ہوم << مولانا محترم کو کیا تحفہ پسند آئےگا - اختر عباس

مولانا محترم کو کیا تحفہ پسند آئےگا - اختر عباس

اختر عباس میری زندگی کا پہلا خوبصورت بابا
’’وننگ لائن پر کون پہنچاتاہے‘‘ بڑی محبت اور توجہ سے لکھی کتاب ہے جو زندگی میں کامیاب ہونے، آگے بڑھنے اور قابل رشک عادتوں اور خوبیوں کو اختیار کرنے پر بات کرتی ہے۔ میں نے اس کا انتساب اپنی زندگی کے دو بہت ہی پیارے اور محترم بابائوں کے نام کیا تھا۔
’’دونوں سے عمر کے مختلف حصوں میں محبت کی، دونوں سے سیکھنے کی کو شش کی، جہاں محبت ہو وہاں چاہے ان چاہے دل بہت سی باتیں آسانی سے مان لیتاہے، آنکھیں بہت سی باتیں سن لیتی ہیں اور یوں رو ح خوب آسودہ ہو جاتی ہے۔ اے پیارے بابو! مری زندگی کو اس قدر خوشی، آسانی اور آسودگی عطا کر نے کا شکریہ۔‘‘
سید ابوالاعلی مودودی جنہیں میں اپنی زندگی کی اولین یعنی پہلی محبت سمجھتا ہوں، اپنی تحریر کی خوبصورتی، تاثیر کی شدت اور دلیل کی مضبوطی کے ساتھ مرے دل میں تب داخل ہوئے جب میں نے کالج کے پہلے سال میں قدم رکھا تھا، وہ آج تک وہاں شاد اور آباد ہیں۔ انہوں نے کیا خوب کہاتھا
’’اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو لے کر اٹھو اور ساری دنیا پر چھا جائو‘‘
میں نے یہ جملہ اپنے لیے ہدایت اور حکم سمجھا اور سیدھا پینٹر کے پاس جا کر ایک بڑ ے سے بورڈ پرلکھوا کر واپس آیا، یہ 1984 کا تیسرا مہینہ اور چوتھی تاریخ تھی۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور، جس کے ایک کمرے میں میری رہائش تھی، اسی بلڈنگ کی دوسری منزل پر جب یہ بورڈ لگوا چکا تو ایسا محسوس ہوا جیسے مولانا نے اس راستے سے گزرتے ہوئے مسکرا کر مجھے دیکھا اور کہا ہو
’’ میرے بیٹے! تو نے اچھا تحفہ دیا ہے ۔‘‘
وہاں سے ٹھیک ایک گھر اور ایک ڈسپنسری چھوڑ کر ان کا گھر تھا۔ ادارہ مطبوعات طلبہ کا انچارج بنا تو اسی جملے کو پہلی بار کاپیوں، کیلنڈروں اور سینکڑوں سٹکرز کی زینت بنا دیا، یہاں تک کہ یہ ٹرینڈ بنا اور شہر شہر دیواروں پر چاکنگ کا پسندیدہ جملہ بن گیا۔ 5 اے ذیلدار پارک یعنی مولانا محترم کا گھر جہاں بر سوں ہم ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں اداکر تے رہے، ان کے برآمدے میں بچھی صفوں کے ساتھ ہی مولانا محترم کے لکھنے والے کمرے کا دروازہ تھا جس کے پیچھے بیٹھے میں نے ان کو پہلی بار 1979ء میں دیکھا تھا اور دل ہار دیا تھا۔ تب ایس ای کالج بہاولپور میں طلبہ یونین کا الیکشن جیت کر میں یو نین کا جوائنٹ سیکرٹری بن چکا تھا اور اپنے صدر میاں طفیل [سکاڈرن لیڈر] اور ظفراللہ عاصم چوہدری [تحصیلدار] کے ہمراہ اسلام آباد جاتے ہوئے ان کو دیکھنے رکا تھا، میں نے ان کے بالکل ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھی، وہ اپنی ویل چئیر پر تھے۔ میں کنَ اکھیوں سے اس خوبصورت بابے کو دیکھتا رہا، آنکھیں ملانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ ان کے بے شکن کپڑوں اور عمدگی سے تراشی ہوئی داڑھی میں کھویا رہا۔ نماز کے فوراً بعد انہیں واپس اپنے مطالعہ کے کمرے میں لے جایاگیا۔ ان سے محبت کرنے والے دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو انہیں پڑھ کر دلیل کے ساتھ نئے سرے سے مسلمان ہونے کی خوشی اور لذت سے ہم کنار ہوئے تھے، انہیں لگتاتھا کہ برسوں سے وہ اپنے رب کو ماننے کے باوجود ٹھیک سے نہ جان پائے نہ مان پائے، اور دوسرے وہ جنہوں نے ان کو جان کر، سن کر بالکل ان جیسا بننے کا فیصلہ کیا اور پھر ویسے ہی سوچنے اور ویسے ہی جینے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا، رب کی محبت کو لازم کر لیا اور اس کے پسندیدہ نظام کو غالب کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا، جہاں جہاں وہ رہتے تھے اپنے آس پاس اسی دعوت کو عام کرنے لگے، لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیاں بھی تعمیر کرنے لگے۔
