ہوم << سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ایک عہد ساز شخصیت - توقیر ماگرے

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ایک عہد ساز شخصیت - توقیر ماگرے

سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد 584ء میں پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام عمر رکھا۔ تاریخ کی کتابوں میں آپ کے بچپن کے حالات و واقعات بہت کم ملتے ہیں. چند جگہوں پر یہ روایت پائی جاتی ہے کہ آپ رض اپنے والد کے اونٹ چرایا کرتے تھے، اس کے علاوہ آپ نے فن سپہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔ حضرت عمر رض کا قد لمبا اور رنگ سفیدی مائل تھا، آپ مضبوط بدن کے مالک تھے، اور تمام آدمیوں میں اونچے معلوم ہوتے تھے۔ حصرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کی بہن فاطمہ رض اور بہنوئی سعید رض نے اسلام قبول کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی فظیلت بیان کرنے کے لیے یہ ایک بات ہی کافی اہمیت کی حامل ہے کہ آپ کو حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالی سے خاص طور پر مانگ کے لیا۔
سیدنا عمرفاروق کی بہادری و شجاعت کا ڈنکا سارے عرب میں بجتا تھا۔ آپ کے قبول اسلام سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا، جہاں کفار کے خوف سے مسلمانوں کے لیے چھپ کے نماز پڑھنا مشکل تھا، آپ کے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں سرعام نماز ادا کی گئی۔ آپ نے تمام غزوات میں شرکت کی۔ رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ کفار کے بڑے بڑے پہلوان آپ کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ ہجرت کے موقع پر آپ نے کمال بہادری کا مظاہرہ کیا، جب سارے مسلمان کفار کے شر سے بچنے کے لیے خاموشی سے ہجرت کررہے تھے، آپ کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا، آپ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کرکے کہا کہ تم میں سے اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آ کر میرا راستہ روک کر دیکھ لے۔ کسی کافر کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپ کا راستہ روکنے کا سوچتا بھی۔
بارگاہ رسالت ﷺ سے آپ کو فاروق کا لقب ملا۔ آپ ﷺ ان چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ آپ کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ جس راستے سے آپ رض کا گزر ہوتا، شیطان وہ راستہ چھوڑ کر بھاگ جاتا (بخاری و مسلم)۔ فکر اور ذہانت کی بلندی میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا، جو بات حضرت عمر رض زبان مبارک سے ادا کرتے، اللہ پاک وہ قرآن مجید میں نازل فرما دیتا۔ قرآن پاک میں ایسی تقریبا سترہ آیات ہیں۔ جن میں خواتین کے پردے کے متعلق آیات بھی شامل ہیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر کی زبان پر اللہ نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقـی) ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا. (ترمذی) آپ ﷺ کا یہ فرمان بلاشبہ سیدنا عمرفاروق رض کے بلند رتبے پر مہر ثبت کرتا ہے۔
حضرت عمر رض ہر وقت مسلمانوں کی بھلائی کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ جب جنگ کے لیے سامان جمع کرنے کا مرحلہ آیا تو آپ رض اپنے گھر کا آدھا سامان بارگاہ رسالت میں لے کر حاضر ہوگئے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور جب آپ رض بستر مرگ پر تھے تو عیادت کے لیے ایک نوجوان آیا جس کا تہبند اس کے ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا تھا، اس موقع پر بھی اسے تہبند ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی نصیحت کی۔ حضرت عمر فاروق رض کے یہی وہ اعلی اوصاف تھے جن کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتداء کرنا۔ (مشکوۃ)
حضرت عمر فاروق رض عہد صدیقی میں حضرت ابوبکر صدیق رض کے مشیر رہے، سیدنا ابوبکر رض نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اگلے خلیفہ کے لیے حضرت عمر فاروق رض کا نام تجویز کیا جسے تمام صحابہ کرام رض نے بخوشی قبول فرمایا۔ آپ رض کا دور خلافت مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے، عرب سے آگے بڑھ کر عراق، ایران، مصر اور شام وغیرہ میں اسلام کا جھنڈا لہرایا، جو علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آجاتا آپ رض وہاں فوری مسجد کی تعمیر کا حکم دیتے تاکہ اس جگہ اللہ کے دین کی ترویج ہوسکے۔ آپ رض کے دور خلافت میں فتوحات کا جو سلسلہ شروع ہوا تو اسلامی مملکت کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل تک پہنچ گیا۔ آپ رض کا عدل و انصاف مثالی تھا، آپ رض انصاف کے معاملے میں مذہب، قوم، قبیلے یہاں تک کہ اپنے عزیز رشتہ داروں کو بھی کوئی فوقیت یا برتری نہیں دیتے تھے۔ آپ رض نے حکومت اس طرز سے کی کہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کو حکمرانی کرنے کا سلیقہ بتا گئے۔ آپ رض اپنی رعایا کے مسائل سننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے، غریبوں اور مسکینوں کے گھروں تک راشن اپنے کاندھے مبارک پر رکھ کر پہنچاتے تھے۔ آپ رض کا مشہور قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو قیامت کے روز اس کا حساب مجھ سے لیا جائے گا۔
سیدنا عمر فاروق رض انتہائی مدبر، زیرک اور انسانیت کے لیے ہمدردی رکھنے والے تھے، آپ رض نے اسی مدبرانہ انداز سے قبلہ اول بیت المقدس بھی فتح کیا۔ آپ رض کے دور خلافت میں باقاعدہ عدالتی نظام قائم ہوا، امن و امان کی قیام کے لیے پولیس کا محکمہ قائم کیا، ریاست کے اہم مراکز میں فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں، مسلمان معاشی طور پر مستحکم ہوئے تو بیت المال کا قیام عمل میں آیا، مسلمانوں میں اتحاد کے فروغ کے لیے شرعی مسائل میں اصول قیاس قائم کیا۔
27 ذی الحجہ 23 ہجری بروز بدھ فجر کی نماز کے دوران مسجد میں چھپے ہوئے ایک بدبخت مجوسی ابو لولوفیروز نے خنجر سے وار کرکے زخمی کردیا۔ زخم اس قدر شدید تھے کہ یکم محرم 24 ہجری کو آپ رض ساڑھے دس سال خلیفہ رہنے کے بعد شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔ ام المؤمنین سیدنا عائشہ صدیقہ رض کی اجازت کے بعد آپ رض کو پہلوئے رسولﷺ میں دفنا دیا گیا۔ سیدنا عمر فاروق رض کی زندگی بلاشبہ قابل رشک اور سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