ہوم << مسلمان کو کافر کہنا کیوں حرام ہے؟ اصول تکفیر کیا ہیں؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

مسلمان کو کافر کہنا کیوں حرام ہے؟ اصول تکفیر کیا ہیں؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

عمیر محمود صدیقی عصر حاضر فتن، دجل، غفلت، ذہنی ارتداد اور ذہنی تخریب کاری کا دور ہے۔ ان فتنوں میں ایک بہت بڑا فتنہ، فتنہ تکفیر ہے۔ دشمنان اسلام مسلمانوں کے درمیان پھوٹنے والے تمام فروعی اور اصولی اختلافات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت کو باہم ٹکراؤ کے ذریعہ ختم کرنے کا طریقہ ان کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھا کر تکفیری سوچ اور فکر کو ہوا دینا ہے کیونکہ کسی مسلمان کی تکفیر کے بعد اسے مرتد قرار دے کر واجب القتل قرار دے دینا ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے مسلمان انتہائی اخلاص اور مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کو انفرادی ،قومی اور بین الاقوامی سطح پر ختم کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے ۔جہاں امت مسلمہ کو مختلف مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے مہلک اور خطرناک دو غیر متعدل رویے ہیں :
۱۔مسلمانوں کی تکفیر کرنا۔
۲۔کافروں کو مسلمان کہتے ہوئے کفر و اسلام کے فرق کو مٹا دینا۔
اول الذکر گروہ کی جڑی خوارج سے ملتی ہیں جنہوں نے تا ریخ اسلام میں سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب رسول ﷺ کی تکفیر کی اور ان کے قتل کو جائز سمجھا۔ ان کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج قرار پا تا ہے۔ مرتد قرار دینے کے ساتھ قتل کرنے کا جواز اس قدر سنگین عمل ہے کہ اس کے ساتھ ’’شرعی اجازت اور مذہبی ذمہ داری‘‘ کا عنصر جب شامل ہوجائے تو مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دوسرا جدت پسند گروہ کفر و اسلام کے فرق کو مٹاتے ہوئے یہود و نصاریٰ کو بھی باوجود رسالت مآب ﷺ کی نبوت کے انکار کے جنت میں داخل کرنے پر مصر ہے۔ یہ دونوں غیر معتدل رویے مسلمانوں کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ عمومی طور پر خوارج کی فکر کو مذہبی حلقوں میں عام کیا جاتا ہے تا کہ ان کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے ہی قتل عام کے جواز کا سبب بنایا جا ئے اور دوسری طرف غیرمذہبی طبقو ں میں اسلام سے متعلق نفرت اور خدا بیزاری پیدا کی جاتی ہے۔گو یا کہ مسلمان دو متشدد گروہوں کے فکری انتشار کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پہلا طبقہ ان مذہبی متشدد گروہوں کا ہے جو قرآن و سنت کے علم سے نا واقفیت کی بنیاد پر دین کی ایسی تعبیر و تشریح کرتے ہیں جس کی وجہ سے دین پر عمل دور جدید میں نا ممکن ہو جاتا ہے۔دوسرا طبقہ ان لبرل فاشسٹ کا ہے جو اسلام کے خلاف غیر ملکی ایجنڈے کے تحت یا اپنی بد طینت طبیعت کی وجہ سے اپنی زبان اور قلم کا زور صرف کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے بےحیائی اورا ٓوارگی کو عام کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے اٹھایا جانے والا ہر قدم ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی خلیج کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ خوارج نے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کی نعوذباللہ تکفیر کی اور ہر اس شخص کو کافر کہا جس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہو۔ امام عبد القاہر نے ’اصول الدین‘ میں ان کے ایک فرقے ازارقہ کا بھی ذکر کیا ہے جو یہ گمان کرتے تھے کہ ان کے مخالفین مشرکین ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
[pullquote]قالوا بتکفیر علی و عثمان و طلحہ و الزبیر و عائشۃ و اصحاب الجمل و بتکفیر معاویۃ و الحکمین رضی اللہ عنہم و تکفیر اصحاب الذنوب من ھذہ الامۃ ۔۔۔ حتیٰ ظھرت الازارقۃ منھم فزعموا ان مخالفیھم مشرکون ۔۔۔موافقھم و استحلوا قتل النساء و الاطفال من مخالفیھم و زعموا انھم مخلدون فی النار و اکفروا القعدۃ منھم عن الھجرۃ الیھم(۱)[/pullquote] شہرستانی نے خوارج کے چھ بڑے فرقوں کا ذکر کیا ہے :
۱۔ازارقہ، ۲۔نجدات، ۳۔صفریہ، ۴۔عجاردہ، ۵۔اباضیہ، ۶۔ثعالبہ
یہ تمام فرقے حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سے برات پر (نعوذ باللہ) متفق تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ امام وقت اگر سنت کی مخالفت کرے تو اس کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نہروان کے مقام پر خوارج سے سخت جنگ ہوئی۔ خوارج میں سے جو افراد بچ گئے انہوں نے عمان، کرمان، سجستان اور یمن میں پناہ لی۔ بعد میں ان مقامات سے خوارج کے مختلف گروہوں کا خروج ہوا اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔ شہرستانی نے ازارقہ کی بدعتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ابو راشد، نافع بن ازرق کے ساتھیوں کا گروہ تھا جنہوں نے بصرہ سے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور میں خروج کیا تھا۔یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نعوذ باللہ تکفیر کیا کرتے تھے اور آپ کے قاتل عبد اللہ بن ملجم لعنۃ اللہ علیہ کی تصویب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آیت مبارکہ [pullquote]’’و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ‘‘[/pullquote] ابن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ عمران بن حطان نے ابن ملجم کی شان میں ایک قصیدہ بھی لکھا ہے جوخود خوارج کا مفتی تھا اور ان میں زہد و ور ع اور شاعری کی وجہ سے مشہور تھا۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے دیار، دیار کفر تھے اور ان میں بیٹھے رہنا اور ان کافروں کے خلاف قتال نہ کرنا کفر تھا۔ اسی طرح جو مسلمان اپنے کے علاقے سے ان کی طرف ہجرت نہیں کرتا وہ بھی کافروں میں شمار کر لیا جاتا۔ ان کے نزدیک مخالفین کے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا جائز تھا ۔(۲)
نبی کریم ﷺ نے اس فکری یلغار کو اس طرح بیان فرمایا کہ اس امت میں ہر دور میں اصحاب عدل وارثین علم قرار پائیں گے۔ وہ انتحال المبطلین، تحریف الغالین اور تاویل الجاھلین یعنی باطل پرستوں کے حملوں، متشدد گروہوں کی تحریف اور جاہلوں کی تاویلات کی نفی کریں گے۔ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ علمائے امت نے ہر دور میں خوارج ہوں یا مرجئہ، معتزلہ ہوں یا باطنیہ ایسے رویوں کی تردید کی ہے۔
دور حاضر میں مسئلہ تکفیر کے حوالے سے لوگ افراط و تفریط میں مبتلا ہیں. ہر مناظرے، مباحثے، مکالمے اور اختلاف رائے کا اختتام تکفیر پر ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ اور علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو کافر وگمراہ قرار دیے جانے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے گروہوں کی مذمت کریں۔ مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور بٹتے چلے جا رہے ہیں اور ہر فرقے کا یہ دعوی ہے کہ وہی [pullquote]ما انا علیہ و اصحابی[/pullquote] پر قائم ہے۔ ہر گروہ نے اپنی اپنی رسی کو الگ تھاما ہوا ہے اور یہ زور اس قدر زیادہ ہے کہ اس خول سے جو شخص باہر نکلنا چاہے تو اسے دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔بعض حضرات اس مشغلہ تکفیر میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ اپنے فتویٰ کے مطابق کافر و مشرک ہونے والے کو مرتد قرار دے کر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات اس کا دائرہ اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اور افراد کافر قرار دے دیے جاتے ہیں۔ اپنے اختراع کردہ اصولوں کی بنیاد پرزور و شور سے اپنے لوگوں کو دائرہ اسلام سے نکالنے کی مہم جاری ہے جس کے نتیجے میں شاید آج کوئی بھی ایسا نہ ہو جو ان کی زد سے باہر ہو۔ مختار مسعود آواز ِدوست میں کہتے ہیں:
’’قدرت کا نظام اصولوں کے تابع ہے۔ بڑے آدمیوں کی پیدائش کے بھی تو کچھ اصول ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں۔‘‘
ہم شاید اسی سزا میں مبتلا ہیں۔ غالباًاس سزا کی بڑی وجہ ان کا باہم ایک دوسرے کی رائے کو تحمل و تامل سے نہ سننا اور اپنی بات کو ’’سپر قطعی‘‘سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی ’’متعدی تکفیر‘‘ کا بازار گرم کیے رکھنا ہے۔ کسی کی رائے سے ادب کے ساتھ اختلاف کرنا اہل علم کا حق اور حق کو قبول کرنا ادب حق ہے، تاہم علمی مسائل میں ایک دوسرے کی تکفیر کرنا کسی طور پر درست نہیں۔ علماء کو چاہیے کہ تکفیرمسلم کے بجائے تکثیر مسلم پر زور دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی تحریر و تقریر سے اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے۔ بقول ابن انشاء ، ’’ایک دائرۂ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے۔ آج کل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں‘‘۔ قرآن حکیم کے مطابق اللہ رب العزت نے ہمارا نام ’’مسلمین‘‘ رکھا ہے لیکن محض مسلم ہونے پر اکتفا کرنا کسی کو برداشت نہیں۔ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق قرب قیامت میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ لا یبقی من الاسلام الا اسمہا یعنی اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔ ہم یہی مشاہدہ عصر حاضرمیں کرتے ہیں کہ مختلف گروہوں کے ناموں کی ابتدا یا انتہا میں اسلام کا لفظ شامل ہوتا ہے لیکن ان کی دعوت کا محور یا مرکز اسلام نہیں بلکہ خاص نظریات، رسومات یا شخصیات کی تشہیر ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دعوت دی ہے کہ وہ شرک کے مقابلے میں اہل کتاب کو لا ا لہ الا اللّٰہ کی طرف دعوت دیں اور اس کلمہ پر ان کے ساتھ اتفاق کریں جو ان میں اور ہم میں برابر ہے۔ اس وقت اہل اسلام کو چاہیے کہ جب کفر اسلام کے مقابلے میں ایک ملت ہے اور مسلمانوں کی جغرافیائی اور نظریاتی حدود پر حملے ہورہے ہیں تو وہ حرم کی پاسبانی اور اپنی بقا کے لیے اپنی اپنی رسیوں کو چھوڑ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے لا الہ الااللہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر جمع ہو جائیں۔
اللہ رب العزت کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ایمان و اسلام کی دولت عطا فرمائی یقینا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہے۔ جہاں مسلمانوں پر دین متین کا علم حاصل کرنا فرض ہے وہاں اتنے مسائل جاننا بھی ان کے لیے ضروری ہیں جن کے جاننے کی وجہ سے وہ اپنے دین کی حفاظت کر سکیں۔ اسی لیے علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
[pullquote]و فی تبیین المحارم :لا شک فی فرضیۃ علم الفرائض الخمس و علم الاخلاص لأن صحۃ العمل موقوفۃ علیہ ،و علم الحلال و الحرام و علم الریاء ،لأن العابد محروم من ثواب عملہ بالریاء ،و علم الحسد و العجب اذ ھما یأکلان العمل کما تأکل النار الحطب ۔و علم البیع و الشراء و النکاح و الطلاق لمن أراد الدخول في ھذہ الأشیاء ،و علم ا لالفاظ المحرمۃ أو المکفرۃ ،لعمری ھذا من أھم المھمات في ھذا الزمان ،لأنک تسمع کثیرا من العوام یتکلمون بما یکفر و ھم عنھا غافلون،و الاحتیاط أن یجدد الجاھل ایمانہ کل یوم ،و یجدد نکاح امرأتہ عند شاھدین فی کل شھر مرۃ أو مرتین(۳)[/pullquote] ’’فرائض خمسہ اور اخلاص کے علم کی فرضیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ عمل کی صحت اس پر موقوف ہے۔اسی طرح حلال و حرام اور ریا کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے کیونکہ عابد ریا کی وجہ سے عمل کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور حسد و عجب کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے کیونکہ یہ دونوں عمل کو کھا جاتے ہیں جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔اور جو شخص خریدوفرخت،نکاح و طلاق کے معاملات میں داخل ہو نا چا ہتا ہے تو اس پر ان کا علم بھی فرض ہو جاتا ہے۔ اور ان الفاظ کا علم جو حرام ہیں یا کفر کو واجب کرتے ہیں ان کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ میری عمر کی قسم! اس زمانہ میں ان کا علم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ آپ عوام الناس میں سے بہت سے لوگوں کو وہ کلام کرتے ہوئے سنیں گے جس سے وہ کافر ہوجاتے ہیں اور اس سے غافل ہوتے ہیں۔ احتیاط اس میں ہے کہ جاہل اپنے ایمان کی تجدید روزانہ، اور اپنی بیوی سے اپنے نکاح کی تجدید دو گواہوں کی موجودگی میں ہر مہینہ ایک بار یا دو بارکر لیا کرے ۔ ‘‘
معاشرہ میں بے شمارافراد ایسے ہیں جو ان مسائل سے یکسر غافل و جاہل ہیں جن کی وجہ سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اہل اسلام کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرانے کے لیے ہر دور میں علماء عظام نے کئی ایک کتب و رسائل تصنیف فرمائے ہیں تاکہ خواص و عوام ان سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو ان عقائد، افکار اور اعمال سے محفوظ رکھ سکیں جو ایمان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کتب کے ذریعہ سے عوام و خواص کو کفر سے بچانے کی کوشش کرتے اپنے مناظروں، تحریروں اور مکالموں کے ذریعہ سے تکثیر اہل اسلام کے بجائے تکفیر اہل اسلام پر زیادہ زور صرف کیا۔ جس کے نتیجہ میں شاید ہی ہمارے دور میں کوئی ایسی نامورعلمی شخصیت ہو جواپنے مسلمان بھائی کے فتویٰ تکفیر کی زد سے محفوظ ہو۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں امام ابو اللیث سمرقندی فرماتے ہیں:
[pullquote]رأی ابو حنیفۃ ابنہ یتکلم فی الکلام فنھاہ فقال :انت تتکلم فیہ فقال :نحن نتکلم کأن الطیر علی رء وسنا و انتم تتکلمون و یرید کل واحد منکم کفر صاحبہ و من اراد کفر صاحبہ فقد کفر ھو (۴)[/pullquote] ’’امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے اپنے بیٹے کو مناظرہ کرتے دیکھا تو ان کو منع کر دیا۔ آپ کے صاحبزادے نے کہا کہ آپ خود تو یہ کام کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہم بات اس طرح کرتے ہیں کہ گو یا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ تم مناظرہ کرتے ہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا کفر چاہتا ہے۔ جو اپنے ساتھی کے لیے کفر کا ارادہ کرے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ ‘‘
امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی یہ نصیحت علماء کے لیے مشعل راہ ہے۔ انہیں چاہئے کہ اس کو لازم پکڑ لیں۔ ہمارے زمانہ میںبھی مناظرانہ گفتگو اور تحریر میں اسی روش کو اختیار کیا جاتا ہے کہ کسی طرح سے اپنے مقابل کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے۔ اہل علم حضرات کو چاہیے کہ اس سے سختی کے ساتھ اجتناب کریں اور اکابرین امت کے عمل کو اختیار کریں۔ عوام و خواص میں سے اکثر لوگ مشغلہ تکفیر میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ انہیں اپنے متعلقین یا اپنی ذات کے سوا کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔ جبکہ بعض لوگ اس قدر جہالت میں ڈوب جاتے ہیں کہ انہیں کوئی کافر معلوم نہیں ہوتا۔ وہ اپنی تمام کاوشیں اسلام کا دائرہ اتنا وسیع کرنے میں صرف کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو یا نصرانی اس دائرہ سے باہر نہ جاسکے۔ یہ غیر معتدل رویہ کسی طور پر بھی درست نہیں۔
کتب فتاویٰ اور اصول میں علمائے عظام نے کئی ایک اصول فتاویٰ نویسی کے درج فرمائے ہیں۔ ذیل میں ہم صرف ان چند باتوں کو بیان کر رہے ہیں جن کا فتویٰ تکفیر میں اہتمام کرناضروری ہے۔
۱۔ مسئلہ اکفار میں صرف ائمہ مجتہدین کا اعتبار کیا جائے گا۔ اس باب میں ہر وہ بات جو ائمہ مجتہدین کے خلاف ہو، اگرچہ وہ متکلمین ومحدثین کی طرف ہی کیوں نہ منسوب ہو، اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘میں اہل علم کو اعتقاد میں اقتصاد یعنی اعتدال اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے ہوئے آخری باب میں اصول اکفار پر گران قدر بحث کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
[pullquote]اعلم للفرق فی ھذا مبالغات و تعصبات فربما انتھی بعض الطوائف الی تکفیر کل فرقۃ سوی الفرقۃ التی یعتزی الیھا فاذا اردت ان تعرف سبیل الحق فیہ فاعلم قبل کل شیٔ ان ھذہ مسالٔۃ فقھیۃ اعنی الحکم بتکفیر من قال قولا اور تعاطی فعلا(۵)[/pullquote] مسئلہ تکفیر میں بعض فرقوں نے مبالغہ آرائی اور تعصبات سے کام لیا ہے بعض گروہ اپنے فرقے کے سوا تمام فرقوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ اگر آپ اس بارے میں شاہراہ حق کو پہچاننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ فقہی ہے یعنی کسی شخص کی کسی قوم یا فعل کی وجہ سے تکفیرکا حکم دینا۔
۲۔ جس امر کے کفر ہونے میں مجتہدین کا اختلاف ہو اس میں تکفیر نہیں کی جائے گی۔ البتہ احتیاطا توبہ اور تجدید ایمان ضروری ہے۔ موجب کفر صرف وہی امر ہو سکتا ہے جس کے موجب کفر ہونے پر اجماع ہو۔ علامہ حصکفی فرماتے ہیں:
[pullquote]و ألفاظہ تعرف فی الفتاویٰ بل افردت بالتالیف مع انہ لا یفتی بالکفر بشیٔ منھا الا فیما اتفق المشایخ علیہ ۔۔۔۔قال فی البحر و قد الزمت نفسی ان لا افتی بشیٔ منھا(۶)[/pullquote] کفر کے الفاظ کتب فتاویٰ میں معلوم ہیں بلکہ میں نے بھی اس مسئلہ میں ایک علیحدہ کتاب تالیف کی ہے لیکن میں ان میں سے کسی لفظ سے بھی کفر کا فتویٰ دینا صحیح نہیں سمجھتا۔ ہاں اس صورت میں جس میں تمام مشائخ کا اتفاق ہو۔ شیخ ابن نجیم نے البحرا لرائق میں بھی کہا ہے کہ میں نے اپنے نفس پر یہ التزام کیا ہے کہ کسی مسلمان کو ان الفاظ سے کافر نہ کہوں گا۔
