ہوم << و ہ وعدہ ہی کیا، جو وفا ہو گیا-ڈاکٹر صفدر محمود

و ہ وعدہ ہی کیا، جو وفا ہو گیا-ڈاکٹر صفدر محمود

dr-safdar-mehmood
یہ ہماری تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج تک کوئی سیاسی پارٹی بھی برسراقتدار آنے کے بعد اپنے منشور، اپنے وعدوں اورعوام کو دکھائے گئے خوابوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ سیاسی لیڈران صرف ووٹ لینے کےلئے بہت سے خواب دکھاتے ہیں جن میں کچھ خواب غیرحقیقی اور ناقابل عمل ہوتے ہیں لیکن اکثر اوقات وہ ان وعدوں کو بھی پورا نہیں کرتے جنہیں پایہ ٔ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس تاریخی سچائی یا صورتحال کی بہت سی وجوہ ہیں جن میں قابل ذکر چند ایک ہیں۔ اول لیڈران میں صلاحیتوں اور بصیرت کی کمی، دوم اقتدار کے حصول کے بعد ترجیحات میں تبدیلی، سوم وسائل کاصحیح استعمال کرنے کی بجائے وسائل کا ضیاع،چہارم کرپشن کا پھیلتا ہوا ناسور، پنجم سستی شہرت اور مقبولیت کی ہوس، ششم پارٹی کادبائو اور منتخب اراکین کی خواہشات و سفارشات کا کردار۔
میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اقتدار میں آنے کے بعد نہ ہی صرف پارٹی منشور کو بھول جاتے ہیں بلکہ عوام سے جلسوں میں کئے گئے وعدے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے منشور محض خانہ پُری کے لئے اور وعدے محض ووٹ حاصل کرنے کے لئے کئے ہوتے ہیں۔ اس سیاسی و انتخابی کھیل میں خلوص کم اور ’’سیاست‘‘ زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاست کا مفہوم بدل چکا ہے اور عام طور پر لوگ سیاست کے لفظ کو فریب اور جھوٹ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ قائداعظم نے اپنی بے شمار تقاریر میں پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی، جمہوری اور روشن خیال ملک بنانے کے وعدے کئے تھے۔ وہ انسانی مساوات، قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف، معاشرتی برابری، جاگیرداری کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق اور معاشی ترقی و خوشحالی پر زور دیتے تھے۔ ان کی 11اگست کی تقریر کرپشن، سفارش، ذخیرہ اندوزی، فرقہ واریت اور منافع خوری وغیرہ وغیرہ کے خلاف جہاد اور اقلیتوں کو برابر حقوق دینے کا منشور تھی۔کچھ بزعم خود روشن خیال دانشور اس تقریر پر سیکولرازم کارنگ چڑھاتے ہیں جبکہ دراصل یہ ساری باتیں اسلامی نظام کے نمایاں خطوط ہیں جس کی بے شمار مثالیں خلافت ِ راشدہ کے دور میں ملتی ہیں۔ دین سے بیزار اور شریعت کو شدت پسندوں کا ہتھیار سمجھنے والے لکھاری قائداعظم کے تصور ِ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے بحیثیت گورنرجنرل پاکستان فروری 1948 میں عیدمیلاد النبیؐ کے مبارک موقع پر کراچی بارایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ لوگ شرارت کر رہے ہیں کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ نہیں ہوگا۔
پاکستان میں شریعت نافذ کی جائےگی۔ پھر قائداعظم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اس خواہش کااظہار کیا تھا کہ تحقیق کے ذریعے مغربی نظام معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظام معیشت کا تصور پیش کیاجائے۔ قائداعظم کی شریعت سے مراد ہرگز تھیوکریسی، ملّائیت اور مذہبی ریاست نہیں تھی، اس سے مراد ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست تھی۔ اگر شدت پسندوں نے خون بہانے کے لئے مذہب اورشریعت کو استعمال کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم دین سے بیزار ہو جائیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب کو ہر دور میں مختلف گروہ اپنے مقاصد اوربعض اوقات فتنہ پروری کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت بڑی اکثریت نہ کبھی گمراہ ہوئی اور نہ ہی مذہب سے بدظن ہوئی۔ ہٹلر نے جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا اور بدترین آمریت مسلط کردی لیکن جمہوریت نواز جمہوریت سے بدظن نہ ہوئے۔ بہت سے ممالک میں جمہورتیں آمریتوں کالبادہ اوڑھتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود جمہوریت پر یقین قائم ہے۔ اگر بعض گمراہ گروہ مذہب اورشریعت کے نام پر گمراہی پھیلاتے اور کشت و خون کرتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم مذہب یا شریعت ہی سے تائب یا بدظن ہو جائیں۔ مت بھولیں کہ اقبال نے قائداعظم کے نام خط میں یہ واضح کیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے معاشی اور دیگر مسائل کا حل شریعت کےنفاذ میں پنہاں ہے۔ اس سے ہرگز مراد ملّائیت نہیں تھی بلکہ اس سے مراداسلامی ریاست کا فلاحی پہلو تھا جس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جس کے وعدے، شریعت کا نام لئے بغیر، ہر سیاسی پارٹی پاکستان میں کرتی رہی ہے چاہے وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ ہو یاانسانی مساوات، معاشی عدل، شہری برابری، ریاستی وسائل کی منصفانہ تقسیم، انصاف کی فراہمی وغیرہ وغیرہ کاوعدہ ہو۔
