ہوم << شامی تنازعہ اور عالمی طاقتوں کی ضد - محمد عتیق الرحمٰن

شامی تنازعہ اور عالمی طاقتوں کی ضد - محمد عتیق الرحمٰن

عالم اسلام اس وقت شدید اضطراب کی کیفیت سے گزر رہاہے۔ اگر کشمیر میں پچھلے ایک ماہ سے زائد بھارتی کرفیو اور پیلٹ گن جیسے اسلحے کے بہیمانہ استعمال سے مسلمانان عالم دکھ میں مبتلا ہیں تو فلسطین میں اسرائیل آئے دن کوئی نیا حربہ آزما رہا ہے۔ عالم اسلام کا کون سا ایسا ملک ہے جس میں امن و سکون ہو، جس میں جان کا خطرہ نہ ہو اور جس میں بم دھماکے اور افراتفری نہ ہو؟ افغانستان، عراق، یمن اور شام میں خون آشام دیو اپنے خونی پنجے گاڑے خون مسلم پی رہا ہے۔ افغانستان کو 9/11 کی آڑ میں تباہ کرکے رکھ دیا. اس کا قصور افغانی طالبان کی اسلامی حکومت تھی، عراق پر نام نہاد الزامات کی آڑ میں جنگ مسلط کی، یمن میں حوثی قبائل بیرونی اشاروں پر بدامنی و انتشار پھیلانے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے سرحدی علاقوں میں مداخلت کی اور شام میں عالمی طاقتیں اپنی اپنی طاقت منوانے کی کوشش میں فریق مخالف اور نہتی شامی عوام پر مظالم ڈھا رہی ہیں۔ مغرب کی انسانیت ویسے تو سوئی رہتی ہے لیکن کبھی کبھی جاگ اٹھتی ہے اور کچھ نہ کچھ نیند میں بڑبڑا کر پھر سے سو جاتی ہے۔ شامی ایلان کردی ہو، امران دقنیش ہو یا پھر حلب میں ملبے تلے دبا چیختا گیارہ سالہ احمد، یہ سب مسلمان بچے ہیں اور ان کو اس حال میں پہنچانے تک امریکہ و مغرب کا کلیدی کردار ہے۔ نیویارک ٹائمز نے امران دقنیش کے حوالے سے سرخی لگائی ”حلب میں مصائب کا نشان“ اور ٹیلی گراف کی طرف سے شامی فضائی حدود کو نوفلائی زون قرار دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ امران دقنیش کی تصویر کو لے کر جہاں مغربی ذرائع ابلاغ کی انسانیت جاگی تھی وہیں کچھ مغربی ویب سائٹس کی طرف سے اسے ڈرامہ قرار دیاگیا۔ پانچ سالہ جنگ میں پچاس ہزار سے زائد بچے مارے جا چکے ہیں جبکہ صرف حلب میں اگست کے مہینے میں ایک سو چالیس سے زائد معصوم پھول مرجھا چکے ہیں۔
شام تاریخی اہمیت کا ملک بحیرہ روم کے مشرقی کنارے واقع ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ تاریخی شہر دمشق صلاح الدین ایوبی ؒ کی سرکردگی میں لڑی جانے والی صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کا مرکز رہا۔ حمص، طرطوس، سلامیہ اور حلب اس کے مشہور شہر ہیں جبکہ یہاں کی زرعی پیداوار، تیل،گیس، نمک، لوہا اور کرومائٹ جیسی دیگر معدنیات قابل ذکر ہیں۔ اندازاََ دو کروڑ آبادی والے ملک شام میں 90% سے زائد مسلمان ہیں، جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ شیعہ و علوی بھی کافی تعداد میں ہیں۔ عرب سپرنگ کے اثرات کے تحت شامی عوام نے بشارالاسد کے خلاف 15مارچ 2011ء سے درعا میں مقامی سکول کی دیواروں پر انقلابی نعرے لکھ کر احتجاج شروع کیا۔ علوی مسلک سے تعلق رکھنے والا آمر بشار الاسد اور اس کے حمایتی اس بات کو ہضم نہ کرسکے اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا جس پر درعا کی عوام نے اسدی حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا، جسے سختی سے کچلنے کی کوشش کی گئی، کئی مظاہرین زخمی اور کئی مظاہرین مارے گئے۔
اسدی حکومت طاقت کے زور پر ماضی کی طرح مظاہرین پر کنٹرول کرنا چاہتی تھی لیکن 4 ماہ کے عرصے میں ہی پورا شام مظاہروں کی لپیٹ میں آگیا جس پر اسدی حکومت نے مزید طاقت کا استعمال کیا، ہزاروں افراد کو اسدی حکومت نے پابند سلاسل کیا اور ہزاروں افراد کو ناحق قتل کیا اور جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ان سب سے الگ ہیں۔ ردعمل میں مظاہرین نے بھی مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا، یہ وہ نقطہ تھا جس نے شام میں خانہ جنگی کی بنیاد رکھ دی جو ہنوز جاری ہے۔ اسدی افواج نے شامی عوام کے حقوق روندے اور ظلم وجبر کی نئی تاریخ رقم کی۔ حکومت مخالفین نے جلد ہی شام کے اہم شہروں اور علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اسدی افواج کی مدد کے لیے شیعہ ملیشیا حزب اللہ سمیت دیگر شیعہ گروپس سامنے آئے، 2013ء میں داعش کے داخلے سے شامی تنازعہ مزید گہرا اور پیچیدہ ہوتا گیا۔ داعش جس کا وجود مبینہ طور پر امریکہ اور یورپی ممالک کی مرہون منت ہے، نے شام میں اسدی افواج کو چھوڑ کر سنی مزاحمتی گروپس کی تکفیرکی اور انہیں اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ شام میں بلامبالغہ داعش کا سب سے زیادہ فائدہ بشارالاسد کو ہوا۔ مرد و بوڑھوں کا قتل عام کیا، نوجوان عورتوں کے اغوا وقتل کے ساتھ ان کے زبردستی نکاح پڑھائے گئے اور اس طرح اسلام کا لبادہ اوڑھنے والوں نے ہر وہ کام کیا جو شریعت اسلامیہ میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں جلایا گیا، لوگوں کے ساتھ بم باندھ کر دھماکے کیے گئے اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اسدی و داعشی افواج کی طرف سے کیا گیا۔ داعش نے جولائی 2014ء تک شام کے ایک تہائی حصے پر قبضہ کیا اور تیل کی اکثر تنصیبات اس کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ 21اگست 2013ء کو مشرقی غوطہ میں شہریوں پر میزائل فائر کئے گئے جس سے سارین گیس کا اخراج ہوا۔ چھتیس سو سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 1500سے زائد شہید ہوئے جن میں 426 کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ ان بچوں کی اکثریت فضا میں گھٹن کی وجہ سے سانس نہ لے سکی اور نتیجتاََ وہاں پہنچ گئی جہاں جنگ وجدل کا نام و نشان نہیں ۔
اقوام متحدہ کی 2013ء میں منظور کی گئی قرار داد کے بعد سے شام میں 139کیمیائی حملے کیے جاچکے ہیں۔ شام میں روس اور ایران بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایرانی افواج زمینی طور پر اسدی فوج کے ساتھ لڑ رہی ہیں جبکہ روسی فضائیہ نیپام اور فاسفورس بموں سے حملے کرنے میں پیش پیش ہے۔ حلب میں شیعہ ملیشیا اور اسدی افواج کی ناکامی کے بعد روس زمینی طور پر بھی جنگ میں شریک ہوچکا ہے۔ اپوزیشن مزاحمتی گروپس کو سعودی عرب، قطر، ترکی، امریکہ و دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ کچھ گروپس کو القاعدہ کی حمایت حاصل ہے تو کچھ گروپس داعش کے ساتھ دوسرے تمام مزاحمتی گروپس کو کافر و مرتد قرار دے کر ان سے برسرپیکار ہیں۔
شام میں اسلام کے نام پر اور حکمرانی کے شوق میں جو قتل ناحق کی طویل داستان رقم کی جارہی ہے اس کے لیے دفتروں کے دفتر درکار ہیں۔ اس قتل عام میں جہاں بشارالاسد، شیعہ ملیشیا، روسی فوج اور داعش جیسی تنظیمیں شریک ہیں، وہیں وہاں پر میڈیا کو آزادی نہیں ہے، جنگ زدہ علاقوں میں جاکر خبریں نکالنا موت کے منہ میں جانے کے مترداف ہے۔2011ء سے اب تک 100 کے قریب صحافی اس جنگ میں موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک ہلاک ہونے والے افراد کاتخمینہ 2,50,000 لگایا ہے جبکہ دیگر ذرائع یہ تعداد 4 لاکھ 70ہزار سے متجاوز بتاتے ہیں۔ 50ہزار کے قریب بچوں کی تعداد ہے۔ 13.5 ملین شامیوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی فوری ضرورت ہے.
