ہوم << کیا فائدہ اٹائیں سٹائیں کا!-وسعت اللہ خان

کیا فائدہ اٹائیں سٹائیں کا!-وسعت اللہ خان

557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480
گزشتہ ہفتے ٹائمز ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ دو ہزار سولہ جاری ہوئی جس میں تدریس ، نصابی معیار ، تعلیمی ماحول ، تحقیقی سہولتوں ، فنڈنگ وغیرہ کے اعتبار سے دنیا کی نو سو اسی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔اس فہرست میں سب سے زیادہ تعداد حسبِ توقع یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں کی ہے۔نمبر ون یونیورسٹی کا ٹائیٹل مسلسل تیرہ برس کی رینکنگ کے بعد امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کو منتقل ہوا ہے۔فہرست میں آخری رینکنگ یعنی نو سو اسی واں درجہ ایران کی یونیورسٹی آف زنجان کے حصے میں آیا ہے۔
ٹائمز رینکنگ میں براعظم ایشیا کی دو سو نواسی یونیورسٹیوں نے جگہ پائی ہے ان میں سب سے زیادہ یونیورسٹیاں چین سے ( چھپن ) ہیں۔ براعظم ایشیا کے اڑتالیس میں سے چوبیس ممالک کی ایک بھی یونیورسٹی اس فہرست میں جگہ نہیں پا سکی۔ ٹاپ ہنڈرڈ میں ایشیا سے چین ، سنگاپور، جاپان، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا کی کچھ یونیورسٹیوں نے جگہ بنائی ہے جب کہ ٹاپ ٹو ہنڈرڈ میں تائیوان اور اسرائیل کا اضافہ ہوا ہے۔
جنوبی ایشیا ( سارک ) میں اگرچہ دنیا کی پچیس فیصد آبادی بستی ہے۔مگر اس خطے سے صرف تین نام فہرست میں چمک رہے ہیں یعنی سری لنکا کی دو ، پاکستان کی سات اور بھارت کی اکتیس جامعات۔پاکستان کی کومسٹس ، نسٹ اور قائدِ اعظم یونیورسٹی  کی ورلڈ رینکنگ اگرچہ چھ سو سے آٹھ سو کے رینکنگ بریکٹ میں اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، کراچی یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف لاہور کی رینکنگ آٹھ سو تا نو اسی یونیورسٹیوں کے بریکٹ میں ہے مگر اس نچلی رینکنگ کو بھی اس اعتبار سے غنیمت سمجھنا چاہیے کہ اس سے قبل پاکستان کی دو یا تین یونیورسٹیاں ایک ہزار عالمی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں جگہ پاتی تھیں۔ اس سال یہ تعداد سات تک پہنچ گئی ہے۔
براعظم افریقہ سے جنوبی افریقہ واحد ملک ہے جس کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن ٹاپ ٹو ہنڈرڈ کی ورلڈ رینکنگ میں شامل ہو سکی ہے۔لیکن مجموعی طور پر جنوبی افریقہ کی جتنی یونیورسٹیاں ٹاپ نو سو اسی کی فہرست میں شامل ہیں ان کی تعداد باقی افریقی ممالک کی مجموعی رینکنگ سے بھی زیادہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرست گوری اقلیتی حکومت کے تحت جو نظامِ تعلیم اپنایا گیا تھا۔ کم ازکم اب بھی اس کی تنظیمی ، تدریسی و نصابی خوبیاں سیاہ فام اکثریتی حکومت نے برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اب اگر اس فہرست کا عالمِ اسلام کے مجموعی تعلیمی معیار کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو ماضی میں معروف ماہرِ تعلیم و سائنسداں ڈاکٹر عطا الرحمان بیسیوں مضامین میں اس موضوع پر سیر حاصل روشنی ڈال چکے ہیں۔اگر ٹائمز رینکنگ فہرست میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کے ستاون رکن ممالک کو تلاش کیا جائے تو اکتالیس ممالک کا نام غائب ہے۔جو سولہ ممالک اس فہرست میں شامل ہیں ان میں ترکی (پندرہ (،ایران(گیارہ)،پاکستان (سات)، ملائیشیا ( چھ ) ، سعودی عرب ( چار ) ، مصر ( چار ) ، اردن (دو)، تیونس ( دو ) ، انڈونیشیا ( دو ) اورمراکش ، اومان ، متحدہ عرب امارات ، کویت ، نائجیریا ، گھانا ، یوگنڈا کی ایک ایک یونیورسٹی شامل ہے۔گویا او آئی سی کے رکن عالمِ اسلام کی صرف ساٹھ یونیورسٹیاں نو سو اسی اچھی عالمی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ان میں سب سے معیاری سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی قرار پائی ہے جس کی رینکنگ دو سو ایک سے ڈھائی سو کے درمیان کے بریکٹ میں آتی ہے۔
