ہوم << قائداعظم، انتہا پسندی اور سیاستدان - محمد طیب زاہر

قائداعظم، انتہا پسندی اور سیاستدان - محمد طیب زاہر

قائد اعظم کے نظریے کے مطابق ملک میں انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں. یہ کلمات ہیں جناب خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے۔ سب سے پہلے تو ان کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے نزدیک اصل میں انتہا پسندی کی تعریف کیا ہے؟ دہشت گردی کی وارداتوں کا ہونا ہی ان کے نزدیک انتہا پسندی ہے؟ راہزنی، ڈکیتی اور دیگر معاشرتی جرائم انتہا پسندی نہیں؟ اور بھارت نے چناب پر جو 3 ڈیمز بنانے کا فیصلہ کیا ہے وہ انتہا پسندی نہیں؟ بھارت کا معصوم کشمیریوں کو سولی پر لٹکانا شدت پسندی کے زمرے میں نہیں آتا؟ اس خاموشی کا کیا مطلب سمجھا جائے جس کی وجہ سے یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ لب اس لیے سل گئے کہ کہیں کاروباری مفادات کو گزند نہ پہنچے؟
پاناما پیپرز میں حکومت کے سربراہ کے بچوں کا نام آتا ہے اور ریفرنس وزیر اعظم کے بجائے اپیل کرنے والے کے خلاف دائر کردیا جاتا ہے اور یوں انصاف کی پل بھر میں دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ قائداعظم نے تو انصاف کے حصول پر بھی بہت زور دیا تھا لیکن کہاں گیا خادم اعلیٰ کا انصاف؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹی آر او میں تحریک انصاف کی ہم خیال جماعت پیپلز پارٹی کے بزرگ اپوزیشن لیڈر ایک طرف حکومت کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں اور دوسری جانب سرگوشی کرتے ہوئے غیر جانبدار اسپیکر ایاز صادق کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس میں نہ آنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے دل میں چور ضرور ہے۔ یہ سب انہوں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا، دربار کی سیاست میں شطرنج کی چال کے طور پر اسے بادشاہ نے ہی چلا ہوگا۔
اس صورتحال میں اگر عمران خان قومی اسمبلی کی رکنیت سے سبک دوش ہوجاتے ہیں تو اس کا رد عمل کیا ہوگا؟ خان صاحب کی آواز کو قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے تقویت مل سکتی تھی لیکن انہوں نے اس کا کتنی بار استعمال کیا، سب کو معلوم ہے۔ حکومت کی جانب سے ریفرنس ان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے جس میں وہ زیادہ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ خان صاحب اسمبلی فلور کے ویسے بھی محتاج نہیں، میڈیا ان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، اس کی پریس کانفرنس اور جلسے کو ہر ٹی وی چینل لائیو کوریج دیتا ہے ۔
حکومت کی یہ چال اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے مطلق العنانیت کا تاثر ملتا ہے۔ حالات حکومت کے حق میں جاتے نظر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کے ملک کے مختلف شہروں کے دورے ان کے خوف کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں منصوبوں کا اعلان کردیتے ہیں، کبھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فلاں منصوبہ پایا تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ یہ دورے اپنی طاقت کو پرکھنے کےلیے کیے جا رہے ہیں۔
عمران خان شروع دن سے احتساب اور کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ ان کا یہ کہنا درست محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے حکومت نے احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ کوئی بھی ایک ایسا ادارہ فنکشنل نہیں جو شکایات کا ازالہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رائیونڈ میں احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔ ایک پہلو بلاشبہ خوش کن ہے کہ انہوں نے جاتی عمرا جانے کا ارادہ ترک کردیا کیونکہ اس سے محاذ آرائی کے امکانات بڑھ جاتے۔ عین ممکن تھا کہ چند درباری سازش کا جال بُن دیتے اور گلو بٹ چھوڑ کر الزام عائد کردیتے کہ یہ سب تحریک انصاف کے کارکن نے کیا ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ تحریک انصاف کے چند جوشیلے کارکن شریف ہاؤس پر پڑاؤ ڈال دیتے۔
عمران خان پر تنقید ہوتی ہے کہ انھیں اب تک سیاست کرنی نہیں آئی. اس کی وجہ ایک یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ 2014ء میں اسلام آباد میں تاریخی اور طویل دھرنے کے وقت بھی اس پہلو پر تنقید کی گئی تھی کہ اگر وہ دھاندلی کے علاوہ عوامی مسائل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرتے تو دھرنے کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ حج جیسے اہم فریضے کی ادائیگی کے چھوڑنے کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ حج کر کے آتے تو ممکن تھا کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں تحریک چلا سکتے تھے۔ خان میں ایک خامی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ڈکٹیٹر ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوجاتی ہیں کہ وہ ملتان کے گدی نشین اور لال حویلی والے استاد سے ڈکٹیشن لیتے ہیں. خان صاحب پارٹی اختلافات کو حل کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی ٹی آر اوز پر اپوزیشن کو یکجا کرنے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔ خان صاحب کو اپنی خامیوں کی نشاندہی خود کرنا ہوگی ورنہ جس ڈگر پر وہ چلتے جا رہے ہیں اس کا فائدہ ایک بار پھر مسلم لیگ نواز کو پہنچے گا۔ یہ درست ہے کہ پاناما پیپرز اور دھاندلی ایک بہت بڑا ایشو ہے لیکن صرف اسی کو بنیاد بنانے سے یہ تاثر قوی ہو سکتا ہے کہ خان صاحب ہر صورت اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ عوام کے مسائل کو بھی اتنا ہی ہائی لائٹ کریں جتنا وہ مذکورہ ایشو پر زور دیتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment