فرض کیا آپ ایک بک سٹال پہ کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے ملک کے ایک مشہور و معروف مصنف کی دو مختلف مگر یکساں قیمت کی کتابیں پڑی ہیں، ایک کا عنوان ہے ’’کامیابی کیسے حاصل کریں؟‘‘ اور دوسری ہے’’ زندگی کیسے گزاریں؟‘‘ آپ کون سی کتاب لینا پسند کریں گے؟ یقینا آپ اول الذکر کتاب ہی خریدیں گے۔ آپ ہی کیا ہم میں سے کوئی بھی ہو، اس کی اول ترجیح یہی کتاب ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم سب زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں ۔ اور اس کامیابی کو پانے کے لیے جہاں سے بھی تیر بہدف نسخہ ملے گا، ہماری کوشش ہوگی کہ اسے حاصل کریں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کامیابی ہے کیا؟ ہماری نظر میں قیمتی لباس، اچھا کھانا پینا، قیمتی سواری، بہترین رہائش اور اونچا سٹیٹس ہی وہ چیزیں ہیں جنہیں عموما کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اورحلال و حرام کی بحث سے قطع نظر ان کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیا جاتا ہے۔ انسانی حیات میں ان چیزوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر ایک شے اور بھی ہے۔ اطمینانِ قلب! جی ہاں دل کاچین ایسی چیز ہے کہ زندگی کی کل آسائشیں آپ کو حاصل ہوجائیں مگر سکون نہ ہو تو یہ سب نعمتیں بےکار بلکہ سوہانِ روح بن جاتی ہیں۔ اور اس کے برعکس اگر آپ روحانی سکون اور طمانیتِ قلب کی دولت سے مالامال ہیں تو پھرآ پ کو زندگی کے ان عارضی معیارات کی زیادہ پرواہ بھی نہیں ہوتی۔
ہمارے اردگرد کئی لوگ ایسے بستے ہیں جن کے پاس مال و متاع کی کثرت ہے مگراس کثرت نے بجائے آسودگی بخشنے کے الٹا انہیں مضطرب کر رکھا ہے۔ کبھی مال کی حفاظت کی فکر کھائے جا رہی ہے تو کبھی دو اور دو چار، اور پھر چار کو سولہ بنانے کے چکر میں ان کی راتوں کی نیند تک اڑ چکی ہے اور سلیپنگ پلز کے بغیر جن کا گزارا ہی نہیں۔ اس کے برعکس کئی ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس اعلٰی لباس نہیں، اچھی خوراک نہیں، حتٰی کہ رہنے کے لیے ذاتی مکان نہیں، پھر بھی وہ سکون کی دولت سے مالامال ہیں۔ یقین کیجیے ایسے ٹینشن فری لوگ بھی میں نے دیکھے ہیں جو جب چاہیں، جہاں چا ہیں پہلو کے بل لیٹ کر خراٹے لیناشروع کر دیتے ہیں۔ وہ نیند جس کا کافی حد تک تعلق ذہنی سکون اور دلی قرار کے ساتھ ہے ،گویا ان کے گھر کی باندی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کے یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ درحقیقت کچھ بھی نہیں اور نہ ہی کامیابی مال و دولت کی کثرت میں ہے بلکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ میں اور آپ خالقِ کائنات کی عطا کردہ اس خوبصورت زندگی کو استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اپنے پروردگار سے ہمارا تعلق کیسا ہے؟ اور پروردگار کی پیداکردہ دیگر مخلوقات کے ساتھ ہمارا برتائو کس درجے میں ہے؟ گردوپیش کے ماحول کے لیے میرا اور آپ کا وجود خیر کا سبب ہے یا شر کا باعث؟
کا میابی یہ نہیں کہ ہم نے اس دنیا سے کیا کچھ لیا بلکہ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے دنیا والوں کو کیا کچھ دیا۔راحت کی شکل میں، محبت کے روپ میں، آسانیاں پیدا کرکے، میٹھے بول بول کر اور غموں کو بانٹ کر، کیونکہ سچی اور پائیدار خوشی کا حصول ایسے ہی ممکن ہے۔آپ کے علم میں ہوگا کہ اکثر امیر لوگ جب دولت کے اعتبار سے دنیا میں نمایاں ترین پوزیشن پر آجاتے ہیں تو اپنی دولت کابڑا حصہ چیریٹی کے کاموں کے لیے مختص کر دیتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ آخر وجہ کیا ہے؟؟
تبصرہ لکھیے