ہوم << شوکت خانم کی ”شہزادی“ - جمال عبداللہ عثمان

شوکت خانم کی ”شہزادی“ - جمال عبداللہ عثمان

نعیم خان سے پہلی ملاقات تقریباً 3 ماہ پہلے ہوئی۔ وہ بھی شوکت خانم میں اپنی معصوم بچی ”سمیرا“ کا علاج کرانے آئے تھے۔ سمیرا صرف 6 سال کی ہے۔ اسے hodgkin lymphoma ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ کینسر کی بہت معمولی قسم ہے اور اس میں مریض کے ٹھیک ہونے کے امکانات 95 فیصد ہوتے ہیں۔
نعیم خان ٹرک ڈرائیور ہے۔ اس کی زندگی کی گاڑی اسی سے چلتی تھی۔ مگر جب سے سمیرا بیمار ہوئی ہے، تب سے نعیم کی ملازمت ختم ہوچکی ہے۔ اس کا زیادہ تر وقت لاہور میں ہی گزرتا ہے۔ کبھی اسے اپنا گھر اور دیگر بچوں کی یاد ستاتی ہے تو ڈاکٹر سے پوچھے بغیر خاموشی کے ساتھ کھسک جاتا ہے۔
نعیم خان کی اہلیہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس بار نعیم خود اکیلے بھاگ دوڑ میں مصروف تھا۔ بغیر خاتون کے ہسپتال میں وقت گزارنا اور پھر ان مشکل ترین مراحل سے ایک مرد کے لیے اکیلے نمٹنا کسی پہاڑ کو سرکانے سے کم نہیں۔ میں نے نعیم خان سے پوچھا تو روایتی سے معصومیت سے کہنے لگا:
”میں اس بار بیوی کو بہانہ کرکے نہیں لایا۔ آپ کو پتا ہے اس بیچاری کی گود میں ڈیڑھ سال کا بچہ بھی ہوتا ہے۔ یہاں ہسپتال کی بھاگ دوڑ اور پھر اس شیرخوار بچے کے ساتھ مسلسل جاگتے رہنا کسی بڑی اذیت سے کم نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میری بیوی چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتی ہے۔ پھر وہ مجبوری میں اس بیمار بچی کو ڈانٹتی ہے تو میرے دل پر چھریاں چلتی ہیں۔ اس بے چاری کا قصور بھی نہیں، گھر سے دور، شیر خوار بچے کو سنبھالنا، یہاں مسافر خانے میں بے آرامی کی راتیں۔۔۔“
نعیم خان اپنی چھ سالہ شہزادی سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ سمیرا ساری ساری رات نہیں سوپاتی تو نعیم خان جاگتا رہتا ہے۔ وہ ہسپتال لانے سے پہلے اسے نہلاتا ہے۔ اسے کپڑے تبدیل کرواتا ہے۔ اس کے سر میں اپنے ہاتھوں سے تیل لگاکر کنگھی کرتا ہے۔ پھر تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ اسے گود میں اُٹھاکر طے کرتا ہے۔ نعیم خان بعض اوقات10 گھنٹے تک کیمو کے دورانیے میں مستقل اس کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ کیمو کی چبھن سے شہزادی کے آنسو بہتے ہیں، تو یوں لگتا ہے نعیم خان کی آنکھیں آنسوئوں کی جگہ خون ٹپکنا شروع کردیں گی۔۔۔ باپ کی اپنی بیٹی سے ایسی بے پناہ محبت کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment