ہوم << اولاد اور والدین کا مقام - بشارت حمید

اولاد اور والدین کا مقام - بشارت حمید

%d8%a8%d8%b4%d8%a7%d8%b1%d8%aa-%d8%ad%d9%85%db%8c%d8%af میرے والد مرحوم سخت طبیعت کے مالک تھے۔ بچپن میں جتنی مار مجھے پڑی، چھوٹے بہن بھائیوں کو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ سکول دور میں جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ ملتا تھا، جب کبھی دوسرا روپیہ مانگنے کی ضرورت پڑتی تو پہلے والے کا حساب پوچھتے کہ اس کا کیا کیا۔ بہت عجیب محسوس ہوتا کہ اتنی سختی مجھ پر ہی کیوں ہوتی ہے۔
دوران تعلیم میری شادی ہوگئی، پھر بچے بھی ہو گئے، ایک اچھی جاب پر بھی لگ گیا۔ 2009ء میں والد محترم کا انتقال ہوگیا۔ ان کی شخصیت کا رعب میرے دل و دماغ پر ایسا تھا کہ میرے بچوں کے بڑے ہو جانے کے باوجود میری اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ان کے سامنے کوئی اپنا مطالبہ خود پیش کر سکوں۔ وہ میرے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے، اس لیے بچوں کے ذریعے ہی والد صاحب تک مطالبہ پہنچایا جاتا تھا یا پھر ان کے دوستوں سے سفارش کرانی پڑتی تھی۔ پھر بھی ڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ غصے نہ ہو جائیں۔
ساری زندگی کبھی ان کے سامنے اونچا بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جب وہ غصے میں ہوتے تو خاموشی سے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سن لیتا تھا۔ کچھ دیر بعد معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ البتہ یہ بات دل پر بہت بھاری ہوتی تھی کہ وہ ہر وقت مجھ سے غصے میں ہی کیوں پیش آتے ہیں۔ سوائے اپنی زندگی کے آخری ایام کے، کبھی انہوں نے مجھ سے اپنی محبت کا زبانی اظہار نہیں کیا تھا حالانکہ وہ مجھ سے محبت بھی بہت کرتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کے آخری ایام میں ان کی خدمت کرنے اور دعائیں سمیٹنے کا موقع میسر رہا۔
اب جب ان کو ہم سے جدا ہوئے سات سال ہو گئے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سر سے چھت اترے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ اب نہ کوئی جھڑکنے والا ہے اور نہ کوئی ان کی طرح ہمارے لیے دعائیں کرنے والا۔ اب احساس ہوتا ہے کہ وہ جو بھی سختی کرتے تھے میری بہتری کے لیے ہی کرتے تھے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کو اولاد اپنی توہین سمجھتی ہے حالانکہ وہ اولاد کی تربیت کے لیے ہی ہوتی ہے۔ والدین ان سارے مراحل سے گزر کر ایک تجربہ حاصل کر چکے ہوتے ہیں جس مرحلے سے اولاد گزر رہی ہوتی ہے۔ اپنی اولاد کا بے لوث خیر خواہ والدین سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ والدین ہی دنیا میں ایسی ہستی ہیں جو اپنی اولاد کی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔ ماں باپ نے اپنی زندگی میں تکلیفیں اٹھا کر اور اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر بچوں کو پالا ہوتا ہے لیکن اس کا احساس بچے کوتب ہوتا ہے جب وہ خود اس سٹیج پر جا پہنچتا ہے اور وہ خود بچوں والا بن جاتا ہے مگر تب تک اکثر دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر نہ کوئی ڈانٹنے والا ہوتا ہے اور نہ کوئی بلا وجہ دعائیں دینے والا۔
میری سب سے درخواست ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں وہ اس نعمت کی قدر پہچانیں ورنہ بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ جن کے والدین وفات پا چکے ہیں اللہ تعالٰی انکی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ آمین

Comments

Click here to post a comment