ہوم << باچا خان محب وطن تھے یا غدار؟

باچا خان محب وطن تھے یا غدار؟

خان عبدالغفار خان کون تھے؟ یہ جاننے کے لیے ان کے خطبات پڑھنا ضروری ہے۔ سینئر صحافی ضیاشاہد نے دلیل پر شائع ہونے والے سلسلہ وار مضامین میں کہا ہے کہ باچا خان غدار تھے۔ قارئین کرام یہ خطبات پڑھیں اور باچاخان کے بارے میں جانیں کہ وہ غدار تھے یا ایک محب وطن۔ (فیاض الدین)
خان عبدالغفار خان پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
صدر کو مبارکباد۔ تقریر کرنے سے پہلے میں پاکستان کے اس معزز ایوان کے سامنے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد پاکستان کی اس حکومت کو گرانا نہیں ہے اور نہ اس پر تنقید کرنی ہے ۔ حکومت اور غیر سرکاری لوگوں نے میرے خلاف غلط فہمی پھیلائی ہے اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے کہ میں اور میرے لوگ (خدائی خدمتگار) پاکستان کے دشمن ہیں ہم اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، میں بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں، اس حوالے سے میں نے اس پر اپنے صوبے میں کافی کچھ کہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اب بھی لوگوں کو شک ہے کہ میں پاکستان کا دشمن ہوں یا دوست۔ لیکن ایسا بولنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ جب بھی مجھے موقع ملا ہے میں نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ درحقیقت میں انڈیا کے تقسیم کے خلاف تھا اور انڈیا میں ثابت ہو چکا ہے۔ بچے بوڑھے جوان بہت لوگوں کو تباہ وبرباد کیا گیا۔ یہ میری مخلصانہ رائے تھی کہ انڈیا کو تقسیم نہ کیا جائے لیکن اب جو بن گیا ہے تو مسئلہ ختم ہوا۔ میں نے کئی تقریریں برصغیر کی تقسیم کے خلاف کیں مگر کسی نے ایک نہیں سنی۔ ہم نے سرحد میں مسلم لیگ سے کہا کہ آپ اپنی حکومت جاری رکھیں لیکن حکومت نے پٹھانوں کے ساتھ جو کیا اسے بہت مشکل سے برادشت کیا گیا۔ لوگ میرے پاس آتے تھے کہ آپ کا مستقبل کا منصوبہ کیا ہے؟ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ کیونکہ اس طرح کی فضا کو ہم برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں جس نے دنیا کی عظیم طاقت کا مقابلہ کیا جو ہمیں لوٹنا چاہتے تھے۔ میں لوگوں سے کہتا تھا کہ یہ اپنی حکومت ہے۔ وہ انگریز تو پرائے لوگ تھے۔ حکومت کو میں یہ بتاتا جاؤں کہ میں تعمیری بندہ ہوں، تباہی مچانے والا نہیں ہوں۔ میں ایک عملی بندہ ہوں، اگر میری ساری زندگی کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے لوگوں اور وطن کے فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہے، خدائی خدمتگار ایک سماجی تحریک تھی، سیاسی نہیں تھی۔
میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت پاکستان درست کام کرے گی، ملک کی ترقی چاہے گی خدائی خدمتگار ان کے ساتھ ہوگی، میں دوبارہ یہ بات واضح کر دوں کہ میں پاکستان میں تباہی مچانا نہیں چاہتا، میں ایک تعمیری بندہ ہوں۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ میں اور میرے لوگ کسی بھی تباہی مچانے والے کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اگر واقعی آپ تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں، باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ بات میں اس معزز ایوان کے سامنے صاف کہہ دوں۔ ساتھ مہینوں سے میں پاکستان حکومت کی ایڈمنسٹریشن کو دیکھ رہا ہوں لیکن مجھے انگریزوں اور ان کی ایڈمنسٹریشن میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ میں غلط ہو سکتا ہوں مگر یہ رائے عام ہے۔ میں اکیلا بندہ نہیں ہوں جو یہ کہہ رہا ہوں۔ جائیں اور ایک غریب سے پوچھیں پھر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ میں ٹھیک بول رہا ہوں کہ غلط۔ یہ ہو سکتا ہے کہ غریبوں کی آواز کو قوت سے دبایا جائے مگر یاد رکھیں کہ یہ قوت زیادہ دیر تک نہیں رہنے والی۔ اس قوت سے صرف آپ وقتی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کی آوازوں کو دبائیں گے تو ان کے دل میں آپ کے لیے نفرت پیدا ہو جائے گی۔ میں آپ کو یہ بتا دوں کہ انگریزوں کے دور سے زیادہ کرپشن آج ہو رہی ہے۔ آپ میرے بارے میں جو بھی رائے قائم رکھیں مگر میری تقریر کا مقصد تباہی لانا نہیں ہے۔ مہربانی کر کے حقائق کی طرف آئیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اگر آپ اسے پاکستان کے لیے مفید پائیں تو لے لیں ورنہ اسے ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔
ہم انگریزوں کو کیوں نکالنا چاہتے تھے اس لیے کہ ہم اپنے وطن پر خود حکومت کریں، اب جب ہم نے انگریزوں سے اپنا وطن لے لیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ زیادہ سے زیادہ انگریزوں کو بلایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم وہی پرانی حکمت عملی دیکھتے آرہے ہیں، وہی پرانی حکمت عملی چاہے صوبہ سرحد میں ہو یا قبائلی علاقوں میں۔ ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔
مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہندو بھائی لوگوں نے اپنے صوبے کے لوگوں کو گورنر بنایا بلکہ عورتوں کو بھی گورنر بنایا لیکن کیا پنجاب اور بنگال میں مسلمان نہیں ہیں جنہیں گورنر بنایا جاتا؟ مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انگریزوں کو ہمارے سروں پر سوار کیا گیا ہے. کیا یہ اسلامی برادری ہے؟ کیا ہم اسے بھائی چارہ کہیں؟ یہ اسلامی پاکستان ہے۔ یہ ایڈمنسٹریشن میں نہ خرابی ہے بلکہ یہ وہی آرڈیننسس ہے جو مجھے سخت خفا کر دیتی ہے، اگر کوئی غیر یہاں آیا ہے تو وہ ہمارے فائدے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ اپنے مقصد سے آیا مگر مجھے انگریزوں سے اب کوئی گلہ نہیں۔ گلہ مجھے پاکستانی حکومت سے ہے کیونکہ پاکستانی حکومت چلانے والے ہمارے بھائی ہیں اور یہ ہماری حکومت ہے۔ ہمیں اب انگریزوں کی پرانی چالوں کو خیرباد کہنا چاہیے۔ اگر ہم اسی پرانی حکمت عملیوں پر عمل کریں گے تو میں آپ کو یہ واضح کر دوں کہ یہ پاکستان جو بہت مشکلات کے بعد ملا ہے، ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