قائداعظم کو اپنے تصور ِ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کا وقت نہ ملا، اگرچہ انہو ںنےاپنی بے شمار تقاریر میں اس تصور کے خطوط بار بار نمایاں کئے۔ قیام پاکستان کے بعد ملک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھا، مہاجرین کی آبادکاری سے لے کر خالی خزانہ اور مالی وسائل کے قحط تک بے شمار مسائل کاسامنا تھا۔ پھر مارچ کے بعد قائداعظم علیل ہوگئے اور ستمبر 1948میں رحلت فرما گئے لیکن بحیثیت گورنر جنرل پاکستان انہوں نےایک سال کے دوران جس طرح قومی خزانے کے تقدس، پائی پائی کا حساب، سادگی،قانون کی حکمرانی، سفارش و اقربا پروری کی نفی، کرپشن کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق اور ملکی وقار کی مثالیں قائم کیں ان کی ہماری 70سالہ تاریخ میں مثالیں نہیں ملتیں۔ بدقسمتی سے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملکی اقتدار پر بیوروکریسی، جاگیردار او رخودغرض سیاستدان حاوی ہوگئے اورقائداعظم کے منشور کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ اس کے باوجود پاکستان کا مالی و معاشی اور دفاعی حوالوں سے مضبوط ملک بن کر ابھرنا اور 1956میں تاخیر سے دستور بنا لینا بہرحال ایسے کارنامے تھے جن کا کریڈٹ کسی حد تک اس دور ِحکومت کوملنا چاہئے۔ عجیب بات ہے کہ اس دور ِ حکومت میں حکمرانوں کا دامن مالی کرپشن، کمیشن خوری، اقرباپروری، غیرممالک میںاثاثوں اور قومی خزانے کےبے دریغ ضیاع جیسے الزامات سے تقریباً صاف رہا۔ سیاسی حکمرانوں میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے پارٹی منشور کا احترام تھااور مجھے یاد ہے کہ وہ گاہے بگاہے منشور میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کاجائزہ لیتے رہتے تھے۔ قانون کی حکمرانی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ، روٹی کپڑا مکان، سوشلزم اور مساوات تو محض کاغذی شیر ہی رہے کیونکہ ان خوابوں کی تکمیل بھٹو کے بس کا روگ نہیںتھا لیکن اپنے تئیں انہوں نے ادھورے دل کے ساتھ جو زرعی اصلاحات کیں، وہ اس سمت میں ایک اہم قدم تھا البتہ ان کی منصوبہ بندی کے بغیر اور حدسےتجاوز کرتی ہوئی نیشنلائزیشن (قومیانے کی پالیسی) نے ملک کا بیڑا غرق کردیا۔
فوجی حکومتوں کو معاف کردیجئے کہ وہ منشور سے بالاتر اور ذات کے حصار میں گرفتار ہوتی ہیں۔ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں یا لبرل ازم اورروشن خیالی کی علمبردار بن جائیں، مقصد ذاتی اقتدار کی حفاظت اور توسیع ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اقتدار میں آنے والی سیاسی و منتخب حکومتوں نے کبھی بھی اپنے انتخابی منشور اور عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ تعلیم و صحت کے حوالے سے کئے گئے وعدے ہمارے حکمرانوں کی کبھی بھی ترجیح نہیں تھے اور نہ ہی ان میں ان شعبوں کی اہمیت ،انسانی وسائل کی ترقی وغیرہ کا شعور تک موجود تھا۔رہا معاشی خوشحالی، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور کرپشن کا انسداد ان وعدوں کا اب تک جو حشر ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے البتہ کرپشن دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہی ہے اور ہمارے حکمرانوں کے بیرون ملک اثاثے حیرت انگیز رفتارسے بڑھتے رہے ہیں۔ حکمران طبقے امیر اور ملک و عوام غریب ہوتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ نہ جانے کون اس سلسلے کو روکے گا اوربے رحم احتساب کرکے لوٹ مار، قومی وسائل کے زیاں اور حکمرانوں کی عیاشیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔
جاتے جاتے ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا چلوں۔ وہ یہ کہ عمران خان کا لاہوری جلسہ بڑا تھا یا بہت بڑا، اس میں بعض مقررین نے غیرمہذب زبان استعمال کی یا نہیں۔ ان باتوں سے قطع نظر عمران خان کو اتنا کریڈٹ تو دیجئے کہ اس نے پاناما لیکس کے ایشو کو زندہ رکھاہوا ہے اور اس حوالے سے عوام میں شعور کی لہر پیدا کر رہا ہے و رنہ اب تک پاناما لیکس قصہ ٔ پارینہ ہوچکی ہوتی۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ پاناما لیکس ملکی وسائل کی چوری اور منی لانڈرنگ کے ذریعے قومی دولت کی بیرون ملک منتقلی کی داستان ہے۔ اسی طرح کی وارداتوں نے پاکستان کو غربت اورکرپشن کے چنگل سے نکلنے نہیں دیا۔ ان کے خلاف مہم جوئی قومی خدمت ہے اور احتساب کا مطالبہ پاکستان کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس لئے احتساب..... بے لاگ احتساب..... کے مطالبے کی حمایت ہمارا قومی فرض ہے۔