ہوم << جمعیت نے مجھ پر بہت تشدد کیا - طارق حبیب

جمعیت نے مجھ پر بہت تشدد کیا - طارق حبیب

طارق حبیب میں نے سوال کیا کہ آخر تم بتا کیوں نہیں دیتے کہ جمعیت نے تم پر کیا ”مظالم“ ڈھائے ہیں تو وہ بولا:
”میں اپنے اوپر کیے گئے اسلامی جمعیت طلبہ کے مظالم کبھی بھول نہیں سکتا۔ جمعیت کے دیے گئے ”زخم“ آج بھی رستے ہیں۔ مجھے جب موقع ملتا ہے میں جمعیت اور جمعیت والوں سے اس کا ”بدلہ“ لیتا رہتا ہوں اور لیتا رہوں گا۔ مجھے اسی طرح کچھ سکون ملتا ہے.“
پھر اس نے تفصیل بتانی شروع کی ۔
۔
میں کراچی کے علاقے لانڈھی کورنگی کے ماحول میں بڑا ہوا۔ کالج تک پہنچتے ہوئے ہمارے علاقے میں متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ کی جنگ عروج پر تھی۔دونوں جانب سے ایک دوسرے کے نوجوانوں کا قتل عام جاری تھا۔ میرے اسکول کے زمانے کے دوستوں کی اکثریت مہاجر قومی موومنٹ میں شامل ہوچکی تھی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ”مرغے“ مارنے کے کارنامے بڑے فخر سے بتاتے تھے۔ میں اگرچہ اردو بولنے والا نہیں تھا مگر ماحول کے عطاکردہ دوستوں کے ساتھ ان کے رنگ میں ڈھلتا جارہا تھا۔ ان کی یونٹ آفس پر حاضری ہوتی تو میں ساتھ ہوتا جہاں گزرے دن کی کارروائیوں کی تفصیل پوچھی جاتی اور آنے والے دن کی منصوبہ بندی کی جاتی۔ رات کو خوب شراب و شباب کی محفلیں، دن رات اسی طرح گزرتے جارہے تھے، اور میں زمانے کی رنگینیوں سے خوب لطف اندوز ہو رہا تھا۔
۔
ایک دن یونٹ آفس سے حکم نامہ جاری ہوا کہ لانڈھی ڈگری کالج میں متحدہ قومی موومنٹ کا قبضہ ہے، وہ چھڑانا ہے۔ سخت مزاحمت ہوگی اس لیے مکمل تیاری سے جانا۔ قبضہ چھڑانے والی ٹیم میں شہباز (کشمیری)، یاسر (کشمیری)، دانیال (پٹھان)اور مجھ سمیت مختلف قومیتوں کے 22 لڑکے تھے۔ سب کے سب مفت کی عیاشی، بدمعاشی اور فحاشی کے ساتھ ساتھ معاشی فائدے کے عوض مہاجر نظریے کا ساتھ دے رہے تھے۔ خیر لانڈھی ڈگری کالج جو ایک گرائونڈ میں قائم ہے۔ اس کے سامنے کے علاقے پر متحدہ اور عقبی علاقے پر مہاجر قومی موومنٹ کا قبضہ تھا۔ کالج کے اطراف میں ہو کا عالم ہوتا تھا۔ کالج کا گرائونڈ نامعلوم تشدد زدہ لاشیں ملنے کے حوالے سے مشہور تھا، (اسلم مجاہد شہید کی لاش بھی اسی علاقے سے ملی تھی)۔ اس کالج کے سامنے تقریبا دو کلومیٹر کے فاصلے پر گرلز کالج تھا۔ ان لڑکیوں کو کالج جانے اور واپسی کے لیے بوائز کالج کے سامنے والا بس اسٹاپ ہی استعمال کرنا ہوتا تھا۔ وہاں سے ”کال مارکسی“ نظریات کے فروغ میں مصروف درویش کی بہنیں، جو سچی محبتوں کی متلاشی ہوتی تھیں، انھیں رکشہ، ٹیکسی اور نجی گاڑی کے ذریعے کالج کے عقب میں رہائش کے لیے فراہم کردہ تنظیمی کمروں میں لے جا کر خوب محبت فراہم کی جاتی تھی۔
۔
کالج پر قبضہ کی لڑائی ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ فائرنگ سے پورا علاقہ گونج رہا تھا۔ مہاجر قومی موومنٹ کو علاقے کا فائدہ تھا جس کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ کے لڑکوں نے کالج چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔ کالج کے اسٹاف کے کمرے صرف دو کاموں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلحہ ڈمپ کرنے، مفروروں اور قاتلوں کو روپوش اور ”سہولیات“ فراہم کرنے کے لیے۔ ویسے تو مہاجر قومی موومنٹ نے اس کالج پر چار سال قبضہ بنائے رکھا، اور جب مشرف حکومت آئی، متحدہ کو اقتدار ملا تو بیت الحمزہ کو مسمار کیے جانے کے ساتھ ہی کالج کا قبضہ بھی متحدہ کے پاس چلا گیا۔ اس دوران ایک سال تک ہمارا ٹولہ مسلسل کالج آتا رہا۔
۔
اس کالج میں پہلی دفعہ اسلامی جمعیت طلبہ سے واسطہ پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ متحدہ نے دوبارہ انٹری کی کوشش نہیں کی، مگر پھر بھی منصوبہ بندی کے تحت 8 لڑکوں کو کلاشنکوفوں اور ٹی ٹی پسٹل کے ساتھ کالج کی عمارت کی عقبی دیوار کے ساتھ بیٹھنا ہوتا تھا، جبکہ دو لڑکے فرنٹ سائیڈ پر متحدہ کے لڑکوں پر نظر رکھنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ متحدہ کی جانب سے خاموشی کے بعد توجہ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب ہوئی۔ اس وقت لانڈھی کالج میں جمعیت کے 20 سے 25 نوجوان آتے تھے، پڑھتے تھے، آپس میں بیٹھتے تھے، اساتذہ سے نشستیں کرتے تھے اور آپسی نشستیں کرکے واپس چلے جاتے تھے۔ ایک دن فیصلہ کیا گیا کہ کالج میں مہاجر قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی تنظیم نہیں ہوگی۔جمعیت والوں کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ کل سے کالج مت آنا۔ اس دوران تین لڑکوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ لڑکے چلے گئے مگر اگلے روز وہ پھر کالج میں موجود تھے۔ انھیں بلا کر گالیاں دی گئی۔ اس حوالے سے یاسر اور ابراہیم نے انھیں دیواروں کے ساتھ کھڑا کرکے ان کے دائیں بائیں نشانہ بازی بھی کی۔ ایک کو کہا کہ کلمہ پڑھو۔ وہ بس ایک بات کہہ رہے تھے کہ ہمارا تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ یہ حربے آزمانے کے بعد انھیں گھر جانے کی اجازت دیدی۔ مگر اگلے روز زخمیوں سمیت یہ لڑکے پھر کالج میں تھے۔ اپنی کلاسوں میں، اساتذہ کے ساتھ، پرنسپل کے ساتھ۔ ہمیں پتہ تھا یہ ظہر کی نماز کے لیے اکٹھے جاتے ہیں۔ ہم تیاری سے بیٹھ گئے اور جب یہ لوگ مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے راستے میں حملہ کردیا۔ تمام لڑکے ہی بری طرح زخمی ہوچکے تھے اور چلنے کے بھی قابل بھی نہیں تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ اب یہ لوگ کالج نہیں آئیں گے۔ اور واقعی وہ اگلے دن کالج نہیں آئے۔ مگر تین چار دن بعد ان لڑکوں میں سے بیشتر واپس کالج میں موجود تھے۔ ہم ان لڑکوں سے چھٹی میں نمٹنے کی منصوبہ بندی کر ہی رہے تھے کہ متحدہ کے لڑکوں نے پوری قوت سے کالج کا قبضہ واپس لینے کے لیے حملہ کردیا۔ وہ قبضہ تو واپس نہیں لے سکے مگر انھیں نے ہر دوسرے دن قبضے کے لیے ہم پر حملے شروع کردیے۔ جس کی وجہ سے ہماری توجہ جمعیت کی جانب سے ہٹ گئی۔
۔
جمعیت کے کچھ لوگ میرے محلے میں بھی رہتے تھے، انھوں نے ہم پانچ دوستوں کو تشدد کا بدلہ لینے کے لیے ”ہدف“ بنا لیا۔ وہ جس جگہ ٹکراتے، مجھے اور میرے دیگر چار دوستوں کو زبردستی پکڑ لیتے۔ اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔ انھیں پتا تھا کہ ہمیں کرکٹ کا جنون ہے۔ جب بھی کوئی میچ ہوتا زبردستی ساتھ لے جاتے۔ یہ تعلقات آہستہ آہستہ بڑھتے چلے گئے۔ پھر کھیل کے بعد مغرب کی نماز میں بھی شمولیت ہونے لگی اور نماز کے بعد مسجد کے لان میں ہلکی پھلکی گفتگو۔ انھی دنوں میں متحدہ نے انٹری کی کوشش کے دوران حملہ کیا تو ہمارے ٹولے کے دو کشمیری لڑکے یاسر اور دانیال مارے گئے۔ جس کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کے ذمہ دار فیروز حیدر (اے پی ایم ایس او حقیقی کا سربراہ تھا جو بعد میں متحدہ میں شامل ہوا) نے گروپ توڑ دیا اور لانڈھی کالج جانے سے منع کردیا۔ پھر ایک لڑکا لانڈھی بابر مارکیٹ کا رہائشی ”ابراہیم“ فیروز حیدر سے اختلاف کرنے کے بعد گھر جاتے ہوئے نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں مارا گیا۔ لڑکوں کے مارے جانے اور گروپ توڑنے سے ہمارا جمعیت کے لڑکوں کے ساتھ میل ملاپ بڑھ گیا۔ اب معاملات کرکٹ، نمازوں سے بڑھتے جارہے تھے۔ اس جانب ایک عجیب سا سکون محسوس ہونے لگا مگر پھر جمعیت نے اپنے تشدد کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ پہلا تشدد یہ کیا کہ ہمارا تعلیمی سلسلہ بحال کرایا جو ایک عرصہ سے چھوٹ چکا تھا مگر ہماری جگہ کوئی ”ماہر“ بیٹھ کر پرچے دیتے تھے اور جو مارک شیٹ ہم گھروں پر دکھاتے تھے وہ اے ون گریڈ کی ہوتی تھیں۔ جمعیت کے لڑکوں نے میرے اور میرے دوستوں کے تعلیمی اخراجات ادا کیے۔ تعلیمی سلسلہ بحال ہوا تو ”فرینڈز اکیڈمی“ کے نام سے کورنگی جے ایریا میں ایک ٹیوشن سینٹر ہوتا تھا جس میں دو لڑکے بطور اساتذہ پڑھاتے تھے۔ اس سینٹر میں انھوں نے بلامعاوضہ ہمیں ٹیوشن پڑھانی شروع کی۔گھر والے بھی جمعیت کے اس تشدد سے ہمارے اندر ہونے والی تبدیلیوں سے خوش تھے۔ جمعیت کے تشدد سے مجھ میں اور میرے دوست میں آنے والی تبدیلیوں کو محلے والوں نے بھی محسوس کیا کیونکہ اب محلے والے ہمارے شر سے خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے۔
۔
اسی دوران گھر والوں نے علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میں پریشان ہوگیا کہ نئے علاقے میں نئے لوگ پتا نہیں کیسے ہوں گے۔ اور اگر متحدہ کے ہوئے اور انھیں میرے مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق کا علم ہوگیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ مگر اس کا حل بھی جمعیت والوں نے نکال دیا اور جس میں علاقے میں شفٹنگ ہوئی، وہاں جمعیت اور شباب ملی کے لوگوں کو پہلے سے آگاہ کردیا گیا اور ساتھ ہی مجھے ان سے ملوا بھی دیا گیا۔ جب علاقہ تبدیل کرکے نئے علاقے میں پہنچا تو مجھے نئے علاقے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ تعلیمی سلسلہ چل نکلا۔ جمعیت کا تشدد انٹر تک ہی محدود نہیں رہا۔ جمعیت کا یہی تشدد ہمیں گریجویشن اور پھر ماسٹر میں بھی برداشت کرنا پڑتا۔ یہ جمعیت کا تشدد ہی تھا کہ ہم نے تعلیمی سلسلہ بحال کیا ورنہ لانڈھی کالج کے گرائونڈ سے ملنے والی نامعلوم لاشوں میں چند نامعلوم لاشوں اضافہ ہی ہوتا۔
۔
نئے علاقے کے لوگوں میں جماعت کے لوگوں سے واقفیت ہوئی۔ تشدد کرنے میں وہ اپنے بچوں سے زیادہ تیز تھے۔ تشدد کا باقاعدہ سلسلہ باقاعدہ طور پر میرے ہاتھ میں ”شہادت حق“ نامی کتابچہ تھما کر شروع کیا گیا اور ساتھ ہی یہ الفاظ کہے گئے کہ اس کا مطالعہ کرنا ایک دو دن میں اس پر بات کریں گے۔ تشدد سخت ہوتا گیا اور صفحات کی بڑھتی تعداد کتابچے سے کتب میں بدل گئی۔
۔
اور ہاں سنو۔ جب عملی زندگی کا آغاز ہوا تو بھی نہیں چھوڑا۔ ”نمک کی کان میں نمک مت ہوجانا“ ان الفاظ کی گردان مسلسل خود احتسابی کا شکار رکھتی ہے۔ یہ الفاظ ہتھوڑے کی طرح برس رہے ہوتے ہیں، ہتھوڑے کے وار سہنا آسان کام ہے، اس سے بھیانک تشدد ہوسکتا ہے؟
