ہوم << حسینیت ایک استعارہ - فرہاد علی

حسینیت ایک استعارہ - فرہاد علی

فرہاد علی اللہ تعالی نے اپنی خدائی کا اظہار کا فیصلہ کیا تو انسان کو تخلیق کیا۔ انسان کو اپنی نیابت عطا کی اور فرشتوں میں اس کا اعلان کیا اور فرشتوں سے عملی طور پر تسلیم کروانے کے لیے ان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ فرشتے تو سر بسجود ہوگئے مگر ناس ہو غرور، تکبر اور گھمنڈ کا جس نے ابلیس کو حکم عدولی پر آمادہ کیا۔ وہ راندہ درگاہ ٹھہرا۔ غرور و تکبر پر جب ضرب لگتی ہے تو وہ بغض و عداوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ابلیس کے ساتھ یہی ہوا اس کا دل انسان کے خلاف ضد و عداوت سے بھر گیا۔ اس نے خداوند قدوس کے سامنے آدم ؑ اور ابن آدم کو گمراہ کرنے کی قسم اٹھائی۔
چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں آدمؑ نے قدم بعد میں رکھا اور اس کا ازلی دشمن ابلیس پہلے پہنچ گیا۔ آدم ؑ اللہ کا خلیفہ یعنی خیر کا استعارہ اور علمبردار تھا جبکہ ابلیس اس خیر کے استعارہ کو شر کے سمندر میں ڈبونے کی قسم اٹھا کر آیا تھا۔ یوں خیر و شر کا معرکہ روز اول سے برپا ہوگیا ۔
وہ خاص انسان جس کا نام آدم تھا اس دنیا سے رخصت ہوگیا مگر وہ آدم جو خیر کا داعی تھا، ہر انسان کی صورت میں حیات ہے اور ابلیس اپنی ذات و صفات کے ساتھ زندہ ہے۔ آدم و ابلیس کی یہ لڑائی جو جنت میں شروع ہوئی، انسانوں اور شیطانوں کی صورت میں آج بھی جاری ہے۔ یہ معرکہ خیر و شر ہے جو اس دنیا کی آخری صبح تک جاری رہے گا۔ یہ معرکہ ہر شخص ہر آن اور ہر لحظہ لڑتا ہے۔ برائی کا مقابلہ کرنے والا دراصل ملکوتی صفات کا حامل اور حضرت آدمؑ کا پیروکار ہوتا ہے جبکہ بھلائی کے خلاف برسر پیکار ہونے والا ابلیس کا پیروکار ہوتا ہے۔
اسی معرکہ خیر و شر کا ایک نمونہ چشم فلک نے کربلا کے میدان میں دیکھا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ ایک مختصر سا قافلہ بے سر و سامانی کی حالت میں دنیا کے سب سے بڑے شر ظلم کے خلاف نکل پڑا ہے۔ ان کو صاف نظر آرہا تھا کہ اسباب کی دنیا میں ان کی شکست یقینی ہے اور موت ممکن ہے مگر ظلم کے خلاف ڈٹ گئے ۔ میدان کربلا اہل بیت کے خون سے لالہ زار ہوا، ان کی آہ و زاری اور بھوک و پیاس سے آسمان کا کلیجہ پھٹ گیا ۔ ایک قافلہ حق پر قربان ہوگیا مگر ظلم کے سامنے جھکا نہیں۔
حضرت حسین ؓ نے اپنے عمل سے حسینیت کا ابدی کردار تخلیق کیا ۔ انہوں نے خیر و شر کے ابدی معرکہ میں خیر کا ساتھ دیا اور اللہ تعالی کی نیابت اور حضرت آدم ؑ کی پیروی کا حق ادا کیا۔ جس طرح ظلم کے خلاف ڈٹ جانا حسینیت ہے اسی طرح ظلم کی ہر شکل و صورت کے خلاف ڈٹ جانا بھی حسینیت ہے ۔ باطنی برائی ہو یا خارجی ، ظلم و جبر ہو یا قتل و غارت ، استحصال کی شکلیں ہوں یا لوٹ مار اور دھوکہ فریب کی صورتیں ، ان سب کا مقابلہ کرنے والا آدم ؑ اور حسینؓ کا پیروکار اور ان کو تقویت دینے والا ابلیس کا پیروکار۔ حسینیت ایک ایسا لامحدود استعارہ ہے جس کا تقاضا زندگی کا ہر پہلو اور ہر گھڑی کرتی ہے۔