ہوم << سنو اے حرم کے مسافرو! حیا حریم

سنو اے حرم کے مسافرو! حیا حریم

قافلوں کے قافلے حرم میں موجود ہیں، نظروں میں صحن ِحرم اور ہجومِ عاشقاں ہے، لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہوا ایک مجمع جو دیوانہ وار بیت العتیق کے گرد چکر لگا رہا ہے، حجرِاسود کو بوسے دیتے ہوئے، غلافِ کعبہ تھامے، روتے گڑگڑاتے، آہوں، سسکیوں میں مچلتے خوش نصیب انسان، کوئی مانگ رہا ہے، کوئی تڑپ رہا ہے، کوئی خاموش نظروں ہی میں حالِ دل سنا رہا ہے۔
حج اختتام کو پہنچا ہے، لوگ طواف وداع کر رہے ہیں، دل کی عجب سی کیفیت ہے، کبھی ملتزم پر دستک دیتی آہیں سنائیں دیتی ہیں، کبھی مطاف میں کشاں کشاں کھنچا ہجوم تخیل میں آتا ہے، زمزم سے سیرابی کے لیے تشنہ لبوں کی طویل قطاریں، اور منی و مزدلفہ میں وارفتگی کا اک عالم، دل ِ بےچین کو مزید مضطرب کر دیتا ہے،
عتیق و جانِ جاناں ہے منور نورِ تاباں ہے
تجلی گاہ رب کی ہے عجب اس کا نظارا ہے
وہ دیکھو گھومتے پھرتے ہیں عشاق مثل ِ پروانہ
خدا کے عشق نے ان کو سب عالم سے نکھارا ہے
ہجومِ عاشقاں اور وارفتگی شوق کے مناظرکوئی آج سے نہیں، یہ دریا تو صدیوں سے بہہ رہا ہے، جب ذرائع نقل و حمل اور اس قدر وسائل نہ تھے، جب بھی عاشق لمبی مسافتیں طے کر کے کٹھن مراحل عبور کر کے پیادہ وسوار، ہفتوں اور مہینوں کا سفر کرکے شوقِ محبت کو جلا بخشتے تھے، بادبانی کشتیوں اور بحری جہازوں کے ہچکولے کھاتے ہوئے، اہل ِایماں افتاں و خیزاں پہنچ ہی جایا کرتے تھے، کئی تو اس راہ میں قبول ہوجایا کرتے تو وصالِ یار کی تکمیل ہوجاتی، آج بھی وہ عشق و وارفتگی برقرار ہے اور تاقیامت رہے گی۔
حرمین کے مسافروں کا شوق اور والہانہ وعارفانہ محبت وہ انداز و ادا ہے جو دل کے نہاں خانوں کو سرور سے بھر دیتا ہے، مجھے رہ رہ کر مولانا گیلانی رحمہ اللہ کا وہ سفرنامہ یاد آ رہا ہے جو انہوں نے حرمین سے واپسی پر قلم بند فرمایا تھا، اس کی سطر سطر دل میں عشق کی چنگاری بڑھا دیتی ہے اور آنکھوں سے سیلِ عرفاں رواں کردیتی ہے۔
مولانا گیلانی اس میں ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ــ’’ بقیع میں ایک سرخ وسپید مراکشی شخص نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے ہو ؟ تو فرمایا ــ’’ ہند ‘‘ سے، وہ شخص فورا بولا: ہندوستان میں تو انگریزوں کی حکومت ہے۔ مولانا نے برجستہ کہا : مراکش پر بھی تو قونس قابض ہے۔ یہ سنتے ہی مراکشی نوجوان مولانا سے لپٹ گیا اور قبہ خضراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیخ چیخ کر کہنے لگا : یارسول اللہ !! ان امتک فی اسر، فی اسر النصاری ( یارسول اللہ ! آپ کی امت تو قید و بند میں ہے، نصاری کے قید و بند میں) دونوں روتے رہے اور دیر تک روتے رہے۔
سوچتی ہوں کہ آج وہ مراکشی نوجوان ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو بتاتا : یارسول اللہ! آپ کی امت کا ہر گوشہ قید و بند میں ہے، ہر پہلو سسک رہا ہے، شام کے بچے نوچے ہوئے پھولوں کی پتیوں کی مانند بکھرے ہیں، فلسطین میں خون آشام درندے ہیں، کشمیر لہو رنگ ہے، رسول اللہ کی پیاری امت شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک یہود و ہنود کے نرغے میں ہے۔ ہر روز اک نئی داستانِ ظلم رقم ہوتی ہے ۔ وہ انہیں بتاتا کہ
حضور ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ وگل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی ہو جس میں بو وہ کلی نہیں ملتی
سنو اے حرمین کے مسافرو! اے منزل ِ شوق کے راہیو! اب یہ کام تم ہی کردینا، رسول اللہ کو بتانا جا کر کہ آپ کی امت بکھری پڑی ہے، ہاں انہیں بتانا کہ امت جل رہی ہے، تڑپ رہی ہے، شاید کہ وہاں سے کوئی جھونکا بادِ صبا کا ایسا آجائے کہ دہکتے الائو کی چنگاریاں مدھم ہوں اور یہ آگ بجھ جائے۔

Comments

Click here to post a comment