۔
یہ لوگ بدترین تشدد کے عادی ہیں۔ وحشیانہ تشدد کے ذریعے ہمارے اندر کے جانور کو مار دیا۔ ہمیں تعلیم کی جانب راغب کردیا۔ ہمارتے بہکتے جگ راتوں کو درسی شب بیداریوں سے بدل دیا، نفس کے غلاموں کو آزاد کرایا، دوستی، دشمنی اللہ کے لیے کرنا بتایا،گولی سے جھکانے کی خصلت رکھنے والوں کو محبت سے اسیر کرنے کے گر سمجھائے، درس قرآن سے دل نرم بنائے، اب اس سے بڑھ کر تشدد کیا ہوگا کہ ترکی، افغانستان، چیچنیا، بوسنیا، عراق، شام سمیت کہیں امت کے کسی فرد کو تکلیف میں دیکھیں تو آنسو نکل پڑیں، راتیں رب سے دعائیں کرتے گزر جائیں۔ جمعیت کے ”تشدد“ کے ان بھیانک ”طریقوں“ نے کیا حال بنا دیا ہے ہمارا، ہم جمعیت کے ”مظالم” کبھی نہیں بھول سکتے۔ آج ہمارے ٹولےکا ایک فرد دفاعی ادارے میں، ایک سول ایوی ایشن میں اور ایک کسٹم میں ہے، ایک لڑکا سعید جسے مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق توڑنے پر اس کے دہشت گرد ناصر چنگاری نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھا مگر وہ بچ گیا تھا، دائود انجینئرنگ سے پڑھنے کے بعد اب دبئی میں جاب کر رہا ہے۔ یہ سب لوگ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ جمعیت کے تشدد کا ہی نتیجہ ہے، ورنہ آج کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہو کر چہرہ پر کپڑا ڈلوا کر کسی عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہوتے اور پٹھانوں، پنجابیوں سمیت سو سو قتل کا اعتراف کر رہے ہوتے۔
۔
چلو اب ان کی تنقید پر بات کرلیتے ہیں:
سنا ہے آج کل سخت تنقید ہو رہی ہے جمعیت پر۔ لاہور کے کسی کونے کھدرے میں کیے جانے والے کسی فرد کے انفرادی فعل کو جواز بنا کر ایک عالمی سطح کی تنظیم کی اجتماعیت پر تنقید۔ ان کے مقابلے میں جب نام و نشان سے محروم ہو جانے والے لوگ اپنے نظریات کو عالمی کہتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ کراچی کے مشاہدات، لاہور کے کسی مشاہدے کا جواب نہیں ہوسکتے مگر یہ ضرور بتاتے ہیں کہ مختلف صوبوں، شہروں، علاقوں میں کام کرنے والی تنظیم پر تنقید کے لیے کم از کم کہانیاں بھی تو اسی سطح کی لائو۔ اس پر بات کیوں نہیں کرتے کہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں جب متحدہ قومی موومنٹ داخل ہوئی اور طلبہ کی لاشیں ملنا معمول بن گیا تو ان تعلیمی اداروں سے نیشنلزم، سوشلزم، کمیونزم دبا کر بھاگ گئے تھے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں میں اگر کسی نے لسانیت و فسطائیت کا مقابلہ کیا اور ہر قسم کے حالات میں ان کے سامنے موجود رہی تو وہ تھی اسلامی جمعیت طلبہ۔
کوئی کہتا ہے کہ اس کا شجرہ نسب کارل مارکس سے ملتا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات۔ کارل مارکس جو کہ نسب کے شجر پر یقین ہی نہیں رکھا۔ ولدیت کا خانہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کے نسب کا شجر؟۔ ارے ان کے ”نسب“ کا شجر نہیں بلکہ خودرو جھاڑیاں ہوتی ہیں، خود ہی پیدا ہوتی ہیں، ایک دوسرے میں پیوست، پتا ہی نہیں چلتا کہ کون سے جھاڑی ”کہاں سے نکلی“، بات کرتے ہیں نسب کے شجر کی۔
۔