جیسے کسی نے دلائل کی ایلفی لگا دی ہو
مولانا محترم نے دونوں کو انگلی پکڑ کر رب سے، اس کی پسند سے، اس کی کتاب سے اور اس کے پسندیدہ نظام اور تصور زند گی سے ایسا جوڑ دیاجیسے کسی نے دلائل کی ایلفی لگا دی ہو، ان میں طالب علم اور پڑھے لوگ زیادہ تھے، دوسری طرف جنہوں نے انہیں نہ صرف پڑھا بلکہ ان کے بارے میں ڈھیروں الٹی سیدھی باتیں بھی سنیں اور پھر عصر کے بعد ان کے لان میں بیٹھ کر انہیں دیکھا اور سنا جہاں روز عصری مجلس منعقد ہوتی تھی۔ ان کی حیرت نہ جاتی تھی کہ ایک معروف مشہور عالم اور راہنما کیسے اتنے دھیمے، مضبوط، مہربان اور معاف کرنے والے استاد اور انسان ہو سکتے ہیں جنہیں غصہ نہ آتا ہو، جو اپنے خلاف بات سن کر بےمزہ نہ ہوتے ہوں، یوں آسانی سے اپنے مخالفوں کو معاف کر دیتے، وہ اپنی محفل اور الفاظ میں دوسروں کے خلاف بات کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔ انہیں پڑھا تو پتا چلا کہ سید ابولااعلی مودودی اپنے عہد کے ان نوجوانوں میں سے منفرد مقام اور مرتبہ رکھتے ہیں جنہیں مدارس یا انگریز ی سکولوں سے تعلیم پانے کا موقع ملا، انہوں نے اپنے ذاتی مطالعے کو ایک نظام اور مقصد کے تحت عمدگی سے مکمل کیا۔ وہ اردو، عربی اور انگریزی کی تمام تاریخی اور دینی کتابوں کو فہم اور تدبر کے اس درجے تک لے گئے جہاں دنیا نے خود انہیں ایک عالم اور مفکر کے طور پر تسلیم کر لیا۔ ان کی باتیں اور کتابیں دلائل کی مضبوط ایلفی سے فطری طور پر جڑی ہوئی تھیں، تفہیم القرآن نے کم پڑھے لکھوں سے لے کر دانش وروں تک، سبھی کے دلوں کو مسخر کیا، انہیں پھر سے قرآن کے آگے جھکا دیا۔ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات کا ذکر ہو کہ شارع قرآن حضرت محمد ﷺ کی سیرت سرور عالم ہو، تجدید احیائے دین ہو یا تفہیمات اور رسائل و مسائل، مولانا نے پہلی بار پرائیویٹ جہاد سے انکار کیا، اسے صرف سٹیٹ اور حکومت وقت کا حق بتایا، تب اس بات پر انہیں الزامات کی زد پر رکھ کیا گیا، آج وہی بات سات پردوں میں بھی اپنی سچائی اور گہرائی کے ساتھ موجود ہے۔ اجتہاد کی بات کی تو عملاََ کر کے بھی دکھایا، صدر ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت ہی نہیں کی، ساتھ بھی دیا اور لکھا کہ فاطمہ جناح میں اس کے سوا کیا کمی ہے کہ وہ ایک عورت ہے اور ایوب خان میں اس کے علاوہ کون سی خوبی ہے کہ وہ ایک مرد ہے۔ عبدالشکور جو ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کے صدر تھے، بتاتے ہیں کہ مولانا کو پنجاب یونیورسٹی بلایا۔ وہ مان گئے، تیاریاں مکمل تھیں کہ وائس چانسلر صاحب نے ان سے رابطہ کیا، اور مولانا نے صرف اس بنیاد پر کہ ادارے کا سربراہ مشکل میں ہے اور اس پروگرام میں آمد پر خوش نہیں ہے، اپنے ہی بیٹوں سے ایک خط لکھ کر معذرت کر لی۔ حافظ ادریس صاحب کی صدارت کے دنوں میں طلبہ نے وی سی صاحب سے بدتمیزی کی تو مولانا نے ببانگ دہل اس کی مذمت کی، اس پر دلی دکھ کا اظہارکیا اور اپنے معنوی بچوں کو اس غلطی پر پوری دلسوزی سے متوجہ کیا۔