۳۔ کسی بات کو کفر قرار دینا مجتہدین کا کام ہے۔ اگر مفتی مجتہد نہ ہو اور ناقلین کے زمرے میں شمار ہوتا ہو تو اسے چاہیے کہ مجتہدین کے اقوال کی روشنی میں ہی فتوی جاری کرے۔ غیر مجتہد کا اس باب میں کوئی اعتبار نہیں۔ علامہ شامی اپنے دور کے مفتیان کرام کے بارے میں فرماتے فرماتے ہیں۔
[pullquote]و المراد بالمفتی الذی یتخیر بین الاقوال ھو المجتھد الذی لہ قوۃ نظر و استنباط و اما اھل زمانناو اشیاخھم و اشیاخ اشیاخھم فلا یسمون مفتین بل ناقلون حاکون۔(۷)[/pullquote] اوروہ مفتی جس کو ان حضرات کے اقوال میں اختیار دیا گیا ہے، اس سے مراد وہ مجتہد ہے جس کے پاس قوت نظر اور مسائل کو استنباط کرنے کا ملکہ ہو۔ جہاں تک ہمارے زمانے کے علماء اور ان کے اساتذہ اور ان کے اساتذ ہ کے اساتذہ کا تعلق ہے تو وہ مفتی نہیں کہلاتے بلکہ وہ تو (مفتیوں کے کلام کو) نقل کرنے والے اور حکایت کرنے والے ہیں۔
۴۔ اگر کسی فرد معین کے بارے میں کوئی عالم کفر کا فتوی جاری کرے اور اس فرد کے کفرمیں علماء کا اختلاف ہو تو اس فتویٰ تکفیر پر ایمان لانے کا کسی دوسرے کو مکلف نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر تمام علماء اس کے کفر پر متفق ہوں تو ان کے راستہ کو چھوڑنا دنیا اور آخرت میں بربادی کا سبب ہے۔ جیسے مرزا قادیانی کا کافر ہونا۔
۵۔ اگر کسی مسئلہ میں تاویل ممکن ہو تو کسی بھی طرح اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
[pullquote]فی الیتیمیۃ: الاصل ان لا یکفر احد بلفظ محتمل لأن الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃ فی الجنایۃ و مع الاحتمال لا نھایۃ (۸)[/pullquote] اصول یہ ہے کہ کسی شخص کی بھی ایسے لفظ کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جائے گی جو اپنے اندر احتمال رکھتا ہو۔ کیونکہ کفر کی سزا انتہائی درجہ کی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی عقوبت انتہائی جرم پر ہو اور جب تک احتمال موجود ہو انتہائی جرم نہ ہوگا۔
حضرت شیخ ابن نجیم فرماتے ہیں:
[pullquote]و الذی تحرر انہ لا یفتی بتکفیر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ اختلاف و لو روایۃ ضعیفۃ علی ھذا فاکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لا یفتی بالتکفیر بھا و لقد الزمت نفسی ان لا افتی بشیٔ منھا۔(۹)[/pullquote] مسلمان کے کلام کو جب تک اچھے محمل پر محمول کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر میں اختلاف ہو، اگر چہ وہ اختلاف ضعیف روایت سے ہی کیوں نہ ہو اس کی تکفیر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا۔ یہاں جوالفاظ کفر ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے اکثر کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جائے گی۔میں نے اس بات کا اپنے نفس پر التزام کیا ہے کہ ان الفاظ کی بنیاد پر فتویٰ نہ دوں۔
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
[pullquote]ان النظر فی التکفیر یتعلق بامور: احدھا:ان النص الشرعی الذی عدل بہ عن ظاھرہ ھل یحتمل التأویل أم لا؟فان احتمل فھل ھو قریب ام بعید؟ ومعرفۃ ما یقبل التأویل و ما لا یقبل لیس بالھین بل لا یستقل بہ الا الماھر الحاذق فی علم اللغۃ العارف باصولھا ثم بعادۃ العرب فی الاستعما ل فی استعاراتھا و تجوزاتھا و منھاجھا فی ضروب الامثال(۱۰)[/pullquote] تکفیر میں غور و فکر بعض امور سے متعلق ہے: ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کسی نص شرعی کے ظاہر سے عدول کیا جائے تو دیکھا جائے گا کہ وہ تاویل کا احتمال رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر تاویل کا احتمال رکھتی ہے تو یہ دیکھا جائے کہ وہ تاویل قریب ہے یا بعید؟ اس بات کی معرفت رکھنا کہ کیا تاویل کو قبول کرتا ہے اور کیا تاویل کو قبول نہیں کرتا، آسان نہیں ہے۔ اس کو وہی شخص جانتا ہے جو علم لغت میں انتہائی ماہر ہو اور اس کے اصول جانتا ہوں۔ پھر اسے عرب کی استعارات اور تجوزات میں لغت کے استعمال کی عادت کا معلوم ہونا اور ضرب الامثال میں ان کے استعمال کا طریقہ معلوم ہونا ضرور ی ہے۔
اب ہم بعض مثالیں پیش کریں گے جن سے درج بالا بات کی مزیدوضاحت ہو جائے گی۔
[pullquote]٭و سئل بعضھم عن قولہ لامرأتہ :أنت عندي کاللہ عز اسمہ ؟فقال:ھذا کلام محتمل ،یجوز أن ینوی بہ انی مطیع لک کطاعتی للہ عز اسمہ و یرید المبالغۃ فی طاعتہ لھا فلا یکفر و ان عنی انھا تستحق العبادۃ کفر(۱۱)[/pullquote] علماء میں سے کسی سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا: تو میرے نزدیک اللہ کی طرح ہے۔ اس کا حکم کیا ہوگا؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: یہ کلام محتمل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کی نیت یہ ہو کہ میں تمہارا اسی طرح فرمانبردار ہوں جیسے میں اللہ کی اطاعت کرتا ہوں۔ یعنی وہ اس کی اطاعت کرنے کے اظہار میں مبالغہ کرتا ہے۔ پس وہ کافر نہ ہوگا۔ اگر اس کی مراد یہ ہو کہ وہ عبادت کی مستحق ہے تو کافر ہو جائے گا۔
[pullquote]٭لو قال لہ:امھل فقال:لا اقبل شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فی المھلۃ فکیف اقبلھا منک؟فقال:لیس فی ذلک استخفاف بالنبی ﷺ لانہ لا یجب علیہ ان یمھل و لا ان یترک حقہ و لو شفع فی الامھال(۱۲)[/pullquote] اگر کسی سے کہا گیا کہ مہلت دو۔ اس نے کہا کہ میں مہلت دینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت کو قبول نہ کروں گا تو تمہاری کیسے کر لوں؟ حضرت علی بن احمد نے کہا: اس سے وہ کافر نہیں ہوگا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا استخفاف نہیں ہے کیونکہ اس پر واجب نہیں ہے کہ وہ مہلت دے یا اپنا حق ترک کرے، اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفارش فرمائیں۔
[pullquote]٭و فی الجامع الاصغر :اذا وقع بین الرجل و بین صھرہ خلاف فقال :ان کان صھری رسول اللہ( صلی اللہ علیہ والہ والہ وسلم)لم اتمر بامرہ لا یکفر(۱۳)[/pullquote] جب کسی آدمی اور داماد کے درمیان اختلاف ہو جائے اور وہ شخص کہے کہ اگر میری بیٹی کے شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی ہوتے تو ان کی بات کو نہ مانتا۔ وہ کہنے والا کافر نہیں ہو گا۔
[pullquote]٭و فی الذخیرۃ و فی المنتقی :ابراھیم عن محمد عن ابی یوسف انہ قال:الصلاۃ رکوعھا و سجودھا فریضۃ من اللہ۔ فمن قال لیست بفریضۃ فقد أخطأ و لم یکفر،لأنہ تأول و أراد بھذا التاویل ان الصلاۃ قد تجوز بدون الرکوع و السجود بان عجز عنھما فقد أشار ان مثل ھذا التاویل یمنع التکفیرو ان لم یکن معتبرا من کل وجہ(۱۴)[/pullquote] نماز کا رکوع اور سجود اللہ کی طرف سے فرض ہے۔ اگر کسی نے کہا کہ یہ فرض نہیں ہے تو اس نے خطا کی وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ اس نے یہ تاویل کی ہے کہ نماز کبھی بغیر رکوع اور سجود کے بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے وہ ان کی ادائیگی سے عاجز ہو۔ اس طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ اس طرح کی تاویل تکفیر کو منع کرتی ہے، اگر چہ وہ ہر اعتبار سے معتبر نہ ہو۔
[pullquote]٭و فی اصول الصفار سئل عمن أنکر القراء ۃ فی الصلاۃ ھل یکون کافرا؟قال:نعم لأنہ انکر الاجماع و فی الفتاویٰ العتابیۃ :یضرب و لا یکفر لانہ تاول بان الصلاۃ قد تجوز بدون القراء ۃ بان عجز عنھا(۱۵)[/pullquote] اس کے بارے میں پو چھا گیا جو یہ کہے کہ نماز میں قرات نہیں ہے۔ کیا وہ کافر ہو جائے گا؟ جواب میں فرمایا کہ جی ہاں کیونکہ اس نے اجماع کا انکار کیا ہے۔ فتاویٰ عتابیہ میں ہے کہ اسے مارا جائےگا اور اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ اس کی تاویل یہ ہے کہ بعض اوقات نماز بغیر قرات کے بھی جائز ہوتی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ قرات سے عاجز ہو۔
[pullquote]٭و فی واقعات الناطقی :قال محمد رحمہ اللہ:قول الرجل :لا اصلی یحتمل اربعۃ اوجہ:
احدھا:لا اصلی لانی صلیت
و الثانی:لا اصلی بامرک فقد امرنی بھا من ھو خیر منک
و الثالث:لا اصلی فسقا و مجانۃ فھذہ الثلاث لیس بکفر
والرابع:لا اصلی اذ لیست تجب علی الصلاۃ او لم اؤمر بھا،جحودا بھا و فی ھذا الوجہ یکفرو قال الناطقی :اذا اطلق فقال لا اصلی لا یکفر لاحتمال ھذہ الوجوہ(۱۶)[/pullquote] اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نماز نہیں پڑھوں گا تو اس میں چار احتمالات ہیں:
۱۔میں نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ میں پڑھ چکا ہوں۔
ب۔میں تمہارے حکم سے نماز نہیں پڑھوں گا۔ مجھے اس ذات نے نماز کا حکم دیا ہے جو تم سے بہت بہتر ہے۔
ج۔میں فسق کی وجہ سے یا رکاوٹ کی وجہ سے نماز نہیں پڑھوں گا۔