سب سے زیادہ ( پندرہ ) یونیورسٹوں کا تعلق ترکی سے ہے اور ان میں بھی بیشتر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے مشہور ہیں۔گو ترکی ان معنوں میں مغربی ملک نہیں مگر مغرب کی سائنسی تعلیمی قربت کا ترک نظامِ تعلیم کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔ترکی کے بعد مسلمان ممالک میں معیارِ تعلیم کے اعتبار سے ایران ہے جس کی ٹائمز ورلڈ رینکنگ میں شامل گیارہ یونیورسٹیوں میں سے آٹھ کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں اگر کوئی ایک ملک ٹاپ ٹو ہنڈرڈ کی ورلڈ رینکنگ میں آ سکا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔مجموعی طور پر اسرائیل ( آبادی پچاسی لاکھ ) کی چھ یونیورسٹیاں ٹائمز رینکنگ میں ٹاپ ٹو ہنڈرڈ سے ٹاپ ایٹ ہنڈرڈ کے بریکٹ میں شامل ہیں۔
سب سے متاثر کن معاملہ چین کا ہے۔بیس برس پہلے تک ایک درجن چینی یونیورسٹیاں بھی ٹاپ ایک ہزار کی ورلڈ رینکنگ میں جگہ حاصل نہیں کر پاتی تھیں مگر آج چین کی چھپن یونیورسٹیاں اس فہرست میں شامل ہیں۔ان میں سے تین ٹاپ ہنڈرڈ رینکنگ میں ہیں۔ کل ملا کے چھپن میں سے چھ چینی یونیورسٹیاں دنیا کی دو سو بہترین درسگاہوں میں جگہ بنا چکی ہیں۔
بھارت کی آبادی ( ایک ارب تیس کروڑ ) کو دیکھتے ہوئے اس ملک کی صرف اکتیس یونیورسٹیوں کا ٹاپ ایک ہزار میں شامل ہونا حوصلہ افزا عمل دکھائی نہیں دیتا لیکن سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں معیاری تعلیمی اداروں کی گروتھ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سال بہ سال اس رینکنگ میں اور اضافہ ہوتا جائے گا۔اس موقعے پر ہمیں بنگلہ دیش کو نہیں بھولنا چاہیے جہاں  بنیادی خواندگی کا تناسب اگرچہ نیپال اور پاکستان سے زیادہ ہے مگر وہاں کی ایک بھی یونیورسٹی ٹائمز کے ٹاپ ایک ہزار میں جگہ نہیں بنا پائی۔
اس طرح کی رینکنگ سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو البتہ یہ سوچنے کا موقع ضرور ملتا ہے کہ دنیا میں اگرچہ دو سو سے زائد ممالک ہیں مگر ان میں سے صرف چھبیس ممالک ہی ایسے کیوں ہیں جہاں دنیا کی دو سو چوٹی کی درسگاہیں پائی جاتی ہیں۔اور ان چھبیس ممالک میں بھی امریکا ، کینیڈا ، روس ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت اٹھارہ مغربی اور صرف آٹھ غیر مغربی ممالک کیوں ہیں۔
ہمیں مدرسے سے  یونیورسٹی تک ہوش سنبھالنے سے عالمِ سکرات میں مبتلا ہونے تک مسلسل بتایا جاتا ہے کہ اقرا ( پڑھ ) ، ربِ زدنی علما ( اے رب میرے علم میں اضافہ فرما ) ، علم حاصل کرو بھلے چین جانا پڑے ، تحصیلِ علم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
ہم اس پر بھی مستقل اینٹھے رہتے ہیں کہ سب سے پہلی یونیورسٹی ہمارے آبا و اجداد نے ہزار برس سے بھی پہلے تیونس میں بنائی  ، سب سے بڑی جامعہ الازہر تب بنی  جب یورپ کو تعلیم کی ت بھی نہیں معلوم تھی۔بغداد کے دارالحکمت میں اس قدر کتابیں تھیں کہ تاتاریوں نے انھیں جلایا تو دجلہ و فرات کا پانی ان کی راکھ سے کئی دن سیاہ رہا۔مغربی تہذیب ہی نہ ہوتی اگر مسلمان متروک یونانی علوم کا ترجمہ کرکے انھیں زندہ نہ کرتے۔اگر ابن سینا ، فارابی ، جابر بن حیان پیدا نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
کیا فائدہ دو ہزار سولہ میں اس اٹائیں سٹائیں کا۔کاش اغیار کو نیچا دکھانے اور سنہرے ماضی کی ڈھال بنانے کی لچھے داری میں جو توانائی نسل در نسل ضایع ہو رہی ہے اس سے آدھی توانائی اب بھی تعلیم میں لگ جائے تو کچھ بن جائے۔
’’ہم پچھلے ہزار سال سے تاریخ کے دستر خوان پے بیٹھے حرام خوری کر رہے ہیں’’(جون ایلیا)

Comments

Click here to post a comment