میں مولانا کی طلبہ کے لیے بنائی گئی تنظیم اسلامی جمعیت کا حصہ بن چکا تھا جب انہیں دنیائے اسلام کے سب سے بڑ ے عالم اور مفکر کا ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ بہت اعزاز کی بات تھی۔ مولانا نے ایوارڈ کو قبول کر کے اس کی عزت اور و قعت بڑھا دی مگر دنیا حیر ان رہ گئی کہ اس پا ک نفس راہنما نے ایوارڈ کے ساتھ ملنے والے پانچ لاکھ ریال کو جو آج کے پانچ کروڑ سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل تھے، کراچی اور لاہور میں ادارہ معارف اسلامی بنانے اور دین کے فکری کام کو آگے بڑھانے کےلیے وقف کر دیے، اور جمعیت کے بچوں کی فرمائش پر ایک لاکھ روپے جمعیت کو بھی دیے۔ مری سوچ کو مولانا کی جس تحریر نے تبدیل کیا، وہ خطبات حصہ دوم تھی اور اس میں خاص طور پر وہ خطبہ جس میں وہ نمازوں کے بےاثر ہونے کی وجہ بتاتے ہیں۔ میں فلم بھی شو ق سے دیکھتا تھا اور نمازیں بھی باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ پسند اور ناپسند کے معیارات اپنی مرضی، مفاد اور ضرورت کے لحاظ سے بنتے اور بگڑتے تھے۔ پھر یہ بھی خیال تھا کہ ایسا کیا ہے کہ ملک میں تبدیلی نہیں آتی، اسلامی سوچ والے لوگ حکمران بن کر اس سوچ کا بول بالا کیوں نہیں کر دیتے، انہوں نے لکھا کہ ’’یہ جو سامنے دیوار پر گھڑیال [دیواری گھڑی] لگی ہے، یہ تب ہی چلے گا اگر بنانے والے کی مرضی کے مطابق چلائو گے۔ اپنی پسند کے بڑے بڑے پرزے لگانے سے یہ وہ کام کبھی نہیں کرے گا جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔‘‘خطبات ایسی شاندار کتاب ہے کہ جس جس نے پڑھی اس کے دل کی سو چ بدل کر رہ گئی۔ چند برس قبل ہمارے دوست عبدالحفیط احمد نے خطبات کے 100 ایڈیشن مکمل ہونے پر ایک سال کے اندر اسلامک پبلی کیشنز کی طرف سے ایک لاکھ کاپیاں فروخت کر نے کا منصوبہ بنایا، وہ مشورے کے لیے خصوصی طور پر میر ے آفس بھی تشریف لائے۔ کچھ دوستوں کا خیا ل تھا کہ لوگ اب کم پڑھتے ہیں۔ میرا مشاہدہ اس سے مختلف ہے۔ پہلے تو صرف جماعت اسلامی کے لوگ پڑھتے تھے، اب ہر سال ہونے والے بک فئیر کے مواقع پر عام لوگوں کو ڈھیروں کتابیں لیتے اور پڑھتے دیکھ کر دل کو بڑا اطمینان ہوتا ہے۔ الحمدللہ مولانا کی تحریر کی تاثیر اسی شدت سے قا ئم ہے اور اس کو پڑھنے کا ذوق اور شوق بھی۔ خطبات کے اس نئے ایڈیشن کی پہلی کاپی جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے خریدی اور اس کی ایک لاکھ کاپیوں کی فروخت کے ہدف کی تکمیل کا باعث بھی وہی بنے۔ مجھے البتہ حفیظ بھائی نے بطور تحفہ پیش فرمائی۔ مولانا سے ان کی محبت بھی مثالی تھی۔ میں نے انہیں آخری سانس تک انھی کے کام سے وابستہ دیکھا، مولانا کی عصری مجلسوں کی روداد میں نے اکثر انھی سے سنی، یا پھر ان بزرگ دوستوں سے جنہیں مولانا محترم کی قربت ملی، ان کی خدمت کا موقع ملا، ان کو قریب سے دیکھنے اور ان کی ٹیم کا حصہ بن کر کام کا موقع ملا۔ قربت ہمیشہ محبت پیدا نہیں کر تی مگر صفدر چوہدری صاحب ہوں یا عاصم نعمانی صاحب، مولانا فتح محمد ہوں کہ خلیل حامدی، ان سب کے پاس ان کی یادیں بہت مثالی اور خوشی سے بھری ہوئی ہیں۔
مولانا سے محبت نے انہیں کیسے بدل کر رکھ دیا، کیسے قیمتی کردیا۔
جناب ظفر جمال بلوچ ہوں، لیاقت بلوچ، پروفیسر عبدالغفور ہوں یا پروفیسر خورشید احمد، نعمت اللہ خان ہوں کہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن یا میاں مقصود احمد جو آج بھی سفر میں ہوں یا دوستوں کی محفل میں شورش کشمیری مرحوم کے اشعار ترنم سے پڑھتے ہوئے رو دیتے ہیں ”اے میرے ملک کی اسلامی جماعت کے امیر“۔ یہ سب اور ان جیسے ہزاروں، کوئی کسی دیہات سے آیا تھا اور کوئی کسی بڑے شہر سے، مگر اس خوبصورت بابے اور اس کی تحریروں کی محبت میں ایسےگرفتار ہوئے تو اسی کے ہو رہے۔ مولانا کی نوجوانوں سے محبت کے باتیں کرتے یہ سبھی بےخود کیوں ہو جاتے ہیں۔ میرے بہاولپور میں قیام اور تعلیم کے دوران استاد محترم میاں سعید صاحب جو ایس ای کالج بہاول پور میں کیمسٹری کے استاد تھے، بتایا کرتے تھے کہ وہ شیخوپورہ سے عصری مجلس میں شرکت کےلیے لاہور آتے اور علم و محبت کے اس سرچشمے سے فیض یاب ہوتے۔ پہلے ان کے والد پھر وہ خود اور آج ان کے بچے، تیسری نسل ہے جو مولانا کی تحریروں اور باتوں کے سحر میں ہے۔ مولانا کو ان سے محبت کرنے اور پڑھنے والے مولانا محترم کہہ کر یاد کرتے تھے۔ یادوں اور باتوں میں حوالہ بھی اسی نام سے آتا ہے۔ مجھے ان کے بارے میں لکھی ایک کتاب 5۔اے ذیلدار پارک ہمیشہ بہت پسند رہی ہے، یہ انہی عصری مجالس کے احوال، سوالات اور جوابات کی اتنی عمدہ عکاسی کرتی ہے کہ پڑھنے والا مولانا کے حضور حاضر ہو جاتا ہے۔ اسے حفیظ الرحمن احسن، رفیع الدین ہاشمی اور مظفر بیگ نے مرتب کیا اور عبدالحفیظ احمد نے اسے شائع کیا تھا۔ مولانا سے محبت کا جو ملکہ آئین کے مدیر مظفر بیگ میں تھا، اس پورے عہد میں اتنی عمدگی اور شان سے شاید ہی کسی کو حاصل رہا ہو، اس سادہ سے آدمی کے اندر رب نے محبت، محنت اور دانش کے ڈھیر لگا رکھے تھے۔ ہفت روزہ ایشیا کے بانی مدیر جیلانی بی اے یعنی چوہدری غلام جیلابی اصلاََ ایک دہقان اور زمیندار ہی تھے مگر مولانا کی محبت نے انہیں اپنے عہد کا سب سے زیادہ صاحب مطالعہ شخص بنا ڈالا کہ ان سے ملنے والا ان کی باتوں سے مرشد کی باتیں ہی کشید کرتا۔ جناب عبدالجبار شاکر اور ڈاکٹر عبدلغنی فاروق کو مولانا سے محبت نے کیسے بدل کر رکھ دیا، کیسے قیمتی کردیا۔ اے کے بروہی سے خرم مراد تک، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری سے ڈاکٹر انیس احمد تک، اہل محبت اور اہل دانش کی قطاریں ہیں جو اس چشمہ فیض سے فیض یاب ہوئے اور پھر خود میٹھے چشمے بن گئے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی لکھی تفسیر تفہیم القرآن پڑھی تو پہلی بار پتا چلا کہ قرآن پاک کا موضوع ہی’’انسان‘‘ ہے۔ اس کے بعد اس کو پڑھنا اور سمجھنا بےحد آسان ہوگیا۔ ماشاء اللہ یہ تفسیر لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔ مولانا کا ترجمہ قرآن بھی لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے۔ اس تفسیر نے بہت دل بدلے، اس کا ابتدائیہ ہی بڑے خاصے کی چیز ہے، مولانا نے ترجمہ اور تفسیر کی تاریخ ہی نہیں بیان کی، اس کی تاثیر اور گہرائی پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے۔
’’عزیز نہیں عزیز جہاں تھا‘‘
25 ستمبر 1903ء اورنگ آباد، حیدرآباد دکن سے زندگی کا سفر شروع کرنے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 22 ستمبر 1979ء کو اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ بفیلو امریکہ سے لاہور آنے تک ہر ائیرپورٹ پر انہیں دعائوں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش ہوا، جنازے کے موقع پر قذافی سٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی، تب پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق کو ہیلی کاپٹر میں سٹیڈیم لانا پڑا تھا۔ رش کا یہ عالم تھا کہ سٹیڈیم میں گھسنے اور نکلتے وقت کتنے ہی لوگ زخمی ہو گئے۔ میرے بچپن کے ساتھی اور دوست ظفر جو اب لندن ہوتے ہیں، چشتیاں سے جنازہ پڑھنے کے لیے لاہور آئے تھے۔ ان کی پسلیاں اسی رش میں ٹوٹنے کے باعث کتنا عرصہ انہیں تکلیف دیتی رہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جنازہ پڑھنے اور آنسو بہانے والے وہ نوجوان جو اپنے مرشد کے لیے دعائوں کا نذرانہ لے کر آئے تھے، جس نے انہیں زندگی گزارنے، اپنی زندگی ہی نہیں دوسروں کی زندگی بھی تعمیر کرنے، بہتر بنانے کا راستہ دکھایا اور یہ بھی بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے لوگ غالب ہوں گے اور ملک و حکومت کے نظام کی اصلاح کر کے معاشرے کو ایک اسلامی اور فلاحی معاشرہ بنا سکیں گے۔ ان کا چہرہ دیکھنے اور آخری دیدارکرنے والوں کی چار میل لمبی لائن تھی جو شمع چوک سے ان کےگھر تک لمحے بھر کو بھی نہ ٹوٹی تھی یہاں تک کہ جنازہ اٹھا لیا گیا۔ ان کے سفر آخرت کے موقع پر بی بی سی لندن سے صدر ایوب کے زمانے کے ممتاز بیوروکریٹ اور ممتاز دانشور الطاف گوہر کے کہے ہوئے جملے آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں [انہوں نے تفہیم القرآن کا انگلش میں ترجمہ بھی کیا] لندن ائیر پورٹ پر مولانا کاجنازہ پڑھنے جاتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور سے جب جلدی چلنے کو کہا تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا کہ کیا کوئی عزیز تھا۔ الطاف گوہر کا جواب تھا ’’عزیز نہیں عزیز جہاں تھا‘‘
ایسے عالم بے بدل کو یاد کرنے کے لیے کوئی دن، مہینہ یا سال مختص نہیں ہو سکتا مگر ہم روایات سے بندھے لوگ اپنی محبتوں کے اظہار کے لیے کوئی مخصوص دن ڈھونڈتے ہیں۔ 5۔اے ذیلدار پارک والے گھر کے لان میں تہ خاک سوئے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کب سوچا ہوگا کہ ان کی وفات کے ربع صدی کے گزر جانے کے بعد بھی وہ تیسری نسل کے دلوں میں پوری محبت کے ساتھ یاد کیے جاتے رہیں گے۔ وہ گھر اب سید ابوالاعلیٰ لائبریری بن چکا ہے جہاں جمیعت کے نوجوان اپنے مرشد کو یاد کرتے ہیں۔ ان کو پڑھتے ہیں اور ان کے پسندیدہ معاشرہ کو بنانے کی جدو جہد کرتے ہیں۔ اسی گھر سے متصل ایک گھر کو ان کی صاحبزادی حمیرا مودودی نے خرید کر ابوالاعلیٰ مسجد بنا دی ہے۔ جہاں پانچ وقت نماز ادا کرنے والے جب باہر نکلتے ہیں تو انہیں سامنے سید کی قبر نظر آتی ہے اور وہ ان کے درجات کی بلندی کی دعا اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں جس کی تاثیر لان میں کھلے موتیا کے پھولوں کی خوشبو میں رچ بس کر ان تک بھی تو پہنچتی ہوگی۔ وہ زندگی بھر انسانوں کو اپنے رب سے ملاتے رہے، ان کے جانے کے بعد ان کی یادیں اور باتیں محبت ہی کی خوشبوئوں سے لپٹی ہوئی ہیں۔
اختلاف کرنے کے بھی تو آداب ہوتے ہیں
چند ماہ قبل اقبالیات کے ممتاز ماہر احمد جاوید نے مولانا محترم کے حوالے سے کچھ باتیں کیں، سن کر مجھے وہ اچھے لگنے لگے۔ میں کبھی کبھی مسکرا دیتا ہوں کہ ہم کتنے ہی بڑے اور سمجھ دار ہو جائیں، ہماری محبتیں ہمیشہ اپنی پسند و ناپسند کے غلافوں میں چھپے تعصبات سے جڑی رہتی ہیں جو ہم نے اپنی اپنی مرضی سے چڑھائے ہوتے ہیں۔ جو جو ہمارے محبوب کو پسند کرتا ہے، اس کی عزت کرتا، اسے عزیز رکھتا ہے وہی ہمیں عزیز ہوتا ہے، کوئی سو بار بھی کہے مگر اس معیار کو بدلنا بہت ہی مشکل ہو تا ہے۔
میری زندگی کا 1988ء میں حصہ بننے والے دوسرے بابے جناب اشفاق احمد بے شک بڑے ڈرامہ نگار، افسانہ نگار اور تمثیل نگار تھے، تصوف کے دروازے پر دستک دیتے وہ خود تو صوفی نہ بنے مگر کتنے لوگوں کو اس راہ سے آگاہ کر گئے ۔ ان کی باتیں سننا، انہیں دیکھنا، ان کی داستانوں میں کھو جانا سب برحق، وہ آسانیاں دینے کا گر سکھاتے تھے۔ پورے شہر میں ان سا بڑے دل والا، صاحب حال بابا کوئی اور نہیں تھا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ میرے دل میں وہ تبھی اترے جب انہوں نے میرے مرشد کا ذکر پیار و محبت سے کیا، کبھی اختلاف بھی کیا تو میرے دل کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر، دھیرے سے کہ اختلاف کرنے کے بھی تو آداب ہو تے ہیں، دل دکھانا کب لازم ہوتا ہے، تکلیف پہنچانا کب مطلوب ہوتا ہے۔ 2004ء کو وفات پا جانے والے اس بابے کے لیے بھی میرے رب نے ستمبر ہی کو چنا۔ اس جہاں سے رخصت ہونے تک وننگ لائن پر پہنچانے والا یہ دوسرا بابا ہے جو میری زندگی میں آیا ہے اور اسے مزید مٹھاس سے بھر گیا۔ اللہ کے گھر گیا تو میں نے اپنے دل سے پوچھا تمہیں کون کون زیادہ عزیز ہے، کس کس کے لیے دعاء کرو گے اور کس کے لیے عمرہ تو ان دونوں باباؤں کے لیے ہی عمرہ کرنے کی لذت پائی، [ویسے مجھے وہاں ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، خرم مراد اور جیلانی بی اے بھی خوب یاد آئے تھے] ، واپس آیا تو وہ اشفاق صاحب کی واپسی کے دن تھے، سیدھا ان کے گھر گیا، بانو آپا اندر لے گئیں جہاں انہوں نے زندگی کا زیادہ وقت گزارا تھا، ان کی پائنتی پر بیٹھ کر انہیں بتاتے ہوئے میری آواز ہی رندھ گئی کہ خان صاحب آپ کیسے خوش بخت ہو اور کہاں کہاں جا کر آپ یاد رہتے ہو، میرا رب آپ کو اپنے ہاں بھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ مولانا سے ایسی محبت بھری باتیں کتنے ہی لوگوں نے ان کی زندگی میں کی ہوں گی کہ محبتیں تو ساری ایسی ہی ہوتی ہیں بے لوث اور بے پناہ۔
مولانا محترم کی ایک بات عہد حاضر میں سب سے نرالی ہے
مولانا محترم کی ایک بات عہد حاضر میں سب سے نرالی ہے، وہ یہ کہ ملک کے اندر تو وہ محبت اور تعلق کا حوالہ ہیں ہی، ملک سے باہر جہاں جہاں جانے کا اتفاق ہوا، جو محبت ان کے حوالے سے ملی، اس کی اپنی ایک الگ لذت ہے۔ کسی کو ان کی کتاب دینیات پسند ہے اور کسی کو خطبات، کسی کو پردہ نے متاثر کیا اور کسی کو سود نے، خلافت و ملوکیت پر بڑی بڑی بحثیں ہوا کرتی تھیں، میں نے سبقاَ سبقا ساری کتاب پڑھی، پتا چلا سب کچھ تو پہلے ہی تاریخ کا حصہ ہے، الفخری میں اس جیسی کئی باتیں دیکھ چکا تھا۔ ہر عہد میں کسی نہ کسی نے اس موضوع کو ضرور چھیڑا ہے کیونکہ مسلمانوں کے زوال کی کئی علامتوں کا اس میں بیان ہے، اسی عہد میں سیکھا کہ کسی کو مولانا کی کتاب اور باتیں پسند نہ بھی ہوں تو مولاناکہتے تھے کہ میں کوئی معیارحق تھوڑی ہوں کہ تم اختلاف کرنے والے سے لڑ پڑو، اسے اپنی رائے رکھنے دو، تمہیں البتہ اپنی بات اور دعوت کی سچائی کا یقین ہونا چاہیے، اسی لیے میں نے زندگی بھر مولانا کے حوالے سے کسی سے بحث نہیں کی، ہاں اب جو فیشن میں کبھی کوئی کہے کہ مولانا حرف آخر نہیں ہیں، ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، تو میں ضرور کہتا ہوں کہ بھائی اس کے لیے بھی لازم یہ ہے کہ پہلے ان کو پڑھ تو لو، پھر کہنا کہ ان کی کس بات اور کس دلیل سے آپ کو اختلاف ہے۔ وہ اگر اپنے آباؤ اجداد سے مختلف رائے رکھ سکتے ہیں تو اپنے پیرو کاروں کو اختلاف کی اس آزادی اور حق سے کیوں روکنے لگے۔ [ Towards Understanding Islam] ان کی ایک ایسی کتاب ہے جو نوجوانوں سے لے کر بچوں تک سب کے لیے قابل فہم ہے، اور کمال اس کتاب کا یہ ہے کہ وہ فہم اسلام ہی بدل دیتی ہے۔ وہ جذبات سے ہٹ کردلیل کی زبان اختیار کرتے ہیں اور منوا کر اپنے پائوں پر مضبوطی سے کھڑا کر دیتے ہیں۔ دینیات میں انہوں نے لکھا ’’ انسان اپنے لیے زندگی کا کوئی بھی راستہ اختیار کرنے میں آزاد ہے۔ کوئی بھی عقیدہ رکھ سکتا ہے۔ وہ اپنے رویے اور کردار کا تعین کر سکتا ہے، اپنے ذہن سے سوچنے، منتخب کرنے اور مسترد کرنے، اختیار کرنے یا چھوڑ دینے کی طاقت رکھتا ہے.‘‘ انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت ’’ لیس للانسان الا ماسعی‘‘ کو سمجھنا آسان کر دیا۔ دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے وہ مسلمان جو اللہ کے دین کو غالب کرنے کے خواہش مند ہیں، ان کے درمیان مولانا محترم اور ان کا لٹریچر محبت اور تعلق کی سب سے مضبوط کڑی ہے، اس کے بعد کسی اور تعارف کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ وہ امریکہ کا کوئی شہر ہو یا جنوبی افریقہ کا کوئی مقام، مشرق وسطی کا کوئی ملک ہو یا ایشیا کا سری لنکا اور بھارت، مولانا کی تحریر اور اثرات کی خوشبو ہر جگہ ہے۔ کہیں اردو کتاب کے ذریعے تو کہیں انگریزی، سواحلی، فارسی، چینی، روسی، ہندی اور عربی کتابوں کے ذریعے۔ کم از کم پچاس زبانوں کا تو مجھے علم ہے جن میں سید مودودی کی تعلیمات اور ان کی تحریریں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ 80 کی دہائی میں جب بھی کبھی پنج دریا روڈ پر واقع میٹرو پریس جانے کا اتفاق ہوتا تھا تو وہاں مولانا کی تفسیر کا روسی زبان میں ترجمہ چھپتے دیکھا، یہ اتنی بڑی تعداد ہوتی تھی کہ اکثر پریس کوئی دوسرا کام کرنے سے معذرت کرلیتا تھا۔ میں تب ادارہ مطبوعات طلبہ کا مہتمم یا انچارج تھا، اور یہاں لیاقت بلوچ صاحب اور افتخار کھوکھر صاحب مینیجر ہوا کرتے تھے۔ مولانا کی کتابوں کا بڑا حصہ ادارہ ترجمان القرآن والے شائع کیا کرتے ہیں، ان کی تفسیر کی کچھ سورتیں جو جمیعت کے نصاب میں شامل تھیں، مولانا کے بچوں کی اجازت سے بغیر رائیلٹی کے ایک الگ کتاب فہم القرآن کے نام سے ادارے نے بھی برس ہا برس شائع کی۔ اسلامک پبلی کیشنز کا ایک پورا شعبہ صرف مولانا کی کتابوں کو بذریعہ ڈاک، بذریعہ جہاز اور بحری جہاز بیرون ملک بھجوایا کرتا تھا اور ان کے پاس کبھی آرڈرز کم نہیں ہوتے تھے۔ عبدالوحید خان صاحب اسلامک کے سربراہ تھے اور شاہ عالم مارکیٹ ۱۳۔ ای میں ان کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ پین اسلامک والے شمسی صاحب کا تو سارا کام ہی بیرون ملک کتابوں کی ترسیل سے وابستہ تھا۔
مولانا چاہتے تھے کہ تحریک اسلامی کا ہر فرد مرجع خلائق بنے:
مولانا محترم کی ایک کتاب تنقیحات ہے۔ کیا باکمال اور دلپذیر تحریر ہے۔ کچھ لوگ مشکل نام سمجھ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ اس میں ایک فکر اور ایک لائحہ عمل کا ذکر ہے۔ مولانا چاہتے ہیں کہ تحریک اسلامی کا ہر فرد مرجع خلائق بنے۔ یہ مرجع خلائق سو خوبیوں کی ایک پیکج ڈیل سمجھیں۔ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، معاف کرنے والا، صاحب دل، صاحب کردار، صاحب فہم، صاحب تدبر، صاحب رائے، صاحب مشورہ، صاحب مطالعہ، صاحب تقریر، صاحب تفسیر، صاحب تحریر جیسی اعلیٰ انسانی خوبیوں کا مرقع۔ اس سے ملنے کے بعد کسی اور طرف جانے کی کوئی وجہ اور حاجت ہی باقی نہ رہے۔ رسول محبوب ﷺ نے اپنے رب کے حکم سے ایسے ہی صحابہ تیار کیے جو ان کے نمائندہ بنے اور جہا ں جہاں گئے مرجع خلائق ٹھہرے۔
مولانا آج زندہ ہوتے تو تحریک اسلامی کا حصہ وہ نوجوان جو ہر کسی پر تنقید کے تیر برسانے کو تیار ہی بیٹھے ہوتے ہیں اور جذبات سے بھرے وہ احباب جو سوشل میڈیا پر ہر ہر بات، واقعہ اور خبر پر فوری ردعمل دینے کو ایمان اور اخلاق کا حصہ گردان کر شدید قسم کا دل توڑ ذاتی تبصرہ فرماتے ہیں، ان کی نظر سے مولانا محترم کی یہ کتاب اور تحریر تو ضرور گزرنی چاہیے۔ تحریک اسلامی اور آج کی جماعت اسلامی کا مخلص کارکن مرجع خلائق ہی ہونا چاہیے۔ وہ دل توڑنے والا، تبصرہ کرکے بدمزگی کا شکار ہونے والا، ہر موقع پر ذاتی رائے دے کر دلوں کو تنگ کرنے والا اور دوسروں کو ہر صورت میں غلط ثابت کرنے والا تو کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ مولانا محترم عمر بھر تنقید کے تیر سہتے اور طنز و الزام سنتے رہے مگر ان کے الفاظ اور زبان کسی سخت جواب سے آلودہ نہ ہوئی۔

چہرے بدل جاتے ہیں، حکومتیں بدل جاتی ہیں مگر دعوت اور اچھی سوچ نہیں بدلتی