ان تینوں صورتوں میں وہ کافر نہیں ہوگا۔
د۔میں نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ نماز فرض نہیں ہے یا مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا۔اس صورت میں وہ کافر ہو جائے گا۔ناطقی فرماتے ہیں کہ اگر اس نے مطلق لا اصلی کہا وہ ان وجوہ احتمالات کی وجہ سے کافر نہ ہو گا۔
[pullquote]٭و قال القاضی بد ر الدین رحمہ اللہ :اذا قال: بسم اللہ عند الزنا لا یکفر لانہ یحتمل ان یتبرک باسم اللہ لیمتنع(۱۷)[/pullquote] قاضی بدر الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کسی نے زنا کے وقت بسم اللہ پڑھی وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ اس میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ وہ اللہ کے نام سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس عمل سے رک جائے۔
[pullquote]٭و عن ابراھیم بن رستم رضی اللہ عنہ انہ قال:ان استحل متاولا ان النھی لیس للتحریم لا یکفر و لو استحل مع اعتقادہ ان النھی مفید للحرمۃ یکفر(۱۸)[/pullquote] ابراہیم بن رستم سے مروی ہے کہ اگر کسی نے حالت حیض میں جماع کو تاویل کرتے ہوئے حلال جانا کہ اس میں نہی تحریم کے لیے نہیں ہے وہ کافر نہیں ہو گا۔ اور اگر اس نے اس اعتقاد کے ساتھ اس کو حلال جانا کہ یہاں نہی حرمت کا فائدہ دیتی ہے وہ کافر ہو جائے گا۔
[pullquote]٭رجل قال: قصعۃ ثرید خیر من العلم یکفر، بخلاف ما اذا قال: خیر من اللہ حیث لا یکفر لأن فی قولہ خیر من اللہ تاویل صحیح بان یقول :اردت بہ انھا نعمۃ من اللہ و ما أردت الاستخفاف باللہ اما فی قولہ خیر من العلم لیس لہ تاویل سوی الاستخفاف بالعلم فیکفر(۱۹)[/pullquote] ایک شخص نے کہا کہ ثرید کا ایک پیالہ علم سے زیادہ بہتر ہے۔ وہ کافر ہو جائےگا۔ بر خلاف اس کے کہ کوئی کہے کہ ثرید کا ایک پیالہ ’’خیر من اللہ‘‘ اس سے وہ کافر نہ ہوگا۔کیونکہ اس کے خیر من اللہ کہنے میں صحیح تاویل ہے وہ یہ کہ وہ یہ ارادہ رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نعمت ہے۔ اس کا اللہ کی توہین کا ارادہ نہیں ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ خیر من العلم کہے، اس کی تاویل نہیں سوائے اس کے کہ یہ علم کا استخفاف ہے پس وہ کافر ہو جائے گا۔
[pullquote]٭فقد حکی عن بعض اصحابنا ان رجلا لو قیل لہ:ا لست بمسلم ؟فقال: لا!لا یکفر لأن معناہ عند الناس ان افعالہ لیس افعال المسلمین(۲۰) [/pullquote] بعض اصحاب سے مروی ہے کہ ایک شخص سے کہا گیا کہ کیا تو مسلمان نہیں ہے؟ اس نے کہا :نہیں۔ وہ کافر نہیں ہو گا کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس کے افعال لوگوں کے نزدیک مسلمانوں والے نہیں ہیں۔
ان تمام مسائل سے یہ واضح ہو گیا کہ مفتی کو چاہیے کہ مسئلہ اکفار میں حتی المقدور تاویل کی کوشش کرے اور اگر اس کی صحیح تاویل ممکن ہو تو اس کو ضرور قبول کرے۔تاہم ہر وہ تاویل جواجماع امت کے خلاف ہو اسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ اگر قائل کی نیت وہی بات ہو جو کفر کو واجب کرتی ہے تو مفتی کی تاویل سے اس قائل کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ اسے چاہیے کہ وہ خود تجدید ایمان کر لے۔ اسی طرح اگر کسی مومن کو کوئی شخص کافر کہے اور وہ اپنے ایمان پر مطمئن ہے تو اس کا کافر کہنا اس کو ضرر نہ پہنچائے گا۔
۶۔اگر کسی مسئلہ میں کئی ایک وجوہ ایسی پائی جاتی ہوں جو تکفیر کو واجب کرتی ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو تکفیر کو مانع ہو تو مفتی کو چاہیے کہ وہ مسلمان سے حسن ظن رکھتے ہوئے اس وجہ کی طرف مائل ہو جو تکفیر کو مانع ہو۔
حضرت علامہ عالم دہلوی فرماتے ہیں:
[pullquote]یجب ان یعلم انہ اذا کان فی المسالۃ وجوہ توجب التکفیر و ووجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسیناللظن بالمسلم ،ثم ان کانت نیۃ القائل الوجہ الذی یمنع التکفیر فھو مسلم و ان کانت نیتہ الوجہ الذی یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتی و یؤمر بالتوبۃ و الرجوع عن ذلک و تجدید النکاح بینہ و بین امرأتہ(۲۱)[/pullquote] یہ واجب ہے کہ جانا جائے کہ اگر کسی مسئلہ میں کئی وجوہ ایسی ہوں جو تکفیر کو واجب کرتی ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو تکفیر سے منع کرتی ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے اس وجہ کی طرف مائل ہو جو کفر کو منع کرتی ہے۔ پھر اگر کہنے والے کی نیت وہی صورت ہے جو کفر کو روکتی ہے تو وہ کافر نہ ہوگا۔ وہ مسلم ہے۔ اور اگر اس کی نیت وہ صورت ہے جو کفر کو واجب کرتی ہے تو مفتی کا فتویٰ اسے نفع نہ دے گا، اسے توبہ کرنے اور اس سے رجوع کرنے اور اپنی بیوی سے تجدید نکاح کا حکم دیا جائے گا۔
حضرت علامہ حصکفی فرماتے ہیں:
[pullquote]لا یفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ خلاف ولو روایۃ ضعیفۃ(۲۲)[/pullquote] کسی مسلمان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا جب تک اس کے کلام کو اچھے محمل پر محمو ل کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر میں اختلاف ہو اور اگر چہ وہ ضعیف روایت ہی کیوں نہ ہو۔
اس کی شرح میں علامہ شامی لکھتے ہیں:
[pullquote]قا ل الخیر الرملی:اقول ولو کا نت الروایۃ لغیر أھل مذھبنا و یدل علی ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر مجمعا علیہ(۲۳)[/pullquote] خیر رملی نے فرمایا: میں یہ کہتا ہوں کہ اگر چہ وہ ضعیف روایت کسی دوسرے اہل مذہب ہی کی کیوں نہ ہو۔اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جو چیز کفر کو واجب کرتی ہے اس پرسب کا اتفاق ہونا ضروی ہے۔
یعنی اگر سو اقوال کسی کے کفر پر ہوں اور ایک روایت اس کے ایمان پر دلالت کرتی ہو تو اس کی طرف مائل ہونا چاہیے۔ علماء نے اس میں اس قدر توسع کا مظاہرہ فرمایا ہے کہ وہ روایت جو اس کے ایمان پر دلالت کرتی ہے اگر چہ ضعیف ہی کیوں نہ ہواسے قبول کیا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ قول یا روایت ہمارے مذہب کے علماء کی طرف منسوب ہو، اگر وہ کسی دوسرے مذہب کے امام کا اختلافی قول بھی ہو تو اس کا مسئلہ اکفار میں اعتبار کیا جائے گا اور اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجب کفر وہ بات ہوتی ہے جس پر تمام مجتہدین کا اتفاق ہو، اگر کسی ایک مجتہد نے بھی اختلاف کیا تو اس کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاسکتی۔
۷۔ مفتی تہدید اور تخویف کے لیے کسی کو کافر نہیں کہہ سکتا۔ مجتہدین کا کسی کی تکفیر کرنا حقیقت پر محمول ہوتا ہے لہذا ان کے کلام کو تہدید پر محمو ل کرنا درست نہیں۔حضرت شیخ ابن نجیم فرماتے ہیں:
[pullquote]و فی البزازیۃ و یحکی عن بعض من لا سلف لہ انہ کان یقول ما ذکر فی الفتاویٰ انہ یکفر بکذا،و کذا فذاک للتخویف و التھویل لا لحقیقۃ الکفر و ھذا کلام باطل الی اخرہ و الحق ان ما صح عن المجتھد فھو علی حقیقتہ و اما ما ثبت عن غیرہ فلا یفتی بہ فی مثل التکفیر و لذا قال فی فتح القدیر من باب البغاہ ان الذی صح عن المجتھدین فی الخوارج عدم تکفیرھم و یقع فی کلام أھل المذھب تکفیر کثیر لکن لیس من کلام الفقھاء الذین ھم المجتھدون بل من غیرھم و لا عبرۃ بغیر الفقھاء(۲۴)[/pullquote] بعض علماء سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے فتاویٰ میں ذکر کیا ہے کہ وہ فلاں عمل سے کافر ہو گیا اور ان کا اس کو کافر کہنا ڈرانے اور ہول پیدا کرنے کے لیے ہے حقیقی کفر مراد نہیں۔یہ کلام باطل ہے اپنے آخر تک، حق یہ ہے کہ جو کچھ مجتہدین سے ثابت ہے وہ اپنی حقیقت پر ہے۔ جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جو مجتہدین کے علاوہ کسی اور سے ثابت ہیں ان کی وجہ سے کفر کا فتویٰ دینا درست نہیں ہے۔ اسی لیے امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں باب البغاۃ میں فرمایا کہ مجتہدین سے خوارج کی عدم تکفیر ثابت ہے۔ اہل مذہب کے کلام میں بہت زیادہ تکفیر واقع ہوئی ہے۔ لیکن وہ ان فقہاء کا کلام نہیں ہے جو مجتہدین ہیں لہذا ان کا کوئی اعتبار نہیں۔
۸۔ اجتہادیات اور ظنی مسائل کے انکار پر تکفیر نہیں کی جائے گی۔ حضرت علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
[pullquote]لا یکفر منکر الاجتھادیات بالاجماع(۲۵)[/pullquote] اجتہادی مسائل کے منکر کی بالاتفاق تکفیر نہیں کی جائے گی۔
۹۔ مفتیان کرام کو چاہیے کہ وہ اہل اسلام کی تکفیر کے بجائے ان کی تکثیر پر زور صرف کریں۔ امام ابو اللیث سمرقندی فرماتے ہیں:
[pullquote]و ینبغی للعالم ان یبادر بتکثیر اھل الاسلام مع انہ یقضی باسلام المکرہ تحت ظلال السیوف(۲۶)[/pullquote] عالم کو چاہیے کہ وہ اہل اسلام کی تکثیر پر زور دے جب کہ وہ تلوار کے سائے کے نیچے مکرہ کے اسلام کو تو قبول کر لیتا ہے۔
