ہوم << محبت ایسی ہوتی ہے! اختر عباس

محبت ایسی ہوتی ہے! اختر عباس

اختر عباس دلیل پر آئے روز نت نئے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ایک سوال نے مجھے بھی بہت بےآرام کر رکھا ہے۔ عام طور پر ہم انہی باتوں پر پریشان ہوتے ہیں جو ہم پر بیتی نہ ہوں، جو ہمارا تجربہ نہ ہو، مگر کیا کریں خود رو پودوں کی طرح اگنے والے ایسے سوالوں کا بھی تو اہل دانش کی محفلوں میں کوئی مقام ہوگا۔ ان کے کانٹوں کا کوئی توڑ، ان کے زہر کا کوئی تریاق، کہیں کوئی امید کا دیا، کہیں کسی سادہ دل کی اعلیٰ ظرفی کا ماجرا جو ڈوبتی نبضوں جیسی قدروں سے خالی ہوتی زندگی کو یہ موہوم سی امید ہی دلا دے کہ عادتوں اور انسانوں سے وہ محبت ابھی باقی ہے جو کبھی زندگی کا حسن کہلاتی تھی۔
ذہن پر بہت زور بھی دوں تو بیتے بیس تیس سالوں میں شاید ہی کوئی موقع ایسا آیا ہو کہ میں نے کسی دوست سے گاڑی اُدھار مانگی ہو۔ جب جب گاڑی ورکشاپ گئی، بلا تامّل رکشے سے کام چلا لیا۔ وقت اور سہولت دیکھی تو چپ چاپ بغیر تکلیف اور تکلف کے ویگن میں بھی بیٹھ گیا۔ اب تو اور آسانی ہوگئی ہے، کہیں دور جانا ہو تو رینٹ اے کار والے کو فون کردیا اور اطمینان سے سفر کرلیا، البراک اور اوبر کی سہولت اور بھی شاندار اور آرام دہ۔ شاید میری یہ بےنیازی اور خودداری وجہ رہی ہو یا دوسروں کے ساتھ تعلقات میں ایک غیر مرئی فاصلہ اس کا باعث بنا ہو، بہرحال وجہ کوئی بھی رہی ہو، یہ طے ہے کہ سالوں سے کسی سے گاڑی نہیں مانگی۔ یوں یہی معمول میری زندگی کا حصہ بنا، جس کے ساتھ میں جیتا رہا۔
اردو ڈائجسٹ کی ادارت کے دنوں میں ایک روز دوپہر کے وقفے میں جوہر ٹاؤن آفس کے باہر گومگو کی کیفیت میں کھڑا تھا۔ اصل میں مصر کے سفرنامے کی قسط لکھنے کے لیے نوٹس کی ضرورت تھی جو گھر پر بھول آیا تھا۔ گاڑی پارکنگ میں موجود تھی مگر ڈرائیو کرنے پر دل آمادہ نہیں تھا۔ اتنے میں ڈیزائنر آیت اللہ [روزنامہ نئی بات] کی سواری باد بہاری آکر رُکی، اس سے موٹر سائیکل لیا اور اپنے محنتی نائب سجاد قادر [ سب ایڈیٹر ] کو کام بتا اور سمجھا کرگھر روانہ ہوگیا۔ اس بائیک کی بریک کی خرابی کے باعث گھر تک کس مشکل سے پہنچا، یہ ایک الگ داستان ہے۔ واپسی پر پہلے بریک ٹھیک کروائی پھر اس کا سیٹ کوَر ڈلوایا، پھٹے ہوئے کوَر سے فوم تک نکل کر گر چکا تھا۔ ایک انڈیکیٹر بھی ٹوٹا ہوا تھا، بیک مرر بھی نجانے کب کا غائب تھا۔ تینوں چیزیں لگوا کر دفتر پہنچا اور واچ مین سے کہا اسے سٹینڈ پر کھڑی کر دے۔ مجھے تو یہ سب کرکے اچھا لگا تھا۔ دل میں کہیں یہ خیال بھی تھا کہ آیت اللہ کو بھی اچھا لگے گا اور وہ بھی کیا یاد کرے گا کہ کبھی کسی کو موٹر سائیکل دینے سے ایسے فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔ شام تک کام میں ایسی مصروفیت رہی کہ ہم بات بھی نہ کرسکے۔ میں دفتر سے نکل چکا تھا جب آیت کا فون آیا کہ سر سٹینڈ پر میری موٹر سائیکل نہیں ہے۔ بتایا کہ فلاں جگہ کھڑی کروائی تھی۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں پہنچا اور پھر گھبراہٹ سے بولا سر! یہاں کوئی اور کھڑی ہے۔ میرے والی نہیں ہے۔ پھر وہ گڑبڑایا،’’سر نمبر تو میرے والا ہے مگر حالت میرے والی نہیں ہے۔‘‘ اگلے لمحے ہم دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دیے اور فون بند ہوگیا۔ اپنی عادتوں سے محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔
انسانی تعلقات میں محبت اور مروت کا جتنا مقام ہے، اندیشوں اور بُرے مشاہدات کی سچائی بھی ان سے کم نہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو کسی کی گاڑی لے گئے، بےدردی سے استعمال کی، لاپراوہی کے باعث کسی حادثے کا باعث بنی تو گاڑی وہیں چھوڑ کر فون پر اطلاع کرنے کو کافی سمجھا کہ فلاں جگہ کھڑی ہے، لے لیجیے۔ کبھی کوئی صاحب بھری ٹینکی کے ساتھ، بس چند منٹ میں آیا، کہہ کر لے گئے اور ان کی واپسی منہ لٹکائے تب ہوئی جب دن ہی بیت چکا ہوتا۔ کوفت اور بےزاری بھرا بامروت مالک اپنے بچوں کو لے کر نکلا تو کچھ ہی دور اندھیرے میں جا کر گاڑی چلنے سے انکاری ہوگئی۔ فون کر کے مستری بلایا، کھلوا کر دیکھا، کوئی بات سمجھ نہ آئی، آخر میں حادثاتی طور پر علم ہوا کہ گاڑی چلے کیسے؟ اس میں تو ایک قطرہ بھی پٹرول نہیں۔ انڈی کیٹر ٹوٹنے، بمپر کا ستیاناس ہونے اور کسی اور حصے کا سوا ستیاناس کرنے کی شکایات عام طور پر کانوں میں پڑتی رہی ہیں۔ ایک صاحب کی ہنڈا واپس آئی تو مالک نے بیک سکرین پر بڑی سی چادر پڑی دیکھی۔ احتیاط اچھی لگی کہ شکر ہے، مانگنے والے نے اپنی گاڑی سمجھ کر استعمال کی۔ کچھ دیر بعد جب خود گاڑی میں بیٹھے تو پتا چلا کہ وہاں تو بیک سکرین کا پورا شیشہ ہی نہیں ہے۔ گھبرا کر فون کا نمبر ڈائل کیا۔ سپاٹ سا جواب ملا یار کسی بچے نے پتھر مار کر توڑ دیا تھا۔ پتا ہی نہیں چلا کون نامعقول تھا۔ کیا کریں لوگوں کے بچے ایسے ہی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ صرف اپنی ہی غرض سے، محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔
کئی بار دوست احباب بتایا کرتے ہیں کہ شادی بیاہ پر مہمانوں کو لانے کے لیے جانے والی گاڑیاں اکثر پھٹی سیٹوں، خالی ٹینکیوں، گندے داغوں اور کچرے سے بھری ملتی رہی ہیں۔ کم ہی کسی کو ایسا مانگنے والا ملا ہوگا جو گاڑی واش کرکے، گیس یا پٹرول ڈلوا کر طریقے، سلیقے اور قرینے کا مظاہرہ کرکے واپسی کا ’’مرتکب‘‘ ہوا ہو۔ یہ مزاج کا نہیں ذہنی ساخت اور ذاتی اقدار کا بھی مسئلہ ہے۔ بنیادی تربیت کی غیر موجودگی اور تعلقات سے ایک ہی بار فائدہ اُٹھانے کی کوتاہ فکری کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر یہ انداز اور طرزِ عمل بہت دُکھ دیتا ہے۔ اچھے تعلقات پر ایک بُری سی لائن کھینچ دیتا ہے۔ اکثر محبت کے جذبات پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل یہ انہونی میرے ساتھ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ شہروز نے شام ڈھلے گھر آکر جب گاڑی مانگنے کے لیے تمہید باندھنی شروع کی تو میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ ہاں کروں یا ناں۔ وہ اصولی طور پر اس وقت مسقط میں تھا، مگر عملی طور پر ہربنس پورے میں ایک کمرے کا گھر بسا چکا تھا۔ لڑکی نے بھی گھر والوں کو یہی بتایا ہوا تھا کہ وہ جاب کے لیے مسقط گئی ہوئی ہے۔ اپنی والدہ کو وہ ہفتے دس روز بعد کسی پبلک بوتھ سے فون کرکے خیر خیریت کی اطلاع دے دیا کرتی تھی۔ جس کے نمبروں سے یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ فون کس جگہ سے آ رہا ہے۔ گھر اور گھر والوں سے دور اپنے گھر میں رہتے اور جمع پونجی ختم کیے انھیں کئی ماہ ہو چکے تھے۔ اب دونوں مل کر ڈھیر سارے آلو اُبالتے، سموسوں کا میٹریل تیار کرتے اور تین چار جگہ دے آتے۔ زندگی کی گاڑی برق رفتاری سے بھاگنے کے بجائے گھسٹنے پر آگئی تھی اور وہ دونوں اسے گھسیٹ رہے تھے۔ جسموں سے دلچسپی کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئی تھی اور روز کی مشقت، پیسے کی کمی اور بےیقینی نے دل و دماغ کو پوری طرح گھیر لیا تھا۔
شروع میں وہ ایک دو بار آیا تو بہت پرجوش تھا۔ ایسے لگتا تھا زندگی کے سب سے خوب صورت لمحے دونوں اکٹھے گزار رہے ہیں۔ میں نے بھی ہمدردی میں جذباتی ہو کر گھر میں موجود ضرورت کی تمام ایسی اشیا جو انھیں اپنی روزمرہ خانگی زندگی کو آسان اور آسودہ کرنے میں مدد دے سکتی تھیں، ایک رات بوری بھر کر اس کے حوالے کر دی تھیں۔ ان میں گیس کا چولہا، توا، ضرورت کے برتن، چائے بنانے والا ایک ساس پان، دو تین گلاس اور پلیٹیں شامل تھیں۔ لڑکی گھر سے رخصت ہو تو ماں کتنے ہی مان سے یہ سب کچھ دیتی ہے۔ ہر مشکل لمحے خود پہنچ جاتی ہے۔ خود تجربے کرنے والوں کو یہ مشکل خود بھگتنی پڑتی ہے۔ ایسے میں اکثر محبت بڑی مہنگی پڑتی ہے۔
ان دونوں محبت کرنے والوں کے گھر والے لاہور میں تھے۔ ایک موبائل فون کی فرنچائز پر اُن کی ملاقات ہوئی تھی۔ وہیں دوستی پروان چڑھی اور پھر دونوں نے’’مسقط‘‘ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا ’’مسقط‘‘ شمالی لاہور میں دریافت ہوا۔ ہم اپنے دل کے آس پاس رہنے والوں کے ساتھ کم ہی غیر مشروط محبت کرتے ہیں۔ اس محبت کی بنیاد میں کچھ ایسی چیزیں، جذبے، سوچ، پسند و نا پسند ضرور ہوتے ہیں جن کے باعث آنکھوں میں پسندیدگی اور آمادگی کے کوندے لپکتے ہیں۔ کبھی ایسا سگے رشتوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور فوری پسند کے عارضی بندھنوں کی مضبوطی بھی اسی احساس پر منحصر ہوتی ہے۔ رشتوں کی عمر لمبی ہوگی یا مختصر یہ کوئی پوشیدہ یا انوکھی سائنس نہیں ہے۔ پہلے قدم ہی پر اس کا تعین ہوجاتا ہے اور گزرنے والا ہر لمحہ اور واقعہ اس تعلق کی مضبوطی یا کمزوری واضح کرتا جاتا ہے، شاید یہیں کہیں محبت ہوتی ہے ۔ یہ جو کہتے ہیں۔ ’’لائی بےقدراں نال یاری تے ٹُٹ گئی تڑک کرکے‘‘ تو پھر محبت تو نہ ہوئی ناں، یہ تو ایک شاعرانہ تعلّی ہے۔ ’’ تڑک کرکے‘‘ یہ بھی نہیں ٹوٹتی۔ رشتے کی کمزوری اور بوسیدگی کا باعث بننے والا کوئی واقعہ، نامناسب بات یا ناپسندیدہ عمل ہی ہوتا ہے جو کسی طور آپ کا دل قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور آپ رشتہ مزید نبھانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ برداشت کی کمی بیشی ہر فرد میں مختلف ہوتی ہے اور یہ فرق اس کے تعلقات، دوستوں، رشتوں کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ اگر آپ کی زندگی میں باہمی تعلقات کے لیے کم سے کم طے شدہ اصول، بندشیں، ویلیوز، اوربنیادیں ہی نہ ہوں تو غور کیجیے کہ انسان ہونے کا شرف اور فرق ہی ڈانوا ڈول ہوجائے گا۔ خاندان اور عزیز و اقارب عام طور پر مضبوطی اور قوت کی بیرونی دیوار ہوتے ہیں، جہاں یہ بھی میسر نہ ہو تو محبت اور تعلق کی حفاظت کی کوئی بیرونی تہ ہی باقی نہیں رہتی۔ لوَ میرج کرنے والوں میں علیحدگی اور طلاق کے چار ہزار سے زیادہ مقدمات اس وقت صرف لاہور شہر کی عدالتوں میں انھیں رُلا رہے ہیں اور احساس دلا رہے ہیں کہ خاندان کی مرضی کے خلاف، والدین سے بغاوت کر کے، صرف کسی چہرے کی خوب صورتی دیکھ کر سب کچھ چھوڑنے اور سارے رشتے نچھاور کرنے والے اکثر لوگ آخر میں خالی ہاتھ ملتے نظر آتے ہیں۔ کسی مشکل لمحے میں آس پاس کوئی سہارا دینے والا، کوئی ڈھارس بندھانے والا بھی نہیں ملتا۔ وہ بھی تب یہی پوچھتے ہیں کہ محبت ایسی ہوتی ہے۔
شہروز نے جھجکتے ہوئے سر جُھکایا اور بولا ’’سر! گاڑی چاہیے تھی۔‘‘
’’اس وقت!‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا گھروں کو واپسی ہو رہی ہے۔‘‘
بولا ’’نہیں! وہ مہرو دو دن سے ہسپتال میں ہے۔ اس کا ابارشن (اسقاط حمل) کروایا تھا۔ بلیڈنگ ہی نہیں رکی، دایہ کے بعد قریبی ہسپتال والوں نے جواب دے دیا تھا۔ اب ایک دوسرے ہسپتال میں ہے، میرے پاس پیسے ہی ختم ہو گئے تھے کس سے لیتا۔ آج دن بھر میں اِدھر ُادھر پھرتا، شام کا انتظار کرتا رہا۔ اب تک تو اس کی جان نکل گئی ہوگی۔ اس کی ڈیڈ باڈی گھر تو لے جا نہیں سکتا، کسی قبرستان ڈال آئوں گا۔ اس کے لیے گاڑی ضروری ہے۔‘‘
مجھے لگا کسی ننگی تار نے چھو لیا ہے۔ حیرت، دکھ اور بےیقینی کا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ مجھے سنبھلنے میں وقت لگا۔
’’تمھاری تو محبت کی شادی تھی۔ تم تو اس رشتے سے کانوں تک خوش تھے۔‘‘ اپنی محبت کی ایسی بے قدری کرو گے۔
’’وہ تو ٹھیک ہے سر!‘‘ وہ سرجھکا کر بولا۔ ’’ہم نے اصل میں شادی نہیں کی تھی۔ بس اکٹھے رہ رہے تھے کیونکہ ہمیں لگتا تھا ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ہم نے خوشی خوشی ایسا کر لیا تھا، یہ خبر نہیں تھی کہ اسے لمبا کھینچنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
خاموشی ایک طویل دریا کی طرح ہمارے درمیان بہنے لگی۔
’’محبت ایسی ہوتی ہے؟‘‘ مجھے بعد میں احساس ہوا۔ یہ سوال میرے جسم میں دوڑتے غصے اور نفرت کے باعث کانپ رہا تھا۔
’’جس کے ساتھ تم نے محبت کی، کسی قاعدے کُلیے کے بغیر صرف جسمانی لذت کے لیے دن رات ساتھ گزارے۔ تمھارا بیج ہی اس کی موت کا باعث بنا۔ اب تم اسے کسی لاوارث کتے کی طرح پھینک آئو گے؟‘‘
’’کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔
’’میں نے بہت غور کیا۔ اس کے گھر والے تو مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ ابھی انھیں نہیں پتا مگر جونہی خبر ہوگی، قاتل میں ہی ٹھہروں گا، میں اُس کی نوبت ہی نہیں آنے دوں گا۔ اس کی لاش دریافت ہونے تک کوئی پہچان ہی نہیں سکے گا۔ یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ہم کبھی اکٹھے بھی رہے ہیں۔‘‘