آج ان سے محبت کرنے والے انہیں اپنی برداشت کا بہت اچھا تحفہ د ے سکتے ہیں۔ ایسا کر کے اپنی اور ان کی نیک نامی میں اضافے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اسلامی تحریک کی قوت اور دعوت کی توسیع کی وجہ بن سکتے ہیں۔ مولانا کے ساتھ کام کرنے والے سارے ہی لوگ اپنی جوانی میں بھی اخلاص، اخلاق اور کردار کے لحاظ سے بڑے بی بے اور سادہ لوگ تھے، وہ مولانا کی تحریروں کو لقمہ لقمہ کرکے اپنی ذات کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے تبھی ان سے ملنے والے ان کو بھول نہیں پاتے، علی احمد چوہدری ہوں، غلام محمد صاحب ہوں یا ڈاکٹر نذیر شہید، کس کس مخلص کارکن کا نام لوں، یہ سب مولانا کی معنوی اولاد کی طرح تھے، آج تک یہ تعداد لاکھوں میں پہنچی ہے تو نئے عہد کے چاہنے والوں کی محبت اور چاہت سے اسے کروڑوں میں جانا چاہیے۔ دلیل اور تعلیم سے، محبت اور تفہیم سے، غصے سے تو نہ دعوت پھیلتی ہے نہ ذاتی اثر اور نفوذ۔ اللہ سے محبت ہے تو اس کے بندوں سے بھی کرنی ہوگی، ان کی خیر چاہنی ہوگی، ہر سیاسی اور ہر حکومتی سیٹ اپ پر تنقید سے وہ چند سال تو اچھے گزر جاتے ہیں، مصروف اور سرگرم مگر اصل کام رہ جاتا ہے۔ یہ بات جتنی آج کے نوجوان سمجھ سکتے ہیں شاید چند برس پہلے کہی جاتی تو اس کی اس قدر تفہیم مشکل ہوتی۔ چہرے بدل جاتے ہیں، حکومتیں بدل جاتی ہیں مگر دعوت اور اچھی سوچ نہیں بدلتی، اس کی اثر پذیری اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار سے ہی جڑی رہتی ہے.
دنیا کی تمام اچھی باتیں اور یادیں پرانی ہو کر گم ہو جاتی ہیں، اگر انہیں تازہ دم محبت کے پانیوں میں نہ رکھا جائے۔ میری آرزو ہے کہ مولانا محترم کی یادوں کے پھول کبھی خشک نہ ہوں، ان کی تحریروں کی خوشبو برقرار رہے اوروہ ایسے ہی اثر کرتی رہیں جیسے ان کی زندگی میں ہوتا تھا۔ میرا یہ ڈر کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہیرو، آئیڈیل اور ان کی دانش کی تاثیر، سب بدل جاتے ہیں، اگر ان سے جڑے لوگ مرجع خلائق نہ رہیں، ان کی زندگیاں اور عمل بےتاثیر ہو جائیں۔ مولانا محترم سے محبت کرنے والے جنہوں نے انہیں نہیں دیکھا، نہیں سنا، ابھی بھی ان سے جڑے رہنے کا لطف لے سکتے ہیں، اگر وہ ان لوگوں سے ملتے رہیں جو ان کے قریب تھے، جنہوں نے انہیں کام کرتے، مشکلوں کا مقابلہ کرتے، تہمتوں پر صبر کرتے دیکھا تھا، ذاتی یا جماعتی حیثیتوں میں ان کے قریب رہے۔ ایسے منتخب افراد، اصحاب و احباب سے ملاقاتوں کی ایک اپنی خوشبو ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر مولانا کی کتابیں جو کبھی پرانی نہیں ہوتیں، ان کے پیغام اور دلیل کی خوشبو کبھی کم نہیں ہوتی۔

یہی وہ تحفہ ہے جو مجھے لگتا ہے کہ مولانا کو بھی پسند آئے گا، ان کے دل کو بھائے گا اور آپ کو لوگوں کے دلوں میں بسائے گا۔
(اختر عباس مصنف، افسانہ نگار اور تربیت کار ہیں۔ سترہ برس نوائے وقت کے پھول میگزین، قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ اردو میں نئی نسل کے لیے ان کی۲۵ کتابیں دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد شائع ہو چکی ہیں، ان کی شخصیت سازی پر پانچ منی بکس ہیومن اپیل لندن نے پانچ لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے آزاد کشمیر کے ایک لاکھ طلبہ تک پہنچائیں، انہیں اس سال یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ایک کتاب’’ آداب زندگی کے‘‘ کی اشاعت نے بھی اسی برس پچاس ہزار کا ہدف عبور کیا۔ اخترعباس ممتاز تربیتی ادارے ہائی پوٹینشل آئیڈیاز کے سربراہ ہیں۔ ان سے ان کے فیس بک پیج akhter.abbas اور ای میل akhterabas@ymail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے. یہ تحریر ان کی اپنے اس بابے سے محبت کا اظہاریہ ہے جو ان کی زندگی میں بادل اورگھنے سائے کی طرح رہا اور ان کی سوچ کو پانی اور زندگی کو اچھی تحریروں کا سایہ دیتا رہا۔)