علامہ عالم دہلوی فرماتے ہیں :
[pullquote]و فی الملتقط :و ینبغی للعالم اذا رفع الیہ ان لا یبادر بتکفیر اھل الاسلام مع انہ یقضی باسلام المکرہ تحت ظلال السیوف(۲۷)[/pullquote] عالم کو چاہیے کہ جب اس کے پاس کوئی مسئلہ لایا جائے تو وہ اہل اسلام کی تکفیر پر زور نہ دے حالانکہ وہ مکرہ کا اسلام تلوار کے سائے کے نیچے تو قبول کر لیتا ہے۔
یعنی فتویٰ نویسی کے وقت مفتی پر تکفیر اہل اسلام کے بجائے تکثیراہل اسلام کے جذبات غالب رہنے چاہییں۔ خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کار عظیم انجام دینے کے لیے خیر الامم کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مفتی کو چاہیے کہ وہ قلم و زبان کا زور لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے صرف کرے ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا:
[pullquote]لان یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیر لک من ان یکون لک حمر النعم(۲۸)[/pullquote] تمہارے ذریعہ سے اللہ ایک آدمی کو ہدایت عطا فرمادے یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جس میں کسی مسلمان کو اسلام سے خارج قرار دینے کو اپنی فتح اور قابل فخر بات سمجھا جاتا ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی اپنے اسلام کا اظہار کیوں نہ کر لے جب کسی کو اسلام کے دائرہ سے باہر کرنے کا ارادہ کر لیا جائے تو قلب و ذہن کی تمام تر قوتیں اس میں وجوہ کفر تلاش کرنے میں صرف کر دی جاتی ہیں اور علمائے امت کی سیرت کے بر عکس اگر اس میں نناوے وجوہ ایمان کی اور ایک وجہ ضعیف بھی کفر کی پائی جائے تو اس ضعیف وجہ کفر کو ترجیح دی جاتی ہے۔حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سب سے زیادہ غلو اور اسراف کرنے والا متکلمین کا گروہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جو ان کی طرح کلام کی معرفت نہیں رکھتا اور ان دلائل سے عقائد شرعیہ کو نہیں جانتا جو ہم نے تحریر کیے ہیں وہ کافر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی رحمت کواس کے بندوں پر تنگ کر دیا ہے۔(۲۹)
آگے آپ فرماتے ہیں:
ہو سکتا ہے کہ تم یہ اعتراض کرو کہ متکلمین نے یہ کام نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود ارشادفرمایا ہے کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے ان میں صرف ایک نجات پانے والا ہو گا۔اس کا جواب یہ ہے اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ سب کافر ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے بلکہ وہ آگ میں داخل ہوں گے اور انہیں آگ پر پیش کیا جائےگا۔ وہ اپنے گناہوں کے بقدر جہنم میں رہیں گے ۔(۳۰)
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
[pullquote]لا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا(۳۱)[/pullquote] اور جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے۔
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ کتب حدیث میں یہ واقعہ اس طرح سے درج ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حرقات کی طرف ایک سریہ مبعوث فرمایا۔ جب وہ ہماری طرف سے چو کنے ہو گئے تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم نے ایک آدمی گھیر لیا۔ جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا :لا الہ الا اللہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے۔ مگر ہم نے اسے قتل کر دیا۔ میں نے اس کا ذکر حضور نبی کریم ﷺ سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: [pullquote]من لک بلا الہ الا اللہ[/pullquote] یوم القیامۃ قیامت کے دن تمہاری کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں معاونت کون کرے گا؟میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ [pullquote]انما قالھا مخافۃ السلاح،[/pullquote] اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس نے کلمہ صرف اسلحہ کے خوف سے ہی پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:[pullquote]افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم من اجل ذلک قالھا ام لا[/pullquote] تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے اسلحہ کے خوف سے پڑھا تھا یا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ قیامت کے دن تمہاری کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں معاونت کون کرے گا؟ یہاں تک کہ میں نے یہ پسند کیا کہ کاش میں نے اسی دن اسلام قبول کیا ہوتا۔ (۳۲)
اسی طرح کی ایک اور حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ایک شخص نے میدان جہاد میں جب ایک کافر پر غلبہ پا لیا تو اس کافر نے کہا [pullquote]اشھد ان لا الہ الا اللہ انی مسلم [/pullquote] میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں۔ بے شک میں مسلمان ہوں۔ مگر اس شخص نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ وہ شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے پوچھا کس چیز نے تجھے ہلاک کر دیا؟ اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے ارشاد فرمایا: [pullquote]فھلا شققت عن بطنہ فعلمت ما فی قلبہ[/pullquote] تو نے اس کا پیٹ چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تو جان لیتا اس کے دل میں کیا ہے؟ اس شخص نے کہا:[pullquote] یا رسول اللہ ﷺ لو شققت قلبہ لکنت اعلم ما فی قلبہ،[/pullquote] اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم !اگرمیں اس کے دل کو چیر لیتا تو ضرور جان لیتا کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ [pullquote]قال فلا انت قبلت ما تکلم بہ ولا انت تعلم ما فی قلبہ[/pullquote] آپ ﷺنے فرمایا :نہ تو تم نے اس بات کو قبول کیا جو اس نے کہی تھی اور نہ تم نے اس بات کو جانا جو اس کے دل میں تھی۔ آپ علیہ الصلاۃ و السلام پھر خاموش ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ شخص انتقال کر گیا۔ ہم نے اسے دفن کر دیا۔ صبح ہم نے دیکھا کہ وہ زمین کی پشت پر پڑا ہوا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ شاید اس کے دشمنوں میں سے کسی نے ایسا کیا ہے۔ ہم نے پھر اس کو دفنا دیا اور کچھ لڑکوں کو مقرر کر دیا کہ اس کی حفاظت کریں۔ جب صبح ہوئی تو وہ پھر زمین سے باہر پڑا تھا۔ ہم یہ سمجھے کہ شاید لڑکوں کو اونگھ آگئی ہو۔ ہم نے پھر اسے دفنا دیا اور خود اس کی حفاظت کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ وہ شخص پھر باہر پڑا ہوا ہے۔ ہم نے پھر اسے ایک گھاٹی میں ڈال دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: [pullquote]ان الارض لتقبل من ھو اشر منہ و لکن اللہ احب ان یریکم تعظیم حرمۃ لا الہ الا اللہ[/pullquote] بے شک زمین اس سے بھی زیادہ شریر ترین لوگوں کو قبول کر لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ تمہیں کلمہ طیبہ کی حرمت کی تعظیم دکھائے۔(۳۳)
کئی افراد مشغلہ تکفیر میں بہت جری نظر آتے ہیں۔ ایک بات یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب وہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمان ایک ارب سے زیادہ ہیں اور جب مسلمانوں کے مختلف گروہوں کا ذکر کیا جائے تو ہر گروہ کو فتویٰ تکفیر کی لاٹھی سے اسلام سے باہرکر دیتے ہیں۔ اگر ان کے اصولوں کو مان لیا جائے تو شاید ادیان کے ماننے والوں میں مسلمان دنیا میں سب سے کم تعداد میں رہ جائیں۔ ایسے افراد کو مذکورہ بالا احادیث سے درس عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ جب خیر القرون کے لوگوں کو اتنی سخت تنبیہ بارگاہ رسالت علی صاحبھا الصلاۃ والسلام سے ہو سکتی ہے تو اس دور کے لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کے بارے میں [pullquote]ثم یفشوا الکذب[/pullquote] کہا گیا ہے۔
۱۰۔ مفتی کو چاہیے کہ فتویٰ جاری کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے اور مکمل تحقیق کے بعد ہی فتویٰ جاری کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[pullquote]اجرأکم علی الفتیا اجرأکم علی النار(۳۴)[/pullquote] تم میں سے فتویٰ دینے میں سب سے زیادہ جری آگ میں جانے میں بھی سب سے زیادہ جری ہے۔
حضرت امام شعبی علیہ الرحمۃ سے پو چھا گیا کہ جب آپ سے سوال کیا جاتا تھا تو آپ لوگ کیا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: [pullquote]کان اذا سئل الرجل قال لصاحبہ أفتھم فلا یزال حتی یرجع الی الاول۔[/pullquote] جب ہم میں کسی سے سوال کیا جاتا تھا تو وہ اپنے ساتھی سے کہتا تھا کہ آپ اس کا جواب دیں۔ اسی طرح سے ہر شخص دوسرے کی طرف سائل کو متوجہ کراتا یہاں تک کہ وہ پھر پہلے والے کے پاس لوٹ آتا۔(۳۵)
امام ابو داؤد علیہ الرحمۃ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
[pullquote]من أفتی الناس بغیر علم کان اثمہ علی من افتاہ(۳۶)[/pullquote] جس کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
[pullquote]ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد و لکن یقبض العلم بقبض العلماء حتیٰ اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رء وسا جھالا فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلوا(۳۷)[/pullquote] بے شک اللہ تعالیٰ علم کو اپنے بندوں سے علم کو نہیں اٹھائے گا مگر علم کو علما کے اٹھائے جانے کے ذریعہ اٹھا لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب ایک عالم بھی باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے۔وہ انہیں فتویٰ دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور انہیں بھی گمراہ کریں گے۔
حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
[pullquote]من افتی بغیر علم لعنتہ السماء و الارض(۳۸)[/pullquote] جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا اس پر آسمان اور زمین لعنت کرتے ہیں۔
ان تمام وعیدوں اور اسلاف کے معمول کے پیش نظر مفتی کو فتویٰ جاری میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ جہاں تک ان حضرات کا تعلق ہے جو اس منصب کے اہل ہی نہیں انہیں ان وعیدوں سے ڈرتے ہوئے سختی کے ساتھ فتویٰ جاری کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۱۱۔مفتی کو چاہیے کہ ہر قسم کے تعصب سے بچتے ہوئے اور مومنانہ انداز اختیار کرتے ہوئے احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے فتویٰ جاری کرے۔ ایسا ہرگز نہ ہوکہ فتویٰ کی بنیاد ذاتی بغض و عناد، تعصب یا دنیاوی مقاصد ہوں۔
حکایت ہے کہ حضرت علی بلخی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی نے ان سے مسئلہ پوچھا کہ اگر قے ہو جائے اور حلق تک آجائے تو وضو باقی رہتا ہے یا اس میں فساد آجاتا ہے؟ آپ نے جوابا فرمایاکہ وضو فاسد ہو جاتا ہے۔ خواب میں آپ کو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:نہیں اے علی! یہاں تک کہ منہ بھر قے آئے۔ حضرت علی بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: [pullquote]علمت ان الفتوی تعرض علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فالیت علی نفسی ان لا افتی ابدا[/pullquote] مجھے معلوم ہوا کہ فتاویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، میں نے قسم اٹھا لی کہ آئندہ کبھی فتویٰ نہیں دوں گا۔(۳۹)
اس حکایت سے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مفتی فتوی تکفیر سے قبل اس بات کو ذہن نشین رکھے کہ میرا تحریر کردہ فتویٰ بارگاہ خداوندی اور بارگاہ رسالت علی صاحبہا الصلاۃ والسلام میں پیش کیا جائے گا۔ متوقع ہے کہ اس بات کو سوچنے کے بعد اس کا فتویٰ لکھنا ہر قسم کے تعصب و بغض سے پاک ہو جائے۔ اس نکتہ کے حوالہ سے امام غزلی کی کتاب فیصل التفرقۃ قابل مطالعہ ہے۔
مسلمان کو کافر قرار دینے کی حرمت:
اللہ اور اس کے رسول صلی للہ علیہ والہ والہ وسلم نے اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد ایمان پر رکھی ہے۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ہدایت عطا فرمائی ہے وہاں ان باتوں سے بھی منع فرمایا جو اخوت اور بھائی چارے کی فضاء کو مکدر کر دیتی ہیں۔ ایک مسلما ن کا دوسرے مسلمان کو گالی دینا، اس کی غیبت کرنا، چغلی کرنا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو دلوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں۔ اسی لیے قرآن و سنت میں تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ایک مومن کفر کی طرف لوٹنا اتنا ہی ناپسند کرتا ہے جتنا آگ میں زندہ ڈال دیا جانا۔ اسی طرح اپنے ایمان کی اہمیت کو جانتے ہوئے وہ اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ’’کافر‘‘ کہے یا زمرہ اہل اسلام سے خارج ہونے کا لیبل اس پر چسپاں کرے۔ دور حاضر میں یہ بات بہت عام نظر آنے لگی ہے کہ خواص و عوام ایک دوسرے کو بلا جھجک کا فر کہہ دیتے ہیں اور اس عمل سے قبل اپنی طرف نظر بھی نہیں کرتے کہ وہ اس کے اہل ہیں بھی یا نہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ اپنی کہی بات کو اس قدر مستند اور نا قابل تردید سمجھتے ہیں کہ جو ان کے کہے کو کافر نہ کہے وہ اسے بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بارے میں ارشاد فرمایا :
[pullquote]اذا اکفر الرجل اخاہ فقد باء بھااحدھما[/pullquote] جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
[pullquote]ایما امری قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال و الا رجعت علیہ[/pullquote] جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرر لوٹے گا۔اگر وہ شخص واقعی کافر ہو گیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا۔
اس حدیث سے یہ معلوم بھی ہو تا ہے کہ کسی کا کفر اگر واقعی ثابت ہو چکا ہو تو اسے کا فر کہنا جائز ہے ورنہ اس کا وبال کہنا والے پر ہو تا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
[pullquote]و من دعا رجلا بالکفر او قال عدو اللہ و لیس کذلک الا عاد علیہ(۴۰)[/pullquote] اور جس نے کسی شخص کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کفر اس کی طرف لوٹ آئے گا۔
حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ نے یہاں ’’بغیر تاویل‘‘ کی شرط لگائی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی تکفیر میں متاول ہو تو وہ معذورکہلائے گا اور اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منافق کہنے کو عذر فرمایا اور انہیں تنبیہ بھی فرمائی کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جنگی احوال کی خبر کفار کو دینا نفاق ہے۔ اسی طرح جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت فرمائی تو ایک صحابی نماز سے الگ ہو گئے اور انہوں نے اپنی نماز الگ ادا کر لی۔ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ منافق ہے۔ وہ صحابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا عذر پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا [pullquote]’’أ فتان انت‘‘[/pullquote] اے معاذ کیا تم فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ پھر انہیں مختصر سورتیں تلاوت کرنے کی نصیحت فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافر نہیں فرمایا کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو جماعت ترک کرنے کی وجہ سے منافق گمان کیا تھا۔(۴۱)
حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ اس بارے میں ارشادفرماتے ہیں:
[pullquote]فتاملنا فی ھذا الحدیث طلبا منا للمرادبہ ما ھو؟فوجدنا من قال لصاحبہ :یا کافر معناہ انہ کافر لأن الذی ھو علیہ الکفر فاذا کان الذی علیہ لیس بکفر ،وکان ایمانا کان جاعلہ کافرا جاعل الایمان کفرا،و کان بذلک کافرا باللہ تعالیٰ لأن من کفر بایمان اللہ تعالیٰ فقد کفر باللہ :و من یکفر بالایمان فقد حبط عملہ ،و ھو بالاخرۃ من الخاسرین ،فھذا أحسن ما وفقنا علیہ من تاویل ھذا الحدیث و اللہ نسالہ التوفیق(۴۲)[/pullquote] خلاصہ: ہم نے اس حدیث کی مراد جاننے کے لیے اس میں غور کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا اے کافر! اس کا مطلب ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ یہ وہ ہے جس پر کفر ہے، پس اگر وہ کافر نہ ہو اور ایمان والا ہو تو اسے کافر کہنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے ایمان کو کفر کہا ہے۔ اس وجہ سے وہ در حقیقت اللہ کا انکار کر نے والا ہے۔ جس نے ایمان کو کفر کہا اس نے اللہ کا انکار کیا۔ جس نے ایمان کا انکار کیا اس کے اعمال بر باد ہو گئے اور وہ آخرت میں خسارا پانے والوں میں ہوگا۔ یہ اس حدیث کی سب سے بہترین تاویل ہے جس کی ہمیں توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے ہم توفیق کا سوال کرتے ہیں۔
حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ کے بیان سے یہ واضح ہو تا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ایک صورت تو یہ کہ جس شخص کو اس نے کافر کہا وہ واقعی میں کافر ہو اور دوسری صورت یہ کہ وہ کافر نہ ہو۔ جب اس میں وجہ کفر نہ پائی گئی تو مسلمان کا اس کو کافر کہنا اس کو خود کافر بنا دیتا ہے کیونکہ وہ اب اس کے ایمان کو کفر سے تعبیر کر رہا ہے جو کفر ہے۔
ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ’’کافر‘‘ کہے تو محض اس عمل سے اسلام سے دونوں میں سے کوئی بھی خارج نہیں ہوگا۔ کافر ہونے کی صورت کو ہم امام طحاوی کے قول کی روشنی میں بیان کر چکے ہیں۔ یہ ایک وعید ہے تا کہ اہل اسلام ایک دوسرے کو کافر بنانے سے احتراز کریں۔ دوسری بات یہ کہ یہ حدیث مبارکہ خبر واحد ہے جس کی وجہ سے اس کو تکفیر کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اس حدیث کے بارے میں شرح مواقف میں ہے:
[pullquote](الثالث قولہ علیہ السلام :من قال لاخیہ المسلم یا کافر فقد باء بہ)ای بالکفر(أحدھما قلنا آحاد )و قد اجمعت الامۃ علی ان انکار الاحاد لیس کفرا (و)مع ذلک نقول(المراد مع اعتقاد انہ مسلم فان من ظن بمسلم انہ یھودی أو نصرانی فقال لہ یا کافر لم یکن ذلک کفرا بالاجماع)(۴۳)[/pullquote] خلاصہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے۔ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کا انکار کفر نہیں ہے۔اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات اس کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہے کہ یہ مسلمان ہے ۔پس جس کسی نے مسلمان کے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ یہودی ہے یا نصرانی ہے تو اس پر اجماع ہے کہ وہ کہنے والا کافر نہیں ہو گا۔
اس بارے میں حضرت امام نووی علیہ الرحمۃ کے حوالہ سے امام خانی لکھتے ہیں:
[pullquote]قال النووی فی الاذکار :قول المسلم لأخیہ یاکافر یحرم تحریما غلیظا و یمکن حمل قولہ و یمکن حمل قولہ (یحرم تحریما غلیظا)علی الکفر أیضا کما فی الروضۃ لکنہ قال فی شرح مسلم ما حاصلہ :مذھب أھل الحق انہ لا یکفر المسلم بالمعاصی کالقتل و الزنا و کذا قولہ لأخیہ یا کافر من غیر اعتقاد بطلان دین الاسلام ذکر ذلک عند شرح حدیث :اذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ۔و الحاصل ان المفھوم من جملۃ اقوال النووی انہ لا یکفر بمجرد ھذا اللفظ بل لا بد معہ من ان یعتقد ان ما اتصف بہ شخص من الاسلام کفر(۴۴)[/pullquote] امام نووی نے اذکار میں فرمایا ہے کہ مسلمان کا اپنے بھائی کو اے کافر کہنا بہت شدید حرام ہے آپ کے قول کو کفر پر محمول کرنا بھی ممکن ہے۔جیسا کہ روضہ میں ہے لیکن آپ نے شرح صحیح مسلم میں بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان گناہ سے کافر نہیں ہوتا جیسے قتل کرنا ،زنا کرنا یا جیسے اپنے بھائی کو اے کافر کہنا،اس کے دین اسلام کے باطل نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے۔آپ نے اس کا ذکر درج ذیل حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے۔جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گااگر وہ شخص واقعی کافر ہوگیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا۔حضرت امام نووی کے تمام اقوال کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص محض اس لفظ سے کافر نہیں ہو گا بلکہ اس کے کافر ہونے کے لیے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ یہ شخص جو اسلام کے ساتھ متصف ہے اس کا اسلام کفر ہے۔
مسلمان کو کافر کہنے کی شناعت:
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
[pullquote]و لا تنابزوا بالالقاب (الحجرات۴۹:۱۱)[/pullquote] ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھا کرو۔
اس کی وضاحت میں امام محمود آلوسی بغدادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
[pullquote]و عن ابن مسعود رضی اللہ عالیٰ عنہ ھو ان یقال الیھودی أو النصرانی أو المجوسی اذا اسلم یا یھودی أو یا نصرانی أو یا مجوسی(۴۵)[/pullquote] حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اس سے مراد کسی شخص کو جو اسلام قبول کر چکا ہو یہودی ،نصرانی یا مجوسی کہنا ہے۔یا اسے اے یہودی ،اے نصرانی یا اے مجوسی کہنا ہے۔
اس آیت کے بارے میں امام ابوبکر جصاص رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
[pullquote]قال قتادۃ فی قولہ تعالیٰ و لا تنابزوا بالالقاب قال:لا تقل لأخیک المسلم یا فاسق یا منافق ۔حدثنا عبد اللہ بن محمد قال: حدثنا الحسن قال:أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن الحسن قال :کان الیھودی و النصرانی یسلم فیقال لہ یا یھودی یا نصرانی فنھوا عن ذلک(۴۶)[/pullquote] حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و لا تنابزوا بالالقاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو اے فاسق یا اے منافق نہ کہے۔حضرت حسن سے مروی ہے کہ جب کوئی یہودی یا نصرانی اسلام قبول کرتا تو اسے اے یہودی یا اے نصرانی کہا جاتا تھا۔اس آیت میں مسلمانوں کو اس عمل سے روکا گیا ہے۔
علمائے عظام کی اس وضاحت سے یہ معلوم ہو گیا کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا از روئے قرآن ناجائز ہے ۔اس سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہیے۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفر مایا:
[pullquote]من رمی مؤمنا بکفر فھو کقتلہ (۴۷)[/pullquote] جس نے کسی مسلمان پر کافر ہونے کی تہمت لگائی تو یہ اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[pullquote]و من قذف مؤمنا بکفر فھو کقاتلہ(۴۸)[/pullquote] جس نے کسی مسلمان پر کافر ہونے کی تہمت لگائی تو وہ اسے قتل کرنے والے کی طرح ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[pullquote]اذا قال الرجل للرجل یا یھودی فاضربوہ عشرین(۴۹)[/pullquote] جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے کہے اے یہودی تو اسے بیس کوڑے مارو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[pullquote]ثلاث من اصل الایمان الکف عن من قال لا الہ الا اللہ و لا تکفرہ بذنب ولا نخرجہ من الاسلام بعمل (۵۰) [/pullquote] تین باتیں ایمان کی بنیاد میں سے ہیں۔جو لا الہ الا اللہ کہے اسے تکلیف نہ دینا،کسی گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرو اور نہ ہم اسے کسی عمل سے اسلام سے نکالیں۔
حضرت عالم دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
[pullquote]أو قال لمسلم :یا فاسق یا خبیث یا کافر(۵۱) [/pullquote] اگر کوئی کسی مسلمان سے اے فاسق ماے خبیث یا اے کافر کہے تو اس پر تعزیر ہے۔
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:
[pullquote]قال بعضھم من قال لاخر:یا کافر لا یجب التعزیر ما لم یقل:یا کافر باللہ لان اللہ سمی المؤمن کافرا بالطاغوت قال:فمن یکفر بالطاغوت(البقرۃ۲:۲۵۶)یکون محتملا(۵۲) [/pullquote] بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جس نے کسی دوسرے سے کہا اے کافر اس پر تعزیر واجب نہیں ہو گی۔جب تک وہ اسے اے اللہ کا انکار کرنے والے نہ کہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو طاغوت کا انکار کرنے والا بھی کہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’سو جو کوئی ان معبودان باطل کا انکار کرے۔ــ‘‘پس یہ بات اپنے اندر احتمال رکھتی ہے۔
اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ مسلمان کو کافر کہنا یا خارج از اسلام قرار دینا گناہ ہے۔اگر کسی مسلمان کو کسی شخص نے کا فر کہا اور وہ قاضی کے پاس اپنا مسئلہ لے کر چلا جائے تو اسے اس کے کفر کو ثابت کرنا ہو گا۔اگر وہ شخص اس کو کافر ثابت نہ کر سکے تو اس صورت میں اسے تعزیرا سزا دی جائے گی کیونکہ ایک مسلمان کے لئے کافر کہلایا جانا ہر قسم کے سب و شتم سے بڑھ کر ہے۔مولانا عالم دہلوی رحمہ اللہ نے اس میں یہ احتمال یہ بھی بیان کیا ہے کہ کیونکہ کافر بعض اوقات مسلمانوں کے لیے بھی لغوی اعتبار سے استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے جب کسی مسلمان کو کافر کہا جائے تو اسے تعزیرا سزا دینے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کہنے والے نے کافر کا لفظ کس معنی میں استعمال کیا ہے۔اگر وہ لغوی اعتبار سے استعمال کیا ہے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔
کافر کو کافر کہنا:
بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا تنگ کر لیتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات کے علاوہ کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔اسی طرح سے بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کوئی کافر نظر نہیں آتا۔یہاں تک کہ وہ یہود و نصاری کو بھی مسلمان اوربعد از انتقال مستحق جنت سمجھتے ہیں۔ان غیر معتدل رویوں سے بچنا چاہئے۔اسلام کا دائرہ وسیع کرنے یا اسے تنگ کرنے کی ضرورت نہیں۔اسلام مکمل ہو چکا ہے اور اب کسی کو دین میں کمی یا زیادتی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کافر کو کافر کہنا درست ہے یا نہیں؟ہماری رائے میں کسی شخص کے کافر ہونے کا ثبوت قطعی یا ظنی طور پر ہوگا۔ جیسے ابو لہب، شداد، ہامان وغیرہ کا کافر ہونا قطعی طور پر ثابت ہے لہذا ان کو کو کافر کہنا درست ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
[pullquote]قل یا ایھا الکافرون(الکافرون۱۰۹:۱)[/pullquote] آپ فرما دیجیے اے کافرو!