چلو سنو امریتا پریتم کہتی ہے کہ میرے بڑے بیٹے کی شکل ساحر لدھیانوی سے ملتی ہے۔ ایک دن بیٹا پوچھنے لگا کہ امی مجھے بتائیں اگر میں ساحر ”انکل“ کا بیٹا ہوں تو مجھے کوئی شرمندگی نہیں بلکہ فخر ہے۔ تو امریتا نے کہا کہ نہیں تم ساحر کے بیٹے نہیں ہو، بس جب تم پیدا ہونے والے تھے تو ساحر میرے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ درویشوں کے بچے اپنی ولدیت سے مشکوک اور بات کریں شجرہ نسب کی۔ طوائف کہے میری بھی کوئی عزت ہے۔
۔
کہتے ہیں مارکسی تعلیمات کے فروغ کو جمعیت روکتی ہے۔ جمعیت مزاحمت برداشت نہیں کرتی۔ ارے تاریخ تو پڑھو! مزاحمت تو برداشت ہی جمعیت نے کی ہے۔ جمعیت اپنا موقف پیش کرتی ہے، پھر جو چاہے اپنا لے۔ جامعہ پنجاب میں چار چھ کا ٹولہ اور جمعیت کی اکثریت، پھر تم لوگوں نے تعلیم مکمل کرلی اور کہتے ہو کہ جمعیت مزاحمت قبول نہیں کرتی۔ اگر تمہارا وہ حال جمعیت نے کیا ہوتا جو لانڈھی ڈگری کالج میں جمعیت والوں کا ہوا تھا تو تم امی کی گود سے ہی باہر نہ نکلتے۔
ارے ہاں! ان کے اعتراض دیکھو، 100 اعتراض کرنے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملےگا جس کی تحریر میں لڑکا لڑکی کے تعلق پر جمعیت کے مشتعل ہونے کا ذکر نہ ہو۔ اصل میں مارکسی پیروکاروں کے دماغ ازار بند میں مقید ہوتے ہیں۔ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ جمعیت تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتی اور اپنے نظریات مسلط کرتی ہے۔ یہ کون سی تعلیم ہے جس آغاز اور اختتام اپنی”کارل مارکسی“ ہم خیال سے چمٹ کر ہی ہوتا ہے، اس لیے سوچ اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہ جو تشدد کا رونا روتے ہیں نا۔ انھیں بتائوں کہ تشدد کیا ہوتا ہے۔تشدد وہ ہوتا ہے جو یونٹ آفسز میں سکھایا جاتا تھا۔ جسم میں قدرتی سوراخ یونٹ والوں کو کم لگتے تھے، اس لیے ڈرل مشین کے ذریعے جسم کو چھلنی بنا دیا جاتا تھا۔ یہ ہوتا ہے تشدد، جو جمعیت نے تیس سال تک سہا ہے، پامال لاشوں کی تصاویر گواہ ہیں۔ اور تم غلطی سے جلتی سگریٹ پر بیٹھ گئے تو اس کا نشان لے کر گھوم رہے ہو اور الزام جمعیت کے سر تھوپ دیتے ہو۔
۔
اور ہاں ہمیں معلوم ہے کہ تمھارا غم کیا ہے، این ایس ایف تاریخ کا حصہ ہوئی، ترقی پسندی امریکی تیل میں تلی جا رہی ہے، سرخ سویرے نے یہاں کیا آنا تھا، ماسکو میں ہی اسے جگہ نہ ملی اور سب کو بےیارومددگار چھوڑ گیا، اور تم میں ایک بھی صاحب کردار نہ نکلا، سب نے رنگ بدلنے میں گرگٹ کو بھی مات دے دی، اسی امریکہ کو مائی باپ بنا لیا، جس کے خلاف صبح شام انقلاب کی نوید سناتے تھے. جمعیت اس کے مقابلے میں اب تک ملک کے کونے کونے میں موجود ہے، پہلے سے زیادہ توانا ہے. اور تمھارے لیے سستی ریٹنگ کے حصول کا ذریعہ بھی، اور نہ سہی یہی احسان مان لو جمعیت کا کہ تمھاری بھی روٹی روزی کا ذریعہ ہے. ماسکو سے واشنگٹن تک.
اچھا چھوڑو ان کو! بس میں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ جمعیت سے بدلہ لیتا رہوں گا۔ اس کے تشددکا۔ تو اب میں اپنے جیسے کسی کو بھی پکڑتا ہوں اور اس پر یہی تشدد کرتا ہوں جو جمعیت نے مجھ پر کیا۔ جمعیت کا کوئی فرد ہاتھ لگے تو اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا کر ہی تشدد کرتا ہوں۔ یہ سلسلہ جاری رہےگا کیونکہ اس سے مجھے تسکین ملتی ہے۔
(طارق حبیب آج نیوز میں سینئر پروڈیوسر ہیں)