50 فیصد سے زائد شامی آبادی بےگھر ہوچکی ہے۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق 4.5 ملین سے زیادہ شامی پناہ گزین ترکی، لبنان، عراق اور مصر میں ہیں۔ سب سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کی تعداد اس وقت ترکی میں ہے جن کی تعداد 2.5 ملین ہے، لبنان 1.1ملین شامیوں کو پناہ دیے ہوئے ہے، اردن میں اس وقت 635,324 شامی ہیں، عراق میں جہاں پہلے ہی امریکہ کی بہادری کی وجہ سے 3.9 ملین سے زائد افراد بےگھر ہیں وہاں 245,022 شامی پناہ گزین ہیں اور مصر میں 117,658 شامی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
داریا مشرقی غوطہ کا سب سے بڑا شہر جس کی آبادی 2 لاکھ 55ہزار تھی جسے2012ء کے شروع میں فری سیرین آرمی کی ذیلی تنظیم نے اسدی افواج سے چھینا تھا۔گذشتہ 3سال سے زائد عرصے میں اسدی افواج اور اس کے حمایتیوں نے کئی بار آتش گیر نیپام بم گرائے اور سب سے زیادہ بیرل بم برداشت کرنے والا شہر بھی داریا ہی ہے۔ ہزاروں شہریوں کی شہادت کے بعد ایک ہفتے سے جاری کامیاب مذاکرات کے بعد داریا کے مزاحمت کار قریبی شہر ادلب منتقل ہوگئے اور شہری اسدی حکومت کے زیر انتظام پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کردیے گئے۔ یوں تقریباََ 4 سال تک اسدی افواج کے سامنے سینہ سپر اور بےشمار قربانیاں دے کر بھی سرنڈر نہ کرنے والا داریا اسدی گماشتوں نے کیمیائی وبیرل حملوں کے ذریعے ہڑپ کرلیا۔ سقوط داریا کے بعد ہی حمص شہر کے محصور علاقے ’وعر‘ پر بھی نیپام بم گرائے گئے جو شامی مزاحمت کاروں کے زیر قبضہ ہے ۔حلب میں فری سیرین آرمی کے زیرانتظام علاقے میں ایک تعزیتی خیمے پر 27اگست کو فضائی حملہ کیا گیا ،پہلے بیرل حملے کے بعد لوگ مدد کے لیے جمع ہوئے اور ایمبولینس پہنچی تو ایک اور فضائی حملہ کیا گیا جس میں ایمبولینس مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور 23 کے قریب افراد شہید ہوگئے۔ ان دوحملوں میں درجنوں زخمی ہوئے جن میں شدید زخمی بھی تھے جس سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ترکی سرحد پر داعش اور کردجنگجوئوں کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے ترکی میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ترکی نے ’’فرات کی ڈھال ‘‘ نامی آپریشن شروع کیا ہے جس کا مقصد بتاتے ہوئے ترک وزیر خارجہ چاوش اولو کا کہنا تھا کہ وائی پی جی کے جنگجو جتنی جلدی ہوسکے دریائے فرات کی مشرق کی جانب چلے جائیں، جب تک یہ لوگ ایسا نہیں کرتے یہ ہماراہدف ہوں گے۔ وائی پی جی نے ترکی کے قریبی شامی علاقے پر قبضہ کے بعد وہاں نسل کشی کی ہے۔ فرات کے مغرب میں واقع منبج شہر کے اطراف میں جنگ سے پہلے کی صورت حال رہنی چاہیے۔ اس علاقے کو کرد جنگجوئوں نے داعش سے چھڑوایا تھا اور یہاں اکثریت عربوں کی ہے۔ کرد ملیشیا کے ساتھ ساتھ ترکی فوج داعش کے خلاف بھی ’’فرات کی ڈھال ‘‘ آپریشن شروع کرچکی تھی جس کا مقصد ترکی کی سرحدی سلامتی کے ساتھ ساتھ شام کی علاقائی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ فرات کی ڈھال نامی آپریشن کے چھٹے روز تک 30 گائوں ترکی اور شامی مزاحمتی گروپس نے جرابلس کے نواح میں آزاد کروا لیے تھے۔ مغربی میڈیا اپنی روایت کے مطابق ترکی کے خلاف کوئی بھی خبر اچھالنے اور ترکی کو بدنام کرنے کی مکمل کوشش کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ شامی کردوں کی امریکہ کی حمایت کرنے کا مقصد شام کو تقسیم کرنا یا پھر ایران، عراق اور ترکی وشام میں پھیلے کردوں کو ایک مرکز تلے اکٹھا کرنا ہے لیکن عراقی کرد اس معاملے میں پرجوش نظر نہیں آتے۔ عراقی کرد لیڈر رواں ہفتے انقرہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ 15 اگست کو ترکی اور امریکا کے مابین ہوئی ڈیل کے مطابق شامی کرد جنگجو دریائے فرات سے پیچھے ہٹ جائیں گے لیکن امریکہ نے اس اعلان کو بالکل نظرانداز کر دیا تھا۔ اسدی افواج نے دوسرے مخالفین کی طرح شامی کردوں کے خلاف اقدامات نہیں کیے تھے اگر کچھ گڑبڑ ہوئی بھی ہے تو اس کے فوراََبعد اسدی حمایتیوں اور کردوں کے مابین امریکہ کی وجہ سے جنگ بندی کا نفاذ ہوجاتا ہے۔ امریکہ نے بشارالاسد کو خبردار کیا ہے کہ وہ الحسکہ یا کردوں پر حملہ کرنے سے باز رہے یعنی ایک طرح سے کرد علاقے نوفلائی زون ہیں۔ حالانکہ یہی امریکہ دیگر علاقوں میں نوفلائی زون اقدامات کو مسترد کر چکا ہے جس کی وجہ سے نہتی شامی عوام اور مزاحمتی گروپس شدید مشکلات کا سامنا کرچکے ہیں۔
شام عالمی طاقتوں کی تجربہ گاہ بن چکا ہے، روس، ایران اور شیعہ ملیشیا اپنے مفادات کی خاطر بشارالاسد کا ساتھ دے رہے ہیں، امریکہ ایک طرف فری سیرین آرمی اور اپوزیشن مزاحمتی گروپس کی حمایت کر رہا ہے تو وہیں کرد ملیشیائوں کی حمایت کرکے ترکی کے لیے مشکلات بڑھا رہاہے۔ عالمی طاقتیں اپنی ضد، انا، ہٹ دھرمی اور طاقت کے خمار میں مست شام کے مسئلے کو مزیدالجھا رہی ہیں تاکہ مسلمان ممالک کے وسائل و افرادی قوت کواپنے قابو میں رکھا جاسکے اور مسلمانوں کو اسلحہ و جدید ٹیکنالوجی مزید ڈرا کر بیچی جاسکے۔ ایسے میں عالم اسلام کے اتحاد کی مزید ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ کسی اور کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کیے جا سکیں۔