’’اور تم؟‘‘
’’میرا خیال ہے میں گھر واپس چلا جائوں گا۔ پچھلے کئی ماہ میں نے بہت مشکل اور مالی پریشانی کے دیکھے ہیں۔‘‘
میں ذاتی طور پر بہت بامروت ہوں۔ کتنی بار تو چیزیں اور باتیں ناگوار بھی ہوں توآخری حد تک برداشت کرجاتا ہوں مگر اس روز جیسے میرے صبر اور برداشت کی وہ حد آگئی جس نے مجھے اٹھاکر کھڑا کر دیا۔ دروازے کی طرف رخصت ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’میں معذرت خواہ ہوں۔ گاڑی نہیں دے سکوں گا۔ پچھلی سیٹ پہ لگنے والے گناہ کے دھبے مٹانے میں زندگی گزر جائے گی اور میں جانتا ہوں، وہ تب بھی نہیں مٹ سکیں گے۔ تم بہادر آدمی ہو، اس بیر بہوٹی لاش کو کہیں بھی ٹھکانے لگا آئو گے اور تمھیں فرق بھی نہیں پڑے گا۔ تمھیں وہ یاد بھی نہیں آئے گی۔‘‘
بے شک وقت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو الزام دینے کی لذت سے بےنیاز ہوتا جا رہا ہوں۔ کبھی اس بات پر بھی دکھ ہوتا تھا کہ ایک دوسرے سے مانگ کر لی جانی والی کتابیں، گندی کرکے، جلدیں خراب کرکے اور استعمال کرکے برے حال میں واپس کیوں کی جاتی ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو اپنے اس رویے اور بُرے طرزِ عمل کی بدصورتی کیوں نظر نہیں آتی؟ ایسے بے حِس لوگ چیزیں بےقدری اور بےدَردی سے واپس کرتے ہوئے معذرت بھی نہیں کرتے۔ اُلٹا بعد میں فخریہ بیان کرتے اور قہقہے لگاتے ہیں جیسے کوئی تاریخی قلعہ فتح کر لیا ہو۔
انسانی پسند نا پسند، آس پاس ہونے والی باتیں، اُن کو دہرانے والی محفلیں ہی عادتوں میں ڈھلتی ہیں اور عادتیں شخصیات تعمیر کرتی ہیں۔ ہماری ہر شخصیت کی تعمیر میں الگ الگ طرح کی خرابیاں گھس آئی ہیں۔ یہاں تک کہ جن باتوں پر شرمانا چاہیے کہ اب ان کا ذکر معمول کے واقعے کی طرح ہونے لگا ہے۔ دوسروں کی چیزوں کے استعمال پر فخر کرنے اور انھیں بےوقوف اور بدھو بنا کر خوش ہونے کی جبلت اب اپنے جیسے زندہ انسانوں اور ان کے جسموں سے کھیلنے، حَظ اُٹھانے اور پھر کسی استعمال شدہ بےوقعت ٹشو کی طرح اٹھا کر پھینکتے ہوئے اسی لیے اب ذرا سا دَرد بھی نہیں ہوتا۔
کبھی ایک صحافی کا سنا کرتے تھے جو دفتر آ کر نعرہ مارا کرتا تھا چالیس بیالیس، سننے والے سبھی جان جایا کرتے تھے کہ یہ جھوٹ یا سچ انسانی جسموں سے کھیل کھیلنے کی شرمناک تعداد کا ذکر ہو رہا ہے، بالآخر اسے ایک روز شہر بدر ہونا پڑا تھا مگر اسے اپنی محبتوں کا بڑا مان ہوا کرتا تھا، وہ اسے محبت ہی کہا کرتا تھا اور کئی لوگوں کے لیے ترغیب کا باعث بنتا تھا۔ میں تب بھی سوچتا تھا کیا محبت ایسی ہوتی ہے؟
ایک ادارے میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے انگریزی کے ایک سینئر ایڈیٹر پروفیسر مسعود خان صاحب دل کا دورہ پڑنے پر اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے انتقال کر گئے، ہم ابھی اسی بات پر دکھی تھے کہ عبدالسلام نے اپنی کار دینے سے انکار کردیا تھا، متبادل انتظام کرکے جب جناز ہ اٹھا کر دفتر سے نکل رہے تھے تو ایک کولیگ نے اچانک جنازہ چھوڑ دیا اور غائب ہوگیا۔ واپسی پر پوچھا تو بولا ایک کم لباس لڑکی پر نظر پڑی تھی، پہلی نظر میں محبت ہوگئی، ایسے میں جنازے کے ساتھ کیسے چلا جاتا؟ میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کیا واقعی محبت ایسی ہوتی ہے؟ میں نے تو کسی کتاب اور رسالے میں تب تک ایسی محبت کا تذکرہ تک نہیں پڑھا تھا۔
نسیم حجازی کی لکھی ہوئی پاکیزہ سی محبت جس میں چند لمحوں کے لیے دل کو خوشگوار دھڑکنیں محسوس ہوتی تھیں بھلا کیوں کر بری لگتی؟ سوچتا تھا کہ ایسی محبت اگر کسی کو مل جائے تو بادشاہی جیسی ہوتی ہوگی۔ سنتے تھے محبت دل و نگاہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ دوسرے کے لیے جینے مرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسی کی ہر خوشی کا سوچنے میں لذت آنے لگتی ہے۔ مگر ارادہ ہی محبت کے لفظ کے ناروا استعمال کا ہو، محبوب کے جسم سے کھیلنے کا اور اسے بےوقعت کرکے، پھر ایک اور گھر ایک نئے دَر کی تلاش کا ہو تو کسی حد کا تعین کیسے ہو سکتا ہے؟ کسی کو اس حد کے اندر کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ بدقسمتی سے اپنے یونیورسٹی کیرئیر کے دوران بطور ایچ آر ڈی ہیڈ ایسی شکایات سے بھی واسطہ پڑا کہ یقین ہی نہ آتا تھا۔ امریکہ سے واپس آنے والے ایک ڈاکٹر استاد کلاس میں طلبہ کو فخریہ بتا کر گھر گئے کہ انھوں نے کتنے جسموں سے کھیلا۔ ان کا نام تو مسلمانوں جیسا تھا کام البتہ ضرور شرمسار کرنے والے تھے، دُکھ تو یہ بھی ہے کہ تجربے، سنیارٹی اور ڈگریوں میں بھی نمایاں تھے۔ ان سے ادارے نے ہمت کر کے تحقیق کی اور اگلے ہی روز صرف اسی وجہ سے معذرت کر لی تو جوہر ٹاؤن میں واقع ایک دوسری یونیورسٹی نے دونوں ہاتھوں سے انھیں گلے لگا لیا۔ اب وہ وہاں اپنے افعال شنیعہ کا فخریہ بیان کرتے ہیں اور گناہِ جاریہ کو کاشت کرتے ہیں۔
مجھے معاف رکھیے ایس ایم ایس کے ذریعے جنسی لطائف بھجوانے سے شروع ہونے والی عادت، جنسی باتوں اور مناظر اور تصاویر میں دلچسپی ہی ایک روز بےجھجک ہونے کا موجب بنتی ہے۔ ساری حیا ہی جاتی رہتی ہے۔ یہ بات ایک بار شہروز نے ہی بتائی تھی جو کبھی اپنی معصومیت کے باعث میرا بےحد عزیز شاگرد تھا۔ وہ کب اپنی معصومیت گنوا بیٹھا مجھے علم ہی نہ ہو سکا، کیاامیری محبت نے آنکھوں پر پٹی باندھے رکھی اور میں اس میں آتی تبدیلی ہی نہ دیکھ سکا۔ ہم کہاں کے دانشور اور دانا ہیں جو اپنے ساتھ جینے اور بظاہر محبت کا دعویٰ رکھنے والے پیاروں کی بدلتی ذہنی حالت کا بھی اندازہ نہیں کرپاتے۔
شہروز نے سرجھکا کر دروازہ کھولا اور اندھیرے کا حصہ بن گیا۔ میں کتنی دیر ڈرائنگ روم میں پائوں پٹختا پھرا۔ پھر بےدم ہو کر بیٹھ گیا۔ میری اہلیہ کافی دیر تک کمرے میں کوئی آواز نہ پا کر دستک دے کر اندر آئی تو بھی مجھے خبر نہیں ہوئی۔ اس نے گھبرا کر میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا جو ایک ایسی لڑکی کے لیے آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا جس کو میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اور جو اس شب اپنی ہی محبت اور محبوب کے ہاتھوں کسی بےنام قبر کے کیڑوں کا رزق بننے والی تھی۔
’’وہ کہتا ہے اسے کسی قبرستان میں پھینک آئے گا۔ کیا وہ کوئی مردہ بلی ہے۔ جسے یوں بے دَردی سے پھینک دے گا۔ جانے کس نصیبوں جلی ماں کی بیٹی ہے جو یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ ایک بےقدرے اور خود غرض کے ساتھ کئی ماہ جیتی اور سوتی رہی۔ یہ مائیں ایسی اندھی کیوں ہوجاتی ہیں کہ انھیں اتنا بھی پتا نہیں چلتا کہ کب ان کی بیٹیاں جھوٹ کے کاغذ سے بنی کشتیوں پر ڈوبنے کے لیے اسی محبت کے نام پر جا بیٹھتی ہیں۔ لوگ اپنی ناکارہ سی کار، موٹر سائیکل دیتے ہوئے سو دفعہ سوچتے ہیں، واپسی پر پہچانی نہ جائیں تو بھولے بھالے آیت اللہ کی طرح دوڑے پھرتے ہیں کہ یہ کیا اور کیسی تبدیلی رونما ہوگئی ہے۔ یہ کیسی بے نیازی ہے کہ ان جانے لوگ محبت کے نام پر جسم کا ٹکڑا چیل کَووں کی طرح اُٹھا کر لے جاتے ہیں، بےدردی سے استعمال کرتے ہیں اور پھر کسی استعمال شدہ ٹشو کی طرح بےوقعت کر کے بےنیازی سے پھینک دیتے ہیں، اور جنم دینے والیوں کو خبر بھی نہیں ہوپاتی۔ میری بےجی کیوں کہتی تھیں کہ اولاد تو ماں کی انگلیوں اور ان کے پوروں میں زندہ ہوتی ہے، سب سے پہلے ماں ہی کو علم ہوتا ہے کہ اندر کا موسم بدل رہا ہے۔ کیا موسم زیادہ بدل گئے ہیں یا مائیں ہی موسموں سے زیادہ بدلتی جا رہی ہیں۔‘‘
میں دُکھ بھرے غصے سے مسلسل بڑبڑا رہا تھا اور وہ بات کا مفہوم اور پسِ منظر جاننے کے لیے پوری ہمدردی، صبر اور توجہ سے مجھے دیکھ رہی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ محبت کبھی کبھی اتنی بری لگنے لگتی ہے کہ اس ظالم کا ذکر کرنے کو بھی دل آمادہ نہیں ہوتا۔ اب بندہ کسی اپنے سے کیا کہے کہ محبت ایسی کیوں ہوتی ہے۔
(اختر عباس مصنف، افسانہ نگار اور تربیت کار ہیں۔ سترہ برس نوائے وقت کے پھول میگزین، قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ اردو میں نئی نسل کے لیے ان کی کتابیں دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی شخصیت سازی پر پانچ منی بکس ہیومن اپیل لندن نے پانچ لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے آزاد کشمیر کے ایک لاکھ طلبہ تک پہنچائیں۔ انہیں اس سال یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ایک کتاب’’ آداب زندگی کے‘‘ کی اشاعت نے بھی اسی برس پچاس ہزار کا ہدف عبور کیا۔ اخترعباس ممتاز تربیتی ادارے ہائی پوٹینشل آئیڈیاز کے سربراہ ہیں۔ ان سے ان کے فیس بک پیج akhter.abbas اور ای میل akhterabas@ymail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment

  • ایک اور خطرناک رویہ یہ ہے کہ بچوں کو بڑوں کے ادب کے نام پر یہ بتایا جاتا ہے کہ بڑے جو کچھ بھی کہیں یا کریں، اس نے آگے سے نہ جواب دینا ہے نہ ہی ہلکا سا اعتراض کرنا ہے۔ ایسے بچے اس قسم کی صورت حال سے دو چار ہوتے ہوئے تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو واضح طور پر بتائیں کہ کہاں اسے لحاظ رکھنا ہے اور کہاں نہیں۔ جی ہاں، ایسے مواقع بھی آئیں گے کہ جہاں بڑوں کا لحاظ محض عمر کی وجہ سے کرنا سراسر حماقت ہو گا۔ اوپر موجود تحریر ثبوت کو کافی نہ لگے تو اغوا وغیرہ کے بہت سے واقعات کو ہی دیکھ لیں۔