ہوم << بگ بینگ کیا ہے؟ کامران امین

بگ بینگ کیا ہے؟ کامران امین

کامران امین 15 ستمبر 2016 کو دلیل میں مجیب الحق حقی کی بگ بینگ کے حوالے سے ایک تحریر شائع ہوئی جس میں کافی ساری غلط فہمیاں اکٹھی کی گئی تھیں اور انتہائی سادہ سائنسی حقائق کو بھی درست بیان نہیں کیا گیا۔ بگ بینگ کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت سارے غلط تصورات مقبول ہیں اور تحریر میں بھی انہی تصورات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ان کی غلطیوں پر بحث کرنے کے بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ بگ بینگ کے حوالے سے ایک مضمون تحریر کر لیا جائے جس میں ان غلطیوں پر بھی سیر حاصل بحث ہو جائے گی۔
مضمون شروع کرنے سے پہلے میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سائنس اور مذہب دو الگ الگ میدان ہیں۔ دونوں کی حدود، شرائط و ضوابط اور کام کرنے کا طریقہ بھی بالکل الگ ہے۔ لہذا سائنس کو مذہب سے ثابت کرنا یا مذہب کو سائنس سے ثابت کرنا دونوں نقطہ ہائے نظر میرے خیال میں غلط ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس میں کوئی بھی بات حتمی نہیں ہوتی۔ ایسی کوئی بھی دریافت، قانون یا اصول جس پر سارے بڑے سائنس دان ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہوں، عین ممکن ہے کہ اگلے ہی لمحے کسی معمولی سے تجربے سے وہ غلط ثابت ہو جائے جبکہ مذہب میں بیان کردہ حقائق و واقعات کو صرف اللہ ہی تبدیل کر سکتا ہے، کوئی اور نہیں۔ سائنس صرف انہی چیزوں پر بحث کرتی ہے جو اپنا وجود رکھتی ہوں، جنھیں حواس خمسہ میں سے کسی ایک کی مدد سے بھی محسوس کیا جا سکے چاہے اس کے لیے کوئی سائنسی آلہ درکا ہو یا بغیر کسی آلے کا وہ چیز محسوس ہو جائے لیکن مذہب میں ان دیکھی چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اور مذہب ان مظاہر پر بحث کرتا ہے جنہیں ہم تمام تر آلات کے استعمال کے باوجود محسوس کرنے سے عار ی ہیں۔ سائنس صرف حقائق تک پہنچنے کا نام ہے، ان حقائق کو آپ کیسے اور کہاں استعمال کریں، سائنس اس بات پر بالکل بھی بحث نہیں کرتی لیکن مذہب میں ہم جانتے ہیں کہ اخلاقیات پر بھی توجہ دی جاتی ہے ۔
ان ساری باتوں سے ہٹ کر بھی آج تک ایسا کوئی بھی تجربہ نہیں کیا جا سکا جس سے یہ ثابت ہو کہ خدا ہے اور نہ ہی دہریت کے علمبردار ایسا کوئی تجربہ ایجاد کر سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ خدا نہیں ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سائنس خدا کے وجود یا عدم وجود کی گواہی دینے سے قاصر ہے۔
اب آتے ہیں اصل مضمون کی طرف۔ بگ بینگ دراصل ایک نظریہ ہے جو اس بات کی سائنسی وضاحت پیش کرتا ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور ابھی ایسی حالت میں کیوں ہے جس میں وہ نظر آتی ہے۔ مختصراً یہ کہ یہ کائنات کی تشکیل اور تعمیر کو سمجھنے کے لیے پیش کیا جانے والا نظریہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بگ بینگ کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں وابستہ ہیں جیسا کہ اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اچانک کہیں سے ایک دھماکہ ہوا اور جیسے دھماکے کے بعد عمارت کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے بکھر جاتے ہیں، ایسے ہی مادے سے یہ ستارے اور سیارے معرض وجود میں آگئے۔ محترم حقی صاحب نے کسی شعلے کا ذکر کیا، مطلب کسی نے بارود کو آگ دکھائی اور دھماکہ ہوگیا۔ یہ تصور سراسر غلط اور ناقابل فہم ہے، بگ بینگ ایسا کچھ نہیں کہتا ہے۔
بگ بینگ تھیوری کے مطابق اگر ہم وقت کے پہیے کو پیچھے گھمائیں تو ابتدا میں ساری کائنات ایک اکائی تھی۔ کائنات کا سارہ مادہ ایک جگہ مرتکز تھا اور شروع میں یہ مرکز لامحدود گرم، لامحدود کثافت اور لامحدود پریشر کا حامل تھا۔ پھر کچھ ایسا تغیر ہوا کہ یہ مادہ پھیلنا شروع ہوگیا۔ طبیعات کے سارے قوانین اس اکائی پر جا کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں حتی کہ وقت کا آغاز بھی بگ بینگ کے بعد ہوا، اس لیے فی الحال ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیا ہوا جس سے وہ اکائی پھیلنا شروع ہوئی۔ اگر ہم کائنات کی تخلیق کے ایک سیکنڈ بعد کا اندازہ لگائیں تو درجہ حرارت دس بلین ڈگری سیلئیس سے بھی زیادہ تھا اور ہر طرف بنیادی ذرات الیکٹران، پروٹان، نیو ٹران وغیرہ موجود تھے۔ عناصر کی تشکیل بہت بعد میں ہوئی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اکائی کہاں سے آئی؟ اس نے کیوں پھیلنا شروع کیا؟ عناصر کب ظہور پذیر ہوئے اور کائنات ٹھنڈی کیسے ہوئی؟ ان سارے سوالات کا جواب میں اگلی نشست میں دینے کی کوشش کروں گا. ان شاء اللہ