ہوم << موروثی سیاست اور نوجوان - مزمل احمد فیروزی

موروثی سیاست اور نوجوان - مزمل احمد فیروزی

مزمل احمد فیروزی میں صحافت کے ساتھ ساتھ شام کے اوقات میں ایک پروفیشنل تعلیمی ادارے میں بحیثیت انگریزی استاد کے فرائض انجام دیتا ہوں جہاں پر اپنی مدد آپ کے تحت ایم بی اے، ایل ایل بی اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے متوسط گھرانوں کے نوجوان شام میں اپنی انگلش بہتر کرنے کےلیے میری کلاس میں آیا کرتے ہیں تاکہ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انگلش لینگوئج کی اضافی تعلیم ہونے سے زندگی میں اچھے مواقع حاصل کر سکیں۔ انگریزی بول چال کے دوران اکثر گرم سرد بحث کاچھڑ جانا بھی کلاس کا معمول ہے۔ ایک روز نجی ادارے میں زیرتعلیم اورگھر کا واحد کفیل نوجوان دوران کلاس بات کرتے کرتے آبدیدہ ہوگیا اس پر میں نے اسطرح سے رونے کی وجہ جانی تو وہ نوجوان روتے روتے اور پھٹ پڑا، کہنے لگا کہ اس جمہوریت سے تو آمریت ہی بہتر ہے. مہنگا ئی، بےروزگاری اپنے عروج پر ہے اورحق دار کو اس کا حق نہیں مل رہا ہے. ہے کوئی پوچھنے والا؟ ایسی بھونڈی جمہوریت سے تو آمریت بھلی جس میں غریب انسان کم از کم دو وقت کی روٹی تو کما لیا کر تا تھا اور اس فوجی دور میں ایک نہ کہیں خونریزی تھی اور نہ ہی کسی شے کا بحران تھا بلکہ عام انسان کی زندگی قدرے محفوظ اور سہل تھی.
آج اس نام نہاد جمہوریت میں ملک میں ہر چیز کا بحران ہے نہ بجلی ہے، نہ CNGہے، نہ آٹا ہے، نہ چینی ہے، بس ہے تو ایک جہموریت کی فوج ظفر موج جو قرضے لے لے کر عیاشیاں کر رہی ہے۔ جبکہ کلاس میں موجود ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور حکومت یا کسی بھی آمریت میں صرف و صرف بین الاقوامی سطح پر نقصان ہوا ہے جبکہ عام لوگوں کی زندگی کا مورال بلند ہوا ہے صرف صحافی حضرات کے علاوہ سب مشرف سے خوش تھے مگر اس جہموریت نے تو عام انسان سے لے کر بڑے بڑے تاجروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، آئے دن تاجر حضرات پریس کلب کے باہر مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یہ بھی علم ہے کہ بازار سے چینی کیوں غائب ہوئی تھی، وہ جانتے ہیں کہ تمام شوگر ملز پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ق والوں کی ہیں۔ جو اپنی ملز کی شوگر وسط ایشیا میں اسمگل کر کے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں جمہوریت کی ناکامی کے دو بنیادی اسباب ہیں، پہلے یہ کہ کوئی بھی جمہوری حکومت بااختیار نہیں ہوتی، اسے اسٹبلشمنٹ یا بیرونی ہاتھ چلاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ان کا تعلق عوام سے نہیں ہوتا۔ ایک خاص طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جو کبھی ان مسا ئل سے گزرے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ صد افسوس! ہمارے ملک میں جمہوریت ہمیشہ ناکام رہی ہے اور ہمیشہ ان لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کو مراعات دی ہیں اور دوسری طرف ہم متوسط طبقے کے نوجوان انتہائی پیچیدہ سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل میں گھر ے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل شدید نوعیت کی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ آج کا نوجوان ہمارے نوجوانی کے زمانے سے زیادہ حقیقت پسند، سرگرم، جوشیلا اور جذباتی بھی ہے جہاں یہ نوجوان حقیقت پسندانہ روش اپناتا ہے تو دوسری طرف جذبات اور عدم برداشت بھی اس کا ہتھیار ہیں، شاید اسی لیے کہ ان کی تربیت میں میڈیا نے بھی خوب اپنا ہاتھ صاف کیا ہے.
آج سو کے لگ بھگ چینلز ہیں اور بےشمار اخبارات ہیں، ایک Fax اور sms سے آپ کی آواز دنیا تک پہنچ جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کے تعلیم یافتہ اور سماجی شعور رکھنے والے نوجوانوں کو سیاسی عمل میں ضرور موقع دیا جائے تا کہ نئے خیالات اور رجحانات کو سیاسی جماعت کی پالیسیوں کا حصہ بنایا جا سکے مگر میں انتہائی افسوس سے یہ بات کرنا چاہوں گا کہ ہمارے یہاں متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شرکت ہمیشہ نہ ہونے کے برابر رہی ہیں، اس کی وجہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان متوسط طبقے کے نوجوانوں کو اپنے گھر کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہیں، اس لیے وہ میدانِ سیاست میں نہیں آپاتے ہیں اور اس کے برعکس دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کے نوجوانوں کو تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لیے وہ سیاست میں بآسانی آجاتے ہیں، اسی وجہ سے سیاست پر ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے کا قبضہ ہے۔ صرف 2 یا 3 سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تمام سیاسی پارٹیوں میں موروثی سیاست کا رواج عام ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف ہمارے متوسط طبقے کے نوجوان ہیں جو باصلاحیت اور محنتی ہونے کے باوجود سیاست کا رخ نہیں کر پاتے۔
طلبہ کی سیاسی عمل سے دوری کے باعث وطن عزیز کے سیاسی عمل میں موروثی سیاست کی جڑیں مضبوط ہوتی رہی ہیں۔ پا کستان کی مقبول سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی ابتداء پیپلزپارٹی نے اپنی جماعت کو ضیاء الحق سے بچا نے کے لیے بیگم نصرت بھٹو مرحومہ کو چیئرپرسن بنایا اور پھر ان کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ بےنظیر بھٹو کو چیئرپرسن بنایا تو یہ سلسلہ دوسری جماعتوں میں بھی شروع ہوگیا اور اسی رجحان کو عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اپنایا اور باچا خان کے بعد ان کے صاحبزادے اور پھر ان کی غیر موجودگی میں بیگم ولی خان اور اسفندیار ولی، جمعیت علمائے اسلام کے بانی مفتی محمود صاحب کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن، اور مسلم لیگ فنکشنل کی قیادت پیر پگارا کے صاحبزادے کے پاس ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) حمزہ شہباز اور مریم نواز کو سامنے لا رہے ہیں تو چودھری برادران مونس الہی کو آگے لانے کی کوشش میں ہیں جبکہ یوسف رضاگیلانی بھی اس دوڑ میں اپنے بیٹے پنجاب کی سیاست میں لے آئے ہیں۔ غرضیکہ وراثت کے گرد گھومتی سیاست سے یہ بات تو واضع نظر آتی ہے کہ چاہے سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، جیتنا مگر انہی چند خاندانوں نے ہے.
اس کے برعکس ہم نے دیکھا ہے کہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی میں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں۔ اس میں نوشہرہ سے قاضی حسین احمد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سید منور حسن امیر منتخب ہو چکے ہیں، اور اب دیر سے سراج الحق امیر ہے. اسی طرح ایم کیو ایم جہاں نچلی سطح پر الیکشن ضرور تو ہوتے ہیں مگر اس میں ون مین شو کے بارے میں بھی ہم سبھی واقف ہیں۔ اب نئے تناظر میں مائنس الطاف کے بعد دیکھتے ہیں کہ نئی ایم کیو ایم کس پوزیشن میں آتی ہے۔ تحریک انصاف جہاں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور لگتا ہے سب کی سنی بھی جاتی ہے۔ حال ہی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ الیکشن میں 50% پارٹی ٹکٹس نوجوانوں کو دیے جائیں گے جو کہ محض اعلان ہی رہا، حقیقت کچھ اور تھی، جبکہ نوجوانون کو آگے لانے کا خان صاحب کا اعلان قابل ستائش ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 70%حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، بلاشبہ وطن عزیز کی باگ دوڑ ان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے مگر یہ نوجوان اپنے گھر کی کفالت سے باہر نکلیں گے تو ملک و قوم کے لیے کچھ کر سکیں گے. ضرورت اس امر کی ہے کہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ بآسانی سیاست کی اونچ نیچ کو سمجھ سکے اور میدان تعلیم میں سیاست کے شعبے کو اور مضبوط بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان تعلیم سیاست سے روشناس ہو سکیں اور ملکی سیاست میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
(مزمل احمد فیروزی بلاگر، کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہونے کے ساتھ رکن مجلس عاملہ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ بھی ہیں۔ انگریزی میں ماسٹر کرنے کے بعد بطور صحافی روزنامہ آزاد ریاست سے منسلک ہیں اور اسکول آف جرنلزم میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں. گھومنے پھرنے، کتابیں پڑھنے اور انٹرنیٹ کے استعمال کو وقت کا بہترین مصرف سمجھتے ہیں۔)