ہوم << موٹروے واقعہ کو فوج و سول کی لڑائی مت بنائیں-انصار عباسی

موٹروے واقعہ کو فوج و سول کی لڑائی مت بنائیں-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
موٹروے پولیس اور فوج کے چند افسران کے درمیان ہونے والا حالیہ ناخوشگوارواقعہ ایک احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ جس کا قصور ہے اُسے سزا ضرور ملنی چاہیے اور اس سلسلے میں کسی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں لیکن مہربانی کر کے اسے فوج اور سول یا فوج اور عوام کے درمیان لڑائی میں بدلنے کی کوشش نہ کریں اور ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جرم کسی نے بھی کیا، اُسے ایک ملزم کی طرح لیں، صفائی کا موقع دیں، انصاف کے تقاضے پورے کریں لیکن چند افراد کے اقدام کو اداروں سے نہ جوڑا جائے۔ پولیس نے واقعہ کی ایف آئی آر کاٹ دی، اب اُسے آزادانہ تفتیش کرنے دیں۔ فوج نے بھی انکوائری کا اعلان کر دیا ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ انصاف کیا جائے گا۔
موٹروے پولیس کی رپورٹ کے مطابق تیز رفتاری پر روکے جانے پر بھاگنے والے دو افراد کو پیچھا کر کے روکا گیا تو وہ فوج کے کپتان نکلے۔ پولیس سے تلخ کلامی پر ایک کپتان نے اپنے کسی سینئر میجر کو فون کیا جو کوئی دو درجن کے قریب فوجی جوانوں کو فوجی گاڑیوں میں لے کر موقع پر پہنچ گیا ۔ موٹروے پولیس کے مطابق نہ صرف اُن پولیس والوںکی موقع پر پٹائی کی گئی بلکہ انہیں فوجی گاڑیوں میں بٹھا کر اٹک قلعہ لے جایا گیا جہاں انہیں چار پانچ گھنٹہ محبوس رکھا۔ متعلقہ میجر اور دو کپتانوںکا واقعہ کے متعلق کوئی بیان موجود نہیں لیکن مجھے ملنے والی ایک آڈیو میں مبینہ طور پر ایک کپتان واقعہ کی تصدیق کرتا ہے۔ اُس کے مطابق موٹر وے پولیس کی طرف سے بدتمیزی کرنے پر یہ سب کچھ کیا گیا۔سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، اس کا پتہ تو پولیس اور فوج کی انکوائری سے ہی پتا چلے گا لیکن اگر موٹر وے پولیس (جس کا عمومی طور پر تاثر بہت اچھا ہے) نے بدتمیزی بھی کی تو فوجی کپتانوں کو اور اُن کے سینئر میجر کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ اگر موٹر وے پولیس نے کچھ غلط کیا یا زیادتی کی تو اُن کے خلاف قانونی تقاضوں کے مطابق متعلقہ حکام سے شکایت کی جانی چاہیے تھی لیکن انہیں زدو کوب کرنا، اٹھا کر اٹک قلعے لے جانا اور کمرہ میں بند کرنا ایسا عمل ہے جو نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ فوج کے ڈسپلن کی بھی خلاف ورزی ہے۔
جو لوگ فوج کو جانتے ہیں اُن کے خیال کے مطابق سول میں اس طرح کی غیر قانونی کارروائی کرنے والے افسران کا عموماً کیرئیر ختم ہو جاتا ہے۔ اکثر ان ڈسپلنری کیسوں کے نتائج کا اعلان نہیں کیا جاتا لیکن کئی افسروں کو ماضی میں اُن کے اس طرح کے رویوں پر فوج سے نکالا گیا اور بہت سوں کے کیریئرز تباہ ہو گئے۔ میری ذاتی رائے میں سول میں indiscipline کرنے والوں کی سزا کا باقاعدہ میڈیا کے ذریعے اعلان کیا جانا چاہیے تا کہ انہیں دوسروں کے لیے مثال بنایا جائے اور عوام کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ ایسے عناصر کی فوج میں کوئی جگہ نہیں۔ فوج میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو سول میں قانون کو ہاتھ لینے والے فوجی افسران کے لیے نرم رویہ رکھتا ہے اور انہیں معاف کرنے کی بات کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اور کچھ whatsapp گروپس میں بھی ایسی باتیں کی جارہی ہیںجو اُسی طرح قابل مذمت ہیں جس طرح عوام میں ایک طبقہ (خصوصاً جو فوج کے ادارے سے ہی بغض رکھتا ہے) چند فوجی افسران کے ذاتی اقدام کو فوج کے ادارے کے ساتھ جوڑ کر اس ادارے کے خلاف ہی اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا ہے۔ بغض کی بات میں نے اس لیے کی کہ فوج کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف کی بنیاد پر ہمارے ہاں ایک طبقہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے اور ہمیشہ اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ فوج کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
تنقید برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے تنقید کے مواقع ڈھونڈے جاتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ صحافیوں نے تو اس واقعہ کا سہارا لیتے ہوئے فوج اور سول حکومت کو لڑانے کی بھی کوشش کی اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ اس واقعہ کے حوالے سے فوج کو نشانہ بنانے والے در اصل حکومتی سوشل میڈیا ٹیم ہے جسے وزیر اعظم ہائوس سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ کچھ افراد جنہوں نے اپنا تعلق فوج سے ظاہر کیا اُن کا کہنا تھا کہ جو کچھ فوج کے ایک میجر اور دو کپتانوں نے کیا وہ فوج کی عزت اور ادارہ کے وقار کے لیے لازم تھا۔ کچھ کا گلہ یہ تھا کہ عوام اس معاملہ میں فوج کو کیوں سپورٹ نہیں کر رہی۔افسوس کہ کچھ طبقات اس معاملہ کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں جبکہ یہ قانون کی خلاف ورزی کا ایک واقعہ ہے جسے اسی انداز میں لینا چاہیے۔ اگر آج فوج کے کچھ افراد نے اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کیا تو ایسا ہی عمل پولیس اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والےکئی افراد نے بھی ماضی میں کیا۔ کتنے سیاستدانوں کو دوسروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے ہوئے میڈیا نے دکھایا۔ ہمارے کئی صحافی بھائی بھی ٹریفک پولیس کو روکنے پر انہیں بے عزت کر دیتے ہیں۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جرم کرنے والوں یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو نہ تو اداروں کے ساتھ جوڑا جائے اور نہ ہی اداروں سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں کو ایسے افراد کو کسی بھی قسم کا تحفظ دینا چاہیے۔ فوج سے متعلق ایسے واقعات کی بنیاد پر یا چند جرنیلوں کی آئین سے غداری کی وجہ سے کیا ہم اُن ہزاروں فوجیوں کی قربانی کو بھلا سکتے ہیں جنہوں نے اس ملک کے دفاع اور دہشتگردی سے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت ماضی کو سامنے رکھ کر ایسی پالیسی بنائے کہ نہ تو کچھ جرنیل مل کر نظام کو تحس نہس کر سکیں اور نہ ہی کوئی عام فوجی افسر فوج کی طاقت کو اپنے ذاتی مقاصد یا دشمنی کے لیے عوام ہی کے خلاف استعمال کر سکے۔ بات یہ یقینی بنانے کی ہے کہ کوئی ایسی صوتحال پیدا نہ ہو کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا ہو اور بڑھے۔ کسی کے حوالے سے ایک پیغام سوشل میڈیا میں پڑھنے کو ملا جس کے مطابق اگر کسی قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو تو اس کے عوام اور فوج میں نفرت کے بیج بو دو، وہ قوم خود بخود تباہ و برباد ہو جائے گی۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کسی ایسے بیج کو یہاں پھلنے پھولنے نہ دیا جائے۔