میں آن گرا ہے۔ افضل الانبیاء ، سرورِ دو جہاں محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی چچی ام فضل رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مسکرا کر فرمایا، غم نہ کریں ،خواب مبارک ہے۔ عنقریب سیدہ فاطمہ الزہراء کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوگی، جس کی پرورش آپ کے ذمہ ہوگی۔
چنانچہ 5 شعبان 4 ھجری کو سیدۃ النساء فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہاء کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کی خبر ملتے ہی نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور برکت کے لیے اپنی زبان مبارک بچے کے منہ میں ڈالی۔ دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
یہ خوش قسمت بچہ جس کے وجود میں سب سے پہلے مبارک لعاب پہنچی اور کانوں میں اعلی و ارفع آواز گونجی اس کا نام نبی کریم ﷺ نے حسین رکھا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ، نواسہ رسول ، ابن شیر خدا جگر گوشہ فاطمہ الزہراء اپنے نام کی مانند حسین و جمیل ، شکل و صورت میں کائنات کے سب سے خوبصورت انسان محمد مصطفی ﷺ سے مشابہہ، نبی ﷺ اور صحابہ کی آنکھ کا تارہ تھے۔
حسینین کریمین کے متعلق زبان نبوت سے کیا خوبصوت الفاظ ادا ہوئے
"مالک قدوس جس طرح میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت رکھ، اور جو ان دونوں کو محبوب رکھے، تو بھی اسے محبوب بنا لے" (جامع الترمذی)
محبت کی یہ انتہاء کہ حضرت حسین کے رونے کی آواز سن کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاء سے فرمایا
"کیا تو نہیں جانتی اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے" ... کبھی ان کی الفت میں ممبر سے اتر آئے، کبھی سجدے طویل ہوگئے کیونکہ پشت پر جنت کے نوجوانوں کا سردار سوار ہے، کبھی ارکانِ نماز یوں ادا کیے جا رہے ہیں کہ شہزادہِ رسول وجود اطہر کے ساتھ چمٹے ہیں۔ کبھی ان بچوں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں ، اور کبھی کندھوں پر سواری کرائی جا رہی ہے۔ الغرض یہ الفت ، بڑوں کی چھوٹوں پر شفقت و محبت کا بے مثال نمونہ ہے۔
ایک دن حسین رضی اللہ عنہ دوڑ کے مقابلے میں شریک ہونے لگے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے احتیاطاََ منع کیا تو تڑپ کر کہا "کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہم اللہ کے سپاہی بنیں"
یوں بخوشی اجازت مل گئی۔
ایک روز نبی کریم ﷺ نےانہیں کئی لڑکوں کو کشتی میں پچھاڑتے دیکھا تو فرمایا
"یہ شجاع ابن شجاع بہادر بیٹا ہوگا"
اپنے والد سے قرآن پاک پڑھتے ہوئے آیات جہاد پر جنگ کے طریقے اور گُر پوچھتے، اور صرف زبانی نہیں عملی تربیت کی درخواست کرتے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں مشقیں کراتے حتی کہ اس فن میں کامل ہو گئے اور آگے جا کر نواسہ رسول نے بہت سی جنگوں اور میدان کربلا میں اپنی بہاردی کے جوہر دکھائے۔
سراپہ شفقت و محبت نانا جان اور منبع محبت والدہ کے دنیا سے چلے جانے کا غم کمسنی میں ہی سہنا پڑا۔ پر شیرِ خدا حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کو سنبھالا۔
حضرات صحابہ کرام بھی خاندان نبوت کے ان شہزادوں پر جان چھڑکتے اور ان کا پورا خیال رکھتے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا
" اللہ کی قسم ! اپنے اقرباء سے صلہ رحمی کی نسبت مجھے یہ بات کہیں زیادہ عزیز ہے کہ میں آپﷺ کے اقرباء سے صلہ رحمی کروں۔ (صحیح البخاری)
اسی لیے آپ کبھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو چپکے سے رقم دیتے کہ گھر والدہ کو ضروریات کے واسطے دے آو، کبھی کہتے کہ کوئی بھی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھے یا اپنی ، نانی حضرت عائشہ سے کہو۔
حضرت عمر فاروق کے زمانے میں یمن سے کپڑے آئے تو کوئی حسنین کریمن کے ناپ کے مطابق پورا نہیں آیا، آپ غمگین ہوگئے اور فورا ناپ یمن بھجوا کر نئے جوڑے تیار کروائے، اور جب انہوں نے پہنے تو فرمایا
"شکر ہے اس اللہ کا جس نے میرا دل ٹھنڈا کیا ہے" (سير أعلام النبلاء )
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک روز خطبہ دے رہے تھے تو حدیث پڑھ کر آپ نے دونوں صاحبزادوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا
" جو شخص رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ ان سے بھی محبت رکھے اور ان کے درجات پہچانے " (سیرۃ الخلفاء)
حضرت عثمان سے محبت کا حق بھی حسن و حسین نے بھی ادا کیا ، باغیوں نے جب خلیفہ رسول کے گھر کا محاصرہ کیا تو دروازے پر پہرہ دیا حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایک تیر سے زخمی بھی ہوئے پر باغیوں کوسامنے سے اندر نہ جانے دیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس حضرت حسنین کے گھوڑے کی رکاب پکڑتے تھے، کسی نے کہا آپ علم و عمل میں زیادہ اور بزرگ ہیں، کہا میرے لیے تو یہ سعادت کی بات ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر تو حضرت حسین کی خاطر لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔
سید نا بلال نے صرف حسنین کریمین کی فرمائش پر ہی بعد از وصال نبوی اذان دی۔
اپنے والد حضرت علی کے دورِ خلافت میں حکومتی معاملات میں ہاتھ بٹایا کرتے اور ان کے ساتھ جنگوں میں بھی حصہ لیتے، ان کے بعد اپنے چہیتے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی معاون رہے اور حضرت امیر معاویہ کے دور میں بھی عنایات سے نوازے جاتے رہے۔ الغرض ہمیشہ سب کے منظور نظر رہے اور اپنے اختیارات کو استعمال کرتے رہے۔
ایک دفعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کسی امیرِ سلطنت کی طرف سے بھیجا جانے والا سامان مدینے کے پاس سے گزرا تو حضرت حسین نے دس اونٹوں سے سامان اتروا کر پاس رکھ لیا اور پیغام بھجوایا کہ اپنا حق وصول کر لیا ، البتہ کچھ باقی ہے۔ مال کے حاصل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جمع کرتے تھے، بلکہ مدینے کے سب سے زیادہ سخی کا پوچھا جاتا تو لوگ آپ کا ہی نام لیتے۔ اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے کہ اکثر مقروض ہو جاتے۔
حسن سلوک ایسا کہ بے مثال ، ایک دفعہ ایک غلام نے سختی کی تو آپ نے اسے سزا دینے کا حکم دیا، اس نے گھبرا کر آیت پڑھی کہ غصہ کو پینے والے اللہ کو پسند ہیں، آپ نے فورا معاف کر دیا، اس نے در گز اور حسن سلوک کی آیت پڑھی تو اسے آزاد کر دیا۔
گھر والوں سے بھی آپ کا سلوک مثالی تھا، اپنی بیوی حضرت رباب رضی اللہ عنہا اور اپنی بیٹی حضرت سکینہ کی محبت میں دو اشعار اس کا منہ بولتا نمونہ ہیں
احمرک افنی حب دارا .... تحل بہ السکینتہ و الرباب
اجہما و ابذل کل مالی ... و لیس لعاتبہ عندی عتاب
اللہ کی قسم میں اس مکان سے بھی محبت کرتا ہوں جس مین میری بیوی رباب اور میری بیٹی سکینہ رہتی ہیں۔
میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں ۔ اور ان کی راحت میں سب کچھ خرچ کرنے پر تیار ہوں اور اس کھلے خرچ پر مجھے کسی طعنے کا بھی خوف نہیں۔
یتیموں اور بیواؤں کا اتنا خیال رکھتے کہ بوقت شہادت آپ کی پشت مبارک پر بہت زیادہ نشان تھے، حضرت زین العابدین سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ اس سامان کو اٹھانے کے نشان ہیں جو آپ اپنی پشت پر لاد کر بیوہ یتیم بچوں اور فقراء و مساکین کو پہنچاتے تھے۔
عبادت گزار اتنے کہ بعض اوقات چوبیس گھنٹوں میں سینکڑوں نوافل ادا کرتے، تلاوت قرآن مجید کا تو حساب ہی نہیں، خوش الحان تھے ۔ جو آپ کی تلاوت سنتا وہ سنتا ہی رہتا ۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک پیدل چل کے پینتیس حج کیے۔
نماز کے اتنے پابند کے اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر نکلے اور اسی راستے میں سجدہ کی حالت میں میدان کربلا میں 10 محرم 61ھ کو 57 برس کی عمر میں شہید کر دیے گئے۔
آہ کہ وہ اک ایسے شخص کا قتل تھا کہ اس وقت روئے زمین پر اس سے عالی مقام کوئی نہ تھا۔
بے دردی سے آل رسول پر کیے جانے والے ظلم پر دل غمگین ہونے کی طرف مائل ہوتا ہے پر شہادت تو سعادت کا مقام ہے ، اور جب شہید ہونے والا جنت کی سرداری کا تاج پہن رہا ہو تو آیات یاد آتی ہیں "لا تحزن" غم نہ کرو...
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو وصیت می ں کہا تھا:
جس تکلیف کے انجام میں جنت مل جائے ، اسے تکلیف نہ سمجھنا۔
اے فرزند مصائب و نوائب میں صبر کرنا ایمان کا خزانہ ہے۔
اللہ ہمیں اس موقعے پر صبر اور نواسہ رسول کی مثالی زندگی سے سبق سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
حسین سا کوئی روشن ضمیر نا ممکن
جہانِ عشق میں اس کی نظیر نا ممکن
تبصرہ لکھیے