غربت بھی کیا چیز ہے۔بچوں کے کپڑوں تک سے جھلکتی ہے۔آج بازار سے ناشتہ لینے گیا تو سکول جاتے بچوں پہ نظر پڑی۔امیر اور غریب طبقہ کا فرق بچوں کی سکول یونیفارم سے ہی عیاں ہو رہا تھا۔سرکاری سکولوں کے بچوں کی یونیفارمز وہی مخصوص بلو شرٹ ،گرے پینٹ۔نیلی قمیض، سفید شلوار۔۔۔وہ بھی پھٹی پرانی ،میلی میلی سی۔۔دور سے ہی پہچانے جاتے تھے کہ کسی۔۔۔۔۔۔سکول کے بچے ہیں۔(واضح رہے کہ بچے اپنی زبان میں سرکاری سکولوں کو ایک خاص نام دیتے ہیں)۔ ان بچوں کے چہرے بھی مرجھائے مرجھائے سے تھے ان میں سے زیادہ تر پیدل چلتے ہی نظر آئے ۔ اکثریت نیم دلی سے پائوں گھسیٹتے چل رہے تھی ۔کسی کے پائوں میں پلاسٹک کی ہوائی چپل اور کوئی بچہ کسی بڑے کا جوتا پہنے ہوئے تھا.گلے میں پھٹے پرانے بیگ لٹک رہے تھے۔
دوسری جانب صاحب حیثیت اور امیروں کے بچے تھے۔دلکش رنگوں کی اْجلی اْجلی یونیفارم پہنے۔گلابی چہرے،چمکدار بال۔ہنستے مسکراتے۔نکھری نکھری شخصیت۔پالش کیے ہوئے چمکدا شوز ان کی شخصیت کو چار چاند لگا رہے تھے۔کوئی موٹر سائیکل پہ سوار تو کوئی کار پہ مزے سے جانب سکول رواں دواں تھا۔
ایک 10سالہ بچہ ناشتہ والی دکان پہ کام کرتا نظر آیا۔صد افسوس ! کہ اس عمر میں وہ ہاتھ جن میں قلم و کتاب ہونی چاہیے ،وہ لوگوں کے جھوٹے برتن دھوتا۔مالک کی گالیاں سنتا اور جھڑکیاں سہتا دکھائی دیا۔
چھوٹے بھائی کو بس اسٹینڈ چھوڑنے گیا تو واپسی پہ ایک کوٹھی کے گیٹ پہ نظر پڑی۔ایک 8،10 سالہ ننھی بچی کرسی پہ کھڑی گیٹ پہ کپڑے سے مٹی جھاڑ رہی تھی۔خدا جانے ان امرا میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔اپنے بچوں کو تو مہنگے ترین سکولوں بڑے اہتمام سے تیار کر کے چھوڑنے جاتے ہیں جبکہ انہیں جیسے انہیں کے ہم عمر بچوں سے اپنے گھروں میں بیگار لیتے ہیں۔کیا ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ غریب ہیں؟
بچوں کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا اور ان کے اخراجات برداشت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہمارے یہاں ابتدا سے ہی بچوں کے معصوم ذہنوں میں نفرت کے بیج بو دیئے جاتے ہیں۔جب ایک غریب بچہ اپنے ہی جیسے امیر بچے کو اعلی ترین سکولوں میں پڑھتا اور اس کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھتا ہے تو لا محالہ اس کے ذہن میں یہ سوال تو ضرور آتا ہوگا کہ میرے والدین مجھے اس سکول میں کیوں نہیں بھیجتے؟
راقم کے ماموں زاد بھائی جنوبی کوریا میں جاب کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہاں بچہ صرف والدین کا ہی نہیں ہوتا۔ریاست بھی اسے اپنا بچہ سمجھ کے گود لے لیتی ہے۔ اس کے تعلیمی اخراجات اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔والدین بچوں کو ناشتہ کرواتے ہیں ،یونیفارم پہناتے ہیں اتنے میں سکول وین آجاتی ہے۔پھر بچے سارا دن سکول میں ہی رہتے ہیں۔چْھٹی شام کو ملتی ہے۔اس دوران دوپہر کا کھانا۔آرام۔کھیل کود۔پڑھائی سب کچھ سکول میں ہوتا ہے۔مختصرا یہ کہ بچہ صرف چند گھنٹوں کے لیے والدین کے پاس ہوتا ہے باقی دن سکول میں ہی گزرتا ہے۔وہاںسب بچوں کے سکول یکساں ہیں۔نظام تعلیم یکساں ہیں۔یونیفارم یکساں ہے۔یو ں سب کو یکساں مواقع ملتے ہیں۔اس سے کچھ عرصہ بعد وہ افرادی و تعمیری قوت جنم لیتی ہے جس نے کوریا کو بام عروج پہ پہنچا دیا ہے۔۔آج جس کا شمار دنیا کے بہترین و ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔
دوسری جانب ایک پاکستان ہے جہاں 70 لاکھ بچے سرے سے سکول ہی نہیں جاتے۔جوجاتے ہیں ان میں سے بھی بمشکل 70 فیصد میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں۔یہاں اچھے کالج میں داخلہ نہ کروا سکنے پہ غریب باپ کی بیٹی خودکشی کر لیتے ہے۔امتحان میں فیل ہونے پہ ایسا دبائو ہوتا ہے کہ نونہال اپنی جان لے لینے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔
آخر یہ سب کب تک چلے گا ۔؟ ارباب اختیار کو تو کرسی بچانے اور کرسی چھیننے سے فرصت نہیں۔فضول سکیموں میں اربوں اجاڑ رہے ہیں۔
میری رائے میں جب تک اس ملک میں تعلیمی انقلاب نہیں لایا جاتا تب تک ترقی کا خواب شرمندہ تعمبیر نہیں ہو پائے گا۔یکساں تعلیمی مواقع ،اسلام اور اس کے اخلاقی اصولوں اور حب الوطنی پہ مبنی یکساں نظام تعلیم فراہم کرنے سے ہی ہم آہستہ آہستہ ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکیں گے۔کاش کہ ارباب اختیار اور عوام الناس اس حقیقت کو بھی سمجھیں۔۔
تبصرہ لکھیے