اس آیت مقدسہ سے ان لوگوں کو کافر کہنے کا جواز معلوم ہوتا ہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی براہ راست تکذیب کی۔اسی طرح بعض لوگوں کا کافر ہونا ان کے کفریہ عقائد یا کفریہ اعمال سے اس قدر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کے کفر میں کسی بھی قسم کا تامل یا شک باقی نہیں رہتا۔ جیسے مسیلمہ کذاب یا منکرین زکوٰۃ کا کافر ہونا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان کے کفر پر اجماع ہوا اسی لیے ان پاکیزہ نفوس نے اپنے زمانہ میں ان کے خلاف جہاد کیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں صاف ارشاد فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے تو کفر من کفر من العربعرب میں سے جن کو کافر ہو نا تھا وہ کافر ہو گئے۔یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی شروع میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کی رائے سے اختلا ف کیا لیکن بعد میں آپ کی وضاحت پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ مبارک بھی کھل گیا اور آپ نے جان لیا کہ جس طرح نماز کا انکار کفر ہے اسی طرح زکوٰ ۃ کا انکار بھی کفر ہے۔
جہاں تک کسی کے کفر کا ظنی طور پر معلوم ہونا ہے تو اس کو بھی کافر کہا جا سکتا ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت ترک کرنے پر ایک صحابی کو منافق کہا۔ تاہم اپنی اس رائے کا کسی دوسرے کو مکلف نہیں بنا یا جاسکتا۔ یہاں ایک بات قابل غور یہ ہے جو مثالیں ہم نے پیش کی ہیں وہ خیر القرون کی ہیں۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں ثم یفشو الکذب فرمایا گیا ہے۔اسی لیے فقہاء کرام نے اس کے سد باب کے لئے ایسے شخص کو تعزیرا سزا دینے کا مسئلہ بیان کیا ہے جو کسی مسلمان کو کافر کہے اور اس کا کفر ثابت نہ ہو۔لہذاہمیںبالخصوص مسئلہ اکفار میں کمال احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
حدیث شریف میں وارد ہوا ہے :
[pullquote]عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قال:تخرج الدابۃ معھا خاتم سلیمان و عصا موسی فتجلو وجہ المؤمن و تختم انف الکافر بالخاتم حتیٰ ان اھل الخوان لیجتمعون فیقول ھذا یا مؤمن و یقول ھذا یا کافر(۵۳) [/pullquote] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :دابہ نکلے گا تو اس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ہو گا۔وہ مومن کے چہرے کو روشن کر دے گا اور کافر کی ناک پر انگوٹھی سے مہر لگا دے گا یہاں تک کہ جب دستر خوان پر لوگ جمع ہوں گے تو وہ کہیں گے اے مومن !اور یہ کہیں گے اے کافر!
دابۃ الارض ایک جانور ہے جو قیامت سے قبل ظاہر ہوگا۔احادیث میں اس کو قیامت کی علامات میں سے بیان کیا گیا ہے۔اس حدیث سے یہ واضح ہو تا ہے کہ جب وہ جانور ہر مومن و کافر کے چہرے پر ایمان و کفر کی علامت چھوڑدے گا تو اہل ایمان کفار کو یا کافر کہہ کر پکاریں گے۔دابۃ الارض کی اس علامت لگانے کے بعد اہل ایمان کا کسی کو کافر جاننا اس علامت کی وجہ سے قطعی نہیں ہو گا نیز دابۃ الارض کایہ عمل دلائل قطعیہ سے ثابت نہیں ہے۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اہل ایمان کا اس علامت کی وجہ سے کسی کو کافر کہنا ظنی ہوگا نہ کہ قطعی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بات کو بلا تردید بیان فرمایا ہے جو اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔
مفتی کو فتویٰ بالخصوص فتویٰ تکفیر جاری کرنے میں جن باتوں کا لحاظ کرنا چاہیے ہم نے اختصار کے ساتھ ان کا بیان کر دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ فتویٰ تکفیر جاری کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے لیکن اگر کہیں احقا ق حق یا ابطال باطل کی ضرورت ہو تو ان باتوں کا فتویٰ تکفیر تحریر کرتے وقت خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔اس کے علاوہ وہ وجوہ جن کی بنیاد پر تکفیر کرنا جائز ہے ان کی تفصیلات کو ہم نے پیش نظر کتاب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ اہل علم حضرات ان سے ضرور محظوظ ہوں گے۔ اللہ رب العزت اس سعی کو قبول و منظور فرمائے اورامت میں باہمی محبت و بھائی چارہ کا ذریعہ بنائے۔امین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
حواشی
(۱)اصول الدین :۳۳۲،،امام ابو منصور عبد القاہر بن طاہر تمیمی بغدادی،دار صادر،بیروت،استنبول مطبعۃ الدولۃ،۱۹۲۸ء
(۲)الملل و النحل:۱۱۴تا ۱۱۶،،امام محمد بن عبد الکریم شہرستانی،دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان،۲۰۰۷ء
(۳)رد المحتار :ج:۱/ص:۱۲۶،محمد امین ابن عابدین،مکتبہ امدادیہ،ملتان
(۴)فتاویٰ النوازل:ص:۸۶ ،امام ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی،دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان
(۵)الاقتصاد فی الاعتقاد :ص:۳۰۲،امام محمد بن محمد غزالی،دار المنہاج،مملکۃ العربیۃ السعودیۃ جدہ،۲۰۰۸ء
(۶)الدر المختار:ج:۶/ص:۳۵۸۔علامہ حصکفی ،مکتبہ امدادیہ،ملتان
(۷)تنبیہ الولاۃ و الحکام:ص:۳۲۹،سید محمد امین آفندی ابن عابدین شامی،سہیل اکیڈمی ،لاہور پاکستان
(۸)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۱۲،عالم بن علاء دہلوی ،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ کراچی
(۹)البحر الرائق:ج:۵ /ص:۲۰۱،الشیخ زین الدین بن ابراہیم المعروف بابن نجیم ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت لبنان
(۱۰)فیصل التفرقۃ:ص:۹۱،محمد بن محمدبن محمد غزالی،دار الکتب العلمیۃ،بیروت لبنان،الطبعۃ الرابعۃ۲۰۰۶م
(۱۱)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۲۱
(۱۲)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۲۵
(۱۳)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۲۵۔۳۲۶
(۱۴)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۵
(۱۵)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۵
(۱۶)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۵۔۳۳۶
(۱۷)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۹
(۱۸)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۴۳
(۱۹)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۴۶
(۲۰)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۴۷۔۳۴۸
(۲۱)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۱۲
(۲۲)الدرالمختار:ج:۶/ص:۳۶۷
(۲۳)ردالمختار:ج:۶/ص:۳۶۷
(۲۴)البحر الرائق:ج:۵/ص:۱۹۴
(۲۵)عمدۃ القاری:ج:۱/ص:۱۷۳،علامہ بدر الدین محمد بن محمود بن احمد عینی،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،لبنان ۱۳۴۸ھ
(۲۶)فتاویٰ النوازل:ص:۲۸۸
(۲۷)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۱۳
(۲۸)مسلم:فضائل الصحابۃ:من فضائل علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، الامام ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری،نور محمد اصح المطابع، کراچی ،پاکستان،۱۳۷۵ھ
(۲۹)فیصل التفرقۃ:ص:۹۳
(۳۰)فیصل التفرقۃ :خلاصہ:ص:۹۵
(۳۱)النسا۴:۹۴
(۳۲)سنن ابی داؤد:رقم الحدیث:۲۶۴۳
(۳۳)سنن ابن ماجہ :ابواب الفتن:الکف عمن قال لا الہ الا اللہ،،الامام محمد بن عبد اللہ بن یزید ابن ما جہ،قدیمی کتب خانہ، آرام باغ،کراچی ،پاکستان
(۳۴)سنن الدارمی:باب الفتیا و ما فیہ من الشدۃ،مام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی،المکتبۃ الشاملۃ
(۳۵)سنن الدارمی:مقدمہ:باب :۲۸،امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی،المکتبۃ الشاملۃ
(۳۶)سنن ابی داؤد:کتاب العلم:باب التوقی فی الفتیا، ا لامام ابو داؤد سلیمان بن اشعث،مکتبہ رحمانیۃ ،لاھور ،پاکستان
(۳۷)صحیح البخاری:کتاب العلم:باب:کیف یقبض العلم، الامام ابو عبدا للہ اسماعیل بن ابراہیم البخاری،نور محمد اصح المطابع ،کراچی ،پاکستان،۱۳۸۱ھ
(۳۸)روح البیان:سورۃ البقرۃ:آیت :۸۹،شیخ اسماعیل حقی بروسوی،مکتبہ اسلامیہ کانسی روڈ کوئٹہ
(۳۹)روح البیان:سورۃ البقرۃ:آیت :۸۹،شیخ اسماعیل حقی بروسوی،مکتبہ اسلامیہ کانسی روڈ کوئٹہ
(۴۰)مسلم :کتاب الایمان:باب :بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر
(۴۱)خلاصہ: عمدۃ القاری:ج:۲۲/ص:۱۵۷۔۱۵۸
(۴۲)مشکل الاثار:باب بیان مشکل ما روی عنہ علیہ السلام فیمن قال لأخیہ :یا کافر،المکتبۃ الشاملۃ
(۴۳)شرح المواقفـ:ج:۸/ص:۳۴۴،سید شریف جرجانی ،دار الفکر ،قم ایران
(۴۴)رسالۃ فی الفاظ الکفر:ص:۴۰۱قاسم بن صلاح الدین خانی،دار ایلاف الدولیۃ للنشر و التوزیع ،کویت
(۴۵)روح المعانی :ج:۱۳/ص:۲۳۲،سید محمود ٓلوسی بغدادی ،المکتبۃ الحقانیۃ ،ملتان،پاکستان
(۴۶)احکام القرآن:ج:۳/ص:۵۳۷،امام ابو بکراحمد نم علی رازی جصاص ،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت لبنان
(۴۷)صحیح البخاری:کتاب الادب:باب من کفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال
(۴۸)جامع الترمذی:ج:۲/ص:۵۴۸
(۴۹)جامع الترمذی:ج:۱/ص:۴۰۳
(۵۰)سنن ابی داؤد:کتاب الجھاد،باب الغزو مع ائمۃ الجور
(۵۱) الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۱۰۰
(۵۲)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۱۰۲
(۵۳)جامع الترمذی:ج:۲.ص:۶۲۳۔۶۲۴
(ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ ،جامعہ کراچی)