نام و نسب:
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک عمر، لقب فاروق، اور کنیت ابوحفص ہے۔
آپ کا خاندانی شجرہ آٹھویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عتمہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد پوری امت میں آپ کا مرتبہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ آپ واقعہ فیل کے 13 برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ سے آپ عمر میں تقریبا 11 سال چھوٹے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ قریش کے باعزت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اعلان نبوت کے 6 سال بعد 27 سال کی عمر میں آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپ مراد رسول ہیں، یعنی حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی: اے پروردگار عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام میں جو تجھے پیارا ہے اس سے اسلام کو عزت عطا فرما۔ دعاء بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور آپ مشرف با اسلام ہوئے۔
حلیہ مبارک:
آپ ؓ کی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پر غالب تھی۔ قد لمبا تھا، رخساروں پر گوشت کم تھا، داڑھی گھنی تھی اور صحت ماشاء اللہ بہت بہترین تھی۔ (تاریخ الخلفاء)
آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی اور انہیں حوصلہ ملا۔ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی، مگر حضرت عمر ؓ مسلح ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداروں کو للکارا اور فرمایا جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے۔ حضرت عمر ؓ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور کوئی مد مقابل نہ آیا۔ ہجرت کے بعد آپ نے جان و مال سے اسلام کی خوب خدمت کی۔ آپ ؓ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ آپ ؓ حضور اکرم ﷺ کے وفادار صحابی ہیں۔ آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم ﷺ کے رفیق رہے۔ (تاریخ ابن ہشام)
علم، پیشہ، شوق شہادت:
حضرت عمر ؓ کو لڑکپن میں اونٹ چرانے کا شوق تھا۔ جوان ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق سپہ سالاری، شاہ سواری، نسب کی تعلیم، پہلوانی کی تعلیم حاصل کی۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت قریش میں صرف 17 آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے، جن میں سے ایک آپ تھے۔ پہلوانی کا شوق تھا اور اتنی مہارت تھی کہ آپ عرب کے بڑے پہلوانوں میں سے تھے۔ پورے عرب میں آپ کا رعب اور دبدبہ اتنا تھا کہ بڑے بڑے دلیر انسان کانپنے لگتے تھے۔ آپؓ کوگھڑ سواری میں بھی کمال حاصل تھا۔
حضرت عمر فاروق ؓ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے تھے: یا رب! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول اللہ ﷺ کے شہر میں مجھے موت عطا فرما۔ (بخاری شریف)
زہد و تقویٰ، علم اور نبی پاک ؐ کے خواب:
عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی: آپؐ نے فرمایا: میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی تازگی دیکھنے لگا۔ جو میرے ناخن یا ناخنوں پہ بہہ رہی ہے۔ پھر میں نے پیالہ عمر ؓ کو دے دیا۔ صحابہ نے پوچھا۔ یارسول اللہﷺ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے۔ (مطلب عمرؓ کے علم کا بیان جو اللہ نے نبی پاک ﷺ کی بدولت انہیں عطا کیا)۔
آپؓ کے زہد و تقویٰ کا عالم یہ تھا کہ راتوں کو جاگ کر گھر جا جا کر اپنی رعایا کی خبر لیا کرتے تھے۔ اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے ہی کرنا پسند فرماتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء)
فاروقی دور کی خدمات اور فتوحات:
حضرت ابوبکر ؓ کی وفات اور خلافت میں آنے کے بعد آپ ؓ نے 2 سال کے عرصے میں ہی اپنی قابلیت کا سکہ جمادیا۔ حالانکہ پہلے آپ ایک انتہائی رعب و دبدبہ اور غصے کے تیز شخص مانے جاتے تھے۔ مگر خلیفہ بنتے ہی انہوں نے نرم رویہ اختیار کیا کہ جس کی بدولت نہ صرف مسلمان بلکہ کافر آج تک داد و تحسین پیش کرتے ہیں۔ عہد فاروقی نے دین و دنیا میں جو خدمات پیش کیں، اس کی مثال آج تک نہیں مل پائی۔ (تاریخ الخلفاء)
چند ایک کا تذکرہ یہ ہے:
٭ بیت المال کا قیام
٭ مالی تجاویز و ایجاد
٭ معاشرتی نظام کی تجاویز
٭ سیاسی کابینہ کا قیام
٭ امیر المؤمنین کا لقب
٭ فوج کے مختلف حکومتی شعبہ جات کے باقاعدہ دفاتر کا قیام
٭ رضا کاروں کی تنخواہوں کا تقرر
٭ ملک کی حدود کا قاعدہ
٭ مردم شماری
٭ نہریں کھدوانا
٭ راستے میں مسافروں کے لیے کنویں اور سرائے کا انتظام
٭ راستوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ کروانا
٭ رات کو رعایا کی خبر گیری اور حفاظتی گشت کا قیام
٭ خانہ کعبہ کے صحن کی توسیع
٭ جیل خانہ کا قیام
٭ پولیس کا باقاعدہ محکمہ
٭ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کی روزی کا اہتمام
٭ نماز تراویح باجماعت پڑھانے کا اہتمام
٭ بیرونی تجارت کی اجازت (جسے امپورٹ ایکسپورٹ کہتے ہیں)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بہت ساری فتوحات حاصل ہوئیں، جن میں روم ، عراق ، فارس ، مصر کی فتوحات قابل ذکر ہیں۔ (تاریخ الخلفاء)
طرز زندگی:
جب اس عظیم سلطنت اور جاہ و جلال کا تذکرہ آتا ہے تو ایک لمحے کو سوچ آتی ہے کہ انسانی فطرت میں ایسے بندے کی زندگی تو انتہائی شاہانہ ہوگی۔ ایسی ہی سوچ لیے دوسری سلطنتوں کے ایلچی بھی آیا کرتے تھے کہ شاید وہ عالی شان دربار میں بٹھائے جائیں گے، لیکن ان کا یہ خیال سب کا سب دھرا رہ جاتا جب وہ اس جاہ و جلال کے پیکر کو درخت کے نیچے بلا خوف و خطر کسی حفاظتی انتظامات کے بغیر پتھر پر سر رکھے، پھٹے پرانے اور پیوندوں سے بھرے ہوئے کپڑوں میں دیکھتے تو وہ حیران ہی نہیں مبہوت ہوکر رہ جاتے کہ یہی وہ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں؟ جو اتنی وسیع سلطنت کے مالک ہیں، اور جن سے دوسرے اقوام ہیبت زدہ ہیں۔ (سیرت ابن ہشام)
شہادت:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے غلام ابو لؤلؤ مجوسی کے ہاتھوں سن 23 ہجری بمطابق 644 عیسوی میں شہید ہوئے۔ اور حضرت محمد ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔ (طبرانی)
فضیلت:
٭ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں، جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر ؓ کے خوف سے بھاگتے ہیں۔‘‘ (مشکوۃ شریف)
٭ حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرمادیا۔‘‘ (مشکوۃ شریف)
٭ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت عمر فاروق ؓ اسلام لائے تو حضرت جبرائیل ؑ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہؐ! آسمان والے عمر ؓ کے اسلام لانے پر خوش ہوئے ہیں۔ (ابن ماجہ)
٭ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: [pullquote]لوکان بعدی نبیاً لکان عمر[/pullquote]
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔‘‘ (بخاری)
تبصرہ لکھیے