ہوم << لکھاری اور قاری کا مکالمہ - عظمیٰ طور

لکھاری اور قاری کا مکالمہ - عظمیٰ طور

لکھاری: میرے پاس قلم کی طاقت ہے.
قاری : ہا ہا
لکھاری : تمھاری ہنسی کا مطلب؟
قاری : تمھارا لکھنے میرے پڑھنے سے جڑا ہے.
لکھاری : یہ بات آج کی نہیں.
قاری : تو غرور کیسا؟
لکھاری : یہ میرا یقین ہے جب تک میں لکھوں گا مجھے پڑھا جائے گا.
قاری : پڑھنے سے رغبت جاتی رہے تو؟
لکھاری : لیکن؟
قاری : کیا لکھنے سے تشفی ہو جاتی ہے؟ کیا میں تمھیں جانتا ہوں؟
لکھاری : اگر تم مجھے پڑھتے ہو تو لازماً جانتے بھی ہو گے.
قاری : مجھے یاد ہے تم نے کیا کہا، کب اور کیسے کہا اور کس نے کہا مجھے یاد نہیں.
لکھاری : کیوں؟
قاری : مجھے دلچسپی نہیں، میں مصروف رہنے لگا ہوں .
لکھاری : لکین تمھیں یاد رکھنا ہو گا.
قاری : کیا تمھیں واہ واہ چاہیے؟
لکھاری : واہ ؟
قاری : ہاں ! تم اسی لیے لکھتے ہو ناں.
لکھاری : لیکن ؟
قاری : تم کیا چاہتے ہو میں تمھیں پڑھوں اور بتاؤں کہ تم کیا اور کیسے لکھ رہے ہو؟؟
لکھاری : ہوتا تو ایسا ہی آیا ہے.
قاری : وہ پرانے وقتوں کی بات ہے، جب لکھنے والا پڑھنے والے کی لیے لکھتا تھا، اب تم اپنی تشفی اسی میں محسوس کرتے ہو کہ تمھیں پڑھا جائے، تمھارے لکھے پر بات کی جائے، واہ واہ ہو.
لکھاری : پرانے وقتوں میں بھی اسی لیے لکھا جاتا تھا.
قاری : لیکن اب میں ویسا نہیں رہا، مجھے جلدی ہے آگے نکلنا ہے.
لکھاری : لیکن بات کرنے سے ہی بات بنے گی، جاننا اچھا ہوتا ہے.
قاری : مجھے چاہ نہیں.
لکھاری : تو کیا میں لکھنا بند کر دوں؟ کیا میں اب یہ سمجھوں کہ تمھیں چاہ نہیں تو میرا لکھنا بیکار ہے، میں یہ سمجھوں کہ اب تم میری پہچان میرے لفظوں سے نہیں کرنا چاہتے، کیا تم اب بات نہیں کرو گے؟ کیا اب تم صرف واہ واہ پہ اکتفا کرو گے؟ کیا میں یونہی لفظوں کی تھیلیوں کا بوجھ ڈھوتا رہوں گا؟ کیا تم بوجھ اٹھانے میں میری مدد نہیں کرو گے؟ کیا اب تم مجھے نہیں بتاؤ گے کہ میں کون ہوں؟ کیا مجھے خود تمھارے پاس آنا ہوگا؟ کیا اب میری چاہ ختم ہونے والی ہے؟