ہوم << جمی تو بڑا بے وقوف ہے-جاوید چوہدری

جمی تو بڑا بے وقوف ہے-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی زبان اس کے منہ میں جاتی تھی اور پھر باہر آ جاتی تھی اور وہ ہوا کی دھن پر رقص کرتا ہوا کبھی پیچھے جاتا تھا اور کبھی آگے جھکتا تھا‘ میری ریڑھ کی ہڈی میں برف جم رہی تھی‘ ٹانگیں بے جان ہو رہی تھیں‘ دماغ میں آندھیاںچل رہی تھیں اور سانس سینے میں الجھتا‘ رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا‘ مجھے لگا میں چند لمحوں میں گر جاؤں گا اور کوبرا رینگ کر میرے سینے پر بیٹھ جائے گا‘ میں نے خوف کے عالم میں ساتھی کی طرف دیکھا اور میں حیران رہ گیا۔
وہ کوبرے کو معصوم بچے کی طرح دیکھ رہا تھا‘ اس کی آنکھوں میں خوف کے بجائے حیرت اور خوشی تھی‘ مجھے محسوس ہوا وہ چند لمحوں میں تالیاں بجانا شروع کر دے گا‘ میں نے کنکھیوں سے کوبرے کی طرف دیکھا‘ کوبرا بدستور ہوا میں جھوم رہا تھا‘ میں نے اس کے بعد دوبارہ ساتھی کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرا رہا تھا‘ اس کے چہرے پر جوش تھا‘ خوشی تھی اور حیرت تھی‘ مجھے اس کا رویہ غیر معقول محسوس ہوا‘ مجھے لگا وہ خوف کے اس فیزمیں داخل ہو گیا ہے جہاں انسان خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔
مجھے محسوس ہوا میرا ساتھی ڈر کی وجہ سے پاگل ہو چکا ہے‘ میں خود بھی پاگل پن کی طرف بڑھ رہا تھا‘ مجھے لگا میں بھی چند لمحوں میں اس کی طرح ہنسنے لگوں گا لیکن پھر ایک عجیب معجزہ ہوا‘ کوبرا زور سے جھوما اور پھر تیزی سے نیچے جھکنے لگا‘ وہ اس وقت ہوا بھرے کھلونے کی طرح محسوس ہو رہا تھا‘ آپ نے اکثر ہوا بھرے کھلونوں کو دیکھا ہو گا‘ آپ جوں ہی ان کی نوزل ڈھیلی کرتے ہیں‘ یہ چند سیکنڈ میں پلاسٹک کا رومال بن کر زمین پر آ گرتے ہیں۔
کوبرا بھی چند لمحوں میں پراندا سا بن کر زمین پر آ گیا‘ وہ زمین پر لیٹا‘ آڑھا ترچھا ہوا اور ریت پر لوٹنیاں لیتا ہوا جھاڑیوں میں گم ہو گیا‘ اب وہاں وسیع صحرا تھا‘ دھوپ تھی‘ ٹنڈ منڈ جھاڑیاں تھیں‘ ریت پر کوبرے کی آڑھی ترچھی لکیریں تھیں اور میرے جسم پر پسینے کی آبشاریں تھیں‘ میں نے لمبا سانس لیا اور غصے سے اپنے ساتھی کی طرف دیکھنے لگا‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ بھائی میں معافی چاہتا ہوں‘ میں نے زندگی میں پہلی بار کوبرا دیکھا چنانچہ میں ایکسائیٹڈ ہو گیا تھا‘‘ میں نے افسوس اور غصے سے سر ہلایا اور آگے چل پڑا‘ دراوڑ کا قلعہ ہمارے سامنے تھا۔
یہ 1998ء کا نومبر تھا‘ میرے دوست نے لندن سے ایک صاحب کو میرے پاس بھجوا دیا‘ یہ صاحب تین نسلوں سے برطانیہ کے شہری تھے‘ دادا 1940ء میں کسی سکاٹش میجر کا اردلی تھا‘ میجر اسے اپنے ساتھ گلاسکو لے گیا‘ والد نے گلاسکو میں پرورش پائی‘ 1960ء کی دہائی میں لندن شفٹ ہوا‘ بیٹا جمی 1971ء میں ایسٹ لندن میں پیدا ہوا‘ سافٹ ویئر انجینئرنگ کی اور لندن کی کسی کمپنی میں ملازم ہو گیا‘ وہ لوگ مزے کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر اچانک جمی کا دماغ خراب ہو گیا‘ جمی نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور لاہور آگیا۔
وہ پورا پاکستان دیکھنا چاہتا تھا‘ پاکستان کے بعد وہ بھارت‘ چین اور سینٹرل ایشیا جانا چاہتا تھا‘ میرے دوست نے مجھے فون کیا اور جمی سے متعارف کرا دیا‘ جمی پورا انگریز تھا‘ اس کا لہجہ‘ اس کا محاورہ اور اس کا رویہ ہر چیز‘ ہر عادت برطانوی تھی‘ وہ چولستان دیکھنا چاہتا تھا‘ اس کی خواہش تھی‘ میں اس کے ساتھ جاؤں‘ میں ان دنوں صرف کالم لکھتا تھا‘ میرے دن رات فارغ ہوتے تھے لہٰذا میں جمی کے ساتھ چل پڑا‘ وہ دلچسپ کمپنی تھا‘ پڑھا لکھا‘ مہذب‘ دانشور اور جہاں دیدہ‘ وہ دنیا کے ہر معاملے میں اپنی آزاد اور ٹھوس رائے رکھتا تھا‘ میں اس کے ساتھ آٹھ دن صحرا میں گھومتا پھرتا رہا‘ ہم دریائے ہاکڑا کی گم شدہ تہذیب تلاش کر رہے تھے‘ یہ دریا ہزاروں سال پہلے زمین میں گم ہو گیا تھا‘ ہندوؤں کے پران اس گم شدہ دریا کو سرسوتی اور ہاکڑا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ہاکڑا جاتے جاتے زمانہ قدیم کی سیکڑوں بستیاں بھی ساتھ لے گیا ‘ یہ بستیاں ریت میں جذب ہو گئیں لیکن ان کے نشان آج بھی پاکستان میں چولستان اور بھارت میں راجستھان میں موجود ہیں‘ جمی ریت میں دفن ماضی کی ان قدیم بستیوں کو کریدنا چاہتا تھا‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا‘ ہم چلتے چلتے دراوڑ کے قریب پہنچے تو اچانک کوبرا نکلا اور پھن پھلا کر ہمارے سامنے کھڑا ہو گیا‘ وہ کم از کم پانچ فٹ اونچا تھا‘ میں اپنے چہرے پر اس کی پھنکار کی گرمی محسوس کر رہا تھا‘ میں خوف کی انتہا کو چھو رہا تھا جب کہ جمی بچوں جیسی حیرت سے کوبرے کو دیکھ رہا تھا‘ یہ غیر سنجیدہ رویہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا‘ مجھے غصہ آ گیا اور میں غصے میں تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔
ہم دراوڑ پہنچ گئے‘ قلعے کے گرد چھوٹا سا گاؤں تھا‘ گاؤں میں پرانا کنواں تھا‘ کنوئیں کی دیواروں پر صدیوں کی سبز کائی جمی تھی اور پانی سے سرسوتی کی بو ساند آ رہی تھی‘ ہم دونوں کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے‘ میں غصے سے خاموش تھا اور وہ خجالت سے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا‘ ہمارے درمیان وقت بہتا رہا‘ شام صحرا پر اتر رہی تھی‘ افق لال ہو رہا تھا‘ قلعے کی چمگادڑیں چیخ رہی تھیں اور پرندوں کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا‘ جمی نے لمبی سانس لی‘ اس کی سانس میں شرمندگی کا ہوکا تھا۔
اس نے کھنگار کر گلا صاف کیا اور آہستہ آہستہ بولا’’ یہ سب مولانا روم کا کیا دھرا ہے‘ میں نہ مثنوی پڑھتا اور نہ آج آپ کا دل دکھتا‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ وہ ذرا سا جھکا‘ کنوئیں کی گہرائی میں دیکھا‘ کنوئیں میں اوووو کی آواز لگائی اور چند لمحوں تک اوووو کی بازگشت سنتا رہا‘ وہ پھر سیدھا ہو کر بولا ’’میری زندگی مزے سے گزر رہی تھی‘ نوکری تھی‘ گھر اور گاڑی تھی‘ دوست بھی تھے اور گرل فرینڈز بھی تھیں لیکن پھر میرے ایک انگریز دوست نے مجھے مولانا روم کی مثنوی گفٹ کر دی‘ یہ مثنوی کا انگریزی ترجمہ تھا‘ میں نے کتاب پڑھنا شروع کر دی۔
میں پڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ میں اس فقرے تک پہنچ گیا جس نے مجھے ساڑھے چھ ہزار کلو میٹر دور کنوئیں کی اس منڈیر پر پہنچا دیا اور آپ منہ لٹکا کر‘ ناراض ہو کر میرے ساتھ بیٹھے ہیں‘‘ وہ خاموش ہوا‘ کنوئیں کی طرف جھکا اور اوووو کی ایک اور آواز لگائی‘ میری ناراضی کی برف پگھلنے لگی‘ میں اس کی طرف متوجہ ہو گیا‘ جمی بولا‘ میں نے کتاب میں پڑھا ’’موت کا ذائقہ تو ہر نفس چکھتا ہے لیکن زندگی کا ذائقہ کم کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے‘‘ یہ فقرہ میرے اندر ایٹم بم کی طرح پھٹا‘ میں نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور اپنے آپ سے کہا ’’جمی تو کتنا بے وقوف ہے‘ موت تو گلی کے کتے کو بھی آ جاتی ہے تم موت سے گھبرا رہے ہو‘ اصل زندگی تو زندگی کا ذائقہ ہے‘ تم اگر اس سے محروم رہ کر دنیا سے رخصت ہو گئے تو تم سے بڑا چغد کون ہو گا۔
میں نے اپنا بینک اکاؤنٹ چیک کیا‘ میرے اکاؤنٹ میں 18 ہزار پاؤنڈ تھے‘ میں نے اگلے دن نوکری سے استعفیٰ دیا اور زندگی کے ذائقے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے بے چین ہو کر پوچھا ’’کیا تم نے زندگی کا ذائقہ پا لیا‘‘ وہ مسکرایا اور آہستہ آواز میں بولا ’’ہاں تھوڑا تھوڑا پا رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’اب تک کیا پایا؟‘‘ جمی نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’زندگی سات بڑی سچائیوں کا شربت ہے‘ پہلی سچائی نعمت ہے‘ آپ جب تک زندگی کو نعمت نہیں سمجھتے آپ زندگی کے ذائقے کو نہیں سمجھ سکتے۔
دوسری سچائی محبت ہے‘ آپ جب تک دوسروں سے مذہب‘ نسل‘ زبان اور طبقے سے بالاتر ہو کر محبت نہیں کرتے آپ زندگی کے ذائقے کو محسوس نہیں کر سکتے‘ تیسری سچائی درگزر ہے‘ آپ جب تک دل بڑا نہیں کرتے آپ دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کرنا نہیں سیکھتے آپ زندگی کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے‘ چوتھی سچائی بے پروائی ہے‘ آپ جب تک موت‘ رزق اور اسٹیٹس سے بے پروا نہیں ہوتے زندگی کا ذائقہ اس وقت تک آپ کے قریب نہیں آتا‘ پانچویں سچائی علم ہے‘ آپ جب تک علم کی تلاش میں اپنی ایڑھیاں زخمی نہیں کر لیتے آپ کو زندگی کا ذائقہ نہیں مل سکتا۔
چھٹی سچائی سفر ہے ‘آپ جب تک سفر نہیں کرتے آپ زندگی کے ذائقے سے محروم رہتے ہیں اور ساتویں اور آخری سچائی خدا ہے‘ آپ جب تک خدا پر پختہ ایمان نہیں لاتے آپ زندگی کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے‘‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا ’’یہ سچائیاں آپس میں ملتی ہیں تو زندگی کا شربت بنتا ہے اور آپ جب تک یہ شربت نہیں پیتے زندگی کا ذائقہ آپ کی سمجھ میں نہیں آتا‘‘ وہ تیسری بار کنوئیں کی منڈیر پر جھکا‘ اووووو کی صدا لگائی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ قلعہ دراوڑ ہمارے سامنے تھا اور قلعے کی دیوار پر شام اتر چکی تھی۔